اے شب تاریک گزر —- صدف ریحان گیلانی (پہلا حصّہ)

انتہائی ٹف روٹین میں سے روزانہ جو گنگ کے لئے وقت نکالنا ہے حد مشکل امر تھا۔ قسمت سے ہی ایسا نا در موقع ہاتھ آپاتا ۔ دوسروں کی صحت کا خیال رکھتے رکھتے وہ اپنی طرف سے تو غافل ہی ہوگیا تھا۔ نہ کھانے پینے میں دلچسپی نہ ایکسر سائز کے لئے وقت، ہاں یہاں آکر صبح سویرے اٹھنا (جبکہ ساری رات ہی نیند ڈسٹرب رہی تھی) اور جو گنگ کے لئے جانا اسے اچھا لگا۔ خوشگوار کلی فضا، دور تک چھایا نیلا آسمان اور اس کی صد سے ملتے سرسبز و شاداب کھیت کلیاں جو نظروں کو خوب تراوٹ بخش رہے تھے۔ نہر کے کنارے کنارے خوش رو اور خوش گلو پرندوں کے سنگ سنگ قدم ملانے کا لطف ہی کچھ اور رہا۔ طبیعت میں قدرے بہتری محسوس ہورہی تھی۔ ہر گھر کی چمنی سے اٹھتا دھواں بتا رہا تھا کہ نہ صرف محنت و جفاکش مرد کھیتوں میں جانے کی تیاری کررہے ہیں بلکہ پست و چوبند عورتیں بھی چولہا چوکا سنبھال چکی ہیں۔ پھر گھرسے فارغ ہوکر انہوں نے اپنے مردوں کا ہاتھ بھی بٹانے جانا ہوتا ہے۔ وہ حویلی پہنچا تو وہاں بھی سعیدہ کو لکڑیاں توڑ توڑ کر تندور میں جھونکتے دیکھا۔
ویسے ہمارے ہاں کی یہ بھی عجیب و غریب داستان ستم ہے۔ مرے پر سو درے یہ کہ کہیں تذکرہ بھی نہیں۔ ہماری 70 فیصد سے زیادہ آبادی دیہات پر مشتمل ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو دن رات اپنی جانیں جوکھوں میں ڈالے رکھتے ہیں۔ شدید سردی ہو کڑکی دھوپ یا چھاجوں برست مینہ یہ کھلے آسمان تلے زمین کی سختی کو نرمی میں بدل کر ہم جیسے پر آسائش و آرام دہ زندگی گزارنے والوں کے لئے بھی رزق کے ذخیروں کو آسان بناتے رہتے ہیں۔ تازہ سبزیاں و پھل، شیریں و خالص دودھ، نرم سبز، غرض یہ کہ کونسی ضرورت ہے جو پوری نہیں ہوتی۔ اور یہ سب کس کے طفیل؟
اور یہی وہ بدقسمت لوگ ہیں جنہیں اتنے سال گذر جانے کے بعد بھی ابھی تک بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں کی جاتیں۔ یہ آج بھی جنگلوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بجلی ہے تو پوری نہیں ملتی۔ گیس سرے سے ناپید۔لکڑیوں کا کڑواکسیلا دھواں پھانک پھانک کر بچتا ہی کیا ہے یہاں کی عورت کے اندر بے چاری وقت سے پہلے صحت گنوا بیٹھتی ہے۔ اوہ یہ آپ کیا کررہی ہیں لائیں مجھے دیں میں کاٹ دیتا ہوں لکڑیاں۔ اس سے دیکھ کر رہا ہی نہیں گیا جلدی سے لپکا۔
اوہ نہ پتر۔ یہ تو میرا روز کا کام ہے میں کرلونگی۔ آپ جاکر منہ ہاتھ دھولو۔ میں آپ کے لئے روٹی پکا دوں ۔ یہ تندور بھی خاص آپ کے لئے گرم کررہی ہوں۔ آپ کو پسند ہیں ناں تندور میں پکی مکھن لگی روٹیاں۔
اوہ سو سوئٹ سعیدہ خالہ آ پ کو یاد ہے لیکن صرف میرے لئے آپ کو اتنی مشقت میں نہیں پڑنا چاہیے تھا۔ وہ سدا کا نرم دل ان کے روکتے روکتے بھی ان کا ہاتھ بٹانے لگا۔وہ مسکراتے گئیں۔
یہ کیا ہے امی جی آپ نے تو ہاشوپائی جی کو بھی کام سے لگادیا۔ فرحت آٹا لئے آرہی تھی۔
‘آپ انہیں پائی جی۔ میں کرتی ہوں۔ آپا بی آپ کا پوچھ رہی ہیں میں موٹر چلا کہ آئی ہوں خوب تازہ اور ٹھنڈا پانی آرہا ہے۔ میں نے واش روم بھی دھو دیا ہے۔ آپ کے کپڑے اور تولیہ بھی رکھ آئی ہوں۔ آپ جاکر نالیں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اوہ تھینک یو گڈ گرل ۔ یہ تو بہت اچھا کیا آپ نے اور سعیدہ خالہ آپ میرے لئے مزیدار سی دودھ پتی بناکر رکھیں میں ابھی آیا۔ وہ دونوں گھٹنوں پر زور دیتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔
ٹھیک ہے پتر۔ ابھی بناتی ہوں۔ خوب کڑھے ہوئے دودھ کی بناؤں گی اور بیچ میں تعویذ والی پتی ڈالوں ناں۔ وہ نہایت سادگی سے استفسارکررہی تھیں۔ ایک لمحے کو تو وہ حیران ہی رہ گیاپھر جب بات سمجھ آئی تو قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔ ان کا اشارہ یقینا ٹی بیگ کی طرف تھا۔ فرحت بھی ہنس رہی تھی۔
آپ بھی ناں۔ امی جی سیدھی کی سیدھی ہی رہنا۔ وہ تعویذ نہیں ہوتا۔
”اے چل زیادہ سیانی نہ بن جو بھی ہوتا ہے۔ جا اندر سے چاء والا برتن اور دودھ لے کہ آ بیٹھ گئی ہے مجھے پڑھانے۔” سعیدہ خجل سی ہوئیں بیٹی کو ڈپٹنے لگیں وہ ہنستا ہوا واش روم کی طرف چل دیا۔
اور جب تک فریش ہوکر آیا اس کا ناشتہ آپا بی کے تخت پر چن دیا گیا تھا۔ تازہ مکھن گھی گرم گرم روٹیاں، دہی کا پیالہ، بھنا ہوا دیسی مرغ، سوہا نجنے کا اچار اور خوب سارے میدوں والا بیسن کا حلوہ، بھاپ اڑاتا بڑا سا دودھ پتی کا مگ۔
اُف آپا جی۔ آپ نے تو پکا پکا اہتمام کردیا میری جاگنگ کی ایسی کی تیسی پھیرنے کا تمام لوازمات پر نظر ڈالتا وہ دونوں پاؤں اوپر کرکے بیٹھ گیا۔
لو کیسا اہتمام؟ سادہ سا تو ناشتہ ہے اور کچھ ہونے لگا تیری ”جوگنگ” کو گھر جاکر کرنا ساری ورزشیں یہاں تو تجھے رچ کر کھانا پڑے گا پتر۔
پتہ ہے مجھے تیری ماں کا۔ ساری عمر اس نے پڑھنے پڑھانے میں ہی لگادی۔ کبھی نہ خود شوق سے کھایا نہ اس نے تم لوگوں کو کھلایا۔ ہمیشہ سے بڑی نکمی تھی وہ کھانے اور پکانے میں۔ خود بھی پڑھ پڑھ کہ کملی ہوگئی ساتھ تم لوگوں کو بھی کرلیا۔ سارا ٹبر ایک ہی کام سے لگا ہو اہے۔ بھلا بتاؤ تھوڑا دماغ خرچ کرتے ہو اپنا۔ جان وکھری خشک ہوتی ہے۔ بنا ایندھن کے تو گاڑی بھی نہیں چلتی اس کے بھی پرزے گھسنے لگتے ہیں۔ ارے تم تو انسان ہو کھاؤ پیوگے نہیں تو جسم میں طاقت کہاں سے آئے گی۔ وڈے ڈاکٹر بنے پھرتے ہو سارے کے سارے۔” انہوں تو ٹھیک ٹھاک کان کھینچ دیئے۔ اس نے جلدی سے پلیٹ آگے رکھی مبادا وہ کچھ اور کہہ دیں۔
جرار کو بھی بلوالیں نہ آپا بی ۔وہ کیا آیا نہیں ابھی اسے خیال آیا تھا۔
کہاں سے۔ تم کیا سمجھرہے ہو وہ ”جوگنگ” پر گیا ہے۔ وہ تو پڑا سورہا ہے ابھی تک اور بارہ بجے سے پہلے نہیں اٹھتے گا۔ میں تو حیران ہوں کس پاگل نے پولیس میں بھرتی کرلیا اسے۔ سپاہیوں کی تو اتنی سخت ٹریننگ ہوتی ہے گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ بھاگتے ہیں وہ تو۔ ایک منٹ اِدھر کا ادھر نہیں گنواتے ایک یہ ہمارا بچہ ہے منہ کھولے ٹانگیں سپارے پڑا رہے گا سارا دن نہ اسے دین کی فکر ہوتی ہے نہ دنیا کی۔ ذرا جو اس کی تربیت میں بدلاؤ آیا ہو ویسے کا ویسا ہی کاہل سست اور نکما۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ ہماری سرکاری کتنی سمجھدار ہے۔ اس لڑکے کو نوکری دے دی انہوں نے ہیں؟
بہت بری بات آپا جی۔ ابھی کچھ دیر پہلے آپ اپنے شاگردوں کو غیبت پر یہ بڑا لیکچر پلارہی تھیں اور اب خود کیا کررہی ہیں؟ صبح ہی صبح لٹھ لے کر میرے بوٹے کے پیچھے پڑگئی ہیں کیا سارا آج ہی جھاڑ کر رہیں گی اور بھول گئیں جتنے میرے گناہ جھڑ رہے ہیں وہ سب کدھر جارہے ہیں؟ اور یہ سرکار کی بھی خوب کہی آپ نے ارے میرے جیسا ممولا بچہ تو بے چارہ کسی گنتی شمار میں ہی نہیں۔ جیسے جیسے نمونے وہاں بھرے پڑیہیں اگر میں آپ کو ان میں سے چند ایک کی ہی صفیں بتادوں تو آ پ کان پکڑلیں۔ پھر کبھی بھول کر بھی میری برائی نہیں کرسکیں گی آپ؟آنکھیں مسلتا وہ کمر ے سے نکلا تھا۔ ایک بھرپور انگڑائی لے کر بھاڑ سا منہ کھولا آپا بی نے تو دیکھتے ہی ناگواری سے منہ پھیرلیا۔
شکر ہے میں بروقت پہنچ گیا ورنہ تم تو سب ہی کچھ غڑق جاتے۔ اتنے سارے کھاجے سے پیٹ نہیں بھرنا تھا جو آپا بی کے ساتھ مل کر چغلیاں بھی کھا رہے ہو میری۔
تخت پر تو کہیں جگہ نہیں تھی وہ اپنے لئے کرسی اٹھا لایا ابتہاش نے گھور کر دیکھا۔ ”بک بک بعد میں کرنا جاؤ فریش ہوکر آؤ تمہارا منہ دیکھ کر ایک نوالہ میرے حلق سے نہیں اترے گا۔ پورا ناشتہ تودور کی بات۔”
تو کون کم بخت کہہ رہا ہے میرا منہ دیکھو تم آپا بی کو دیکھو کیا نورانی چہرہ ہے۔ ماشاء اللہ ان جیسی پیاری ہستی کے پاس بیٹھ کر کسی اور کو دیکھنا تو یوں بھی گناہ میں شمار ہوگا۔؟ اس نے حلوے کے باؤل کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا کہ ابتہاش نے راہ میں ہی دھر لیا۔ ”شیم آن یو جرار۔ منہ دھو آؤ پہلے۔”
ارے بھئی کبھی شہروں کو بھی منہ دھوتے دیکھا ہے اور یہ ہاتھ اوئے ہوئے ان ہاتھوں کی بھلا کیا ریسیں۔ یہ ہاتھ ایک عزم جواں سپاہی کے ہاتھ ہیں۔ قانون کی حفاظت کرنے والے جانباز سپاہی کے ہاتھ۔ اپنی مٹی پر قربان ہوجانے والے جانثار سپاہی کے ہاتھ۔ پاک پوتر، انہیں نہ بھی دھویا جائے پھر بھی یہ صاف شفاف ہیں لیکن چلو تمہاری تسلی کے لئے دھولیتا ہوں۔ جرار نے جگ اٹھا لیا اور ذرا سا پیچھے ہوکر منہ پر چھپا کے مارنے لگا۔ ابتہاش نے بڑے صبر سے اس کی حرکت دیکھی اور آپا بی کا بس نہیں چلا تھا اپنا جوتا جو اس نے گیلا کردیا تھا وہ اٹھا کر اس کے سر پر بجادیتیں۔
وہ اور ہی شکلیں ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ سیانی اور سمجھدر ہوجاتی ہیں۔ لیکن تم نہیں سدھر سکتے بہت مشکل ہے۔ میں بلڈ پریشر کی مریضہ ہوں اگر مجھے اس طرح ہی تنگ کرتے رہے ناں تو میں نے تیرا بوریا بسترباندھ دینا ہے۔ سن لے کان کھول کے۔ وہ حد درجہ بے دید ہوئیں۔ جرار کا نوالہ توڑتا ہاتھ وہیں ٹھہر گیا۔
”بہت اچھے آپا بی بہت اچھے، ایک آپ کا ہی آسرا تھا اب آپ بھی تنگ ہوجائیں مجھ سے۔ ادھر سے رضیہ سلطانہ نے بوریا بستر باندھا ادھر سے آپ باندھ دیں۔ نکال دیں آپ بھی مجھے اپنے گھر سے۔ میری تو قسمت ہی خراب ہے کہیں سکون نہیں ہے مجھے۔ میں تو کہیں دفع ہی ہوجاوؑں۔ ٹھنڈ پڑ جائے آپ لوگوں کو۔” وہ جیسے جذباتی ہوکر کھڑا ہوا آپا بی تو ایکدم بوکھلا گئیں۔ ابتہاش نے بھی گھبرا کر اسے دیکھا مگر جوتاثرات چہرے پر نظر آئے اس پر وہ محض سر ہلا کر رہ گیا۔
لو اب ایسا بھی کیا کہہ دیا جو یوں بھڑک کر کھڑے ہوگئے۔ بیٹھ کر ناشتہ کرو آرام سے اور یہ نخرے وکھرے جاکر دکھانا اپنی ماں کو۔ اور یہ تم کیا رضیہ سلطانہ، رضیہ سلطانہ کرتے رہتے ہو۔ اسے پتہ لگے گا تو سخت خفا ہوگی۔
پتہ ہے انہیںاور اس میں بھلا برا کیا ہے۔ رضیہ سلطانہ واہ کیا کمال خاتون شخصیت تھیں ہماری تاریخ کی۔ ان کا رعب، انکا دبدبہ، بہادری، قابل تحسین اور یہ تو میں نے اپنی پیاری والدہ ماجدہ کو اپنی اولاد کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھنے پر اعزاز سے نوازا ہے۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ نہیں خفا ہوتی وہ۔
ویسے واقعی ہے تو بری بات۔ جو بھی ہے وہ ماں ہیں تمہاری۔ ابتہاش سے بھی چپ نہ رہا گیا۔
ہاں جی اس اطلاع کے لئے شکریہ۔ جانتا ہوں میں۔ اگر خالہ سجیلہ بھی میری اماں جان سا مزاج رکھتیں پھر میں پوچھتا تم سے کہ بچے اب بتاؤٔ کہاں کہاں درد ہورہا ہے۔ ارے آفت مجھ پر ٹوٹی ہوئی ہے۔ دیس نکالا مجھے ملا ہوا ہے۔ اور وہ بھی اس بات کے پیچھے جس پر میں مرکر بھی راضی نہیں ہوسکتا۔ وہ کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو چلا تھا ۔ آپا بی نے دہل کر ٹوکا۔
فضول بکواس مت کرو، آرا م سے ناشتہ کرو ٹھنڈا ہورہا ہے۔
کیسا ناشتہ چھوڑیں پرے اور آپ نے ہی مجھ سے کہا تھا ایک اور کوشش کرو ماں کو منانے کی تو گیا تھا میں یہاں آنے سے پہلے ۔ بہترے منتیں ترے کئے ان کے مگر وہ اپنے بے جا مؤقف سے ایک انچ سرکنے کو تیار نہیں ہیں اور بہت ہوگیا ماننے منانے کا وقت گذر گیا قبل اس کے کہ پانی سر سے اونچا ہوجائے میں نے بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ میں۔
السلام علیکم۔ اگلی بات جرار کے منہ میں ہی رہ گئی سامنے سے رشنا چلی آرہی تھیں۔ پیچھے ہی فرحت تھی دونوں ہاتھوں میں بڑی سی ٹرے اٹھائے۔
مجھے پتہ تھا یہاں ایسا ہی ناشتہ بنا ہوگا۔ اور تم ٹہرے ڈاکٹر۔ ڈائٹ کاتش اور پھر ہم جیسے شہری لوگ بھلا کہاں عادی ہوتے ہیں اس قسم کے کھانوں کے ایسے مرغن ناشتے تو ٹھیک ٹھاک بیمار کردیتے ہیں ۔ یہ دیکھو میں خود تمہارے لئے ناشتہ بناکر لائی ہوں۔ ان کے اشارے پر فرحت نے تپائی پاس کھینچ کر اس پر ٹرے رکھ دی تھی۔ آپا جی نے آگیہوکر دیکھا۔ مارجرین، جیم، بریڈ، چیز آملیٹ۔ وہ ہونہہ کر کے رہ گئیں۔ اس ٹرے میں سب ہی کچھ تو بنا بتایا تھا آجا کہ انہوں نے بنایا کیا تھا ایک چیز آملیٹ وہ بھی انہیں علم تھا فرحت سے سارا کام لیا ہوگا خود سر پر کھڑے ہوکر صرف ہدایات دیں تھیں۔ اور اتنا احسان بھی یقینا اس لئے کردیا تھا کہ ماموں گھر پر تھے وگرنہ وہ تو بوڑھی ساس کو پوچھنے کی روادار نہ تھیں۔
ابتہاش کے لبوں پر تکسرانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ جرار نے تو بے وقت کی راگنی چھیڑ کر اس کے زخم بھی ہرے کردیئے تھے۔ جی اچاٹ ہوگیا تھا مگر مارے مروت کے وہ کہہ گیا۔
اوہ مامی جی آپ نے تو خوامخواہ تکلف کیا۔
ہاں ویسے واقعی تکلف ہی کیا مامی جی۔ ٹرے کا جائزہ لیتے جرار نے بھی چونچ چلائی تھی۔
رشنا نے اک تیکھی نگاہ اس پر ڈالی اور ابتہاش کو ناشتہ پیش کرنے لگیں۔
”واہ چیز آملیٹ کیا زبردست خوشبو آرہی ہے۔ کافی دنوں سے موڈ تھا کھانے کا ، لیکن اپنے ہاتھ میں وہ مزہ کہاں اور مامی جی کی کوکنگ کیا کمال کی ہوتی ہے۔ تمہیں پتہ ہے ہاشو۔ جب پچھلی بار میں آیا تو مامی نے بریاتی پکائی تھی اور اف کیا بریانی تھی یار۔” کہانیاں گھڑنے کا تو وہ ماہر تھا اور جب وہ بولنے پر آتا تو پھر کسی کے بولنے کی گنجائش ہی کہاں بچتی تھی۔ باتوں باتوں میں ناشتے کا دور ختم ہوا۔ مامی ابتہاش سے پورے گھر کی بیماریاں اور ان کا حل ڈسکس کررہی تھیں۔
”ایک تو یہ بری عادت ہے ہماری قوم میں۔ جہاں مفت کی سہولت دیکھیں گے وہاں سے فیض لئے بغیر ٹلیں گے نہیں بچارے ڈاکٹر جہاں بیٹھ جائیں لوگ مکھیوں کی طرح گھیرا ڈال لیتے ہیں۔” جرار نے چوٹ کی، سامنے بھی اس کی مامی تھیں جھٹ بولیں۔
”ہاں تو ڈاکٹر سے تو کوئی فائدے کی بات پتہ چل جاتی ہے۔ اب ہم تم سے کیا پوچھیں بھلا۔ ہم نے کونساچور ڈاکو پکڑنے ہیں جو تم سے ٹپس لیتے پھرہیں۔ میرے احزم کو بہت شوق ہے تمہیں یونیفارم میں دیکھنے کا۔ وہ تو کل بھی کہہ رہا تھا مما جرار بھائی سے کہیں فل تیاری میں میرے اسکول کا چکر لگائیں۔ بہت بچے مجھے تنگ کرتے ہیں۔ جب میں انہیں بتاؤں گا یہ میرے کزن ہیں تو ان پر خوب رعب پڑے گا میرا۔
اور جرار کی شکل دیکھنے والی تھی اگر اسی وقت گیٹ پر ہارن نہ بجتا تو وہ ضرور کوئی جواب دیتا وہ اٹھ کر باہر چلا گیا۔ اور کچھ ہی دیر میں کھلے گیٹ سے سیاہ کرولا اندر آرہی تھی۔
ہائے اللہ۔ ذری باجی… ذری باجی آگئی۔ فرحت مارے خوشی کے شور مچاتی بھاگی تھی۔ رشنا اور آپا بی کا دھیان بھی ادھر ہوا۔ بس ایک وہی تھا جو اپنی جگہ سے ہل بھی نہ سکا۔ یک لخت ہی سارے منظر دھند لاگئے تھے کتنا مشکل ہوتا ہے پودوں سے بکھرے کانچ چننا خاک ہوئے ٹکڑے چن کر پھر سے تصویر بنانا۔ وہ تو جوڑ رہا تھا خود کو۔
تو… تو کیا پھر سے سب بکھرنے کو ہے۔ وہ حوصلہ، وہ ضبط، اندر اک بگولہ سا اٹھنے لگا تھا۔ بصارت کوئی چہرہ دیکھنا نہیں چاہتی تھی جبکہ سماعت اس امہ سے قاصر تھی کہ ان آوازوں کو روک سکے جو ذات ہستہ بلارہی تھیں۔
زرتاشہ میری بچی، ماں صدقے یہ کیا حال بنارکھا ہے تم نے اپنا۔ آپا بی تاسف سے پوچھ رہی تھیں۔
بخار ہے کئی روز سے اور آپ کی لاڈلی رضیہ سلطانہ کو تو اپنے بکھیڑوں سے فرصت نہیں اس بے چاری پر کیا خاک توجہ دیتی ہوں گی۔ میں نے بلایا ہے اسے۔ اب رکھیں اپنے پاس کھلائیں پلائیں جان شان بنائیں اس کی اپنے کندھے سے لگی زرتاشہ کے سر پر جرار نے محبت بھرا بوسہ دیا تھا۔ آپا بی نے بڑھ کر اسے بازوؤں میں لے لیا۔
پھر رشنا نے گلے لگا یا وہ اس کی خیریت پوچھ رہی تھیں۔
اور وہ اسے دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ انہی فضاؤں میں اس جگہ پر زندگی کے خوش رنگ لمحوں میں کبھی جسے اپنا مان لیا تھا اب وہیں ان اذیت رساں لمحوں میں کیا یہ بھی مان لے کر وہ اپنی نہیں رہی۔ اس کی آنکھ میں آنسو تیر رہا تھا اور وہ صرف آنسو نہیں تھا وہ تو پوری داستان تھی اس خواشہوں کا رنگ بھری تتلی کی جو زندہ رہنے کی چاہ میں مار دی گئی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

خونی سایہ — عمارہ خان (تیسرا اور آخری حصہ)

Read Next

اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (دوسرا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!