اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (تیسرا اور آخری حصّہ)

گڑیا اور احزم آئے تھے لڈو لے کر۔ اس نے ڈانٹ کر بھگادیا۔
فرحت کھانے کی ٹرے لے کر آئی اس نے انکار کردیا۔ رشنا مامی کی بھانجی کی شادی تھی وہ ساری شاپنگ دکھاتی رہیں اسنے رتی بھر بھی دلچسپی نہ لی۔
آنکھوں پر بازو رکھے۔ وہ چت لیٹی تھی۔
”جب تقدیر سے لڑنے کی ہمت نہ ہو تو اپنے آپ سے لڑنا بھی حماقت ہوتی ہے۔”
”ہم بیزار ہیں” کا بورڈ ماتھے پر لگا کر دنیا کی ہمدردیاں نہیں ملتیں بلکہ انہیں چہ مگوئیاں کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اپنا راستہ وہی پانی بناتا ہے جس میں طاقت اور جنون ہو۔ فرش پر گرا پانی تو ایک ہی طرف بہتا ہے اور عورت بھی اس پانی کی مثل ہے۔ جو سمت مقدر میں درج ہوجائے اگر ادھر ہی بیتی رہے تو عزت پاتی ہے۔ ورنہ خواریوں کے جھاڑو پڑتے ہیں۔ نماز پڑھا کرو دل کی بے سکونی دور ہوگی۔ دنیا میں اشتہار لگانے کے بجائے سب راز اللہ کے سامنے رکھ دو۔ جو سب جانتا ہے۔ مگر پھر بھی اپنے بندوں کے منہ سے سننا چاہتا ہے۔ ا س سے کہہ کر تو دیکھو وہ بہتر کرنے والا ہے اور اٹھو دودھ میں سیب ڈال کر لائی ہوں۔ جلدی سے پیو پھر دوا بھی کھانا ہے۔ بھلا بتاوؑ جب پہلے ہی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو کیا ضرورت تھی بارش میں بھیگنے کی۔ وہ تو بھلا ہو ابتہاش یہاں تھا نہیں تو آدھی رات کو کہاں لئے بھاگتے تمہیں۔” آپابی کب آئیں خبر ہی نہ ہوئی ان کی انگلیاں بالوں میں سرسرارہی تھیں۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
”اب جلدی سے اچھی ہوجاؤ تمہاری ماں کتنے ہی فون کرچکی ہے۔ کہہ رہی تھی فرنیچر اور زیور بننے دینا ہے تمہاری پسند ضروری ہے۔ شادی میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں اور اس نے جھٹکے سے بازو ہٹایا۔
انہوں نے تو مجھے موم کی گڑیا سمجھا ہوا ہے۔ جدھر چاہے پکڑ کر موڈ دیں گی۔ ان کے نزدیک میری حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں جیسے دل کیا ڈوریاں ہلادیں۔ جب انہوں نے میری منگنی اپنی پسند سے کردی تھی تو اب باقی کاموں کے لئے میری مرضی ضروری کیسے ہوگئی۔ یہ سب بھی اپنی منشاء سے کرلیں۔ اب فون آئے تو کہہ دیجئے گا اپی بیٹی سے۔” وہ سخت رونکھی ہورہی تھی آپابی تاسف سے دیکھتی رہ گئیں۔ بے اختیار سینے سے لگایا۔ وہ بھل بھل رو دی۔ وہ اس کا دکھ سمجھتی تھیں مگر کیا کرتیں اب ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ سب بے سود ٹھہرا تھا۔ اب تو چاہ کر بھی وہ اسے سمجھا نہیں سکتی تھیں۔ انہوں نے زبردستی دودھ اور دوا کھلائی اور سونے کی تاکید کرتی اٹھ گئیں۔
آج پھر موسم کے تیور ٹھیک نہ تھے۔ لگتا تھا بادل بھری جھولیاں دھرتی کے ہاتھوں پر الٹ جائیں گے۔ اور وہ بارش ٹھنڈی تھی جس میں وہ بھیگتی رہی تھی اور یہ گرم بارش تھی جو تکیہ بھگورہی تھی۔ دل صورت شمع جل رہا تھا۔
اپنی نیم بے ہوشی کی حالت بھولتی نہ تھی۔ جب اک مسیحا نے پیشانی پر ہاتھ رکھا تھا۔ نبض ٹٹولتی بھاری انگلیاں۔ بخار تو اتر گیا تھا مگر لگتا تھا۔ ماتھا اور کلائی اب بھی دکپ رہے ہیں۔ تو کیا یہ لمس اب یونہی لو دیتا رہے گا؟
جواب کہیں نہیں تھا۔ گرم بارش تڑاتڑ برس رہی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

آپابی کے دونوں ہاتھ ابھی تک سینے پر تھے آنکھیں پوری کھلی ہوئی۔ دل ڈوب ڈوب کر ابھرا بصارت ایمان لانے سے قاصر تھی آیا جو دیکھ رہی ہیں حقیقت ہے یا دھوکہ۔ کئی لمحے لگے خود کو سنبھالنے میں۔ بدقت لبوں کو جنبش دے پائیں۔
یہ… یہ تم نے اچھا نہیں کیا جرار۔ تم ایسی حرکت بھی کرسکتے ہو مجھے تویقین ہی نہیں ہورہا۔ تم ایسا کیسے کرسکتے ہو۔ اور یہ سب کرکے میرے گھر کیوں آئے تم جانتے نہیں ہو کیا اپنی ماں کو۔ وہ تو کسی کے گناہ مندلیوں تک نہیں بخشتی ارے میرے سفید بالوں کا تو خیال کیا ہوتا وہ تو تمہارے ساتھ ساتھ میری بھی جان کو آجائے گی ارے کم بخت کیوں سواء ڈالی تو نے ہمارے سر میں۔”
”افوہ آپ تو ایسے واویلا کررہی ہیں جیسے میں جرار نہیں بلکہ جراریہ ہوں۔” ایسے سنگین لمحوں میں بھی اس کی رنگ ظرافت کو آرام نہیں تھا۔ آپابی کو فوری کوئی ایسا ہتھیار نہ ملا جس سے اس کی خیریت پوچھتیں۔ بس لاچاری سے ادھر ادھر دیکھ کر رہ گئیں۔
”میں نے ایسا کچھ نہیں کیا آپابی۔ میں نے گناہ نہیں کیا حلال کام کیا ہے۔ اور پھر میں کیا کرتا اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں بچا تھا میرے پاس۔ اب میں کیا بتاؤں۔ مما نے کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا تھا میرے لئے۔ آپ جانتی ہیں وہ فل تیاری کئے بیٹھی ہیں اور مجھے پریشرائز کیا جارہا تھا کہ میں گھر واپس آجاؤں اور قبل اس کے کہ وہ بھی دیسی ماؤں والے دودھ نہ بخشتے کے حربے آزما کر مجھے محصور کرلیتیں۔ میں نے اپنا حق خودارادیت استعمال کرلیا تو کیا برا کیا ہاں اگر اب بھی ان کا اصرار ہوگا تو اپنی اس دھواں دھار عاشقہ سے شادی پر میں کوئی اعتراض نہیں کروں گا۔ یہ پھر آپ ہی کے پاس رہے گی اور مما کی خوشی ان کے پاس۔ ٹھیک ہے ناں۔” وہ بڑا ریلیکس تھا۔ اب کہ آپا بی سے نہ رہا گیا۔ وہ سامنے پلنگ پر ہی تو تھا انہوں نے پاس ہی ٹیبل پر رکھا ٹائم پیس اٹھا کر اس کے سرکا نشانہ لے لیا وہ تو فیلڈر اچھا ثابت ہوا جو بروقت کیچ لے لیا ورنہ ماتھا پھوٹتا ہی ٹائم پیس کا بھی کچھ نہ بچتا۔
”بے شرما تجھے جگتیں سوجھ رہی ہیں اور میرا مارے پریشانی کے دم نکل رہا ہے۔ ارے ظالم تجھے سب کرتے بہن کا بھی خیال نہیں آیا۔ ارے تو نے اپنی تو سدھارلی پر اس غریب کی تو بگاڑ دی ناں۔ تیرے اس عمل کے بعد اب وہ لوگ کیا کریں گے کچھ اندازہ بھی ہے کہ نہیں۔ ادھر تیری ماں تیاریاں کررہی ہے تیرے بارات لے جانے اور اس کی ڈولی اٹھانے کی اور تو نے یہ کھڑاگ ڈال دیا۔ وہ اب بھی تجھے دودھ نہیں بخشے گی یاد رکھنا۔ اٹھ جا جرار چلا جا میرے سامنے سے۔ شکل دور کرو اپنی۔ دفع ہوجاؤ یہاں سے۔” وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔ زرتاشہ گھٹنوں پر تھوڑی ٹکائے بیٹھی تھی۔ سپاٹ چہرہ، خشک آنکھیں۔ اس نے ابھی تک منہ سے اک حرف نہیں نکالا تھا۔ جرار نے اسے دیکھا پھر دوپٹے میں منہ چھپائے آپابی کو اور اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے اٹھتے ہی سر سے پاؤں تک سیاہ چادر میں چھپی وہ بھی یوں اٹھ گئی جیسے اس کے ساتھ ہی بندھی ہو اور تھا تو اب ایسا ہی۔
سوری غلطی ہوگئی مجھ سے آپ کے گھر آگیا۔ میں تو یہ مان لے کر آیا تھا کہ ماں ناراض ہے۔ نانی تو خفا نہیں وہ ہمیں پروں میں سمیٹ لیں گی۔ وہ ساری صورت حال جانتی ہیں وہ سمجھیں گی میرے حالات کو لیکن… آپ نے بھی میرا ساتھ نہیں دیا کوئی بات نہیں کسی سے کوئی گلہ نہیں مجھے۔ برے وقت میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے آپ سب تو پھر اپنے ہیں۔ آپ سب سے کیا شکایت۔ اللہ مالک ہے ہمارا بھی ٹھکانہ بن ہی جائے گا کہیں۔ چلتا ہوں۔ چلو صباحت۔” نہایت سنجیدہ تیوروں کے ساتھ وہ دروازے کی جانب بڑھا تھا کہ آپابی نے دوپٹے سے ناک سڑک کر آواز دی۔
”ٹھہر جا بڑی اکڑ ہے تیرے اندر۔ ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔ یہ نخرے جاکہ ماں کو دکھانے تھے مجھ بڈھی کو ستانے پر ثواب نہیں ملے گا تمہیں۔ چل ادھر آ۔ آدھی رات ہوگئی ہے کہاں جاؤگے اس وقت اپنا نہیں تو اس کا ہی خیال کرلو۔ یہاں آؤ لڑکی۔” اور لڑکی نے گھبرا کر جرار کو دیکھا اتنے بہترین استقبال کے بعد اس کا ڈرنا بنتا تھا۔ اس نے سرہلا کر ان کے پاس جانے کا عندیہ دیا وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی سامنے آکھڑی ہوئی۔ انہوں نے ہاتھ پکڑ کر پاس بٹھالیا۔ ابے اس وقت عینک جانے کہاں پڑی تھی۔ آنکھیں سکوڑ کر بغور دیکھا، بے اختیار وہ سفید چوہیا دھیان میں آئی تھی۔ جسے جتنی بار دیکھا انتہائی چست پکڑے رسی سا دوپٹہ گلے میں جھولتا ہوا۔ وہ نفیسہ کی پسند تھی اور یہ جرار تو ماں سے زیادہ سیانا ثابت ہوا تھا۔ اتنی عمر گزری تھی ان کی اگلے کی آنکھیں دیکھ کر بتا سکتی تھیں کہ وہ کس مزاج کا ہے۔ اس کے معصوم سے چہرے پر روایتی دلہنوں والی سج دھج نہیں تھی مگر پھر بھی اک نور ساہالہ کئے ہوئے تھا۔ شرم سے (یا تازہ تازہ ہوئی بے عزتی کے ہاتھوں) سرخ ہوئے عارضی اور لرزتی پلکیں وہ بے ساختہ ہی کہہ گئیں۔
”ماشاء اللہ۔ شکل سے تو اچھے خاندان کی دکھتی ہو مگر کام بری عورتوں والا کیا ہے۔ حیا نہ آئی یوں چھپ چھپا کر بیاہ رچاتے۔ ایسی بھی کیا آفر پڑی تھی جو تم ماں باپ کے سر میں مٹی ڈال کر اس خبیث کے ساتھ نکل پڑیں۔” اس نے تڑپ کر جھکی گردن اٹھائی شکوہ کناں نگاہ جرار کی جانب اٹھی تھی۔ جس نے پلکیں جھپکا کر کول ڈاؤن رہنے کا اشارہ کیا۔
”آپ بالکل غلط سمجھ رہی ہیں آپابی۔ ہم نے شادی قطعاً چھپ چھپا کر نہیں کی۔ صباحت سے گھر والوں نے سارے خاندان کے درمیان پوری عزت کے ساتھ رخصت کیا ہے اسے میرے ساتھ۔”
”آئے تو کیا تم نے اپنے مار ڈالے سارے۔ کیا کہہ کر لڑکی اٹھا لائے ہو ان کی… یا ان پر بھاری بوجھ تھی جو انہوں نے بھی چھان پھٹک کئے بنا تم اکیلے کو ہی لڑکی پکڑا دی۔ بڑا حوصلہ ہے بھئی ان لوگوں کا۔” وہ بھی آپا بی تھیں تنک کر بولیں۔ صباحت کی تھوڑی سینے سے جالگی۔
”افوہ آپابی۔ آپ نے بھی کیسی باتیں شروع کردیں۔ میں آپ کو ساری تفصیل پھر سمجھاؤں گا ابھی بس اتنا جان لیں۔ صباحت میرے دیرینہ اور بہت اچھے دوست کی بہن ہے۔ وہ سب جانتا ہے میرے بارے میں۔ یہ میری ہی مجبوری تھی کہ میں نے ان بھلے لوگوں کو بھی مجبور کردیا۔ آنٹی تو راضی ہی نہیں ہورہی تھیں۔ بڑی مشکل سے منایا ہے انہیں۔ اور پلیز اب آپ یہ طنزیات کی کلاس آف کردیں۔ اتنا سفر کرکے آئے ہیں۔ تھکے ہوئے ہیں بھوک بھی لگ رہی ہے۔ کوئی مہمان نوازی کے تقاضے بھی ہوتے ہیں یا باتوں سے ہی تواضع کرتی رہیں گی ہماری۔” جرار نے ان کا دھیان بٹانے کو کہا۔
انہوں نے زرتاشہ کو دیکھا وہ اسی رخ پر بیٹھی تھی۔ اتنا گہرا مراقبہ وہ تو وہاں موجود ہی نہ تھی گویا۔
میری ٹانگوں میں تو ہمت نہیں ہے اٹھنے کی بھی۔ فریج میں سب رکھا ہے۔ اپنی دلہن کو لے جاکر باورچی خانہ دکھادو۔ جو بھی کھانا ہے کھاوؑ۔ کمرہ بھی آج ہی صاف کروایا تھا میں نے یہ پکڑو چابی۔” انہوں نے تکیے کے نیچے سے گھچا نکال کر پھینکا وہ دونوں آگے پیچھے کمرے سے نکل گئے۔
”اف یہ لڑکا۔ کیا کر آیا ہے میرے اللہ۔ اب آگے ہوگا کیا؟” آپا بی نے چکراتا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔
٭…٭…٭
سنا تو تھا کہ بیوی اچھی نہ ملے تو دنیا ہی جہنم اور اگر بیوی اچھی مل جائے تو دنیا ہی آپ کے لئے جنت بن جاتی ہے۔ واہ بھئی واہ۔ مان گئے۔ سیانے سچ ہی کہہ گئے ہیں۔ میرا تو دو دن میں ہی تجربہ ہوگیا۔ میر ی تو دنیا جنت بنادی آپ نے۔ اوہ میری زندگی جیو ہزاروں سال۔ اب دیکھو ناں جھڑا جھڑایا بستر، پکا پکایا کھانا، دھلے دھلائے کپڑے میرے لئے تو یہ سب جنتی نعمتوں سے کم نہیں ورنہ میری تو وہ حالت رہی ہے کہ بنیان اور موزے پندرہ پندرہ دن چلانا پڑتے تھے۔ وقت ہی نہیں لگتا تھا دھونے کا۔
”چھی، چھی کتنے گندے ہیں آپ۔ بدبو نہیں آتی تھی خود سے۔” صباحت نے برا سا منہ بنایا۔
”یہ پرفیوم اور باڈی اسپرے کس مرض کی دوا ہیں انہی کی وجہ سے عزت بچتی رہی ہماری تو۔” جرار نے خود پر ڈھیر سارا چھڑکنے کے بعد اسے بھی نہ بخشا۔ پورا کمرہ مسحور کن مہک سے بھر گیا۔ بچنے کی کوشش میں ناکام ہوکر وہ کہہ اٹھی۔
”توبہ ہے آپ سے تو…”
”ایں… دو دن میں ہی توبہ ہوگئی تمہاری۔ وعدے تو دور تک ساتھ نبھانے کے کئے تھے۔” اب منہ بنانے کی باری جرار کی تھی۔ وہ سر جھٹک کر رہ گئی۔
ایک تو آپ بھی ناں…
”کیا… میں بھی ناں۔ کیا… کیا کہنا چاہتی ہو۔ بولو… بتاوؑ… ہیں…” جانے ایکدم سے کیا ہوا اسے بازو سے پکڑ کر پیچھے دھکیلتے دیوار سے لگادیا۔ وہ بے چاری بمشکل سنبھلی۔ سامنے نظر کی تو وہاں جذبوں کا اک جہاں آباد تھا۔ دائیں بائیں ہاتھ ٹکائے جرار کی راہیں مسدود کئے وہ کئی لمحوں تک مخمور نگاہوں سے اس کے دلنشین نقوش تکتا رہا۔ صباحت دم سادھے کھڑی تھی۔ وہ تو پہلے بھی کبھی اس کے سامنے زیادہ دیر نہیں ٹھہر پاتی تھی۔ وہ بھائی کا بچپن کا دوست تھا۔ بے تکلف گھر بھی آجاتا اور وہ شروع سے ہی کتراتی تھی۔ اک الگ سی کشش تھی اس کی شخصیت میں عجب سا سحر تھا۔ جو وہ اک نظر دیکھ لیتی تو پھر کئی روز حواسوں پر چھایا رہتا اور اب تو بات ہی اور تھی پلکوں کی چلمن جو لرز کر گری تو اٹھ نہ سکی۔ اس کی جان اٹک گئی تھی۔ کئی فسوں خیز لمحوں کے بعد اس نے خلاصی دی نفی میں سرہلاتا وہ کھڑکی کی چوکھٹ پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوگیا۔
دل ہی نہیں چاہ رہا۔ بالکل دل نہیں چاہ رہا واپس جانے کو۔ مجھے تو یہ سوچ ہولارہی ہے کہ اب پھر سے جاکر اسی کابک میں رات گزارنا پڑے گی۔ اف وہ جہنم کی نشانی وہاں کیسے گزریں گے میرے دن رات۔ تم بھی ناں جادوگرنی ہو پوری۔ کونسا منتر پھونکا ہے مجھ پر۔ وہ جھنجھلاتا پوچھ رہا تھا۔ وہ مان سے مسکرادی۔ اس کے جانے کا سوچ کر تو وہ بھی اداس تھی پھر آپابی کا ساتھ۔ ہمت کرکے کہہ دیا۔
”میرا بھی دل نہیں لگے۔ میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں مجھے امی کی طرف چھوڑ دیجیئے گا ناں۔” جرار نے کھینچ کر ساتھ لگا لیا۔
اونہوں۔ ابھی یہ مناسب نہیں۔ تم کچھ دن یہاں رہو۔ آپابی بہت پیار کرنے والی ہیں۔ بس کبھی کبھار غصہ بھی آجاتا ہے انہیں اور دیکھو گھبرانا مت۔ جس سچویشن میں ہماری شادی ہوئی وہ تمہیں کچھ بھی کہیں حق پر ہونگی۔ تم بس ان کی خدمت میں کمی نہ کرنا۔ اپنے سگھڑاپے کی دھاک بٹھا دینا ان پر۔ اور اگر ان کا ووٹ ہمارا ہوگیا ناں تو پھر بس آگے کی سب منزلیں آسان تر ہوجائیں گی۔ پھر ہم اپنے گھر چلیں گے۔ تم سمجھ رہی ہوناں میری بات۔” اس نے تھوڑی تلے انگلی رکھ کر چہرہ اونچا کیا۔ وہ کیا کہتی گردن ہلادی۔
”دیٹس لائک آ گڈ گرل۔ بس کچھ دن میری جان۔ پھر سب معاملات درست ہوجائیں گے اور تم آپابی سے گھبراگئی ہو جبکہ ابھی تو تم نے اپنی اصل ساس کا سامنا کرنا ہے۔ یہ تو سمجھو ٹریلر تھا فلم تو ابھی باقی ہے۔ سوچو تب کیا ہوگا۔ جب تم مما کے سامنے جاوؑگی اور…”
”پلیز اب مجھے ڈرائیں تو مت۔” وہ دہل کر پیچھے ہٹی۔ جرار ہنس دیا۔ فون کی بیل ہورہی تھی وہ بیڈ تک آیا تکیے کے پاس پڑا اپنا سیل اٹھا کر دیکھا۔ ماتھے پر اک لکیر ابھری۔
”کس کا فون ہے؟” صباحت کو اس کے انداز نے چونکایا۔ وہ خود کلامی کررہا تھا۔ ”زرتاشہ کل گھر گئی ہے اور مجھے پکا یقین ہے اس بے وقوف نے مما کو کچھ بھی نہیں بتایا ہوگا۔ رشنا مامی اپنے میکے گئی ہوئی ہیں وگرنہ تو یہ اطلاع اب تک مما تک پہنچ چکی ہوتی۔ ہوں…” وہ اسی طرف مڑا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (دوسرا حصّہ)

Read Next

نیا قانون — سعادت حسن منٹو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!