بانجھ — علی حسن سونو

مختار شیرازی دراز قد وجیہہ انسان اور سندھ کے ایک وڈیرے خاندان کا وارث تھا۔اس کے جاہ و جلال کی وجہ سے پورا گاوؑں اس کے دائرہ اختیار میں تھا۔ اپنے خاندان کا سب سے بڑا بیٹا ہونے کی حیثیت سے لوگوں اور خاص طور پر خاندان والوں کو اس سے بہت سی توقعات تھیں۔
شیرازی خاندان اپنی سرداری کے تسلسل کے حوالے سے بہت حساس تھا ۔ بنیادی طور پر ایک نرم طبیعت انسان ہونے کے باوجود قبیلے کے رسم و رواج اور جاگیردارانہ پرورش نے اس کی شخصیت کے گرد اناپرستی اور تندخوئی کا ایک خول چڑھا رکھا تھا۔
دوسرے قبیلوں کے سردار بھی اپنی بیٹیوں کی نسبت مختار شیرازی سے جوڑنا چاہتے تھے مگر مختار کی چچا زاد ماروی شیرازی سے اس کا رشتہ طے پایا۔ ماروی اور مختار ایک دوسرے کے ساتھ یوں ہم آہنگ تھے جیسے صبح کا آنا اور رات کا جانا ۔تھوڑے ہی وقت میں لوگوں نے مشاہدہ کیا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش ہیں اور مختار شیرازی ماروی کو اپنی زندگی کا حسین اضافہ سمجھتا ہے۔
٭…٭…٭
شادی کے دو سال بعد جب قبیلے میں چہ میگوئیاں شروع ہوئیں کہ کیا مختار شیرازی اپنی نسل کو آگے نہیں بڑھانا چاہتا؟ دو سال گزر گئے مگر شیرازی خاندان کی اگلی نسل کے بارے میں کوئی خیر خبر نہیں آئی۔ مختار ان باتوںپر چپ سادھے سب کی سنتا رہا کہ اچانک ایک دن قبیلے میں اعلان ہوا کہ مبارک ہو! شیرازی خاندان کا اگلا وارث آگیا ہے۔ سائیں مختار کو اللہ نے چاند سا بیٹا عطا کیا ہے۔ قبیلے میں یک لخت خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مبارک باد دینے والوں کی ایک قطار ہر روز مختار شیرازی کی حویلی کے باہر لگی رہتی۔ بہت سے لوگ تو ان میں ایسے بھی تھے جو شیرازی قبیلے کی سترہویں پشت کی پیدائش ہی سے اٹھارہویں پشت کی باتیں کرنے لگے۔ مختار شیرازی بہت خوش تھا اور وہ خوشی کی اس ناقابلِ بیان کیفیت میں انتہائی پرخلوص نظروں سے ماروی کی طرف دیکھتا جیسے اس کا شکریہ ادا کر رہا ہو کہ اس نے اسے اس خوب صورت رشتے سے متعارف کروایا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

مختار شیرازی نے اپنے پہلے بیٹے اور شیرازی خاندان کے اگلے وارث کا نام اعزاز رکھا۔ اعزاز بچپن ہی سے اپنے حُسن کا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ کب اپنے باپ سے سیانی باتیں کرنے لگا پتا ہی نہ چلا۔ مختار اور ماروی اپنی شفیق نگاہوں میں اعزاز کے لیے ہر روز ایک نیا خواب سجاتے اور اگلے دن اس سے بہتر خواب کے مقابلے میں پچھلے خواب کو رد کر دیتے۔
میٹرک کا امتحان اعزاز نے امتیازی نمبروں میں پاس کیا تو انٹرمیڈیٹ میں اس نے پورے صوبے میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ شیرازی خاندان میں لکھنے پڑھنے کا زیادہ رجحان نہیں تھا مگر مختار چوں کہ خود اتنا نہپڑھ سکا تو اس کی خواہش تھی کہ اپنی اولاد کو خوب پڑھائے۔ جب اعزاز کا یونیورسٹی میں داخلے کا وقت آیا تو اس نے اپنے باپ سے کہا:
”ابا! بات یہ ہے کہ میں اپنے گاؤں کا اور خاص طور پر اپنے خاندان کا واحد لڑکا ہوں جو یونیورسٹی میں جا کرڈاکٹری پڑھے گا۔ مجھے دعا دیجیے کہ میں آپ کا اور اپنے خاندان کا نام روشن کر سکوں۔” اس کی حصولِ علم کی تڑپ اور اپنے خاندان سے وابستگی دیکھ کر مختار شیرازی اپنے آنسوؤں کو نہ روک سکا اور اعزاز کا ماتھا چوم کر کہا:
”بیٹا! تو میری واحد اولاد ہے ۔ خدا ایسی اولاد ہر ایک کو دے۔ میں کون ہوتا ہوں تیری منزل میں حائل ہونے والا۔ جا میرا بیٹا! اپنے خواب پورے کر۔ تیرا باپ ہر وقت تیرے ساتھ کھڑا ہے۔” اعزاز جو کہ نازوں کی آغوش میں پلا تھا، خاندانی رکھ رکھاؤ سے بہ خوبی واقف تھا اور ماں باپ کا فرماں بردار بھی، اپنے باپ کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بولا: ” ابا! آپ میرا فخر ہیں اور میں اس فخر میں کبھیکمینہیں آنے دوں گا۔ مختار شیرازی نے بے اختیار اپنے بیٹے کا ماتھا چوم لیا۔ آنسو کب اس کی آنکھوں سے رواں ہوئے، اسے پتا نہ چلا۔
٭…٭…٭
شہر کی سب سے بڑی میڈیکل میں یونی ورسٹی جب اس کا داخلہ ہوا تو اپنے دراز قد، چہرے پر خاندانی کشش اور اپنے میٹھے لب و لہجے سے اعزاز اپنی کلاس میں پہلے دن ہی کئی لڑکیوں کے لیے مرکزِ نگاہ بن گیا۔ اسی دن سے یونیورسٹی کیمپس میں نئی نئی شناسائیوں کے گروہ بیٹھ کر اعزاز کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔ اعزاز مگر کہیں اور گم تھا۔ آیا تو وہ ڈاکٹر بننے تھا مگر پہلے ہی دن اس کی تمام تر ترجیہات کہیں اور تھیں۔ درمیانے قد کی ایک حیاداردوشیزہ جو اپنے ہم جماعتوں سے بھی بہت لجاجت اور مدھم لہجے میں بات کر رہی تھی۔جھکی ہوئی نظریں، اُجلا رنگ اور جامہ زیب شخصیت اعزاز کو کہیں اڑا کر لے گئی تھی۔بروقت اس چہرے کا دیدار کرنا گویا اعزاز شیرازی کا فرض بن چکا تھا۔
٭…٭…٭
اعزاز جیسے لڑکے کے دل میں کوئی بات آتی اور وہ اس کے بارے میں دریافت نہ کرتا، یہ کہاں ممکن تھا۔ کافی جدوجہد کے بعد اسے پتا چلا کہ موصوفہ انہی کی ہم جماعت ہیں اور پنجاب کے کسی معتبر گھرانے کی اکلوتی بیٹی ہیں۔ اعزاز کے دل میں اور کشش پیدا ہوئی کہ وہ بھی اکلوتی ہے اور اعزاز بھی۔
وہ روز بہانے بنا کر اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا مگر شرم و حیا کا وہ پیکر اسے نظرانداز کیے آگے بڑھ جاتا۔ اب وہ چھچھورا تو تھا نہیں کہ مسلسل نظرانداز ہونے پر اس کا تعاقب کرتا رہتا، مگر بات تو دل میں اتر چکی تھی ۔
٭…٭…٭
ایک دن کلاس میں مڈ ٹرم کی پریذنٹیشن تھی۔ ہر طالب علم اپنے اپنے منتخب کردہ موضوعات پر پریذنٹیشن بنا کر لایا۔ استاد کی طرف سے طے یہ پایا کہ جو ٹاپ کرے گا اس کی پریذنٹیشن سے متعلق سوالات امتحان میں بھی آئیں گے۔
پریذنٹیشن کا آغاز ہوا۔کئی طلبا تو بے تُکی اور بے ربط تیاری کی وجہ سے تمسخر کا نشانہ بنے مگر جب باری آئی اعزاز کی تو اس نے آتے ہی روسٹرم پر ہاتھ رکھا اور یوں شروع ہوا کہ جیسے کبھی نہیں رکے گا ہم جماعت تو ایک طرف اس کی کلاس ٹیچر بھی اس سے مرعوب ہوئے بنا نہ رہی ۔کلاس میں پیچھے کی جانب بیٹھی اعزاز کی مرکزِ نگاہ آنکھیں پھاڑے ورطۂ حیرت میں گم تھی۔ جیسے ہی اس کی پریذنٹیشن ختم ہوئی تو گویا تالیوں اور داد کا ایک سیلاب اُمڈ آیا۔ کلاس ٹیچر نے وہیں آکر اعزاز کو تھپکی دی اور ستائشی لہجے میں کہا:
” It’s the best presentation so far’سب اسٹوڈنٹس اعزاز کی پریذنٹیشن کی کاپی لیں اور اس پر ریسرچ کریں، اس میں سے امتحان میں سوالات آئیں گے۔”
وہ تو جیسے ہیرو بن گیا۔ کلاس ختم ہوتے ہی اعزاز طلبا کے ہجوم میں گھر گیا۔ کوئی اسے سراہ رہا تھا اور کوئی پوچھ رہا تھا کہ کیسے کر لیتے ہو یار؟ کمال! اعزاز گروہ میں گھرا ہوا تھا مگر وہ نہیں تھی جس کو ہونا چاہیے تھا۔ اعزاز نے دوسرے طلبا سے بات کرتے ہوئے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی کہ اس کا نظارہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ اچانک اس کی نظر پڑی کہ موصوفہ ایک دیوار سے ٹیک لگائے شاید گروہ سے آزاد ہونے کا انتظار کر رہی تھیں اور کیوں نہ کرتیں ؟ امتحان میں سوالات جو آنے ہیں۔
٭…٭…٭
ہم جماعتوں سے فراغت کے بعد اعزاز دبے پاؤں اس کے پاس گیا اور مدھم لہجے میں کہا: ”کہنے لگا کہ اگر آپ امتحان میں پاس ہونا چاہتی ہیں تو یہ نوٹس تو ضروری ہیں اور اگر آپ فیل ہونا چاہتی ہیں تو…”اس نے اتراتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی۔
غیر متوقع طو رپر موصوفہ کی دہن گلِ مثال سے کچھ لفظ نکلے۔ ہائے! کیا لہجہ تھا، کیا آواز اور کیا تاثیر۔ اعزاز نے نوٹس کی فائل بازوؤں میں سمیٹی اور ٹھنڈا سانس لیتے ہوئے سوچا۔
لفظ نکلنے کی دیر تھی کہ اعزاز تو جیسے سکتے میں چلا گیا وہ یہ پوچھ کر چپ ہو گئی کہ مجھے یہ نوٹس مل سکتے ہیں؟ اس کے لہجے میں وضع داری اور شخصیت میں ٹھوس پن نمایاں تھا۔ اعزاز دم بہ خود کھڑا اسے تکتا رہا۔ اعزاز کی اس حالت پر وہ ذرا گڑبڑا سی گئی اور ذرا درشت لہجے میں کہا۔
”یہ نوٹس نہیں مل سکتے کیا؟”
اعزاز جواب تک اسے یک ٹک دیکھے جارہا تھا، ہڑبڑا کر بولا:
”وہ وہ وہ … جیسے آپ چاہیں، تو ابھی لے جائیں مگر ایک مسئلہ ہے، ہم ایک ہی کلاس میں پڑھتے ہیں اور چار سال اکٹھے رہنا ہے وہ نام تو پتا ہونا چاہیے ایک دوسرے کا۔” وہ لڑکیوں کی طرح شرماتے ہوئے بول رہا تھا۔
”مجھے تو آپ جان ہی گئی ہوںگی۔ میں چاہتا ہوں کہ میں بھی آپ کو جان لوں۔”
”آمنہ۔ آمنہ نام ہے میرا… ” وہ قدرے درشت لہجے میں بولی۔
” آمنہ ؟کون آمنہ؟
” میرا نام آمنہ ہے۔ اب کی بار وہ نظریں چُراتے ہوئے بولی۔ اعزاز کے دل میں تو جیسے جشن کا سماں تھا، اسے یک دم ہر چیز رنگین نظر آنے لگی۔ وہ دہراتے ہوئے بولا:
”آمنہ؟”
”جی…” اس بار وہ قدرے ہچکچاتے ہوئے بولی۔
”تو آمنہ یہ نوٹس آپ کو نہیں مل سکتے۔”اعزاز کے انداز میں شوخی جھلک رہی تھی۔
”یہ کیا بات ہوئی۔ ایسا کیسے کرسکتے ہیں آپ؟”
”ہائے آپ…” اعزاز نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا:
” آپ کو آپ کہنے میں کوئی مسئلہ ہے تو…”
” ارے نہیں نہیں! اعزاز اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔
” آپ مجھے آپ ہی کہیے اچھا لگتا ہے۔ میں مذاق کر رہا تھا، یہ نوٹس آپ کے ہیں۔ یہ لیجیے۔” اعزاز نے نوٹس اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
” شکریہ…” آمنہ نے نوٹس پکڑے اور وہاں سے چل پڑی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

پہچان — ماہ وش طالب

Read Next

محرومی — کوثر ناز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!