اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (تیسرا اور آخری حصّہ)

لنچ ٹائم تھا صباحت کھانے کا کہنے آئی تھی۔ صفیہ بوا آجکل خوب مزے میں تھیں وہ اچھی ہیلپر ثابت ہوئی تھی ان کے لئے۔ تربیت ہی ایسی تھی فارغ رہ ہی نہیں سکتی تھی۔ پھر یہ لگن کہ جن حالات میں یہاں آئی تھی اب سب کے دل میں جگہ بنانا تھی۔ موقع اوپر والے نے فراہم کردیا تھا اور وہ روایتی نسخہ آزمارہی تھی۔
”کھانا بھی کھا لیتے ہیں ابھی دیر کتنی ہوئی ہے تمہارے ہاتھ کے مزیدار پراٹھے کھائے ہوئے۔ تم یہاں آوؑ بیٹھو ہمارے پاس۔” سجیلہ نے اپنے قریب جگہ بنائی اور اسے انکار تو آتا نہیں تھا بیٹھ گئی۔
سچی بات ہے آپا۔ ماشاء اللہ بہت خوش قسمت ہیں آپ۔ اتنی پیاری بہو ملی ہے آپ کو۔ میں تو اس کے حسن سلیقہ کی قائل ہوگئی آپ کی غیر موجودگی میں کتنے اچھے سے سارا گھر سنبھالے رکھا۔ محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ پہلی بار یہاں آئی ہے۔ پھر آپ کے لئے مزے مزے کے کھانے بنا بنا کر ہاسپٹل لاتی رہی۔ ہم سب کی خدمتوں سے زیادہ تو اس کے ہاتھوں کے ہیلدی فوڈز نے آپ کی صحت بحال کی ہے۔ یقین جانیں۔ وہ بہت پیار کے ساتھ خود سے لگائے کہہ رہی تھیں۔ صباحت کا سیروں خون بڑھ گیا۔ اپنی یہ ڈیسنٹ سی خالہ ساس بے حد اچھی لگی تھیں اسے۔ اس کی تو خوب گپ شپ رہی تھی ان کے ساتھ۔ اچھی خاصی دوستی بن گئی تھی۔ قدم قدم پر انہی سے حوصلہ اور راہنمائی لیتی رہی تھی وہ ۔ ان سے پوچھ پوچھ کر پرہیزی کھانے بناتی رہی اور وہ کتنے آرا م سے سب کریڈٹ اسے دے رہی تھیں۔ اسے بے اختیار ان پر پیار آیا۔
وہ ایک سمجھدار اور سلیقہ مند لڑکی ہے یہ سب تو نفیسہ محسوس کررہی تھیں۔ وہ جن حالات میں ان کے گھر آئی وہ طریقہ یقینا غلط تھا۔ مگر جرار کی پسند بری نہ تھی ۔ یہ تو وہ بھی جان چکی تھیں لیکن بس ماننے میں ایک ہلکی سی لکیر آڑے آرہی تھی۔ وہ جرار سے خفا نہیں تھیں اور ہو بھی نہیں سکتی تھیں کیونکہ اس نے یہ سب کچھ کیوں کیا تھا وہ اچھی طرح سمجھ چکی تھیں۔ غیر ارادی ان کی نظر صباحت کے نکھرے ستھرے سادہ چہرے پر تھی۔ شلوار قمیض میں ملبوس بڑا سا دوپٹہ قرینے سے پھیلا کر سر ڈھانپے وہ نہایت سنجیدہ سی لگ رہی تھی اور آنکھ دل کا آئینہ ہوتی ہے۔ اندر کے سب بھید منعکس ہوجاتے ہیں۔ زبان کچھ نہ بھی کہے مگر نظر بن کہے ہی سب کہہ جاتی ہے۔ سجیلہ نے سرشاری سے صباحت کو دیکھتے ہاتھ دبا کر حوصلہ بڑھایا تھا۔ وہ مسکراتی ہوئی ان کے پاس جا بیٹھی بڑے لاڈ اور مان سے شانے پر سر ٹکا دیا۔ بہت خوبصور ت منظر تھا آپا بی کو یک لخت کمی سی محسوس ہوئی ان کی لاڈلی مینا کئی دنوں سے گم صم تھی۔ میں گھڑی دو گھڑی ماں کے پاس آئی خیر خیریت پوچھتی اور پھر سے اپنے کمرے میں گم۔ وہ خود اٹھ کر آئیں۔
کھلی کھڑکی سے شخر دوپہر کی دھوپ چھن کر اندر آرہی تھی۔ جب اندر صحرا اگ آئے تو پھر باہر کے موسموں کی شدت بے اثر ہوجاتی ہے۔ وہ بھی گرمی کے احساس سے عاری اپنے ہی دھیان میں کھلے پٹ سے سرٹکائے کھڑی تھی۔ آپابی نے دکھ سے پیشانی پر چمکتے قطرے اور خشک آنکھیں دیکھیں۔
بالکل ہی لاپرواہ ہوگئی ہو زرتاشے پتر۔ یہ بھی کوئی بات ہے بھلا۔ کس دھیان میں ہو۔ دیکھو تو کتنی دھوپ آرہی ہے ہٹو یہاں سے۔ انہوں نے کھڑکی بند کی اور ہاتھ پکڑ کر صوفے تک لے آئیں۔ چادر سے چہرہ صاف کیا وہ اچھی طرح جانتی تھیں وہ اتنی اپ سیٹ کیوں ہے۔ ابھی کل شام ہی تو نفیسہ کی کئی سہیلیاں عیادت کو آئیں تھیں اور وہ دکھتے دل پر تسلی کے پھاپے تو کیا رکھتیں الٹا درد ہی بڑھاگئیں۔ وہ تو یوں بھی کمرے سے بہت کم نکلتی تھی بس شومئی قسمت کہ لان میں جا بیٹھی کہ واپسی پر وہ اس کے پاس رک گئیں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

بس بیٹا۔ حوصلہ کرو۔ دکھ سکھ تو آتے ہی رہتے ہیں انسان کی زندگی میں۔ کسی بھی ایک دکھ پر زندگی ختم تو نہیں ہوجاتی۔ عروج سے سبق سیکھو ذرا جو اس نے پرواہ کی ہو۔ میری فریا سے خود کہہ رہی تھی کہ جرار کی اوقات ہی اتنی تھی جو وہ بیاہ لایا ہے۔ میرے لائق تھا ہی نہیں وہ۔ میں تو ایسوں کو جوتے کی نوک پر رکھتی ہوں۔ میں اب اپنی حیثیت کے مطابق بندے سے شادی کرکے دکھاوؑں گی۔ تم بھی دفع کرو سفیر کو… کوئی آخری تو نہیں تھا دنیا میں جو روگ لگارہی ہو خود کو۔ مانا کہ یہ عمر ہوتی ہے ایسی ہے جو نقش اک بار دل پر ثبت ہوجائے وہ پھر مشکل ہی سے مٹتا ہے بتارہی تھیں مسز نعمان کہ سفیر کے رشتے کے لئے نفیسہ کو تم نے خود مجبور کیا تھا۔ کیا یہ سچ ہے؟ وہ بآواز بلند سرگوشی میں اس سے پوچھ رہی تھیں۔ وہ دق ان کا چہرہ تک رہی تھی۔ ارے بھئی آجکل کی اولاد ایسی ہی خود سر ہوگئی ہے۔ سب کی اپنی من مرضیاں ہیں سب کو اپنے اپنے مفاد کی پڑی ہے۔ نفسانفسی کا دور ہے کوئی کسی کے لئے نہیں سوچتا چلو اس کی مرضی تھی ماں نے مان لی تو جرار بھی مان لیتا تو یہ سب کچھ تو نہ ہوتا۔ دوسری آنٹی تاسف سی سرہلارہی تھیں۔
بس جو کچھ بھی ہوا اب تم دل سے مت لگاؤ بیٹا۔ اتنا پیارا رنگ روپ ہوتا تھا تمہارا دیکھو تو اب کیسے کملاگئی ہو۔ سارے دکھ چھوڑ کر اب صرف ماں کی فکر کرو۔ اس بے چاری کو تو تمہارا ہی غم لے ڈوبا۔ اک اور نا صح بن گئی تھیں۔ وہ پتھرائی ہوئی سب سنے گئی اور کر بھی کیا سکتی تھی۔ وہ تو آپابی نے آکر جان بخشی کروائی ان کا دھیان ادھر ادھر کی باتوں میں لگا کر۔
وہ خوب سر پٹخ پٹخ کر روئی تھی۔
آپ نے سنا آپابی… دنیا کیا باتیں کررہی ہے اب ۔ کیا کیا کہہ رہی ہے۔
”بہتان لگ رہے ہیں مجھ پر۔ اور کس کی وجہ سے میری اپنی ماں کی ضد کی وجہ سے۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا میرے ساتھ۔ وہ ایسا بھی کرسکتی ہیں میرے ساتھ اپنی بیٹی کے ساتھ۔ میرا کیا گناہ تھا آپابی کہ انہوں نے ایسی سزا دی مجھے۔ میں نے کیا غلطی کر ڈالی تھی بتائیں مجھے۔” ان کی گود میںمنہ چھپائے ہچکیوں سے روتی وہ اپنا ناکردہ جرم پوچھتی رہی تھی۔ ان کا دل پانی ہوتا رہا ۔ ناسمجھی میں کیا جانے والا فیصلہ کیسا فسانہ بن گیا تھا۔ دنیا کی زبان تو لپکتی آگ ہے جسے کوئی بھی پکڑ نہیں سکتا۔ پھونکیں مارنے سے اور بھڑکتی ہے۔ قصور کس کا تھا۔ خطا کس سے ہوئی یہ اب لاحاصل سوال تھے۔ وہ جتنا بھی کرلاتی سب بے سود تھا اب۔ وہ رات بھر اسے سمجھاتی رہی تھیں۔ اب بھی بہلاوے دینے لگیں۔
دودھ ابلتا ہی تب ہے جب اسے ضرورت سے زیادہ آنچ دی جائے۔ مناسب آنچ پر پکنے والا دودھ کبھی برتن سے باہر نہیں گرتا۔ ابھی معاملہ گرم ہے دنیا تو جو کہتی ہے سو کہتی رہے مگر اسے ہوا تم اپنے رویے سے مت دو۔ سنا نہیں عروج کیسی باتیں کرتی ہے اب۔ تم بھی کسی سے مت چھپو۔ سب کا سامنا کرو۔ یہ خود ترسی کی چادر اتار پھینکو۔ زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرو۔ نظریں جھکانے والوں کی تو پلکیں نوچ لیتا ہے یہ۔ جو بھی کچھ ہوا یہ سب ایسے ہی ہونا لکھاتھا۔ اب لکیریں پیٹنے سے کچھ بھی نہیں ملے گا میری بچی۔ سنبھالو اپنے آپ کو۔ اور وہ سب سمجھ رہی تھی مگر کیا کرتی اس دل کا جو یاسیت کے اندھے کنویں میں گرپڑا تھا۔ اور جہاں بے اعتمادی کا گھپ اندھیرا بھرا تھا۔ ان کے دلاسے کچھ چمک تو دکھلاتے تھے مگر مال گمشدہ کے واپس ملنے میں یقینا بہت سا وقت درکار تھا۔
سجیلہ نانی، نواسی کو ڈھونڈتی ادھر تک آئی تھیں۔ اس کا ستا چہرہ کئی درد چھیڑ گیا۔ ان کے گھر کی رونق ان کے دل کا چین ان کا ہنستا مسکراتا ابتہاش کیسا خاموش طبع ہوگیا تھا۔ وہ اس کے بن کہے بھی جانتی تھیں۔ اور اس کی اسی چپ سے گھبرا کر انہوں نے سوچا تھا اب اس کی شادی کردی جائے نئی زندگی شروع ہوگی نئے جھمیلے ہونگے تو عہد گزشتہ کی باتیں بھول جائے گا۔ بہت اچھی اچھی لڑکیاں تھیں ان کے سرکل میں کئی پرپوزلز رکھے تھے اس کے سامنے اور اس نے انکار نہیں کیا تھا۔
مما آپ کی خوشی میں ہی میری خوشی ہے جیسا آپ چاہیں گی وہی ہوگا لیکن میری ایک چھوٹی سی شرط ہے۔
”کیا شرط ہے؟” وہ اس کی خوشیوں کے لئے ہر شرط مان سکتی تھیں۔
”کچھ خاص نہیں بس چھوٹی سی خواہش ہے میری دیکھیں ناں شادی زندگی کا بہت اہم فیصلہ ہوتا ہے۔ اسے یونہی تو نہیں کیا جاسکتا آپ اور ڈیڈ کی لائف دیکھ کر ایک نصیحت تو مجھے بہت اچھی طرح ہوئی کہ پارٹنرز کو ایک ہی پروفیشن سے نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ ایک دوجے کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ اسی لئے میں نے بہت پہلے پلان کرلیا تھا کہ میری لائف پارٹنر ڈاکٹر تو ہر گز بھی نہیں ہوگی اور آپ کو یہ بھی علم ہے کہ مجھے سیاحت کا کتنا کریز ہے اور اپنے اسی شوق کو مدنظر رکھتے میں نے سوچا ہے کہ میری بیوی کو کم از کم پائلٹ ہونا چاہیے۔ وہ جب انٹر نیشنل فلائٹس پر جایا کرے گی تو میں بھی ساتھ چل دیا کروں گا۔ شوق کا شوق۔ بیوی بھی خوش اور مجھے اچھا لگے گا کہ ڈیڈ کی اس کے ڈیڈ سے اچھی دوستی ہوجائے اسی لئے اگر وہ بھی ڈاکٹر ہوں تو کیا کہنے۔ مجھے آپ کا بھی خیال ہے پھر آپ کی اس کی مما کے ساتھ اچھی علیک سلیک ہوگی تو ہی ہمارے گھر کا ماحول خوشگوار رہے گا اس لئے اس کی مما کا پڑھا لکھا اور سمجھدار ہونا بھی ضروری ہے اگر وہ پروفیسر… ”
یہ ایک چھوٹی سی شرط ہے تمہاری… اتنے تفصیلی بیان پر وہ اسے گھور کر رہ گئی تھیں۔ اس نے شانے اچکادیئے۔
بہت چالاک ہو لڑکے جانتے ہو ناں ہمارے سرکل میں ڈاکٹر ز کی بہتات ہے اب تمہارے لئے ملٹی پروفیشن فیملی ڈھونڈنے کہاں نکلوں گی میں۔ تم کیا چاہتے ہو کہ اس چکر میں جوتیاں گھس جائیں میری۔ انہوں نے چڑکر اسے ایک دھپ جمادی۔ وہ ہنستا ہوا انہی کی گود میں منہ چھپا گیا۔ اور اس کے ہنستے چہرے پر وہ نم آنکھیں کس قدر عجیب لگ رہی تھیں۔ ساری نمی گویا اوس بن کر گری تھی ان کے دل پر۔ پھر بارہا اس ٹاپک پر بات کرنا چاہی۔ وہ یونہی بے پرکی ہانک کر ٹال دیتا۔
اور ایک ماں کے لئے اس سے بڑا ستم اور کیا ہوسکتا ہے جو چاہ کر بھی اولاد کے لئے سکھ نہ خرید سکے۔ اس کی ویران آنکھیں سخت اذیت میں مبتلا کرتی تھیں انہیں۔ اور اب ادھر اس کے حال دیکھ کر تو مانو دل گویا جلتی بھٹی میں جا پڑا تھا۔ وہ بہتیرا خود کو چھپا کر رہتی تھی مگر اس کی آنکھیں بھی بلا کی چغل خور تھیں سب چپکے سے کہہ دیتیں۔ سجیلہ کو بے طرح ترس آتا۔ اک بے نام سفر کی دھول کتنے چہرے تھکن آلود کردیتی ہے ناں۔ انہیں دیکھ دیکھ کر دکھ ہوتا۔
زرتاشہ نے جھٹ ہتھیلیاں رخساروں پر رگڑ کر خود کو شباش ظاہر کنے کی ناکام سعی کی۔ انہوں نے بھی مسکرا کر بھرم رکھ لیا۔
”کیا بات ہے بھئی یہ نانی نواسی نے کیا اب پھر کھانا گول کرنے کا پروگرام بنارکھا ہے سچ میں مجھے تو بے طرح بھوک لگ رہی ہے اور آپ دونوں ٹیبل پر آئیں گی تب ہی میں کھانا کھاؤں گی۔” وہ پیار بھری دھمکی لگا رہی تھیں۔
”نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ چلیں میں ابھی آئی۔” زرتاشہ نے واش روم کا رخ کیا تھا۔ آپابی چپ چاپ سی وہیں بیٹھی تھیں اٹھنے کا ارادہ بھی نہیں لگتا تھا۔
”پریشان کیوں ہوتی ہیں۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ”ان کا ہاتھ تھپک کر تسلی دی تھی۔
وہ بنا کسی تاثر کے قالین کے ڈیزائن کو گھور رہی تھیں۔
”کیا خیال ہے اگر آپ کہیں تو بات کروں آپا سے۔” انہوں نے نگاہ اٹھائی سجیلہ کا چہرہ دیکھتے ہی سمجھ گئیں وہ کس بات کی اجازت چاہ رہی ہیں۔ اور یقینا یہ اس کی بہت اور بڑے ظرف کی بات تھی۔ ان کی آنکھیں جگمگا اٹھیں دل کو یک گونہ سکون ہوا تھا۔ مسکرا کر اثبات میں سرہلایا۔ وہ اتنی بے قرار تھیں شام تک بمشکل انتظار کرپاتیں۔
نفیسہ کے کمرے میں اس وقت خوب رونق ہوتی تھی جرار واپسی پر بہت سا وقت ان کے ساتھ گزارتا۔ غیاث ہمدانی بھی وہیں ہوتے ۔ آپا بی کی تسبیح بھی ہاتھ میں ہوتی اور گاہے بگاہے وہ گفتگو میں بھی حصہ ڈالتی جاتیں۔ صباحت سب کے لئے چائے اور کھانے کی ڈیوٹی اپنے سر لئے جی جان سے پوری کررہی تھی۔ وہ بھی ادھر ہی آگئیں اور پھر باتوں کے دوران بڑے سبھاؤ سے انہوں نے اپنی خواہش کو لفظوں کا روپ دیا تھا۔ نفیسہ تو بہن کا چہرہ دیکھ کر رہ گئیں۔ وہ ان سے چھوٹی تھی مگر یہ سچ تھا کہ دل بہت بڑا رکھتی تھی۔
”کیا اب بھی؟ وہ ایسا چاہ رہی تھی اس پل تو کیسا ٹکڑا توڑ جواب دیا تھا انہوں نے۔ وہ سب یاد آنے لگا۔ اور ہائے یہ تقدیر کیسے کیسے دھول چٹاتی ہے انسان کے غرور کو۔ اک نظر کے بعد پھر حوصلہ ہی نہ پڑا سر اٹھانے کا۔ انہیں تو اس کی خواہش نے ہی عرق ندامت میں ڈبو ڈالا تھا وہ خود کو کچھ بھی کہنے کے لائق نہیں پارہی تھیں۔ جرار بے پناہ مسرور ہوا تھا۔ اس کی خوشی کا اندازہ اس کے چہرے سے لگایا جاسکتا تھا۔ ماں کے فیصلے سے منحرف وہ صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ زرتاشہ کی وجہ سے بھی ہوا تھا۔ وہ تو اپنے ساتھ ساتھ اس کے لئے بھی جنگ لڑتا رہا تھا۔ وہ آخری انتہائی قدم کبھی نہ اٹھاتا اگر ذرا سی بھی امید ہوتی گو کہ نتیجہ تکلیف دہ رہا تھا مگر غیر متوقع ہر گز نہیں۔
ابتہاش سے رشتہ اپنی جگہ مگر وہ بہت پیارا دوست بھی تھا۔ اب اک اور حوالہ بن جائے تو یہ تعلق اور مضبوط اور خوبصورت ہوجائے گا۔
غیاث ہمدانی کو تو گذرے حالات نے بالکل ہی تھکا ڈالا تھا۔ انہوں نے تو پہلے بھی نفیسہ پر اعتماد کرکے سب ذمہ داری انہی کے سر ڈال رکھی تھی۔ مگر جس کے ثمرات بھی انہوں نے خوب اچھی طرح سے دیکھ لئے تھے۔ اسی لئے تو اب مشورہ بھی نہ چاہا۔
”آپا بی ہم سب کی بڑی ہیں۔ زرتاشہ کو ہم سے زیادہ محبت انہوں نے دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ہم اپنا حق آزما چکے ہیں۔ اس بار یہ حق انہیں دیا جائے جو یہ فیصلہ کریں گی ہمیں منظورہوگا۔” ان کی اس تابعداری نے تو آپا بی کو نہال ہی کردیا۔ بے اختیار بلائیں لے ڈالیں۔ اور ان کا فیصلہ تو وہی تھا جو قدرت بہت پہلے ازلوں سے لکھ چکی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (دوسرا حصّہ)

Read Next

نیا قانون — سعادت حسن منٹو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!