اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (تیسرا اور آخری حصّہ)

مہینے کے آخری دن تھے آسمان کی گود بانجھ عورت کے جیسی ویران پڑی تھی۔ رات نے گھور سیاہ چادر چہار اور تان رکھی تھی پوری فضا میں عجب سا سکوت چھایا تھا۔ صفیہ بوا نے اس کے کہنے پر سب فالتو بتیاں بجھادی تھیں صرف گیٹ کا مرکزی بلب جلتا چھوڑ دیا تھا جس کی روشنی پورے لان کے لئے تو نہایت ہی ناکافی تھی۔ بس دور اک دائرہ سا چمک رہا تھا اندھیرا کچھ اور گہرا لگنے لگا۔ تازہ ہوا کی سرگوشیاں بڑی بھلی محسوس ہورہی تھیں ایک سرے سے دوسرے سرے تک کئی چکر کاٹ ڈالے پھر تھک کر وہ وہیں کوریڈور کی اترتی سیڑھیوں کے پہلے قدمچے پر بیٹھ گئی تھی۔ ستون سے لپٹی بیل سے ہوا کی اٹھکھیلیاں جاری تھیں۔ دن میں تروتازہ نظر آنے والی پھول اپنی ایک روزہ زندگی پوری کئے اب جھڑجھڑ کررہے تھے کیا نصیب ہوتا ہے ان پھولوں کا بھی شاخ پر رہیں تو زندہ رہتے ہیں خوبصورت لگتے ہیں اپنی جگہ چھوڑتے ہی مرجھا جاتے ہیںپتی پتی بکھر جاتی ہیں۔ یہ کیسا عشق ہوتا ہے ان کا اپنے مسکن سے جو انہیں اگلا سانس نہیں لینے دیتا۔
اور کیا عشق ایسا ہی بے درد ہوتا ہے جہاں ڈیرہ جما لیتا ہے وہاں پھر کسی کو ٹکنے نہیں دیتا۔ اطمینان، سکون ، سکھ سب کے سب اس کے آتے ہی ہجرت کرجاتے ہیں۔ جانے کہاں کہ پھر کہیں سے ان کا نشان نہیںملتا۔ وہ ایک ایک پھول اٹھا رہی تھی ملگجے اندھیارے میں چن چن کر پلو میں سمیٹتی سودانن سی لگ رہی تھی اس مشغلے میں اتنی مگن تھی کہ خبر ہی نہ ہو پائی کوئی دھیمے قدموں سے چلتا سامنے آکھڑا ہوا ہے۔ وہ ناکافی روشنی بھی گل ہوئی۔ سامنے اک دیوار سی اُگ آئی تھی اس نے یکدم سراٹھا کر دیکھا اور ڈر گئی۔ کیا گمان اتنے غالب آنے لگے ہیں کہ حقیقت لگنے لگیں۔ گھبرا کر اٹھی پلو ہاتھ سے سرک گیا سارے پھول آنے والے کے قدموں میں پڑے تھے۔
شکریہ… اتنے بہترین استقبال کے لئے۔ مگر یہ اتنا اندھیرا کیوں کررکھا ہے اور اس وقت پودوں کے نیچے بیٹھی ہو۔ ٹھیک ہے ان سے محبت اپنی جگہ مگر یہ کیا کہ رات کو بھی ان کے سائے میں بیٹھا جائے کوئی کیڑا مکوڑا کاٹ گیا تو… اور رات میں تو یہ نائٹروجن گیس خارج کرتے ہیں۔ جو صحت کے لئے سخت نقصان دہ ہوتی ہے۔ بیمار پڑنے کا ارادہ ہے کیا۔ ارے بھئی اب اگر آپ کی ڈاکٹر خالہ آپ کے گھر آہی گئی ہیں تو انہیں روکنے کے لئے کوئی اور بہانہ گھڑلو مگر اس طرح اپنی جان کا دشمن بننا کوئی عقل مندی تو نہیں۔” وہ مسکرایا تھا اور اندھیرے میں جگمگ کرتی اس کی جگنووؑں سی آنکھیں سارا منظر روشن ہوگیا تھا ۔ کیسی رات؟ اسے لگا وہ صبح کے اجالوں میں گھر گئی ہے نظر ہٹ ہی نہ سکی۔ وہ ادھر ادھر دیکھ رہا تھا سامنے ہی بورڈ تھا جس کے سوئچ موتی کی طرح چمک رہے تھے۔ ابتہاش نے بڑھ کر لائٹس آن کردیں۔
و ہ بت بنی کھڑی تھی پلو ابھی تک فرش کو چھو رہا تھا۔ الجھی بکھری لٹوں کے درمیان زردی مائل چہرہ آنکھوں کے گرد پڑے حلقے بناپوچھے ہی سب کہانی سنارہے تھے۔ اس کا حال نظر آ ہی رہا تھا مگر ازراہ گفتگو پوچھ لیا۔
”کیسی ہو؟ ” اور اس کے جی میں آئی تھی پوچھے ۔ ”خود ہی دیکھ کر بتاوؑ کیسی لگ رہی ہوں۔”
جن کے دل اجڑ جاتے ہیں و ہ کیسے لگ سکتے ہیں؟ برہنہ پا جو راہ پر خار طے کر آئیں ان کی حالت کیسی ہوسکتی ہے؟ اس کے ایک مختصر سوال نے بہت سے سوالوں کے لئے در کھول دیئے تھے۔ مگر کہا تو بس اتنا۔
”آپ کب آئے؟”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”جب کسی نے بہت چاہ سے پکارا تب میں آگیا۔” سینے پر بازو باندھتے پلر سے ٹیک لگائے۔ نظریں اس کی لابنی پلکوں پر ٹکادیں۔ جو اس کی بات پر اوپر کو اٹھی تھیں۔ دو قندیلیں جگمگائیں پھر یکدم بجھ گئیں۔ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں الجھی تھیں وہ چہرہ جھکا گئی۔
”سب اندر ہیں۔” گویا اطلاع دی۔
”تو میں کیا کروں۔ مل لیا سب سے۔ بس اک تم ہی کہیں نظر نہیں آئیں۔ اور تمہیں تو شاید یہ بھی علم نہ ہو شام سے آیا ہوا ہوں۔ آپابی نے بلوایا تھا کہہ رہی تھیں بہت ضروری کام ہے۔ اب تم سے کیا پوچھوں جسے گھر آئے مہمان کی خبر نہیں ہوتی کسی اور بات کی کیا ہوگی۔ ویسے ہوسکتا ہے آپا بی نے بتایا ہو تمہیں کچھ سن گن تو ہوگی کہ کیا کام ہوسکتا ہے انہیں مجھ سے؟” اور وہ ایک بار پھر منہ اٹھائے دیکھ رہی تھی۔
آپا بی تو سارا دن اس کے ساتھ ہی ہوتی تھیں مگر اس طرح کا تو کوئی تذکرہ نہیں کیا تھا انہوں نے۔ بے خیالی میں انگلیاں چٹخا رہی تھی۔ ابتہاش کو جانے کیا ہوا ہاتھ پکڑ لیااور اپنے سامنے پھیلائے کسی اعلیٰ پائے کے پامسٹ کی طرح دیکھنے لگا وہ اس جرات بھری بے تکلفی پر دنگ رہ گئی۔ بڑے بڑے مضبط ہاتھوں کے درمیان ننھا سا ہاتھ بالکل سرد پڑ گیا تھا دھڑکن بے ربط ہاتھ کھینچنا چاہا مگر کھینچ نہ سکی جبکہ ادھر گرفت بھی ایسی سخت نہ تھی مگر شاید وہی کمزور پڑگئی تھی۔ ادھر وہ پوری فرصت سے کچھ کھوج رہا تھا۔
”آپ نے کیا ڈاکٹر چھوڑ کر پامسٹری اپنالی ہے۔” اتنی عمیق نگاہی اپنی ہتھیلی پر جمی دیکھ کر وہ کہہ ہی گئی۔ نرمی سے ہاتھ چھڑوایا۔ ابتہاش کے چہرے پر بے نام سی سنجیدگی تھی۔
میرا ڈاکٹری تو کیا اور بہت کچھ چھوڑنے کو جی چاہتا رہا جبکہ میں نے کوئی وعدے کوئی دعوے نہیں کئے تھے مگر جانے کیسے تھے وہ لمحے جو میرا دل پایہ زنجیر کرگئے تھے۔
میںسوچتا تھا جب میرا نصیب ہی نہیں تھا تو وہ لمحے میری زندگی میں آئے ہی کیوں۔ میں شدید فرسٹیڈ ہوچکا تھا۔ میری لائف بے حد پرسکون تھی مگر صرف ایسے چند دن جو تمام چین اڑا کرلے گئے۔ پہلے مجھے کبھی وقت خالی نہیں لگتا تھا مگر پھر یوں ہوا کہ خود کو مصروف رکھنے کے لئے بہانے تلاش کرنا پڑے۔ میں خاک چھانتا پھرا راتوں کو نیند نہ آتی تو موویز دیکھنے لگتا دن گزرنا مشکل ہوتا تو کتابیں پڑھتا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر مشہور ناول نگاریں کے ناولز پڑھ ڈالے۔ میرے اسٹڈی روم میں جہاں صرف میڈیکل سے ریلیٹڈ بکس ہوتی تھیں اب وہاں ایک پوری شیلف ٹوٹلی ڈفرنٹ کلیکشن سے سج گئی ہے۔ ہاں اس سے یہ بھی ہوا کہ مجھے اچھی طرح سمجھ آگئی کہ جو گناہ آپ نے کئے نہ ہو ں اگر ان کا بھگتان بھرنا پڑجائے تو روح کیسے اس بوجھ تلے کچلی جاتی ہے۔ آنکھوں میں اسے درد کے کانٹے چبھ جاتے ہیں کہ نکالے نہیں نکلتے۔ دامن دل ایسا تارتا ہوتا ہے کہ سب رفو گری بے اثر ٹھہرتی ہے۔ آپ کو اپنا آپ ایسے ملزم سا لگنے لگتا ہے جسے بے خطا کال کوٹھڑی میں ڈال دیا جائے۔ بے آب وگیاہ صحرا کے سفر پر نکلتا اس سے کہیں آسان ہوتا ہوگا۔ جس راستے پر مجھے ڈال دیا گیا۔ بہت اذیت کاٹی ہے میں نے بہت تڑپا ہوں زرتاشہ سچ میں۔” بلب کے گرد بے تابی سے لپکتے اورہ لپک لپک کر چک پھیریاں کھاتے پتنگے دیکھتا وہ بول رہا تھا۔ وہ ایک پل کے لئے بھی اس کے چہرے سے نگاہ نہیں ہٹا پائی کچھ ایسا تھا ان آنکھوں میں کہ وہ ساکن رہ گئی۔ د ل موم سے بھرا پیالہ بن گیا تھا اور قطرہ قطرہ چھلکنے لگا۔ اس پر بیتی کتھا وہ کیسے جانتا تھا بے جرم سزا تو اس نے بھگتی تھی یہ سارے درد تو اس کے تھے اور لفظوں میں وہ ڈھال رہا تھا۔ وہ اپنی کہہ کر چپ کر گیا تھا اور اس کے پاس کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا۔ کیا دکھوں کی مماثلت یونہی زبان کنگ کردیتی ہے۔ اس کی بھی چھاگل لبالب بھری پڑی تھی مگر اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ اس کی اوک میں الٹ دیتی پلکوںپر اترتی نمی چھپانے کو بے اختیار رخ پھیر گئی تھی۔ ابتہاش کی زیرک نگاہ نے دیکھ لیا تھا وہ گھوم کر سامنے آیا۔
پتا ہے کیا پچھلے دنوں اک بہت مزے کی کتاب ہاتھ لگی علم نجوم سے متعلق۔ بہت زیادہ تو نہیں لیکن تھوڑا تھوڑا سمجھ سکا میں۔ ابھی تمہارے ہاتھ کی لکیروں کو پڑھنے کی کوشش کررہا تھا۔ ان لکیروں میں صاف لکھا ہے۔ بہت پیار کرتی ہو ناں اس سے۔” اور وہ دھک سے رہ گئی۔ بے ساختہ منہ سے نکلا ۔
”کس سے۔” اس نے شانے اچکادیئے۔
”وہ تو تم نے پڑھنے ہی نہیں دیا اب یہ تو تم بتاؤگی۔”
اور زرتاشہ کی نبضیں رک رک گئی تھیں۔ وہ کیا سمجھ رہا تھا۔ اس کی حالت زار سے کیا اندازہ لگایا تھا اس کی آنکھوں میں لکھی تحریر کو وہ کیا عنوان دے رہا تھا۔ کیا دنیا کے فسانے اس تک بھی پہنچے تھے۔ اسے اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا۔ وہ بہت کچھ سہہ گئی تھیں۔ بڑے بڑے زخم چپ چپتے برداشت کرلئے تھے۔ مگر یہ ایک پل اتنا بھاری لگا کہ سب ضبط کھونے لگا ۔ ٹپ ٹپ کرتے کئی آنسو رخساروں پر آن گرے تھے۔ پھر تو قطاریں لگ گئیں ۔ ابتہاش کے معاملہ سمجھنے تک وہ بھل بھل رو رہی تھی۔
”اوہ مائے گاڈ۔ زری۔ زرتاشہ۔ کیا ہوا ہے۔ کیوں رو رہی ہو۔ واٹ ہیپنڈ یار۔” وہ سخت بوکھلایا اور اس کے ہاتھ سے تو سب ہی طنابیں چھوٹ سی گئی تھیں۔ سارا زمانہ باتیں بناتا۔ فسانے گھڑتا۔ انگلیاں اٹھاتا۔ جو چاہے کہتا مگر وہ… اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ ابتہاش کے ہاتھ پیر پھول گئے۔
”اوہو۔ دیکھو پلیز رونا بند کرو۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ اچھا سنو میری کوئی بات بری لگی ہے ۔ تو سوری۔ میں کان پکڑ تا ہوں یار۔ مگر تم رونا تو بندکرو۔” وہ منتوں پر اتر آیا اسے کیا خبر تھی ناولٹی ہیرو بننے کے چکر میں کیا گیا ذرا سا مذاق یوں گلے پڑجائے گا۔ ورنہ کرنے سے پہلے توبہ کرلیتا۔ اس کے بے دریغ بہتے آنسو سیدھے دل پر گر رہے تھے۔ وہ گھبرا کر وضاحتیں دینے لگا۔
”اچھا… اچھا زری سنو… میںنے بتایا ہے ناں کہ ناولز کی بہترین کلیکشن ہوگئی ہے میرے پاس اب کس کس رائٹر کی سچ میں سب نام بھول گیا ہاں تم دیکھو گی تو خوش ہوجاؤ گی۔ اور سنو میں نے تو یہ بھی سوچ لیا ہے کہ واپس جاکر کس ستون کے ساتھ سنچیریا کی بیل لگانی ہے تمہیں اچھی لگتی ہے ناں۔ اور پھر تم نے شام کو میرے لئے پھول بھی تو چننے ہوا کریں گے اور میں پورے لان میں لبرڈ ہاؤسز بھی لگا دونگا۔ تاکہ جب کبھی آندھی آئے تو تمہاری پیاری چڑیوں کے انڈے نہ ٹوٹیں۔ ٹھیک ہے ناں۔ اور تمہیں کچن میں کام کرنا پسند نہیں تو کوئی بات نہیں صبح کی چائے میں خود بنایا کرونگا اور دیکھو میں تمہارے لئے اتنا کچھ کرونگا تو خدارہ تم میرے لئے یہ رونا بند کردو۔” اور اس کی پوری آنکھیں کھلی تھیں مارے استعجاب کے نمکین قطرے ٹھٹھر سے گئے تھے۔ ابتہاش نے ان قیمتی موتیوں کو نہایت نرمی اور محبت سے اپنی پوروں پر چن لیا۔
آپابی اور سب کا تو خیال تھا کہ ہماری منگنی کردی جائے مگر میں نے صاف کہہ دیا میں نکاح سے کم پر راضی نہیں ہونگا۔ یہ امید ہی ہوتی ہے جو ہمیں زندہ رکھتی ہے وگرنہ ٹوٹی آس تو وہ رسی ہوتی ہے جو گلا ہی گھونٹ ڈالے اور میں بھی اسی کے سہارے بچا رہا جانتا تھا میرے جذبے کا ذب نہیں ہیں۔ اب دیکھ لو تمہارے سامنے ہوں اور اے میرے خوابوں کی بے خبر شہزادی۔ بے شک پچھلی راتیں اندھیری تھیں مگر انہیںاک بھیانک خواب سمجھ کہ بھول جاوؑ اور اپنے آس پاس کی خبر لو۔ ان شاء اللہ کل کا سورج ہمارے لئے زندگی کی نئی نوید لائے گا۔ ابتہاش کی آنکھوں میں ان گنت جذبوں کے دیپ جل رہے تھے لہجہ ان کہی داستانیں سنا رہا تھا۔ زرتاشہ روتے روتے ہنس دی۔
اور رات کے ماتھے پر چاند کا جھومر نہیں تھا۔ مگر اک چاند بدلیوں سے نکلا تھا اجلااور خوبصورت ہنستا ہوا۔ جس کی چاندنی تمام عمر کے لئے کافی تھی۔
وہ بہت دیر سے کمرے میں نہیں آئی تھی آپا بی نے ابھی اسے خوشخبری بھی سنانا تھی۔ وہ اسے تلاشتے ہوئے آئی تھیں کہ سنچیریا کی بیل تلے دو دیوانوں کو دیکھ کر وہیں رک گئیں۔ محبت کے پھول ان پر ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہے تھے۔ اماوس کی رات کو ان کے چہروں سے پھوٹتی میناوؑں نے اجال رکھا تھا۔ بس نور کا تڑکا پھیلنے کو تھا وہ وہیں سے پلٹ گئیں۔ اک اطمینان بھری مسکراہٹ ان کے لبوں پر پھیلی تھی اور دل ان کی دائمی خوشیوں کے لئے دعا گو۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (دوسرا حصّہ)

Read Next

نیا قانون — سعادت حسن منٹو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!