بارِ گراں — افشاں علی

”انفال!” اپنے نام کی پکار پر انفال نے گردن اٹھائی اور دروازے کی سمت دیکھا، جہاں صائمہ باجی کھڑی تھیں۔
”یار سوری! میں اس وقت چلی آئی۔ مجھے ایک چھوٹا سا کام تھا۔” کمرے میں داخل ہوتے ہوئے انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا۔
”جی جی بولیے۔” انفال نے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
”انفال! آج بسمہ کو ہوم ورک میں verb کی تعریف یاد کرنے کو ملی ہے۔”
”جی! میں نے ڈائری دیکھی تھی اور اسے یاد بھی کروا دی ہے۔ بسمہ آپ نے گھر جاکر امی کو نہیںبتایا؟”
انفال نے صائمہ باجی کی اس بے وقت آمد اور بات پر حتی الامکان خود کو نارمل رکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں! اس نے تو مجھے بتایا تھا اور میں نے اس کا ٹیسٹ بھی لے کر چیک کرلیا۔ ماشا اللہ اسے verb سمجھ آگیا ہے۔ تو میں کہہ رہی تھی کہ کل سے ٹیوشن میں اسے انگلش گرامر بھی تھوڑی زیادہ پڑھانی شروع کردو تاکہ اسے باقی parts of speech بھی یاد ہوجائیں۔”
”لیکن ابھی اس کی تو ضرورت ہی نہیں، نا ہی ٹیچر نے کہا ہے۔” انفال نے آہستگی سے کہا۔
”ہاں! وہ تو مجھے معلوم ہے کہ ابھی ٹیچر نے نہیں کہا مگر اچھا ہے ہم اسے پہلے ہی یاد کروا دیں، آگے بھی کام آئے گا۔ ”صائمہ باجی کی منطق ہی نرالی تھی۔
”آپ کی بات اپنی جگہ ٹھیک ہے مگر صائمہ باجی ٹیوشن میں دو گھنٹے میں یہ کتنا کچھ کرے گی؟ سکول کا ہوم ورک کرنا، ٹیسٹ یاد کرنا، پھر ٹیسٹ دینا اور پھر یہ parts of speech بھی۔ پھر تو بالکل بھی وقت نہیں بچنا۔ اس لیے ابھی سے زیادہ سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ پہلی کلاس میں بچی پر اتنا بوجھ ڈالنا ٹھیک نہیں۔” انفال نے متانت سے سمجھانے کی کوشش کی۔
”یار! گھر میں بسمہ کو کوئی کام نہیں ہوتا، الٹا ہمیں تنگ کرتی رہتی ہے۔ تم ایسا کرو نا ٹیوشن ٹائم دو سے ڈھائی گھنٹے تک کرلو۔” صائمہ باجی کی بات پر تو انفال کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ اس سے پہلے کہ انفال بھی کوئی کرارا سا جواب دیتی، صائمہ باجی کا سیل بج اٹھا۔ ان کے ماموں کی کال تھی جو گھر پر آئے بیٹھے تھے۔ اس لیے وہ مختصر سا ایکسکیوز کرکے روانہ ہوگئیں۔ انفال اپنا غصہ کنٹرول کرنے لگی جب کہ بچے بھی اپنی باجی کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھتے رہے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”انّو گڑیا! آپ کا ایڈمیشن فارم آچکا ہے۔ میرے ٹیبل پر رکھا ہے، روم سے لے لیجیے گا۔” ڈنر کرتے ہوئے جاوید صاحب نے انفال کو بتایا۔
”واؤ! سچ میں؟” انفال خوشی سے چہکی۔
”اب پھر سے ایڈمیشن؟ بیٹا کیا ضرورت ہے اور پڑھنے کی؟ جتنا پڑھ لیا وہ ہی کافی ہے۔ اوپر سے آج کل ٹیوشن میں الگ دماغ کھپا رہی ہو۔” رضیہ بیگم نے کہا۔
”نہیں بیگم! آج کے دور میں جتنی بھی تعلیم حاصل کی جائے، کم ہی ہے۔ آخر کو یہ تعلیم کا ہی دور ہے۔” جاوید صاحب نے ٹوکا۔
”وہ تو صحیح ہے جاوید صاحب! مگر تعلیم اتنی بھی کافی ہے۔ اب اسے رخصت کرنے کی فکر کریں۔” رضیہ بیگم کے لہجے میں ماؤں والی فکر نمایاں تھی۔
”ابو! دیکھ رہے ہیں آپ امی کو؟ کتنی جلدی ہے مجھے اس گھر سے رخصت کرنے کی۔” انفال نے منہ بسورا۔
”ہاں بیٹا! جلدی تو ہے کہ تم جلد از جلد ہماری زندگی میں اپنے گھر میں خوشی سے آباد ہوجاؤ۔” رضیہ بیگم نے ممتا سے چور لہجے میں کہا۔
”رضیہ بیگم! آپ کی فکر بھی اپنی جگہ صحیح ہے مگر جب تک ہماری بیٹی کے لیے کوئی مناسب رشتہ نہیں آتا، تب تک تو وہ اپنی مرضی کی زندگی گزارے۔ آگے جو اللہ کی مرضی ۔” جاوید صاحب نے رسانیت سے کہا۔
”میں نے کب روکا یا ٹوکا ہے؟ مگر میں اس کے لیے فکر مند ہوں۔ گھر کو بھی سنبھال رہی ہے، پھر ٹیوشن کا الگ سردرد پال رکھا ہے اور اب پھر سے آگے پڑھنا ہے۔ اس کی صحت خراب ہوجاتی ہے، پہلے ہی سلائی سی ہے۔” رضیہ بیگم نے دبلی پتلی انفال کو فکر مندی سے دیکھتے ہوئے کہا، جس پر دونوں باپ بیٹی ہولے سے ہنس دیئے۔
”میں اتنی سنجیدہ بات کررہی ہوں اور آپ دونوں ہیں کہ ہنس رہے ہیں۔” رضیہ بیگم نے نروٹھے پن سے کہا۔
”آپ پریشان نہ ہوں امی! میں سب مینیج کرلوں گی۔ آپ جانتی تو ہیں مجھے پڑھنے کا کتنا شوق ہے۔”
”تو بیٹا پھر اب یہ ٹیوشن ہی ختم کردو، پہلے تم فارغ ہوتی تھیں، اب تو ذمہ داری بڑھ جانی ہے ویسے بھی میں تمہارے ٹیوشن پڑھانے کے خلاف ہوں۔ آخر ضرورت ہی کیا ہے خوامخواہ دردِ سر پالنے کی؟ اللہ کا شکر ہے تمہارے ابو کی اچھی خاصی آمدنی ہے، گزارا ہونے کے ساتھ ساتھ بچت بھی ہوجاتی ہے پھر بلاوجہ چند سو کے لیے اپنا وقت اور دماغ ضائع کرنا؟” رضیہ بیگم نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔
”اُف ! امی آپ کو معلوم ہے، علم حاصل کرنا ہی ہمارا فرض نہیں بلکہ ہم جو بھی علم حاصل کریں اسے آگے لوگوں تک پہنچانا بھی ہمارا فرض ہے۔” انفال نے رسان سے کہا۔
”بالکل ٹھیک کہا میری بیٹی نے۔ اور سچ کہوں تو میں بہت خوش ہوں، گھر میں رونق بھی ہوجاتی ہے اور ساتھ ہی فرض بھی ادا ہو جاتا ہے۔” جاوید صاحب نے ڈائننگ ٹیبل سے اُٹھتے ہوئے بشاشت سے کہا۔
”بیٹا! کچھ دیر بعد ایک کپ چائے میرے روم میں دے جانا۔” وہ نیپکن سے منہ صاف کرتے ہوئے ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ کھڑے ہوئے جب کہ انفال برتن سمیٹنے کے بعد چائے کا پانی رکھنے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
”امی! آپ چائے پئیں گی؟” اس نے لاؤنج میں بیٹھی رضیہ بیگم سے پوچھا۔
”نہیں بیٹا! تم بس اپنے ابو کے لیے بنا دو۔”
”اچھا انو بیٹا! شام میں کس کی باتوں کی آواز آرہی تھی؟ کون آیا تھا؟” یک دم انہیں یاد آیا کہ شام میں جب وہ عصر کی نماز کے بعد کچھ دیر کے لیے آرام کی غرض سے لیٹی تھیں، تو انفال کی کسی خاتون کے ساتھ باتوں کی آواز آرہی تھی مگر اٹھنے کی ہمت نہ ہونے کے سبب وہ باہر نہ آئیں۔
”صائمہ باجی آئی تھیں۔”
”کیوں خیریت؟”
”کہہ رہی تھیں کہ آج کل بسمٰہ کے اسکول میں انگلش گرامر زیادہ سکھائی جارہی ہے تو وہ تیسری جماعت کی گرامر کی کتاب لے کر آئیں تھیں کہ بسمہ کو کچھ کچھ اس میں سے سکھاؤں تاکہ اسکول میں جب ٹیچر اس سے پوچھے تو وہ فوراً جواب دے سکے۔”
”کیا مطلب؟” انہوں نے حیرت سے انفال کی بات سنی اور پلٹ کر بہ غور اس کی جانب دیکھا۔
”لو! یہ بھی خوب کہی، پہلی جماعت کی سات سالہ بچی کو وہ چاہتی ہے کہ تیسری جماعت کا کورس پڑھائے۔ تو وہ بچی اپنا کورس کب پڑھے گی؟” وہ کچن میں ہی چلی آئیں۔
”بس امی! میری تو خود کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔” انفال نے بھی بے زاری سے کہا۔
”تو بیٹا تم اسے سمجھاتی ناں کہ ایسے تو بچی پریشان ہوجائے گی۔”
”جی امی! میں نے یہی کہا تھا مگر وہ آگے سے بولیں کہ میری بیٹی بہت ذہین ہے، وہ کور کرلے گی۔” چائے کپ میں انڈیلتے ہوئے انفال نے صائمہ باجی کی نرالی سوچ بتائی۔
”عجیب ہی ماں ہے۔ بلا وجہ اپنی بچی پر پڑھائی کا اتنا زور ڈال رہی ہے۔ ایک مہینے میں تو اس عورت کے ایک ہزار روپ دیکھنے کو ملے ہیں۔ بچے بھی تو کسی پودے کی ہی مانند ہوتے ہیں جسے نشوونما کے لیے ضرورت کے مطابق ہی پانی اور روشنی فراہم کرنی چاہیے۔ دونوں میں سے کوئی ایک چیز بھی حد سے زیادہ تجاوز کرجائے تو پودے کی نشوونما کے لیے ہی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔” انفال کے لہجے میں مایوسی تھی۔
٭…٭…٭
جب سے انفال کی کلاسز شروع ہوئیں تو وہ اور زیادہ مصروف ہوگئی۔ اپنی کلاسز سے فارغ ہوکر عصر کے بعد سے جو وہ ٹیوشن پڑھانا شروع کرتی تو اس وقت فارغ ہوتی جب شام، رات میں ڈھل رہی ہوتی اور پھر ڈنر کے بعد وہ اور اس کا کمرہ ہوتا۔ یوں تو بہ ظاہر سب سیٹ تھا۔ وہ اس مصروفیت کے ہم راہ خوش اور مطمئن تھی۔ مگر جب جب صائمہ باجی انوکھی اور بے تکی باتوں کے ساتھ حاضر ہوتیں تو اس کے خیالات اور بھی منتشر ہوجاتے۔
”یہ ٹھیک ہے کہ پڑھائی کا دور ہے۔ آج کل اس کی بہت اہمیت ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم بچوں پر پڑھائی کا اتنا دباؤ ڈال دیں کہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجائیں۔” انفال پچھلے کچھ دنوں سوچ رہی تھی کہ اس سے پہلے کہ پانی سر کے اوپر سے گزر جائے، بہتر ہے کہ صائمہ باجی کو سمجھایا جائے۔ انفال کی عادت تھی کہ وہ بچوں کو بہت پیار سے پڑھاتی تھی۔ اس کا ماننا تھا کہ جو بات بچوں کو پیار سے سمجھائی جائے، وہ ڈانٹ یا مار کے بجائے جلدی اثر کرتی ہے۔ اس لیے وہ ٹیوشن کا ماحول بھی بہت دوستانہ رکھتی تاکہ بچوں کو اگر کچھ سمجھ نہ آئے تو وہ کچھ ڈر اور ہچکچاہٹ کا شکار ہونے کی بہ جائے بلاجھجک پوچھ سکیں۔
موسم نے تیور بدلے تو سورج نے بھی گرمائش اگلنا شروع کردی۔ رضیہ بیگم اپنے اور انفال کے لیے کچھ گرمیوں کے کپڑے لائیں تو ویک اینڈ پر دونوں ماں بیٹی اپنے ایریا کی ہی ثریا باجی کی طرف نکل پڑیں جوکہ بہت اچھی درزن تھیں۔ وہیں سے انہیں معلوم ہوا کہ بسمہ کو فوڈ پوائیزننگ اور لوز موشن ہوگئے ہیں۔ تب ہی واپسی میں وہ دونوں صائمہ باجی کے گھر کی طرف مڑ گئیں۔ صائمہ باجی اور نصرت آنٹی دونوں نے انفال کا پرتپاک استقبال کیا۔ گوکہ رضیہ بیگم تو کئی بار ان کے گھر آچکی تھیں مگر انفال کی یہ پہلی آمد تھی۔ کچھ دیر بیٹھنے اور نڈھال پڑی بسمہ کی عیادت کرنے کے بعد بالآخر انفال نے اپنی رائے دینا ضروری سمجھا۔
”صائمہ باجی! میں تو کہتی ہوں کہ دو دن اسے مکمل آرام کرنے دیں۔ بہت کم زور ہوگئی ہے اور ہوسکے تو کل اسکول اور ٹیوشن بھی نہ بھیجیں۔”
”ہاں بیٹا! لوز موشن میں تو بڑے بڑے ہمت ہار جاتے ہیں، یہ تو پھر سات سال کی چھوٹی بچی ہے۔” رضیہ بیگم نے بھی کہا۔
”جی بہن! میں بھی یہی کہہ رہی ہوں لیکن صائمہ کا کہنا ہے کہ کل اس کا اسکول میں کوئی ٹیسٹ ہے تو چھٹی نہیں کروا سکتے۔”
”ارے ٹیسٹ کا کیا ہے؟ کل نہیں تو پرسوں ہوجائے گا، بچی کی صحت سے بڑھ کر تو نہیں۔”
”نہیں آنٹی! یہ جو ٹیسٹ ہورہے ہیں اس کے نمبرز فائنل میں لگیں گے اور پھر ان سے بچوں کی بھی فائنل کی تیاری ہوجاتی ہے۔”
”آپ نے بالکل ٹھیک کہا صائمہ باجی، پر بسمہ کوپہلے سے ہی یہ lessons یاد ہیں اور میں تو اس کی ٹیوشن میں فائنل exams کی تیاری بھی شروع کروا چکی ہوں۔ اگر یہ کل اسکول نہیں بھی جاتی تو اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔”
”چلو دیکھتی ہوں، اگر رات تک طبیعت نہ ٹھیک ہوئی تو میں کل اس کی کلاس ٹیچر سے بات کرکے انہیں کہہ دوں گی کہ وہ ایک دو دن بعد ٹیسٹ لے لیں۔” صائمہ باجی کی اپنی ہی کہانی تھی۔
”بیٹا ! پانچ دس نمبر نہیں بھی ملے تو خیر ہے۔ میری انفال نے بھی پڑھا ہے۔ اکثر میری یا اپنی طبیعت کی خرابی کے باعث وہ چھٹی کر بھی لیتی تھی تو کالج والے باہر تھوڑی نہ نکال دیتے تھے۔”
”جی آنٹی! مگر کالج میں اور اسکول میں تو فرق ہے نا۔ اور اس طرح سے ابھی سے چھٹی کرواتی رہوں گی تو اِسے عادت ہوجائے گی۔” وہ صائمہ باجی ہی کیا جو امی کے طعنوں بھرے لہجے کو بھی خاطر میں لے آئیں۔ کچھ دیر بیٹھ کر وہ دونوں گھر لوٹ آئے۔ گھر آتے ہی امی نے تو صائمہ باجی کی باتوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔
”لو بھلا دیکھو! بچی سے زیادہ اسے ٹیسٹ اور اسکول کی پڑی ہے۔” صوفے پر بیٹھتے ہوئے انہوں نے کہا۔ انفال جھٹ سے پانی کا گلاس لے آئی۔
”ارے بھئی کیا ہوگیا؟ موسم کی وجہ سے سورج کا تو سمجھ میں آتا ہے مگر آپ کا پارہ کیوں ہائی ہے؟” ٹی وی کا والیوم کم کرتے ہوئے جاوید صاحب نے پوچھا تو رضیہ بیگم انہیں ساری تفصیل بتانے لگیں جب کہ انفال، انہیں پانی کا گلاس تھما کر کچن میں چلی آئی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

39 views , 1 views today

Read Previous

مٹی کے پتلے — قرۃ العین خرم ہاشمی

Read Next

رین کوٹ — ہاشم ندیم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!