اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (تیسرا اور آخری حصّہ)

صبا یہ کال پک کرو اور عروج سے بات کرکے اسے بتاؤ کہ تم کون ہو۔ میں چاہتا ہوں مما بابا تک ہماری شادی کی خبر پہنچ جانی چاہیے اور عروج سے بہتر ذریعہ کوئی اور نہیں ہے۔ وہ ایک منٹ نہیں لگائے گی۔”
”لیکن میں ہی کیوں آپ خود بتادیں ناں۔” وہ ہچکچائی۔
”کم آن یار۔ اب تم ایک پولیس مین کی بیوی ہو۔ حالات سے ڈرنا نہیں بلکہ انہیں فیس کرنا سیکھو۔ چلو شاباش جو میں کہہ رہا ہوں وہ کرو۔” اس نے کال پک کرکے اسپیکر آن کیا اور فون زبردستی تھمایا۔
”آج تو بڑی مبارک صبح ہے تم نے میرا فون اٹھالیا۔ میرے تو یہ پل پُر بہار ہوگئے اور دیکھو اچھے سے بات کرنا میرے ساتھ۔ میرا جی مت جلانا ہاں۔ کیسے ہو تم؟” اس کا وہی مخصوص نازو ادا سے بھرا لہجہ۔ جرار نے بولنے کا اشارہ کیا۔
”کون…” صباحت کے حلق سے بمشکل آواز نکلی اور ادھر اک پل کو سناٹا چھا گیا۔ اس نمبر سے کوئی نسوانی آواز یقینا ہتھوڑا بن کر لگی تھی اعصباب پر، اگلے پل وہ انتہائی درشتگی سے استفسار کررہی تھی۔
”تم کون؟”
”دیکھیں جی فون آپ نے کیا ہے۔ پہلے آپ بتائیں کہ کون ہیں اور کس سے بات کرنا ہے۔” اس کا اعتماد بحال ہوگیا تھا۔ بڑے اطمینان سے بولی اور جو کہ ادھر سے رفعت ہوگیا۔
”یہ جری کا نمبر ہے۔ اور مجھے اسی سے بات کرنا ہے۔ تم کون ہو فون اٹھانے والی۔” اب کہ وہ دھاڑی تھی۔
میں مسز جرار ہمدانی ہوں۔ وہ سو رہے ہیں آپ ٹھہر کر کال کرلیں پلیز۔ جو وہ اشاروں سے سمجھا رہا تھا وہ وہی کہہ رہی تھی۔
”کیا بکواس کررہی ہو۔ اٹھاؤ اسے بات کرواؤ میری۔ تم اس کے پاس کیا کررہی ہو۔ ہو کون تم حرافہ عورت۔” وہ ضبط چھوڑ چکی تھی۔ جرار نے فون جھپٹ کر کال ڈس کنیکٹ کی۔
”سوری۔” وہ شرمسار سا کہہ رہا تھا۔ صباحت کا منہ کان کی لووؑں تک سرخ پڑگیا۔ بھیگی پلکیں جھپکاتی وہ رخ پھیر گئی۔ گوکہ اندازہ تھا بہت کچھ سہنا پڑے گا مگر اتنا کچھ؟
”ابھی تو عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔” جرار نے بازو کے گھیرے میں لے لیا۔
”بہت ہی کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے آپ نے مجھے۔” وہ شکوہ کنال تھی۔
”اور یہ بھی تو دیکھو اس امتحان کا انعام تمہیں پہلے ہی مل گیا ہے۔” وہ اپنے سینے پر انگلی بجاتے بولا۔
”سوتو ہے۔” اک پیاری سی مسکان صباحت کے چہرے پر کھلی تھی۔ جرار مطمئن تھا کہ اب ڈراپ سین ہو کہ ہو۔
مگر ایسے۔
سوچا نہ تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

پتھر دیکھنے میں بہت سخت نظر آتا ہے مگر جب بھاری شیشے کی ضرب پڑتی ہے تو وہ بھی ٹکڑوں میں بکھر جاتا ہے۔ لوہا کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو آگ کی گرمی اس کی بھی طاقت چھین لیتی ہے۔ لکڑی کتنی ہی ٹھوس کیوں نہ ہو۔ کلہاڑے کے وار اس کا بھی سینہ چیر دیتے ہیں اور پھر ایک گوشت پوست کے انسان کی حیثیت ہی کیا ایک خون کا لوتھڑا ہی تو ہوتا ہے دل۔ عمرو کی زنبیل کی طرح جس میں جتنی چاہے نفرت، غصہ، عناد، انا، غرور، بدگمانیاں بھرلو۔ اس میں گنجائش پھر بھی رہتی ہے۔ بس بھرتے چلے جاؤ۔ اور یہ گمان تو ختم ہی نہیں ہوتے چاہے مثبت ہویا منفی ان کا کوئی انت نہیں۔ انہیں بھر بھر کر ہم اتنا بوجھ بنالیتے ہیں کہ پھر ہم سے اٹھایا نہیں جاتا اور پھر اک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ یہ گیسی غبارہ اپنے ہی غدن سے پھٹ پڑتا ہے۔ نفیسہ نے بھی تو بہت سے گمان جمع کررکھے تھے۔
بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو قدرت ہمارے لئے پسند نہیں کرتی اس نے تو ہمارے لئے کچھ اور چن رکھا ہوتا ہے۔ مگر ہم کوتاہ نظر تندیر کے آگے ڈٹ جانے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں اور اس کے فیصلوں کو کھلے دل سے قبول کرنے کی بجائے اس کے خلاف اپنے اندر بقض و عناد کی اگ اکٹھی کرتے رہتے ہیں۔ اس بات سے بے خبر کہ یہ ہمارا ہی دامن نہ جلا ڈالے۔
جب آپابی نے اپنی خواہش کا اظہار کیا اور سجیلہ کی خوشی۔ مانو ان کے تو سارے درد پرانے چھڑ گئے۔ میں پھر ایک ہی سوچ کلبلا رہی تھی کہ جلدی سے کسی بھی طرح یہ قرض چکانا ہے۔ مسز نعمان دیرینہ ملنے والوں میں سے تھیں۔ سفیر ان کا بیٹا کوئی ایسا مرقع مناقب نہیں تھا مگر اپنے مضبوط فیملی بیک گراوؑنڈ اور وسیع کاروبار کی بدولت جلد ہی ان کی نظر میں آگیا۔ پھر عروج جسے وہ خود کئی بار نوٹس کرچکی تھیں کہ وہ جرار میں انٹرسٹڈ ہے اور اس میں کمی کیا تھی بجز اس کے کہ وہ ایک بڑے گھر کی بگڑی ہوئی لڑکی تھی یہ کوئی ایسی خاص قابل گرفت بات نہ تھی۔ جرار اب جس محکمے میں تھا وہاں تو بڑے بڑوں کو سدھارنا سکھایا جاتا تھا تو پھر وہ چھوٹی سی لڑکی کیا مسئلہ ہوتی اس کے لئے۔ بس پھر سب کچھ ان کی عین خواہش کے مطابق آسانی سے ہوتا چلا گیا۔ جرار سے عروج کی منگنی انہوں نے کی ہی اس شرط پر تھی کہ وہ لوگ سفیر کے لئے زرتاشہ کا رشتہ لیں اور ادھر کیا اعتراض ہوتا بھلا۔
ان کے اتنے جھٹ پٹ فیصلے پر زرتاشہ بے چاری اُف بھی نہ کرسکی۔ مگر جرار نے اک طوفان اٹھادیا۔ انہوں نے قطعاً پرواہ نہ کی۔ امید تھی تھوڑے واویلے کے بعد بالآخر مان جائے گا مگر یہ تو اندازہ ہی نہ تھا وہ ان کی زبردستی سے تنگ آکر اک دن اتنا بڑا قدم اٹھا لے گا۔
عروج نے تو واقعی اک پل کی دیر نہ کی تھی ماں سمیت تن فن کرتی پہنچی تھی ان کے ہاں۔ پھر جو سلوک اور زبان وہ استعمال کرتی رہیں اللہ کی پناہ۔
ارے میرے بچوں کو رشتوں کی کمی تھی کیا یہ تو آپ ہی تھیں جنہوں نے آکر میرا دروازہ پکڑ لیا تھا۔ جب بیٹا راضی نہیں تھا تو کیا ضرورت تھی ہماری بیٹی کا نام بھی لینے کی۔ سارے زمانے کے سوالوں کے اب کیا جواب دیتے پھرہیں گے ہم۔ تھوڑے ہی دن رہ گئے شادی میں اور یہ سب کچھ ہوگیا۔ ارے بیٹے نے یہ گل کھلائے ہیں تو بیٹی کی بھی خبر لے لو کہیں اس نے بھی ”گڈی” نہ اڑا رکھی ہو۔ اس کا رشتہ کرنے کی بہت جلدی تھی آپ کو خود آکر ہمیں پیش کیا۔ ضرور اس کے پیچھے بھی کوئی وجہ ہوگی یہ تو ہم ہی بھولے لوگ جو سمجھ نہ سکے۔ اب رکھو اسے بھی اپنے پاس۔” مسز نعمان نے کوئی بھی لحاظ رکھے بغیر خوب خوب سنائیں۔ زرتاشہ نے بھی سب سنا اور پتھر ہوگئی۔
اُف۔ اس کی اپنی ماں نے اتنا ارزاں کردیا تھا اسے۔ اک جنون جس کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے انہوں نے اس کے آنسو چنے۔ وہ تو اس دکھ سے مر بھی جاتی تو کم تھا۔
نفیسہ کے لئے یہ بہت بڑی شکست تھی۔ ہر طرف سے خالی ہاتھ رہ گئیں تھی وہ۔ ان کے سب پلان ربڑ کی طرح کھینچ کر واپس ان کے منہ پر آلگے تھے۔ سب تدبیریں دھری رہ گئیں تھیں۔ بیٹے نے تو من چاہی منزل پالی تھی مگر اب جو بیٹی پر انگلیاں اٹھیں گی انہیں کیسے روک پائیں گی وہ۔ مسز نعمان کی زبان کے آگے تو خندق ہے وہ تو جگہ جگہ اشتہار لگاتی پھریں گی۔ یہ سوچ ہی ذہن مفلوج کرگئی تھی۔
ان دونوں کے جانے کے بعد وہ کمرے سے نکلی تھی۔ پورا ارادہ تھا ماں سے لڑنے کا۔ بہت رہ لیا چپ کی چادر تان کر۔ آج نہیں۔ خود کو بے ممیت کہے جانے کے سبب حساب لینے تھے۔ مگر لاوؑنج کے صوفے پر بے دم پڑی نفیسہ نے دہلا کر رکھ دیا۔ اس کی چیخ پر کچن میں دبکی سب سن کر توبہ توبہ کرتی بوا صفیہ بھی بھاگ کر آئیں۔ فوری ہاسپٹل پہنچایا گیا۔ ڈاکٹر کے مطابق۔
فالج کا حملہ ہے۔ بایاں حصہ کام کرنا چھوڑ چکا ہے۔ ہم دوا کررہے ہیں۔ آپ دعا کریں۔ اللہ نے چاہا تو جلد ہی ری کور کرلیں گی۔ یہ ان کی پیشہ ورانہ تسلی تھی۔ مگر ٹوٹے دلوں کو قرار کہاں۔ اسے اپنے سب دکھ بھول گئے۔ ماں کی اچانک بیماری نے گھٹ گھٹ کر رونے پر مجبور کر ڈالا۔
٭…٭…٭
جرار انتہائی شرمسار سا باپ کے سامنے سرجھکائے کھڑا تھا۔ وہ بالکل مہر بہ لب تھے۔ کیا کہتے اب اس کی کوئی وضاحت کوئی تاویل یا دلیل۔ یا ان کی گالیاں، جھاڑیں، پھٹاریں اس درد کو ہر گز کم نہیں کرسکتی تھیں جو وہ سب جھیل رہے تھے، غلط کون تھا قصور وار کون؟ اس بحث میں پڑنا بے کار ٹھہرا تھا۔
وہ ایک شخص جس کے کپڑوں پر کبھی اک شکن نہ آئی ہو اور کبھی ماتھے کا بل نہ گیا ہو۔ جس نے ساری زندگی اپنے آگے کسی کو اہمیت نہ دی ہو۔ جس نے اک شان سے عمر بسر کی ہو وہ جب یوں لاچار و بے بس ہوکر نظروں کے سامنے پڑا ہو تو وہ وقت کس قدر پر اذیت ہوتا ہے۔ اور یہ برا وقت ان سب پر آچکا تھا۔ اور اب ان لمحوں میں حوصلہ کھونا نہیں تھا بلکہ اسے صبر سے سہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ انہوں نے بیٹے کے شانے پر ہاتھ رکھا پھر اس کے پہلو میںنظریں جھکائے کھڑی صباحت کا سر تھپکا اور یونہی لب بھنچے آگے بڑھ گئے۔
اور کیسے ہوتے ہیں وہ لمحات جب آپ کے پاس لفظوں کا کال پڑجاتا ہے۔ سینے میں بھرتا دھواں آنکھیں بادل کردیتا ہے۔ لب باہم یوں پیوست ہوجاتے ہیں کہ ان کے کھلنے پر صرف سسکیوں اور کراہوں کو ہی راہ مل سکے جرار کو اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ ماں کو تکلیف ہوگی تو وہ اک بار ضرور بچوں کی طرح مچل مچل کر روتا۔ ان کی حالت نے دل خونم خون کردیا تھا۔ نفیسہ اسے ایک ٹک دیکھ رہی تھیں۔ ان کی قوت گویائی بھی متاثر ہوئی تھی وہ ٹھیک سے بول نہیں پارہی تھیں۔ جرار کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں وہ ان سے نگاہ ملانے جوگا نہیں تھا کاش کہ وہ اتنا جذباتی نہ ہوا ہوتا ۔ مگر پھر…
وہ ان کا ہاتھ تھام کر بے قرار سے چوم رہا تھا۔ معافی مانگ رہا تھا۔ انہوں نے اس کی آڑ میں کھڑی صباحت کو دیکھا۔ آنکھ سے کئی قطرے لڑھک کر بالوں میں گم ہوگئے اب کون جانے یہ آنسو کس رنگ کے تھے ملامت کے یا ندامت کے۔ انہوں نے زور سے پلکیں بیچ لیں۔ لیکن جرار کا ہاتھ نہیں جھٹکا تھا اور اس کے لئے یہ بھی بہت تھا۔ برف پگھلے گی اور اک دن ٹھنڈک بھی ختم ہوجائے گی۔
زرتاشہ اک طرف نڈھال سی بیٹھی تھی۔ صباحت اس طرف چلی آئی اور شانوں پر بازوں پھیلا کر اپنائیت بھرا دلاسا دیا۔ اس وقت ان سب میں زیادہ ہمدردی اور حوصلے کی حقدار بھی وہی تھی اس کا تو سب سے بڑھ کر نقصان ہوا تھا۔ ہر طرح کے معاملے میں۔ دل تو اجڑا ہی تھا ا س کی تو رچ بھی زخمی کردی گئی تھی۔ اس کے تو بین ہی نہ ختم ہونے والے تھے۔ اعتماد مجروح ہوجائے اور لہو بھی اپنوں کے ہاتھوں تو اس سے بڑا عذاب دنیا میں اور کوئی نہیں ہوتا۔ وہ بھی اس صدمے سے دوچار تھی۔ سجیلہ کو علم ہوا۔ بات ہی ایسی تھی وہ سن کر رہ ہی نہ سکیں اپنی سب مصروفیات ترک کرکے بھاگی چلی آئیں۔ بہن کی حالت نے دل دکھ سے بھر دیا۔
انہوں نے تو پہلے بھی کبھی گلے شکوے دل میں نہ پالے تھے نہ کبھی نوک زبان تک لائیں تھیںاور اب تو موقع ہی ایسا تھا انہوں نے آتے ہی اک پل بھی چین نہیں لیا تھا۔ شہر کے بہترین نیوروسرجن سے کنسلٹ، ٹائم پر چیک اپ، میڈیسن انہوں نے تو ہر فکر اپنے سر لے لی اور جب تیمار دار مخلص ہو اور پورے خلوص سے توجہ بھی دے تو کوئی شک نہیں کہ شفایابی نہ ملے۔ ان کی دن رات کی بھرپور محنت سے اتنا ہوا کہ وہ تیزی سے روبہ صحت ہونے لگیں اور فقط چند ہی دنوں کے قلیل عرصہ میں اس لائق ہوگئیں کہ خود سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگیں۔ تھوڑا بہت بول بھی لیتیں۔ ڈاکٹرز بھی مطمئن تھے انہیں گھر جانے کی پرمیشن دے دی گئی اس ہدایت کے ساتھ کہ اس طرح میڈیسنز اور مزید احتیاط رکھی جائے۔ سجیلہ کو اب فکر نہیں تھی۔ گھر پر ان کی دیکھ بھال کے لئے نرس اور فزیوتھراپیسٹ کا انتظام بھی کرلیا گیا تھا۔ بہت دن ہوگئے تھے انہیں آئے ہوئے اب واپس جانا تھا۔ مگر جب ذکر چھیڑا تو نفیسہ نے ہاتھ تھام لیا۔
نہیں… ابھی مت جاؤ۔ انہوں نے رک رک کر التجا کی۔ سجیلہ کو بے پایاں خوشی ہوئی وہ اکثر چپ ہی رہتی تھیں کوئی جواب طلب بات کی جاتی تو ہوں ہاں کردیتیں۔ اب ایکدم سے چار حرفی جملہ وہ بھی خاص ان کے لئے۔ بے اختیار ان کا ہاتھ چوما۔
سچ پوچھیں تو ابھی میرا بھی جی نہیں چاہ رہا جانے کو۔ کتنے عرصے بعد ہم اکٹھے ہوئے ہیں۔ ابھی تو میں نے آپ سے دل کی باتیں بھی نہیں کیں۔ ابھی تو بچپن کے قصے بھی نہیں دہرائے۔ وہ معصومیت اور شرارتوں کی کہانیاں۔ مگر کیا کروں مجبوری ہے۔ محسن اور ابتہاش عادی نہیں ہیں۔ میرے بغیر رہنے کے۔ پھر ان کے علاوہ میرے پیشنٹ بار بار کال کررہے ہیں۔ لیکن چلیں آپ کی خوشی کے لئے دو دن اور رک جاتی ہوں اور نفیسہ مسکرادیں۔ آپا بی نے اک پیار بھری نظر دونوں بیٹیوں پر ڈالی یہ دلفریب نظارہ دیکھنے کے لئے تو آنکھیں ترسی تھیں ان کی۔ یہ سب تو گویا خواب ہی بن گیا تھا ان کے لئے۔ کئی برس گذر گئے انہیں اکٹھے ہنستے بولتے دیکھے وہ جب بھی کسی موقع پر آمنے سامنے ہوئیں تو غیریت بھرا رویہ ہوتا… نفیسہ ہمیشہ ایک فاصلہ رکھ کر ملتیں۔ جبکہ سجیلہ پڑھ کر گلے لگنے کا سوچ کر ہی رہ جاتیں۔ کتنے ناقص العقل ہوتے ہیں ہم انسان جو تمام عمر اس وجہ کے پیچھے ایک دوجے سے لڑلیتے ہیں جن پر ہمارا رتی بھر اختیار نہیں ہوتا۔ جب کوئی ”فیصلہ” ہمارے لئے ہوتا ہی نہیں تو ہم کیسے اس کے لئے سالوں پر محیط نفرتیں سنبھال لیتے ہیں۔ اگر ”رضا” میں راضی ہونے کا ہنر بروقت سیکھ لیا جائے تو اس میں ہمارے لئے ہی نہیں بلکہ اوروں کے لئے بھی سکون ہوجائے۔ تعلق کی دیواروں میں دراڑیں تو نہ پڑیں۔ مگر کاش کہ کوئی سمجھے۔ آپابی کی پلکیں بھیگ گئیں۔ اک ”آہ” سینے کی کوٹھری سے نکلی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (دوسرا حصّہ)

Read Next

نیا قانون — سعادت حسن منٹو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!