اے شب تاریک گزر —- صدف ریحان گیلانی (پہلا حصّہ)

آواز تو اسی کی ہے۔ پچھلا نمبر تو بلاک کردیا تھا اب یہ نئے نمبر سے۔ اف بری مصیبت۔ وہ جھنجھلایا اور اسی عالم طیش میں کہہ گیا۔
مر جاؤ شوق سے ۔ اور ادھر وہ قل قل کرکے ہنسی۔
آئے ہائے ظالم مر ہی تو گئی ہوں تم پر۔ تم نے زندوں میں چھوڑا ہی کہاں ہے مجھے۔ بہت ہی بے حس ہو کسی بات کا اثر ہی نہیں ہوتا تم پر بس کردو۔ اب بے اعتنائی کے تیر چلانے اور کتنا گھائل کروگے۔ مرنے والے کو مارنے کا بہت گناہ ملتا ہے سمجھے۔ تمہاری اپنی اداؤں نے تو لوٹ لیا ہے۔ اتنی بے گانگی میرا ایک فون تک سننا گوارہ نہیں ہے تمہیں۔ جانتی ہوں بہت مصروف رہتے ہو مگر کیا چوبیس گھنٹوں میں سے ایک پل بھی اپنی داسی کو نہیں دے سکتے۔ میں تمہاری ہوں جری صرف تمہاری۔ کوئی غیر نہیں جو یوں خفا خفا سے رہتے ہو۔ تم یونہی کرتے رہے ناں تو میں سچ میں مرجاؤں گی کسی دن اور یہ میں بتادوں میرا خون ناحق اپنی گردن پر لے کر اک دن بھی سکھی نہیں رہ سکوگے تم ہاں…” وہ تو تن تنہا ہی جانے کن انتہاؤں تک جاچکی تھی لفظ لفظ میں بولتے جذبے۔ اور جرار کر اس کے یہی انداز سراسر گھٹیا اور عامیانہ لگتے تھے۔ عورت چاہے کتنی بھی محبت کی دعویدار ہو مگر مرد کو اس کی طرف سے اظہار ہمیشہ حیا کے پردے میں چھپا ہی اچھا لگتا ہے۔ بے دھڑک اور بے باک طریقے سے بیان کیا جانے والا حال دل اسے بیزار تو کرسکتا ہے مگر اپنے سحر میں گرفتار نہیں۔ مگر انتہائی کھلے ماحول میں پرورش پانے والی عروج نعمان کو یہ باتیں کون سمجھاتا۔ اس کے نزدیک اس میں کوئی برائی نہ تھی اور برائی تو کوئی نہیں ہوتی میں اگر کسی سے بھی کوئی رویہ روا رکھتے وقت ہم سامنے والے کے انداز فکر کی بھی پرواہ کرلیا کریں تو پھر یقینا بہتر نتائج مل سکتے ہیں مگر وہ ٹہری لاڈلی اور ضدی جو چاہا وہ پایا کی گھٹی لگی تھی یہاں بھی وہ اس گمان میں تھی لیکن سامنے بھی جرار ہمدانی تھا۔ جو جیتا جاگتا انسان تھا کوئی چیز نہیں۔
دونوں خاندانوں کے آپس میں دیرینہ تعلقات تھے ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا تو لگا ہی رہتا تھا اور وہ بچپن ہی سے بے حد کونفیڈنٹ اور بولڈ تھی جب بھی انکے ہاں آتی تو زرتاشہ کی کمپنی کے بجائے وہ اس کے پیچھے پیچھے پھرا کرتی وہ بہتری جان بچایا کرتا بلکہ اکثر تو حد درجے اوڑ بھی ہوجاتا لیکن اسے تو جیسے کسی بات کی پرواہ ہی نہیں ہوتی تھی اور اس کی اپنی حرکتوں کی وجہ سے جرار کو اس سے بے نام سی چڑ ہوگئی تھی اور اب وہ اس لڑکی کو اپنی زندگی میں شامل کرلیتا۔ تو وے ایسا تو وہ مر کر بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔ مگر بھلا ہو مما کا جنہوں نے جانے کس بات کا بدلہ لیا تھا اس سے اس کے ہزار واویلا کرنے کے باوجود خود جاکر عروج کو اس کے نام کی انگوٹھی پہنا آئیں تھیں۔ اور اب وہ مصیبت اس کی جان کو آرہی تھی۔ وہ تو اس کی کال بھی پک نہیں کرتا تھا۔ صرف اس کی وجہ سے دو بار نمبر تبدیل کیا اور وہ تھی کہ اپنے نام کی ایک جان چھوڑنے کو تیار نہیں، بہت ڈھیٹ ہے۔ اگر ذرا سی بھی عزت نفس ہوتی تو اب تک شرم کرلیتی۔ وہ دانت کچکچا رہا تھا۔ گھر سے بے گھر ہونا پڑا۔ مشکلیں جھیلنی پڑیں۔ اچھی بھلی زندگی تنگ کر ڈالی تھی اس چھچھوڑی لڑکی نے تو۔ مما نے بالکل اچھا نہیں کیا تھا اس کے ساتھ۔ وہ ان سے سخت خفا تھا اور اسے تو وہ کھری کھری سنانا چاہتا تھا مگر کچھ سوچ کر گریز کر گیا کہا تو صرف اتنا۔
عروج نعمان صاحبہ ایک بات کہوں آپ سے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”کہیے کہیے، آپ مجھ نا چیز سے بھی کچھ کہیں۔ واللہ میرے تو بھاگ جاگ گئے آج ۔ کہوں نا جری کوئی بھی میٹھی بات۔ میرے کان تو ترسے ہوئے ہیں تمہارے خوبصورت ہونٹوں سے ایک بھی محبت بھرا لفظ سننے کے لئے۔
بہت نوازش ہوگی اگر آپ عشقیہ ناول کم پڑھیں اور رومینٹک پکچرز کم دیکھیں۔ وہ انتہائی کلس کر بولا تھا ادھر وہ ہنستی چلی گئی تھی۔
اور مزید اس کی پھونڈی آواز برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں تھا۔ چپکے سے لائن ڈراپ کرکے اس نے دوسرا نمبر ڈائل کرلیا۔ فوری طور پر فون کو مصروف کرنے کا یہی طریقہ سوجھا تھا اسے۔ اور ادھر بیل ہورہی تھی کوئی چوتھی بار جاکر کہیں کال پک کی گئی۔
سوری بزی تھا ذرا کہو کیسے ہو آج کیسے یاد آگئی میری۔ لہجے کا بھاری پن ہی بتارہا تھا کہ اگلا کس قدر تھکا ہوا ہے۔
میں تو پھر بھی یاد کرلیتا ہوں۔ جناب کو تو اتنی بھی توفیق نہیں اور کیسا ہوسکتا ہوں۔ زندگی اجیرن ہوگئی ہے میر ی تو یار ۔ کچھ مت پوچھو مجھ سے۔ وہ تو پہلے ہی بھرا ہوا تھا پھٹ پڑا۔ ادھر بھی اک گہرا سانس لیا گیا خیریت ایسا کیا ہوگیا؟
سب بتاؤں گا بہت ٹھک گیا ہوں دل کرتا ہے کہیں چھپ جاؤں۔خوب سکون کروں۔ تم بھی اس قدر بزی رہتے ہو۔ تھک جاتے ہوگے اگر وقت نکال سکتے ہو تو چکر لگاؤنا کچھ دل مل کر بیٹھتے ہیں گپ شپ لگاتے ہیں۔ آکر ہماری زندگیوں پر کچھ ہمارا بھی حق ہے بھائی اور پھر ایک بہت ضروری کام بھی ہے تم سے۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن … ادھر وہ تذبذب کا شکار ہوا اور وہ بے اختیار ٹوک گیا۔
کوئی لیکن ویکن نہیں بہت عرصہ ہوگیا ملے ہوئے۔ بس ڈن۔ تم آرہے ہو ۔ کس دن یہ میں تمہیں صبح ہی فائنل کرکے بتاتا ہوں۔ تیاری کر رکھنا اوکے ٹیک ریسٹ پھر بات ہوگی۔ اس کی سنے بنا اپنی سنا کر اس نے کال ڈسکنیکٹ کردی اور بستر میں گھس کر اس کی انگلیاں دھڑا دھڑ میسج ٹائپ کررہی تھیں۔بے شمار ٹیکسٹ تھے جن کا جواب دینا ضروری تھا۔۔
”بہت تنگ کرلیا تم نے مجھے۔ بہت جان کھالی میری۔ میں نے بھی فیصلہ کرلیا ہے۔ اب اور نہیں ۔ بس اب میری باری۔ دیکھنا گن گن کر بدلے نہ لیے تو کہنا۔”
رات کے اس پہر مسکراتے لبوں اور چمکتی آنکھوں سے وہ کسی کو دھمکیاں لگا رہا تھا اور دور کہیں دو آنکھیں بھی جگمگا سی اٹھیں تھیں۔
٭…٭…٭
مادر رضیہ سلطانہ… آداب تسلیمات
باادب ، باملاحظہ، ہوشیار، سمجھدار، خبردار۔
مابدولت آپ کے خانہ غریب پر جلوہ افروز ہوا چاہتے ہیں۔ جالے لو اتار۔ بریانی کرو تیار، بزرگوار کی دونالی بندوق کروالو صاف، ہوگا سلسلہ شکار ، آپ کے بخت جاگیں گے دن چار ۔
کھی …کھی… کھی ۔ اتنا ہی پڑھ کر فرحت کے منہ سے قل قل کر تا قہقہہ ابل پڑا۔ پیٹ پر ہاتھ رکھے وہ دوبری ہوئی چلی گئی۔
اللہ آپا بی ۔ یہ پائی جی بھی نا بڑے ہی مخولے ہیں۔ بمشکل وہ ہنس کے فوارے پر قابو پاسکی۔
مخولہ؟؟ ارے مخولوں کا باپ کہو۔ کوئی ایک کل ہی سیدھی نہیں اس لڑکے کی۔ ہمیشہ ہی الٹی سیدھی ہی ہانکے گا اب یہی دیکھ لو کوئی ایک حرف بھی پلے پڑا ہو میرے بھلا بتاؤ اب کیا میں فیروزاللغات لے کر بیٹھ جاؤں یہاں۔ تخت نشین آپا ہی کو تو غصہ ہی چڑھ گیا تھا۔
”ہیں… فیروزة الغات یہ کیا چیز ہوتی ہے آپا جی۔” فرحت کے بھولے بھالے چہرے پر حیرت اتری۔ انہوں نے ناک سے پھسلتا چشمہ انگلی سے اوپر کیا تھا ساتھ اک ناگوار نظر اس پر ڈالی۔
اے جی دسویں کیا گھاس کھودنے میں کررہی ہو۔ فیروزة الغات کا نہیں پتہ۔ اچھا اب آگے دیکھو کیا لکھا ہے اس نے ۔ کوئی کام کی بات بھی ہے کہ نری بکواس ہے۔
اچھا جی۔ فرحت ہاتھ میں پکڑے موبائل پر جھک گئی۔
وہ لکھتے ہیں جی ۔ مائے سوئٹ، کیوٹ ، پریٹی، چارمنگ ، گورجیئس، گریس فل، بیوٹی فل اور میری پیاری دلاری ، لاڈو، خوبصورت ، دلنشین، دل افروز متوقع بیگم کی نانو ساس۔” اور فرحت کو پھر سے ہنسی کا دورہ پڑگیا اور ان کا چہرہ جو اتنے پیارے الفاظ پر (جو ان کی دانست میں ان کے لئے ادا کئے جارہے تھے) مارے حیا کے گلنار ہورہا تھا آخری لفظ پر آتے ہی انار بن گیا(کھانے کا نہیں بھئی جلانے والا) میں نہیں چلاتھا وہ لڑکا سامنے ہوتا اور وہ اس کے سر پر جوتا دے مارتیں۔
بے حیا، بے ہدایتا، بے شرم، ہائے ہائے دیکھو تو اس لڑکے کی باتیں، ذرا جو کوئی طور طریقہ ہو۔ پتہ بھی ہے میں آنکھوں کی اندھی۔ اب اتنی نظر کہاں کہ اس موبیل پر لکھا پڑھ سکوں۔ پرائی بچی سے ہی پڑھوانا ہوتا ہے۔ اور اس کو کوئی ڈھنگ کی بات ہی نہیں کرنی آتی۔ تیرے بڑے دانت نکل رہے ہیں۔ چل پرے دفع کر اس فتنے کو۔ اس کا تو ہے دماغ خراب اب میرا مت کرو۔ انہیں تو سچ میں ہی غصہ آگیا تھا فرحت کو بھی سنجیدہ ہونا پڑا۔
جری پائی کہہ رہے ہیں۔ ”وہ چار دن کی چھٹی پر آپ کے پاس آرہے ہیں اور آپ ان کے استقبال کی تیاریاں کرلیں۔ پورے گھر کی خوب صفائی کرلیں جالے لازمی اتارلیں۔ پچھلی بار بھی انہوں نے آکر سارے گھر کے جالے اتارے تھے وہ سخت خفا ہیں کہ ان کے لمبے قد کو ناجائز کاموں کے لئے ہرگز استعمال نہ کیاجائے اور نہ ہی وہ کوئی سگھڑ، سلیقہ شمار ، با حیا دوشیزہ ہیں جو دیواروں سے لٹک لٹک کر جالے بھی اتارے۔ جان لیا جائے کہ اس بار وہ ایسا کوئی کام نہیں کریں گے اور خاص تاکید بریانی میں وہ صرف سیلے کے چاول پسند کریں گے اگر جو آپ نے گزشتہ کی طرح سپریا چھپاسی کی بریانی پکانے کی غلطی کی تو وہ بولا دیگچہ اٹھا کر بطخوں کے کھڈے میں رکھ آئیں گے اور نانا جی کی وہ بندوق جو آپ نے بڑا سنبھال کر رکھی ہوئی ہے اسے بھی نکال کر چاچے کمہار سے صفائی کروادیں وہ ہر شام شکار پر جایا کریں گے اور جس طرح آپ نانا جی کے لئے جڑے، بٹیر، سھڑیں ، مرغابیاں بھونا کرتی تھیں ویسے ہی ان کے لئے بھی اپنے مبارک ہاتھوں سے مصالحے بنا کر رکھ لیں وہ رات میں صرف اپنے کئے شکار کا ہی گوشت تناول فرمائیں گے اور جتنے دن وہ یہاں رہیں گے ان کی لاڈلی دلاری بھوری مج کا دودھ ہر گز بھی دودھی (گوالے) کو دینے کی غلطی نہ کی جائے۔ وہ خالص اور تازہ خوراکوں کو ترسے ہوئے ہیں۔ ہوٹلوں کے گندے کھانے کھا کھا کر اب تو اکثر خودکشی کا خیال آتا ہے۔ اگر آپ کو ان سے محبت ہے اور آپ ان کی صحت کی فکر کرتی ہیں تو ان سب ہدایات پر عمل کیا جائے۔ مگر نہ نانا جی کی بندوق تو ہے ہی ذرا سی کوتاہی کی صورت میں وہ بالکل دریغ نہیں کریں گے اور یہ جان لیا جائے کہ یہ ایک سپاہی کا قول ہے اور یہ وہ سپاہی ہے جو اپنوں ہی کے ہاتھوں حالت جنگ میں ہے اور مجاہد کی مدد کرتا تویوں بھی کارِ ثواب ہوتا ہے۔ جنت حاصل کرنے کا نادر موقع ہے۔ سوگنوایا نہ جائے۔”
حاصل خلاصہ بیان کرنے کے بعد فرحت نے سراٹھایا تھا جبکہ وہ سر پکڑے بیٹھی تھیں۔
حد ہے بھئی۔ یہ لڑکا ہے کہ آفت ۔ پچھلی بار بھی کہا تھا کہ جو چھٹی منانی ہو سیدھا ماں کی طرف سدھارا کرو۔ وہ بھی ترس گئی ہوگی صورت کو۔ مگر نہیں اس نے تو میری ہڈیاں گھسانے کا سوچ لیا ہے ہیں۔ ارے اب وہ زمانے کہاں رہے جب کھڑے کھڑے پچاسیوں کام بنٹا لیتی تھی۔ اللہ بخشے میاں صاحب کو آئے دن دوستوں کی دعوتیں کرتے تھے۔ شکار کے حد درجے شوقین۔ شکار کا گوشت بھی ہوتا بازار سے الگ آتا وہ کھلاتے نہ تھکتے اور میں پکاتے اور ہاتھ میں ذائقہ بھی ایسا کہ کھانے والے انگلیاں چاٹتے رہ جاتے۔ کیا پلاؤ، قورمے، کباب، چڑے، بٹیرے، کھیر، فیرنیاںچٹکیوں کے کھیل ہوتے تھے سب سارا سارا دن چولہے کے آگے گذرتا تھا میرا، کپ ہاہ۔ اب تو نہ وہ دن رہے نہ وہ صحت ، اب تو دو گھڑی چولہے کے آگے کھڑی ہوجاؤں تو خون سرکو چڑھنے لگتا ہے مارے گھبراہٹ سے ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔ پانی پاس رکھنا بھول جاؤں تو رات کو اٹھا نہیں جاتا۔ اللہ اللہ کرتے سویر ہوجاتی ہے کسی فرشتے کے انتظار میں، جو آئے اور دو گھونٹ پانی کے پلا جائے۔ میں تو اپنے جوگی نہیں اور اسے دیکھو مجھ سے فرمائشیں کررہا ہے ایک ہزار ایک۔ بوڑھی نانی کی خدمت کسی نے کیا کرنی ہے الٹا یہ لوگ اپنی کرواتے ہیں۔ چل بیٹا مجبوراً اس موبیل کو ذرا تیز تیز ہاتھ چلاتے ہے ناں میتھی کو لکھنے میں کتنی دیر لگتی ہے آج تو تیری ماں بھی ادھر نہیں۔ روٹیاں بھی اپنی ہم نے خود ہی بنائی ہیں۔ پھر سبق والے بچوں کے آنے کا وقت ہوجائے گا۔ او ریہ جرار نے کب کہاں ہے آنے کا؟ میتھی کے ڈھنٹل سے پتے الگ کرتے وہ پوچھ رہی تھیں۔ یہ تو نہیں بتایا انہوں نے فرحٹ نے دوسری گٹھی اپنے پاس کرلی۔ اے لو اس کا مطلب وہ کسی بھی وقت آسکتا ہے۔ اس کے لئے تو پھر کچھ اور بناکر رکھنا پڑے گا یہ گھاس بھلا کب اترے گا اس کے حلق سے۔ وہ فکر مند ہوئیں۔
وقت تو کوئی نہیں لکھا آنے کا۔ پتہ تو ہے آپ کو وہ اکثر ہی اچانک چھاپا مارتے ہیں لیکن آپ پریشان نہ ہوں۔ آج آپ صرف چھوٹے بچوں کو سبق پڑھالیں۔ شیریں، فوزیل، گلشن جتنی بڑی لڑکیاں آئیں گی انہیں چھٹی دے دیں۔ میں انہیں ساتھ لگا کر سارے گھر کی صفائی کرلیتی ہوں ۔ جری پائی کا کمرہ تو خوب چمکادیں گے اور مصالحے پیسنے ہوں گے وہ بھی بتادیں ہم آج کے آج ہی پیس کہ رکھ دیں گے اور اگر وہ شام تک آگئے تو کھانا رشنا بھابھی سے پکوالیں گے۔
”ہیں… ہیں رشنا ارے نہیں بھئی تمہیں نہیں یاد اس کے پچھلے مہینے کے نخرے رشنا کے ہاتھ کی تو چائے تک اس کے ناک تلے نہیں آتی۔ اور وہ کیا پیتا ہے کالی سی موٹی کافی جو میں نے غلطی سے رشنا سے بنوادی تھی اور اس نے ذرا لحاظ کے بغیر چھتیس باتیں اس کے منہ پر ہی سنائی تھیں اور خود تو چلا گیا تھا پیچھے بہو رانی گھر سے منہ پھلائے رہیں۔” انہوں نے جھٹ اس کی تجویز رد کی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

خونی سایہ — عمارہ خان (تیسرا اور آخری حصہ)

Read Next

اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (دوسرا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!