اے شب تاریک گزر —- صدف ریحان گیلانی (پہلا حصّہ)

نہیں ایسی بات نہیں آپ کو پتہ تو ہے بابا۔ مما کو یونہی غصہ آجاتا ہے بس اب بھی ایسے ہی وہ جلدی سے وضاحت دینے لگی۔
اوکے اوکے۔ جانتا ہوں میں۔ حالانکہ کئی بار سمجھایا ہے ان خاتون کو کہ اتنا غصہ مت کیا کریں۔ جلدی بوڑھی ہوجائیں گی مگر نہ جی انہیں تو سمجھ ہی نہیں آتی ہر وقت کا غصہ اور پھر خواہ مخواہ کا غصہ۔ عادت ہے پرانی۔ ناؤ چیئر اپ ۔ پریشان مت ہو بس اپنا خیال رکھا کرو میرے بچے ۔ خوش رہا کرو۔ آپکو پتہ ہے ناں جب آپ اداس ہوتی ہو تو میں کس قدر فکر مند ہوجاتا ہوں۔ اچھا یہ بتاؤ تیاری مکمل ہے چلی جاؤ اپنی مما کے ساتھ ہلے گلے میں دل بہل جائے گا۔ اگر کوئی ڈیمانڈ ہے ڈریس وغیرہ چاہیے تو ابھی لے آتے ہیں جاکر۔
اوہنوں۔ بابا موڈ نہیں ہے ۔ آپ مما سے کہہ دیں نا پلیز۔ وہ ان کا ہاتھ تھام کر جس لجاجت سے بولی وہ مزید اصرار کر ہی نہ سکے۔
ٹھیک ہے جیسے میرے بیٹا خوش۔ اچھا اب یوں کرو۔ اچھے سے منہ ڈھوؤ ذرا پیارا سا بچہ بن کر آؤ پھر ہم باپ بیٹی گپ شپ کریں گے اور ڈلز بھی آپ کی مرضی کا مما کے جانے کے بعد ہم ملکر بنائیں گے۔ ٹھیک ہے ناں نفیسہ کو آتے دیکھ کر انہوں نے اسے وہاں سے اٹھانا ہی مناسب سمجھا تھا۔ وہ بھی تابعداری سے سرہلاتی اٹھ کر اندر کو چل دی۔
حالت دیکھی آپ نے اس کی پتہ نہیں کیوں ایسی لاپرواہ ہوتی جارہی ہے۔ پہلے تو اس نے کبھی ایسا بی ہیویر نہیں کیا کبھی میری کسی بات کو نہیں ٹالا۔ مگر اب تو جیسے کچھ سنتی ہی نہیں۔
تم بھی غصہ کم کیا کرو بچی نہیں ہے اب وہ۔ بڑی ہوگئی ہے کچھ تھوڑا سا اسے اپنی پسند سے بھی جینے دو۔ پھر چند عرصے کی تو مہمان ہے وہ یہاں ہوسکتا ہے یہی خیال اسے بے چین کرتا ہو۔ جرار بھی تو نہیں ہے ورنہ اس کے ہونے سے ہی گھر میں رونق رہتی تھی اب کوئی بھی تو نہیں جو اس کے ساتھ ٹائم سپینڈ کرے۔ تمہاری اپنی ایکٹی ویٹیز ہیں میری اپنی مصروفیات ہیں۔ وہ تنہا پریشان نہ ہو تو اور کیا کرے وہ جیسے بھی رہتی ہے جو کرنا چاہتی ہے کرنے دیا کرو۔ کہیں جانا نہیں چاہتی تو مت فورس کرو۔ کوشش کیا کرو وہ خوش رہے۔ وہ اس کی حمایت میں بولے تھے۔
ہاں تو اس کی خوشی کے لئے ہی چاہتی ہوں کہ وہ کمرے سے نکلے کہیں آئے جائے سب سے گھلے ملے۔ کل کو اس نے نئی زندگی کی شروعات کرنا ہیں۔ یہ آج کچھ طور طریقے سیکھے گی تو ہی ان سب کے ساتھ موو کرسکے گی ناں۔ اور یہ جرار کی بھی خوب کہی آپ نے اس کی شکل دیکھتی ہوں تو غصہ آتا ہے اور اسے سوچتی ہوں تو دماغ خراب ہونے لگتا ہے میرا۔ کیا نہیں کیا ان بچوں کے لئے۔ لاڈ میں پیار میں کبھی کوئی کمی نہیں رکھی میں نے ہر فرمائش پوری کی ہے ان کی کبھی کوئی خواہش ادھوری نہیں رہنے دی اور ایک بار صرف ایک بار کچھ چاہا کوئی فیصلہ کیا تو صاحبزادے میرے ہی آگے تن کر کھڑے ہوگئے۔
اب آپ خود بتائیں کیا برا ہے اس میں ایک اچھا خاندان، ویل سیٹلڈ فیملی اتنے ویل آرگنائزڈ لوگ، ہائی فائی سوشل سرکل آج کل تو یہی سب کچھ دیکھا جاتا ہے شادیوں کے لئے۔ انسان آگے کی طرف جاتا ہے بہتر سے بہترین کی تلاش کرتا ہے اور میں نے بھی یہی سب دیکھا تو کیا برا کیا۔ اور پھر عروج اتنی پیاری بچی ہے اور سب سے بڑی بات وہ اتنا پسند کرتی ہے جرار کو۔ جانے کب سے وہ تو دیوانی ہے اس کی اور شادی ہمیشہ وہاں کرنا چاہیے جہاں اگلے کو آپ کی چاہ ہو مگر وہ بیووقوف کچھ سمجھ ہی نہیں رہا۔ اور فاخرہ بھابھی نے کئی بار اپنے منہ سے اس رشتے کے لئے کہا تھا وہ تو اتنا خوش ہیں۔ پھر بھلا اتنے مان اور محبت سے کون کرتا ہے آج کل رشتے داریاں اچھا ہے ایک ہی خاندان ہے دونوں بہن بھائی جڑے رہیں گے ایک دوسرے کا احساس کریں گے آخر آپ سمجھاتے کیوں نہیں ہیں جرار کو چھوڑ دے خواہ مخواہ کی ضد ۔
صفیہ بوا چائے لے آئی تھیں ان کا دھیان ادھر ہوگیا۔ غیاث ہمدانی کے چہرے پر تفکر کے سائے لہرا رہے تھے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

تم کیا سمجھتی ہو ؟ کیا میں نے جرار کو سمجھایا نہیں ہوگا۔ ہر روز فون پر بات ہوتی ہے اس سے، کبھی نہ کبھی وقت نکال کر ملنے بھی آجاتا ہے اور ہر بار اس کا جواب یہی ہوتا ہے۔ ”اس زبردستی کی منگنی کو میں ہر گز نہیں مانتا۔”میں نے تمہیں اس وقت بھی سمجھایا تھا نفیسہ کہ ساری زندگی کا معاملہ ہے۔ سوچ سمجھ کر قدم اٹھاؤ مگر تم پر تو پتہ نہیں کیا جلدی سوار تھی۔ آناً فاناً تم نے سب طے کرلیا۔ میں نے تم پر بھروسہ کیا تھا کہ تم ان کی ماں ہو مجھ سے زیادہ بہتر سمجھ سکتی ہو ان کے لئے اب اگر جرار اڑا رہا اپنی بات پر تو پھر بتاؤ کیا کرلیں گے ہم۔ بیٹیاں سب کی نازک ہوتی ہیں کل کو خدانخواستہ عروج کسی مسئلے سے گذرے یا اس سارے معاملے کا اثر ذرتاشہ کی ذات پر پڑے تو میں تو بالکل برداشت نہیں کرونگا۔ تم نے دیکھا ہے ناں کتنی الجھی ہوئی رہتی ہے وہ ۔ ایسا انداز تو میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا اس کا مجھے ایسا کیوں لگتا ہے جیسے وہ خوش نہیں ہے۔ ایک بات بتاؤ نفیسہ بالکل سچ۔ یہ سب معاملات طے کرتے وقت تم نے اس کی رضا مندی تو لی تھی ناں کہیں ایسا تو نہیں کہ…
اوہو اب ایسا بھی نہیں آپ کیا کیا سوچنے لگے۔ وہ بیٹی ہے ہماری اور اچھی طرح جانتی ہو ہم اس کے لئے اس سے بہتر سوچ سکتے ہیں۔ عقل پر پتھر تو بس جرار کی پڑگئے ہیں اسے ابھی اندازہ نہیں ہے ناں کہ یہ فیصلہ آگے چل کر اس کے حق میں کتنی بہتری لاسکتا ہے۔ اچھا چھوڑیں یہ ساری باتیں آپ چائے پئیں ٹھنڈی ہورہی ہے۔ نفیسہ نے بھاپ اڑاتا کپ ان کے آگے رکھا وہ چپ چاپ اڑتے دھوئیں کو دیکھ رہے تھے۔
٭…٭…٭
آج کا دن انتہائی مصروف ترین رہا تھا۔ اللہ جانے آخر ہم اپنے ہی گھر سے غاصبوں کے ہاتھوں سے کب آزاد ہونگے۔ عام آدمی جس کی دن رات کی محنت کے بل پر یہ مٹی سونا اگلتی ہے۔ وہ بے چارا کسی بھی چوک پر بے گناہ بے یارو مددگار ہوس کے پجاریوں کے ہاتھوں اپنی جان گنوا بیٹھے تو کوئی اتنا فرق نہیں پڑتا۔ ”شدید مذمت” کا لفظ کہہ کر فرض ادا کردیا جاتا ہے اور جب مفت کی کھانے والوں میں سے کسی کو باتھ روم بھی جانا ہوتو مکمل سیکیورٹی اور پروٹوکول مانگتے ہیں۔ تف ہے ایسے معاشرتی نظام پر۔ ایسے حالات دیکھ دیکھ کر تو ہر پل ہی خون کھولا رہتا تھا۔ آج بھی ایسے ہی کسی بے حمیت انسان کی سیاسی سرگرمی نے انہیں وخت ڈال رکھا تھا۔
صبح چار بجے سے اٹھ کر وہ آن ڈیوٹی ہوا تھا شکر تھا کہ غیر وخوبی سب سیٹ رہا تو وہ سکھ کا سانس لیتا گھر کو بھاگا۔ بدحواسی ایسی چھائی تھی کہ پارکنگ میں بائیک لگا کر وہ لفٹ کی طرف جانے کی بجائے سیڑھیاں چڑھ گیا۔ ہانپتے کانپتے تیسری منزل پر جاکر احساس ہوا کہ یہ کیا کیا اپنے ساتھ؟ در فٹے منہ۔ اپنی حالت چیک کرلے پتر ذرا! اپنے آپ کو ہی ڈپٹتے وہ مطلوبہ دروازے کے آگے رکا۔ صد شکر تو یہ تھا کہ ڈنر کے لئے لی گئی اشیا خوردونوش وہ بائیک کے ہینڈ ل سے اتارنا نہ بھولا تھا ورنہ تو… دروازہ کھلتے ہی کھپ اندھیرا بوچنے کو بڑھا تھا دائیں طرف دیوار پر ہاتھ مارا تو ٹچ کی آواز کے ساتھ روشنی کا جھماکا سا ہوا جس کے پھیلتے ہی ہولناک اندھیرا ڈرپوک چوہے کی طرح دم دبا کر بھاگ گیا اور اجالا پھیلتے ہی جو منظر نظر آیا اس نے مزید طبیعت مکدر کر ڈالی۔ پورا لاؤنج بدسلیقگی کی اعلیٰ مثال پیش کردیا تھا۔ یہ چھوٹا سافلیٹ وہ تین دوستوںکے ساتھ شیئر کرتا تھا اور سب ہی بے حد مصروف شخصیات تھیں۔ دن بھر کی ٹف جاب کے بعد اتنی ہمت ہی نہیں بچتی تھی کہ واپسی پر سلیقہ شعار خاتون بھی بنا جائے میں جب کبھی موقع ملتا یا جو دوسرے لفظوں میں کچھ شرم کرلیتا تو کہیں نہ کہیں سے پھیلاوا سمٹ ہی جاتا تھا۔ شاپر سینٹرل ٹیبل پر رکھنے کے بعد وہ واش روم میں گھس گیا پندرہ منٹ بعد تو لیے سے سر رگڑتا باہر آیا تو لگتا تھا حواس کچھ بحال ہوئے ہیں۔
تاحال تینوں میں سے کوئی نہیں آیا تھا۔ چلو اچھی بات ہے ورنہ تو آدھے سے زیادہ کھانا تو وہی ہڑپ کرجاتے ہیں پیٹومل کہیں کے۔ وہ کچن کی جانب لپکا اور وہاں پھدکتی ٹڈیوں اور برتنوں میں متر گشت کرتے لال بیگ دیکھ کر ابکائی سی آنے لگی۔
”اوہ مائے گاڈ اتنی گندگی، چھی چھی یہ اچھی زندگی ہے بھئی۔ سارا دن گدھے کی طرح کام کرو آفیسرز کی جھڑکیا ں کھاؤ۔ جونیئرز پر رعب جماؤ اور گھر آؤ تو کوئی ایک گلاس پانی پلانے والا بھی نہیں، سارے کام خود کرو، کھانا بناوؑ، برتن دھو۔ بڑی مصیبت۔ چلو میرے پاس وقت نہیں تھا تو کسی دوسرے کمینے نے بھی کسی چیز کو ہاتھ لگانے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ پتہ نہیں کیا کرتے رہتے ہیں سارا سارا دن۔ ہڈحرام، کام چور کہیں کے، اب باہر سے ٹھونس ٹھانس کہ آجائیں گے اور پھر ادھر کہیں پڑ کر سوجائیں گے اور میں یہاں کیڑے چلیں چوہے ناچیں ان کی بلا سے۔ لگتا ہے کئی دنوں سے یہاں کسی نے جھانک کر بھی نہیں دیکھا۔ انتہائی آوازہ اور بدتمیز ہیں سب کے سب آئے ہائے تیری تو آتما ہی رل گئی ہے بیٹا۔ اور لات مار گھر کے سکون کو۔اب یہ سب تو بھگتنا ہی پڑے گا۔ ” خود اپنے ہی لتے لینے کی عادت اسے یہاں شفٹ ہونے کے بعد سے پڑی تھی نازوں پلے بچے جنہوں نے کبھی ہل کے پانی بھی نہ پیا ہو جب کبھی ان پر ایسا وقت آجائے تو انہیں بھی ایسے ہی پاگل پن کے دورے پڑنے لگتے ہیں جیسے کہ اسے۔
چار بہوؤں کی خوب چڑچڑی اور بدزبان ساس کی طرح دو چار برتن دھوتے خوب اٹھا پٹخ کی باقی ویسے ہی سنک میں پڑے چھوڑ دیئے اب وہ سارے کیوں دھوتا وہ سب کا نوکر تھا کیا۔ چائے بنانے کے لئے چولہے کی جانب آیا تو بے اختیار اپنے گھر کا چولہا دھیان میں آگیا۔ جو ہمیشہ ایسا صاف اور چمکتا دمکتا ہوتا جیسے ابھی خرید کر لاکر رکھا گیا ہو۔ جبکہ ادھر توبہ توبہ میل کی تہہ جمی ہوئی تھیں۔ بدبو کے بھپکے الگ اٹھ رہے تھے۔ جیسے تیسے چائے بناکر وہ فٹافٹ نکلا ادھر سے اور وہ سوچ چکا تھا آج ان تینوں کی ایک کراری ”بے عزتی” تو فرض ہے اس پر ۔
کھانا شروع کرنے سے پہلے وہ اپنا پرسنل نمبر آن کرنا نہ بھولا تھا۔ اور میل کے آن ہوتے ہی گویا کوئی پینڈورا باکس کھل گیا تھا کھٹ کھٹ کرتے کتنے ہی میسجز اور مسڈ کالز اب وہ ایک ہاتھ سے کھا رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے کھلا ”کھاتہ” چیک کررہا تھا۔ آخری ٹیکسٹ ذرتاشہ کا تھا لال انگارہ فیس کے ساتھ بے اختیار اس کی انگلیاں وہی نمبر پریس کرگئیں۔
مل گئی آپ کو فرصت۔ وہ جانے کس بات پر خار کھائے بیٹھی تھی سلام کے جواب میں تڑخ کر بولی۔
”کیا ہوا؟ کوئی بات ہوئی ہے کیا؟ اتنے غصے میں کیوں ہو؟ کیا رضیہ سلطانہ نے کچھ کہہ ڈالا؟” تصور کے پردے پر اس کا سرخا سرخ منہ مسکرانے پر مجبور کرگیا۔
”ہاں۔ ہاں ہنس لیں۔ خوب خوش ہوں۔ آپ کو کیا مسئلہ ہے۔ خوش نصیب ہیں اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ جہاں دل کیا چلے گئے ، کبھی جی چاہا تو کسی سے بات کرلی ورنہ کوئی پڑا رہے کہیں بھی مصیبت میں آپ کو کیا لگے۔” بولتے بولتے اس کی آواز بھیگ گئی تھی ۔ وہ بے چین ہوا۔
”ذرو، تاشے ، گڈی، دیکھو رونا نہیں پلیز میں اتنی دور سے تمہارے آنسو صاف نہیں کرسکتا۔ مجھے بتاؤ جلدی سے کیا ہوا ہے۔ کوئی بات ہوئی ہے گھر میں۔ کسی نے کچھ کہا ہے۔ پریشان ہو۔” وہ تابڑ توڑ سوالات کئے گیا۔
”کیا بات ہوسکتی ہے۔ کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ آپ کو پتہ ہے سب آپ ایسے کیوں کررہے ہیں بھائی۔ آ پ کیا سمجھتے ہیں یوں سامنے سے ہٹ کر آپ اپنی بات منوالیں گے۔ مما تو آپ کا بھی سارا غصہ مجھ پر اتارتی ہیں۔ کب تک ضد کریں گے ان کے ساتھ ۔”
”جب تک دم میں دم ہے۔ میں کوئی کاٹھ کا الو نہیں کہ جہاں بٹھادیں بیٹھ جاؤں۔ جہاں باندھ دیں بندھ جاؤں اور نہ ہی میں کوئی ڈرپوک، بزدل، بیوقوف میں ذرتاشہ ہمدانی ہوں جو ان کے اشاروں پر آنکھیں بند کرکے چل پڑوں (اُوف)یہ میری زندگی ہے اور میں اب کوئی بچہ نہیں رہا کہ جو اپنے لئے اچھے اور برے میں تمیز نہ کرے۔ گ ھر ہی آنا ہے میں نے اور میں تو ضد کر ہی نہیں رہا یہ مما ہیں جنہوں نے بے کار کی رٹ لگا رکھی ہے۔ وہ آج اپنی بات چھوڑ دیں میں ابھی واپس آجاتا ہوں تمہیں کیا خبر میں کیسے رہ رہا ہوں یہاں اور پھر جرار نے کچھ ایسے انداز میں نقشہ کھینچا وہ اپنا درد بھول کر اس کی فکر میں غلطاں ہوگئی۔ ہائے بھائی آپ فوراً نکلیں وہاں سے، چھوڑدیں سب باتیں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ آپ گھر آجائیں بس۔
ہاں ہاں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میں بھی گھر آجاؤں گا۔ یوڈونٹ وری اور بھئی تم نے تو میرا کھانا ہی ٹھنڈا کروادیا چلو اب سوجاؤ پھر بات کرتے ہیں ہاں گڈ نائٹ ابھی فون رکھا بھی نہ تھا کہ بیل ہونے لگی سارا دھیان تو سامنے رکھے پیزا کی جانب تھا بنا دیکھے کال ریسیو کرلی۔
ہاں اب کیا ہوا تاشو۔
تاشو نہیں جناب ۔ یہ میں ہوں۔ آپ کی مسزز ہے نصیب کہ آج مجھ غریب کی بھی سنی گئی میرا تو مور بن کر ناچنے کو جی چاہ رہا ہے۔ کاش میں کسی سلطنت کی شہزادی ہوتی تو اس پل خزانوں کے منہ کھول دیتی۔ اف… اف اتنی خوشی کہیں مر ہی نہ جاؤں میں۔ بے تحاشہ سرشاریت سے مزین یہ لہجہ کس کا ہوسکتا تھا بھلا جررار کی تو آنکھیں ہی پوری کھل گئیں انداز و الفاظ پر سیل فون سامنے کرکے دیکھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

خونی سایہ — عمارہ خان (تیسرا اور آخری حصہ)

Read Next

اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (دوسرا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!