بارِ گراں — افشاں علی

انفال کو پہلے جو تھوڑا بہت فارغ وقت ملتا بھی تھا، اب وہ بھی ٹیوشن کے بچوں اور کلاسز کے اضافے کے بعد مختصر ہوکر رہ گیا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی آنکھیں اب اپنے پسندیدہ منظر کو بھی دیکھنے کو ترس گئیں۔ زندگی کی رفتار بھی کسی گھڑی کی سوئیوں کی رفتار کی مانند ہے جو تیز تیز حرکت کرتے ہوئے بس چلتی ہی جارہی تھی۔ بچوں کے فائنل ٹرم ہوچکے تھے۔ بس اب رزلٹ کا انتظار تھا۔ وہ سہ پہر میں یونی ورسٹی سے گھر لوٹی تو خلافِ توقع امی کا پارہ ہائی ملا۔ ”صبح تک تو سب ٹھیک تھا، یہ اچانک کیا ہوا؟” انفال سوچتے ہوئے سیدھی کچن میں آئی، جہاں سے برتنوں کے پٹخنے کی آوازیں، امی کے غصے کا پتا دے رہی تھیں۔
”ارے! تم کب آئیں؟ پتا ہی نہیں چلا؟” انفال کو اپنے برابر دیکھ کر وہ چونکیں۔
”جب آپ اپنا غصہ ان برتنوں پر نکال رہی تھیں۔” انفال نے ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
”چلیں اب باہر آئیں، میں دیکھ لوں گی باقی کا کام۔” وہ ان کا ہاتھ تھامے انہیں زبردستی کچن سے باہر لے آئی اور لاؤنج میں رکھے صوفے پر بٹھایا۔
”یہاں آرام سے بیٹھیں اور بتائیے کیا ہوا ہے؟” انفال نے رضیہ بیگم کے غصے کا سبب جاننا چاہا۔
”تمہیں بتانے کا کوئی فائدہ نہیں اور ویسے بھی تم جان کر کچھ بھی نہیں کر سکتیں، ہوگا تو آخر وہی جو وہ چاہے گی۔” رضیہ بیگم ہنوز غصے میں تھیں۔
”کون؟ آخر ہوا کیا ہے امی؟” انفال نے پھر سے پوچھا۔
”صائمہ آئی تھی۔” بالآخر بلی تھیلے سے باہر آئی۔
”اوہ اچھا!” انفال نے ہونٹ سکیڑے۔
”تو اس میں نئی بات کیا ہے امی؟” انفال کے لیے تو اب صائمہ باجی کی آمد روز کا معمول بن چکی تھی، بلکہ اب تو جاوید صاحب بھی صائمہ اور بسمہ کی کہانی سے اس حد تک واقف ہوچکے تھے کہ جس دن وہ دونوں ماں بیٹی صائمہ کا ذکر نہ کرتیں تو وہ بذات خود ہی دریافت کرلیتے۔
”خیریت تو ہے؟ آج صائمہ بیٹی کوئی نئی بات لے کر نہیں آئی کیا؟”
”بسمہ کا آج رزلٹ تھا۔” رضیہ بیگم نے سنجیدگی سے کہا۔
”اوہاں! آج تو بسمہ کا رزلٹ تھا، یقینا فرسٹ پوزیشن ہی آئی ہوگی۔ اتنی زبردست تیاری کروائی تھی اور اس کے پیپرز بھی شان دار ہوئے تھے۔” انفال نے چہکتے ہوئے کہا۔ جس طرح بچوں کے پیپرز کی ٹینشن ماؤں کے ساتھ ساتھ بعض ٹیچرز کو بھی ہوتی ہے، اسی طرح رزلٹ کا انتظار اور اس کا جوش، والدین اور بچوں کے علاوہ ٹیچرز کو بھی ہوتا ہے۔ اور اگر بچے بسمہ کی طرح تیز دماغ اور ذہین ہوں تو یہ جوش اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ انفال کے ٹیوشن کے سبھی بچوں کے رزلٹ بہت شان دار آئے تھے۔ کچھ بچے تو باقاعدہ پوزیشن لائے تھے اور اب انفال کو پورا یقین تھا کہ بسمہ بھی فرسٹ پوزیشن ہی لائے گی۔ اس سے پہلے کہ رضیہ بیگم، انفال کو کوئی جواب دیتیں، ڈور بیل بج اٹھی۔
”اس وقت کون آیا ہوگا؟” انفال نے لاؤنج میں لگی وال کلاک پر نظر ڈالی جو چار بجا رہی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”تمہارے سوال کا جواب دینے آئی ہوگی صائمہ۔” رضیہ بیگم کے لہجے میں بے زاری تھی۔ انفال خاموشی سے دروازے کی طرف بڑھی جہاں واقعی صائمہ باجی اور بسمہ مع رزلٹ کارڈ کھڑی تھیں۔
”آئیے آئیے! ابھی ہم آپ ہی کا ذکر کررہے تھے، آگیا بسمٰہ کا رزلٹ؟” انفال نے خوش دلی سے کہا اور صائمہ باجی کے اندر آتے ہی انفال نے ان کے ہاتھ سے رزلٹ کارڈ تھامتے ہوئے اشتیاق سے رزلٹ کارڈ پر نظر دوڑائی۔
”زبردست! صائمہ باجی بسمہ سیکنڈ آئی ہے۔ مبارک ہو۔” انفال کی آنکھوں میں چمک، ہونٹوں پر مسکراہٹ اور لہجے میں خوشی کی کھنک تھی۔ اس نے بسمٰہ کے گال پر پیار کیا۔
”ہاں! وہ تو ہے ماشا اللہ سے سیکنڈ آئی ہے مگر تیاری تو اتنی شان دار تھی، پیپرز بھی بہت اچھے کرکے آئی تھی، پھر بھی فرسٹ کے بہ جائے سیکنڈ آئی ہے۔” صائمہ باجی کے لہجے میں عجیب سی حسرت تھی جس نے انفال کے چہرے کی مسکراہٹ غائب کردی۔
”ارے تو کوئی بات نہیں، فرسٹ ہو یا سیکنڈ، پوزیشن تو لے کر آئی ہے نا۔” انفال نے جھٹ سے کہا۔
”ہاں بالکل! دوپہر میں میں نے بھی یہ ہی سمجھایا تھا کہ پوزیشن تو آئی ہی ہے نا، یہ ہی بڑی بات ہے۔” رضیہ بیگم نے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے ان کی بات میں حصہ لیا۔
”اوہ! تو یہ بات تھی جس کی وجہ سے امی کا موڈ خراب اور پارہ ہائی تھا۔” انفال کو یک دم امی کے غصے کی وجہ سمجھ آئی۔
”جی آنٹی! مگر امید تو فرسٹ پوزیشن کی ہی تھی صرف۔ سات نمبروں سے فرسٹ آنے سے رہ گئی۔ میں نے تو اسکول میں ہی اسے ڈانٹا کہ تھوڑی سی اور محنت کرلیتی تو فرسٹ ہی آجاتی۔”
صائمہ باجی کی بات پر انفال چونکی۔ حقیقتاً اسے بھی اب امی کی طرح غصہ آنے لگا تھا۔ اس کا دل چاہا کہ صائمہ باجی کو ٹھیک ٹھاک سنا دے مگر بادل نہ خواستہ خاموش رہی۔
”بسمہ بیٹا! ادھر آؤ، آپ کو پتا ہے ٹیوشن کے سب بچوں میں سب سے زیادہ نمبرز آپ کے آئے ہیں۔ آپ فرسٹ نہیں آئیں تو کیا ہوا؟ سیکنڈ تو آئی ہونا۔ باجی آپ سے بہت خوش ہیں۔ انفال نے بسمٰہ کو اپنے پاس بلا کر حوصلہ افزائی کی تو اس کے چہرے پر بھی خوشی چمکنے لگی، جسے رضیہ بیگم اور انفال نے پیار سے دیکھا۔
”جاؤ بیٹا! آپ برابر والے روم میں جاکر کھیلو۔” ساتھ ہی انفال نے بسمہ کو منظر سے ہٹانا چاہا تاکہ وہ صائمہ کی مایوسی بھری باتیں نہ سن سکے۔
”صائمہ باجی! آپ کبھی اپنی کلاس یا کسی مقابلے میں فرسٹ آئی ہیں؟” بسمٰہ کے جاتے ہی انفال نے صائمہ باجی سے سوال کیا ۔
”نہیں یار! میری تو کبھی کوئی پوزیشن نہیں آئی۔”
”پھر تو آپ کو شکر ادا کرنا چاہیے، ناکہ شکوہ شکایت۔ کم از کم آپ کی بیٹی پوزیشن تو لائی۔” انفال کی بات پر صائمہ نے گڑ بڑا کر اس کی سمت دیکھا جب کہ رضیہ بیگم سمجھ چکی تھیں کہ انفال نے اب صائمہ کی کلاس لینا شروع کردی ہے، اس لیے وہ بھی خاموشی سے اٹھ کر دوبارہ کچن میں چلی گئیں۔
”کتنے سارے اسٹوڈنٹس ایسے بھی ہوں گے جن کی پوزیشن تو کیا پاسنگ مارکس بھی نہیں آئے ہوں گے، تو اس کا یہ مطلب تو نہیں سمجھا جاسکتا کہ ان بچوں نے محنت نہیں کی یا کوشش نہیں کی۔ آپ کو پتا ہے صائمہ باجی، اسکول پیریڈ میں میری بھی کوئی پوزیشن نہیں آئی، پڑھنے میں بھی میں بس average ہی تھی، تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں کند ذہن ہوں۔”
”ہاں وہ تو ہے، مگر دیکھو نا، جو بچی اس بار فرسٹ پوزیشن پر آئی ہے وہ تو پڑھنے میں بھی بس نارمل تھی، ٹیسٹ وغیرہ میں بھی اتنے خاص نمبرز نہیں آتے تھے۔ خود ٹیچرز نے مجھے بتایا، مگر ہماری بسمہ تو ہر چیز میں پرفیکٹ تھی، پھر بھی فرسٹ کے بجائے سیکنڈ آئی۔” بھینس کے آگے بین بجانا کیسا ہوتا ہے ،اس کا اندازہ انفال کو اب بہ خوبی ہورہا تھا۔
”ہر انسان کی ذہنی صلاحیت مختلف ہوتی ہے۔ ہر بچہ ایک جیسا نہیں ہوتا، کیا فرق پڑتا ہے اگر بسمٰہ فرسٹ کی بجائے سیکنڈ آئی تو؟ میں جانتی ہوں اور آپ بھی جانتی ہیں کہ ہماری بچی پڑھنے میں ہوشیار ہے۔ اس کی صلاحیت کو گریڈ سے نہیں بلکہ اس کے پڑھائی کے شوق اور دل چسپی سے پرکھنا چاہیے۔” انفال نے انہیں تحمل سے سمجھایا۔
”لیکن ابھی سے اس پر پوزیشن کا پریشر نہیں رکھوں گی تو اسے تو ڈھیل مل جائے گی۔ کہیں آگے بڑھنے کی بجائے اور پیچھے نہ چلی جائے۔” صائمہ باجی کی بات پر انفال نے انہیں حیرانی سے دیکھا۔
”صائمہ باجی! آپ کے خدشات بے معنی ہیں۔ انسانی ذہن پر بلاوجہ کسی بھی بات کا دباؤ ڈالنا خطر ناک اور جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے اور خاص کر بچوں کا دماغ تو بہت نازک ہوتا ہے۔ ابھی حال ہی کا واقعہ ہے کہ آٹھویں جماعت کے بچے نے اپنے ماں باپ کی طرف سے ملنے والے پوزیشن کے دباؤ میں آکر خودکشی کی کوشش کی۔”
”یا اللہ! انفال تم مجھے ڈراؤ تو مت۔” انفال کی بتائی جانے والی بات پر صائمہ نے دہل کر اپنے سینے پر ہاتھ رکھا۔
”نہیں صائمہ باجی! میں آپ کو ڈرا نہیں رہی بلکہ حقیقت سے آگاہ کررہی ہوں۔ کسی کام کا دباؤ، کسی بات کی بار بار تکرار بھی اس بہتے پانی کی طرح ہے جو اپنے بہاؤ کے ساتھ ہمیں مخالف سمت تک بہ آسانی پہنچا تو دیتا ہے مگر بعض اوقات بہتے بہتے اسی پانی کی شدت ہمارے ڈوبنے کا بھی باعث بنتی ہے۔ اسی لیے پہلے دن سے میری یہی کوشش رہی ہے کہ بسمہ پر ضرورت سے زیادہ دباؤ نہ ڈالا جائے۔ بہت بار یہ بات میں نے آپ کو بھی سمجھانے کی کوشش کی مگر کوئی فائدہ نہیں۔” انفال نے بات کے اختتام پر صائمہ باجی کی سمت دیکھا جو ڈبڈبائی آنکھوں سے کھیلتی ہوئی بسمٰہ کو دیکھ رہی تھیں۔
”جس دن میں ایک سالہ بسمہ کو گود میں لیے پھر سے میکے کی دہلیز پر واپس آئی تھی، تب سے میں نے خود سے اور بسمہ سے وعدہ کیا تھا کہ اسے اس کے باپ کی کمی کا کبھی احساس نہیں ہونے دوں گی۔ باپ کی کمی کے باوجود میں اس کو اس قابل بناؤں گی کہ لوگ بھی اس پر رشک کریں گے، مگر انجانے میں دنیا کی رشک بھری نگاہوں کی طلب میں، میں نے اپنی ہی آنکھوں کو اشک بار کردیا۔ خدا کا شکر ہے کہ کسی حادثے کا شکار ہونے سے پہلے تم نے میری آنکھیں کھول دیں، کیوں کہ میرے تو جینے کا مقصد ہی بسمہ ہے اور اسے کھونے کا تصور ہی میری سانس روکنے کے لیے کافی ہے۔” صائمہ باجی کی بات کے اختتام پر انفال نے ہولے سے مسکراتے ہوئے ان کا ہاتھ تھاما۔
”آپ پریشان نہ ہوں، مائیں بعض اوقات اپنے بچوں کو لے کر بہت پوزیسیو ہوجاتی ہیں۔ اور آپ کے ساتھ جو زندگی کا اتنا تلخ واقعہ گزرا ہے، ایسے میں حساسیت کچھ اور ہی بڑھ جاتی ہے۔” انفال نے انہیں پرسکون کرنا چاہا۔
”مما! گھر چلیں؟ بہت دیر ہوچکی ہے۔” بسمہ دوڑتی ہوئی آئی اور اپنی ماں کے پہلو سے لگ کر بیٹھ گئی۔
”ہاں میری جان! بس گھر چلتے ہیں۔ ابھی اتنی دیر نہیں ہوئی۔” صائمہ باجی کا لہجہ ممتا سے چور تھا۔ وہ بسمہ کا ہاتھ تھامے گیٹ کی طرف بڑھ گئیں، مگر جانے سے پہلے انفال کو گلے لگاکرشکریہ کہنا نہ بھولیں۔”
انفال چہرے پر پُرسکون مسکراہٹ لیے مطمئن تھی۔ بالآخر اس نے ایک ننھی سی کلی کو مرجھانے سے بچا لیا تھا۔
٭…٭…٭٭…٭…٭٭…٭…٭٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مٹی کے پتلے — قرۃ العین خرم ہاشمی

Read Next

رین کوٹ — ہاشم ندیم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!