ارے تو ہم کون سا انہیں بتانے لگے ہیں کہہ دیں گے کہ خود ہی پکایا ہے۔ فرحت نے اپنی عمر کے مطابق بات کی۔
اے لو اب اس عمر میں جھوٹ بھی بلواؤگی مجھے سے اور ہم نہ بتائیں گے تو کیا رشنا آکر بڑھکیں نہ مارے کی اس کے سامنے اور چلو چھوڑو ساری باتیں تم بلو کو ساتھ لے کر ایک مرغی پکڑ لو اور تورے قصائی کے پاس بجھواکر ذبح کروالو جیسے تیسے کرکے میں خود ہی پکالیتی ہوں۔
مگر آپ کی تو طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے آپا جی۔
ارے تو کیا کروں اب یہ چار دن اب طبیعت خراب ہی رہنی ہے اس لڑکے نے چین لینے دینا ہے مجھے۔ میں یہی کرسکتی ہوں کہ فون کرکے اسے صفا چٹ منع کردوں کہ میاں میں بوڑھی تمہاری خاطر داری کرنے سے عاجز ہوں سو یہاں آنے کی ضرورت نہیں ۔ ارے وہ بیوقوف تو آج کل ماں سے بھی آڑا لگا کر بیٹھا ہوا ہے۔ میں بھی خفا کردوں اور نفیسہ صدا کی کم عقل اللہ جانے کیا سوجھی اسے بھی لے کہ میرے بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگادیں۔ کتنا اچھا مشورہ دیا تھا میں نے اسے۔ مگر وہ تو… کپ ہاہ… وہ بولتے بولتے ایک دم چپ کرگئیں۔ دل پر بوجھ سا آن پڑا تھا۔
کیسا مشورہ آپا جی؟ فرحت کے ہاتھ تیزی سے پتے الگ کررہے تھے چونک کر ان کا بجھا ہوا چہرہ دیکھا۔
کچھ نہیں چھوڑو پرے۔ جی ہی جلتا ہے جب بھی یاد کرتی ہوں۔ جرار بالکل حق پر ہے۔ اس کی لڑائی میں تو میں بھی اس کے ساتھ ہوں کیا ہے وہ لڑکی۔ سوکھی چمرخ سی، تری سفید چوہیا لگتی ہے کم بخت وہ بے حد تپ کر بولیں تھیں ان کی استعمال کی گئی تشبیہہ پر فرحت کو خوب ہنسی آئی۔ اب ایسے تو نہ کہیں آپا بی ۔ اتنی تو سوہنی ہیں عروج باجی ۔ مجھے تو انگریز لگتی ہیں بالکل اور سفیر پائی جی … اف کتنے…
ارے دفع دور ہونہہ انگریز باپ پہ پوت نسل پہ گھوڑا جیسی بہن ویسا ہی کم بختی مارا بھائی۔ نام مت لینا میرے سامنے کسی کا بھی مجھے تو وہ دن ہی نہیں بھولتا آنکھوں کے آگے سے چہرہ ہی نہیں جاتا کیسا پھوٹ پھوٹ کہ روئی میری بچی۔کوئی آنکھ کا اندھا بھی دیکھ کر پہچان لے میں نہیں سمجھی تو اس کی ماں… میرا تو اس روز سے کلیجہ بھنا پڑا ہے۔ اور تم یہ کیا باتیں لے کر بیٹھ گئیں میرا سر گھمانے کو۔ چل اٹھ جو کام کہا ہے جاکر وہ کر پہلے زمانے بھرکی نکمی لڑکی۔ انہوں نے اسے بری طرح جھڑک دیا اور اٹھ کر کچن کی جانب چل پڑیں۔ مسلسل آئی ان کی آواز بتارہی تھی کہ کسی کے بخیے ادھیڑ رہی ہیں۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ٹیکسی نے جب اسے پکے پل کے پاس اتارا اس وقت دھرتی پر پھیلا سنہری کرنوں کا چوغہ سمٹ کر آفتاب نے بنفشی دوشالہ اوڑھ لیا تھا۔ فضا میں سفیدے کے پتوں کی تیکھی سی باس رچی تھی۔ ہنر کے ٹھنڈے اور گرلے پانی کو چھو کر آتی ہوا۔ خوب ترو تازہ اور ہلکی سی خنکی لئے ہوئے تھی جو تھکن سے ائے چہرے پر پڑی تو گویا اندر تک سکون اتر گیا سڑک کے ساتھ ساتھ حد نگاہ تک گندم کی فصل لہلہارہی تھی بس کچھ ہی روز تھے جب ان سبز ٹہنیوں کے سروں پر سونے کی سی چمک دکھائی پڑنے لگے گی اور تب کئی ماہ کی جان توڑ محنت ومشقت کے حاصل ہونے والا اناج کسانوں کے چہرے پر کیسی مسرت بکھیر دیتا ہے۔ آنکھوں میں پھر سے کئی خواب جگنے لگتے ہیں۔ اک نئی لگن انگڑائی لے کر پیدا ہوتی ہے بہت بچپن میں دیکھے ہوئے کئی نظارے یاد آنے لگے تب ان دنوں یہاں کا بچہ بچہ مسرور مصروف ہوتا ہے۔ تو فصل کاٹ کاٹ کر نڈھال اور بچے رڑی (وہ جھولی بھر گندم جو ہر کھیت کی کٹائی کے بعد بچوں کا پہلا حق سمجھی جاتی ہے) سمیٹ سمیٹ کر نہال کئی سیانے بچے ان دنوں میں کتنی ہی گندم اکٹھی کرکے بیچ لیتے اور حاصل ہونے والی رقم اپنی ضرورتوں پر خرچ کرتے اور کئی چلبلے تو اسی وقت دکان پر بھاگے جاتے اور بدلے مٰں میٹھی گولیاں چٹ پٹے پاپڑ، سوجی کے بسکٹ یا مختلف اشیا لے کر کھاتے پھرتے۔بے اختیار اک مسکان اس کے لبوں کو چھوگئی۔
ایسا ہی ایک بار اس نے بھی کیا تھا جب فصل کے اترنے رپ نانا جی نے اسے ڈھیر ساری گندم دی اور کہا۔ ”جاؤ اپنی نانی سے کہو اس میں بادام اور گڑ ڈال کر بھون دے پھر روز صبح ناشتے میں مزے مزے سے کھایا کرنا اور وہ بچہ تو تھا چپکے سے ساری گندم دکان پر دے آیا اور بدلے میں رنگ برنگی خوب ساری چیزیں ملیں تو مما کو لاکر دکھائیں اور پھر جو پہلی بار ان کا تھپڑا پڑا… اف۔
آہ… یہ وقت جاکر بھی جاتا کیوں نہیں ہے۔ آخر یہ یادیں بن کر ہمارے آس پاس ہی کیوں بکھرا رہ جاتا ہے۔ پھر ستم یہ کہ جب چاہتا ہے اک پن سی چھو دیتا ہے کبھی شہہ میں ڈوجی تو کبھی زہر میں بجھی۔ اس کے قدم نہایت سست روی سے اٹھ رہے تھے گویا اٹھنا نہ چاہ رہے ہوں اور اٹھنا بھی پڑرہا ہو۔ کندھے سے لٹکا بیگ منوں وزنی لگنے لگا تھا۔ سر ینہوڑائے اپنی ہی دھن میں مگن نہر کنارے چلتے وہ وہاں کھیلتے کئی بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرگیا سب ہی پرشوش نگاہوں سے اس اونچے لمبے خوبرو نوجوان کو دیکھنے لگے کئی ایک نے تو پہچان کر دوسرے کے کان میں سرگوشی کی۔
اوئے یہ تو ڈاکٹر صیب ہے ڈاکٹر صیب ۔
وہی ناں جس نے تیری دادی کا علاج کیا تھا۔
ہاں… ہاں وہی۔
اور یہ تو اپنے ساتھ اور کتنے سارے ڈاکٹروں کو بھی لے کر آیا تھا ناں جب پورے پنڈ میں مفت دوائیاں بھی دی تھیں۔ ایک اور کی یادداشت نے بھی کام کیا۔ اپنے پھٹے پر چولہے میں لکڑیاں ڈال کر آگ جلاتے منشاء جلیب والے کا بھی ادھر دھیان پڑا ور وہ سب چھوڑ چھاڑ کر بھاگا آیا۔
سلام ڈاکٹر صیب… جی آیا نوں ۔ بچے ہوئے او۔ خیر نال ستی کتموں راہ پل گئے اج بڑے چر بعد آئے او جی(ٹھیک تو ہیں۔ خیر سے کہاں سے راہ بھول گئے آج۔بڑے عرصے بعد آئے ہو) اپنے میلے صاف سے ہاتھ رگڑ کر اس نے مصافحے کے لئے بڑھا دیا۔
وعلیکم السلام۔ تم سناؤ کیسے ہو منشاء اس نے ہاتھ تھام لیا۔
میں بھلا چنگا سرکار ۔ کرم مولا سائیں دا۔ تہاڑی دعا اے جی بستے ای خیراں نیں آؤ کج دیر ساڑے کول وی بیٹھو۔ تہانوں گرم گرم چاء (چائے) تے میٹھے جلیب (جلیبی) کھوایئے۔
”ارے نہیں نہیں اس کی ضرورت نہیں پھر کسی وقت یار ابھی تو حویلی جارہا ہوں۔ اتنا سفر کیا ہے تھک گیا ہوں۔” اس نے سلیقے سے معذرت کی۔
نہ جی نا انکار نہ کرو تھکے پٹے او اس واسطے تے آکھڈا پیاں۔ میری چاء پی کے تہاڈی تھکن منٹاں چ بھج جائے گی( نہ جی انکار نہ کریں تھکے ہوئے ہیں اس لئے تو کہہ رہا ہوں۔ میری چائے پی کر آپ کی تھکن منٹوں میں بھاگ جائے گی) اور نہ نہ کرتے بھی وہ اسے اپنے پھٹے تک لے آیا تھا۔ بیٹھنے کو کٹری کا بنچ پیش کیا۔ اس کا دھیان نہر پار تھا دور سے ہی حویلی کی اوپر منزل نظر آرہی تھی۔ دیار کی کھڑی کے جھروکے کے ساتھ بندھی وہ گلابی پھولوں والی بیل بھی۔ جس پر بہار اپنے پورے جوبن کے ساتھ اتری تھی ہر سو پھول ہی پھول اور ان میں سے کئی پھول سوکھ کر جھڑ بھی گئے ہوں گے نیچے سرخ ٹائلوں والا فرش بھرا ہوگا۔ ہوا انہیں اپنی جھولی میں لئے پھر رہی ہوگی کیا اب کی بار بھی ان پھولوں میں چھپ کر سبز چڑیا نے گھونسلہ بنایا ہوگا اور نئی اڑانیں بھرتا وہ ننھا سا بچہ جسے حریص کوے سے بچانے کے لئے کوئی ہلکان ہے کہ نہیں؟
سلام ڈاکٹر صاحب کیسے ہیں۔ کب آئے؟ وہ یک ٹک دیکھے جارہا تھا آنکھوں کی پتلیوں پر تھر کتی سال گزشتہ کی تصویریں۔ وہ تو کہٰں اوور ہی کھویا ہوا تھا کہ چند لوگ پاس آبیٹھے وہ چونک کر متوجہ ہوا۔ اور سب کا حال احوال لینے لگا۔
چل اوئے کاکاتوں دی سلام کر ڈاکٹر صیب نوں۔ اناں دے صدقے ٹریا پھر دا ایں نہیں تے حکیم صٰب نے تے ٹور دتا سی تینوں ۔
اس کے آگے دھرے اسٹول پر جلیبیاں اور گرما گرم چائے کا پیالہ رکھتے اپنے پیچھے چھپے کھڑے ننھے سے بچے سے کہا جو شرما کر سب سے الگ نظر آتے اس نوے پروہنے کو دیکھ رہا تھا۔
ارے نہیں یار ایسے مت کہو۔ بچانے والی ذات تو صرف اللہ کی ہے میں گناہگار کس قابل۔ اس نے گھبرا کر ٹوکا۔
بے شک تہاڈی گل سو آنے ، پر میرا اے پتر تے حکیم صاحب دی کلیمی دے ہتھے چڑھ جاندا ناں۔ جے تہن اللہ فرشتہ بناکر نہ بھیجدا۔ اے میرا اوہوئی بچہ ہے ڈاکٹر صیب جنہوں پچھلے والے ٹی بی ہوگئی سی اپنی ماں کو لوں۔
(بے شک آپ کی بات سولہ آنے لیکن میرا بیٹا تو حکیم صاحب کی حکیمی کے ہتھے چڑھ جاتا ناں اگر اللہ آپ کو فرشتہ بناکر نہ بھیجتا۔ یہ میرا وہی بچہ ہے ڈاکٹر صاحب جسے پچھلے سال ٹی بی ہوگئی تھی اپنی ماں سے)
اوہ۔ اچھا… اب کیسا ہے یہ؟
بالکل بھلا چنگا جی بڑا کرم اے اب سائیں دا۔
اور تمہاری بیوی؟
وہ بھی بالکل ٹھیک ہے جی۔ اُوسے ہسپتالوں دوالیاندے رہے سی۔ تہاڈے دسن مطابق چھ مہینے علاج کروایا۔ فیر اوہسپتال والیاں آکھیاں کہ ہن دوم دی لوڑ نیں میں صحت دا خیال رکھو تے خیراں ای خیراں۔
(اس ہسپتال سے دوا لاتے تھے آپ کے کہنے کے مطابق چھ ماہ علاج کروایا پھر ہسپتال والوں نے کہا اب دوا کی ضرورت نہیں میں صحت کا خیال رکھو تو سب ٹھیک ہے)
گڈ۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ اللہ انہیں اسی طرح صحت مند رکھے۔ تمہاری جلیبیاں اور چائے بہت مزیدار تھیں شکریہ۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا بیگ کاندھے پر ڈالاور جیب سے ایک سبز نوٹ نکال کر بچے کی طرف بڑھادیا جو بچے نے تو فوراً جھپٹ لیا مگر منشاء نے بہتری کوشش کی واپس کرنے کی وہ مسکر اکر چل پڑا۔
شام اپنی پوری تیاری کے ساتھ اترچکی تھی۔ اس البیلی نار کی جیسی جس نے خود کو سرخ غازے سے سجا رکھا ہو اور جس کی آنکھیں سیاہ کاجل بھری ہوں اور جب وہ اپنی ان مست آنکھوں سے کسی کو دیکھتی ہے تو اسے آپ ب ودانہ کی فکر بھلائے صرف واپسی کی لگن لگ جاتی ہے۔
بھوری، کالی، سفید بے شمار چھوٹی بڑی بطخیں جو سارا دن نہر کے پانی میں ڈبکیاں لگاتی رہی تھیں ۔اب وہ بھی ایک ایک کرکے باہر آرہی تھیں۔ گویا پلٹنے کا سفر شروع ہوچکا تھا اور کبھی کبھی سفر کتنا اوکھا ہوجاتا ہے ناں ہر ہر گام پر لگتا ہے پیروں تلے کانٹے بچھے ہیں اور اک اک کانٹا جیسے جسم سے روح کھینچتا ہے۔ دل پر لگنے زخم رسنے لگتے ہیں۔ اور کیا یہ زخم کبھی سل پائیں گے؟ اپنے ہی قدم گنتا وہ خود سے سوال کناں تھا مگر جواب کہاں سے آتا اندر تو گھورا اندھیارے بول رہے تھے۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});