اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (تیسرا اور آخری حصّہ)

میں تیری ہڈیاں توڑ ڈالوں گی بدبخت۔ مت کر ایسی بات جو عزت رول دے ہماری۔میرا بھائی جدا کروائے گا مجھ سے۔ میرے منہ میں خاک پڑے جو میں ایسی بات کرنے جاؤں۔ آگ لگے اس ویلے کو جب میں تجھے قاسم کے ویاہ پہ لے گئی تھی۔ ہائے تو اتنا دیدہ ہوائی ہوگا مجھے کیا خبر تھی۔ ہائے کہیں یہ سارا کھیل اس سجیلہ ماری کا تو نہیں۔ شکل سے تو بڑی معصوم ہے اور کرتوت ایسے چلتروں والے۔ بیڑا تر جائے اس چالاکو کا سات گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے۔ اوئے اس نے سگی بہن کے منگیتر پر ہی ڈورے ڈال دیئے۔ حیا نہ آئی ذرا وی۔
”خدا کا واسطہ ہے اماں۔ مجھے چار جوتے اور مارلو۔ مگر اس کا نام نہ لینا اس بے چاری کے تو فرشتوں کو بھی خبر نہیں۔ بس میرا ہی دل پھر گیا ہے۔ میں کیا کروں اماں۔” وہ بے بس تھا۔
”کچھ نہ کڑ اپنے دل کو سمجھا۔ آج میں نے نام لیا ہے کل سارا زمانہ انگلی اٹھائے گا اس پر۔ اوئے کیوں پیچھے پڑا ہے اس نمانی کے۔ ماں پیو کے لئے بے شک ساری اولاد ایک جیسی ہوتی ہے مگر جہاں معاملہ ہو عزت اور غیرت کا وہاں بڑے مسئلے مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جب میرے کن (کان) سننا گوارہ نہیں کررہے میرا دل راضی نہیں ہورہا تو اس باپ کا سوچ جس کے آگے یہ سوال رکھیں گے۔ اوئے مر جائیں گے وہ جیتے جی۔ نہ امتحان لے ہم سب کا۔” نفیسہ اس سے زیادہ سو ہنی ہے، زیادہ سلیقہ مند ہے۔ کیا کمی ہے اس میں؟
”کوئی کمی نہیں اماں پر مجھ سے یہ نہیں ہوگا اگر میں نفیسہ سے شادی کر بھی لوں تو میرا دھیان اسی میں رہے گا۔ اور یہ منافقت ہوگی۔ گناہ ہوگا۔ ظلم ہوگا نفیسہ کے ساتھ ، ٹھیک ہے نہیں ماننی میری بات تو پھر یہ رشتہ بھی ختم کردو۔ میں آج کے بعد کبھی ساری زندگی نام نہ لینا میری شادی کا۔ کہہ دیا ہے میں نے سجیلہ نہیں تو پھر کوئی پرستان کی پری بھی ہو ہرگز نہیں۔” اس کا فیصلہ اٹل تھا اور دلوں کے فیصلے ہی ایسے ہیں۔ منہ زور دریاؤں جیسے، صحرا کی تپتی دوپہر میں چلتی تیز ہواؤں جیسے، جنہیں اپنے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔ جو اپنی کرنی پر اتر آئیں تو پھر دید، لحاظ، مروت، تعلق کی پاسداری ، سب اٹھا کر طاق پر رکھ دیتے ہیں۔
زینت پھوپھو نے بھی جان لیا تھا بیٹے کا جوان خون ہوش بھلا کر جوش مار رہا ہے اور ایسے میں زور زبردستی کہیں کوئی دکھ ہی نہ مقدر کردے۔
محسن نے تو جیسے کمر کس لی تھی انہیں سارے خاندان میں ذلیل کروانے کی۔ اس مسئلے کا حل کیا ہوگا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ابھی تو گھر کی بات گھر میں ہی تھی اگر جو ہونٹوں سے نکل کر کوٹھوں چڑھ گئی تو… اور یہ سوچ ہی انہیںلرزہ براندام کرڈالتی۔
آپابی کو اظفر بھائی کے لئے اپنی کوئی دور پار کی بھانجی بری طرح بھاگئی تھی۔ رشتہ ڈالنے جانا تھا۔ ابا جی نے بڑے مان کے ساتھ بہن کو بھی بلوا بھیجا۔ محسن ہی چھوڑنے آیا تھا۔
سجیلہ بھی تین دن کی چھٹی لے کر آئی ہوئی تھی۔ وہی سادہ روپ سروپ، ہلکے زرد رنگ کے کپڑوں میں وہ کھلی کھلی سی بڑی پیاری لگ رہی تھی۔ بھائی کی خوشی کا اسے بھی بڑا چا تھا خوب چہک رہی تھی۔ نفیسہ بھی سلام کرنے آئی۔ نیلے رنگ کا بہترین سوٹ زیب تن کئے ہلکا ہلکا میک اپ ناک میں دمکتی لونگ، کانوں میں بالیاں، چوڑیاں سجے سنورے رہنا اسے پسند تھا یا اسپیشل تیاری تھی محسن کو کوئی غرض نہ تھی اس بات سے۔ اک نظر کے بعد اس نے دیکھا بھی نہیں۔ آتے ہوئے وہ اماں کے کان میں کہہ آیا۔ ماموں سے ایک بار بات ضرور کرنا اماں۔ آپ کو ابا کی قسم۔ اور وہ سب کے بیچ ہکا بکا اس کی پشت تکتی رہ گئیں۔
اظفر بھائی کی بات طے ہوگئی تھی۔ اباجی مطمئن تھے۔ انہوں نے پھوپھو سے کہا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

خیر سے یہ معاملہ بھی نبٹا۔ اب اظفر کی نوکری لگتے ہی میں نے اس کا ویاہ کردینا ہے اور میری خواہش ہے کہ نفیسہ بیٹی کو بھی اسی پھیرے میں رفعت کردوں۔ ماشاء اللہ چودہ جماعتیں پڑھ لیں ہیں اس نے۔ آجکل ماں سے گھر داری سیکھ رہی ہے۔ آپ نے دیکھا آپا۔ میری بیٹی میں کتنا سلیقہ ہے۔ اور پھوپھو سے کوئی جواب نہ بن پڑا حلق میں کانٹے اگ آئے تھے۔ گویا امتحان کی گھڑی آیا ہی چاہتی تھی۔ پھر آخر وہ تن تنہا کب تک روک پائیں گی اس طوفان کو۔ اک دن تو آندھی اٹھے گی ہی۔ اور تب کیا ہوگا۔ یہ تصور ہی آنکھوں کے آگے اندھیرا لے آتا تھا تو حقیقت کیا کیا نہ ستم ڈھائے گی۔ لیکن یہ تو طے تھا کہ محسن کا دل پلٹ چکا ہے اب اگر اسے مجبور کرکے یہ بندھن باندھ بھی دیا جائے۔ تو جن رشتوں کو بنانے میں جذبے خالص نہ ہوں وہ اس برتن کی طرح ہی کچے رہتے ہیں جن کے ذرا سی بھی ٹھوکر لگنے سے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو۔ سوئی میں دھاگہ ڈال کر ایک سرے کو گرہ لگانا سود مند نہیں ہوتا ٹانکا نکل بھی سکتا ہے۔ جب تک دونوں سروں کو برابر جوڑ کر گرہ نہ لگائی جائے مضبوطی مشکوک رہتی ہے۔ بالکل اسی طرح جب تک باہمی الفت نہ ہو، نبتیں بھی پائیدار نہیں ٹھہرتیں اور جب کل بھی یہ ذکر چھڑنا ہے تو پھر آج ہی کیوں نہیں اور وہ بری طرح پھپھک کر رو دیں تھیں۔ میں نے بہت سمجھایا ہے اسے۔ ترلے واسطے بھی ڈالے ہیں۔ مگر وہ نہیں مانتا۔ میں سخت مجبور ہوکر تم سے کہہ رہی ہوں۔ دیکھ ویر یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے اگر ہم اسے عقل و فہم سے سلجھالیں گے تو اچھا ہوگا ورنہ دنیا تو رائی ڈھونڈتی پھرتی ہے پہاڑ بنانے کو۔ میرے لئے تو جیسی نفیسہ ویسی سجیلہ مجھے تو دونوں ہی پیاری ہیں۔ اور میں جانتی ہوں اتنے سال ہوگئے منگنی کو نفیسہ کو ضرور صدمہ ہوگا۔ مگر یہ اس کے لئے کل کے دکھوں سے ہزار درجے چنگی تکلیف ہوگی۔ جو زخم ناسور بننے کا خطرہ ہوا ہے چیرا لگانا پڑتا ہے۔ اللہ کیا تو اسے محسن سے بھی کہیں درجے بہتر رشتہ مل جائے گا۔ چاند کا ٹوٹا ہے میری گڑیا، کوئی کمی نہیں ہے اس میں۔ بس کمی میرے محسن کے نصیبوں میں ہی تھی وہ قابل ہی نہیں اس کے۔ مجھ سے ناراض نہ ہونا ویر۔ میں تو سوچ سوچ کر ہار گئی، کوئی حل نہیں سوجھا۔ اب سب تمہارے ہاتھ میں ہے۔ بس دھیان رکھنا کوئی ہمارے بچوں پر انگلی نہ اٹھائے۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے فیصلہ کرنا۔ تم جو بھی کہو گے مجھے منظور ہوگا۔” انہوں نے گیند بت بنے ابا جی کے کورٹ میں ڈال دی۔ انہیں زک پہنچی تھی تو وہ باپ تھے ان کا تو دل ہی دولخت ہوگیا تھا کس قدر مشکل گھڑی تھی ان پر۔ جس طرح انہوں نے اپنے جذبات پر قابو رکھا ان کا دل ہی جانتا تھا اور وہ سوچ چکے تھے کہ یہ قصہ ہی ختم کردینا ہے۔ مگر زینت پھوپھو کا رونا دھونا آآکر دامن پکڑتا وہ مجبور ہوگئے۔ محسن کا فیصلہ غیر اخلاقی تو کہلایا جاسکتا تھا مگر غیر شرعی ہرگز نہیں تھا۔ اس نے اپنا حق استعمال کیا تھا پھر اس میں کوئی عیب نہ تھا۔ سجیلہ کے لئے ہر طرح سے مناسب تھا وہ۔
اظفر بھائی کی شادی ہوگئی اور نفیسہ کی رخصتی؟ آپا بی پوچھتی رہ گئیں ابا جی چپ کا گھونٹ بھرے ہوئے تھے۔ اور جب سجیلہ تعلیم مکمل کرکے گھر آئی تو ان کے اک اچانک فیصلے سے گویا بھونچال آگیا۔ اتنے عرصے میں وہ چپ چپاتے رشتہ تلاش کرتے رہے تھے۔ نواب ہمدانی ان کے دیرینہ دوستوں میں سے تھے۔ اعلیٰ خاندان، دور تک پھیلا کاروبار، کھاتا پیتا گھرانہ، غیاث ہمدانی انہی کا نور چشم تھا۔ پڑھا لکھا خوبرو نوجوان، جس نے باپ کا سارا کاروبار سنبھال رکھا تھا۔
نفیسہ تو نفیسہ۔ سجیلہ بھی اس فیصلے کو سمجھنے اور ماننے سے قاصر تھی اس کی تو حیرت ہی نہیں جارہی تھی جبکہ نفیسہ نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ یہ سب محسن کی ایماء پر ہورہا ہے۔ کچھ سن گن مل گئی تھی۔
اچھا تو تم نے اسے اپنے چکر میں پھنسایا ہے۔ میں بھی کہوں اتنے عرصے کی منگنی میں کبھی اس کا دل کیوں نہیں کیا مجھ سے بات کرنے کو۔ اس میں وہ عام منگیتروں والی کوئی بات کیوں نہیں۔ بہت سے موقعوں پر وہ یہاں آیا مجھ سے بولنا تو درکنار وہ تومجھے دیکھتا بھی نہیں تھا۔ مجھ سے منگنی رکھ کر وہ عشق تم سے لڑاتا رہا۔ یہ تو سراسر میری توہین ہے۔ میں تم دونوں کو کبھی معاف نہیں کرونگی۔ میرے جذبات سے کھیلے ہو تم لوگ۔ وہ تو چلو رشتے دار تھا مگر تم تو میری بہن تھیں تم نے بھی اتنی بے غیرتی دکھائی اپنے ہی گھر میں نقب لگائے شرم نہ آئی تمہیں۔ وہ انگارے چبارہی تھی۔
سجیلہ تڑپ کر رہ گئی۔
خدا کا واسطہ آپا۔ مجھ پر الزام مت دھریں۔ مجھ سے بدگمان مت ہوں۔ میرا کوئی قصور نہیں۔ ابا نے یہ فیصلہ کیوں کیا ہے میں کچھ بھی نہیں جانتی۔
ہونہہ۔ اب میرے سامنے معصوم بن رہی ہو۔ بکواس مت کرو۔ میری جیسی خوبصورت منگیتر ہوتے ہوئے وہ تمہاری طرف ملتفت ہوا۔ تم نے انگلی پکڑائی ہوگی تبھی تو وہ ہاتھ مانگ رہا ہے۔ کوئی مرد یونہی پیچھے نہیں پڑجاتا کسی عورت کے۔ آخر کچھ تو حوصلہ بڑھایا ہوگا تم نے۔ ارے کف ہے ایسی تعلیم پر جو تم لوگوں کو عزت اور غیرت کا سبق نہیں پڑھاسکی۔ ڈوب کر مرجاؤ تم تو…اس کے پاس الزامات کی فہرست تھی اس کا مان ٹوٹا تھا اور جب چوٹ دل پر پڑتی ہے تو زبان اختیار کھو دیتی ہے۔ اگر یہ بھی نہ ہوتا تو غم کاز ہر اندر رکھنے سے انسان اسی وقت ختم ہوجاتے۔ وہ غبار نکالتی رہی… وہ صفائیاں دے دے کہ تھک گئی۔
”اس نے مجھے ٹھکرایا ہے۔ بے عزتی کی ہے میری۔ اگر تم سچی ہو تو اب تم اسے ٹھوکر ماروگی۔ انکار کردو اس کے رشتے سے۔” نفیسہ نے اس کی سچائی جانچنے کے لئے پیمانہ رکھا تھا اور وہ جھوٹی نہیں تھی اسے ثابت کرنا تھا۔ وہ ابا جی کے سامنے رو پڑی۔
”جھلی ہوگئی ہے نفیسہ۔ اسے غصہ ہے پتر۔ تم اس کی کسی بات پر دھیان نہ دو۔ یہ فیصلہ میرا ہے۔ اور میں نے خوب سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ اور تم بھول گئی ہو جو وعدہ میں نے تم سے لیا تھا۔ تم میری کسی بات کو رد نہیں کرسکتیں۔ ماں باپ اولاد کے دشمن نہیں ہوتے وہ اپنے بچوں کی بہتری چاہتے ہیں ہر حال میں۔ اور میرا یہ فیصلہ تم دونوں کے حق میں کتنا ٹھیک تھا یہ جلد ہی اسے بھی سمجھ آجائے گی۔” اس کے رونے دھونے اور نفیسہ کے واویلا کرنے پر کسی نے بھی دھیان نہ دیا تھا۔ روتی دھوتی اپنے اپنے گھر کی ہوگئیں۔
سجیلہ بہت عرصہ محسن سے روٹھی رہی مگر پھر بالآخر اس کی محبتوں کی شدت پر ایمان لے آئی۔ غیاث ہمدانی بھی نفیسہ کے لئے بہترین شریک حیات ثابت ہوئے تھے۔ دونوں اپنی اپنی جنتوں میں بس رہی تھیں۔ مگر کون جانتا تھا نفیسہ کے دل میں کتہا وہ ملال کا کانٹا آج بھی جوں کا توں ہے۔
اور ایسے قصوں کو دنیا تو کچھ عرصہ بعد نیا چٹخارا ہاتھ لگنے پر بھلا دیتی ہے۔ مگر یہ جو ہم ہوتے ہیں ناں۔ ہم خود ہی اپنے زخموں پر کھرنڈ کوجنے نہیں دیتے اور یہی غلطی ایک بار پھر دہرائی گئی تھی۔
٭…٭…٭
فلک دور تلک کالے سیاہ بادلوں سے اٹا پڑا تھا۔ ساتویں کا چاند کہیں کسی پل موقع تاک کر اپنے چہرے سے بدلیوں کی چادر سرکا کر جھاتی مار لیتا یا پھر ہوا کی رتھ پر سوار پانی سے بھرے بادل آپس میں ٹکراتے تو روشن کا جھما کا سا ہر اور پھیل جاتا سارے منظر چاندنی سے نہا جاتے۔ ہوا سے جھولتے درختوں کی شائیں شائیں آسمانی بجلی کی گڑگڑاہٹ عجیب پربیت شور برپا کررہے تھے۔ ساری شام خوب مہینہ برسا تھا اور ابھی بھی موسم کے تیور ٹھیک نہ لگتے تھے۔ بارش سے پہلے اٹھنے والی آندھی کی کارستانیاں پورے صحن میں نظر آرہی تھیں۔ لائٹ حسب دستور دغا دے گئی تھی۔ چاند ایک بار پھر پردے سے باہر آیا تو اس نے دیکھا سنچیریا کی ٹوٹی بیل کے پاس اک سایہ سا تھا۔ جس نے جھک کر کچھ اٹھایا اور زیادہ غور نہیں کرنا پڑا تھا وہ اک شاخ سے ٹوٹ کر گرا سبز چڑیا کا گھونسلہ تھا۔ جو اب اس کے ہاتھ پر دھرا تھا۔ وہ لب بھیچ کر کھڑکی سے ہٹ گیا۔ بنا دیکھے بھی وہ جان گیا ان آنکھوں میں ٹوٹے انڈے دیکھ کر آنسو چمکا ہوگا۔ اک گہری ٹھنڈی سانس سینے سے نکل کر ہواؤں کی خنکی میں مل گئی تھی۔
”لو بھئی آجاؤ جلدی سے۔ کیا زبردست گرما گرم چائے اور پکوڑے بناکر لایا ہوں میں۔ کھاؤ اور میری صلاحیتوں کی داد دو۔ ویسے جب لڑکی کی سگھڑ ہوجاتی ہے تو گھر والے اس کے بیاہ کی فکر کرنے لگتے ہیں۔ ماشاء اللہ سے میں تو خود اتنا سلیقہ مند ہوں کہ مجھے اپنی فکر… وہ اپنے ہی دھیان میں بولتا آرہا تھا کہ سامنے نظر پڑتے ہی زبان کو بریک لگ گئے۔” بے اختیار پوچھا۔
”خیریت تو ہے بھائی صاحب۔ یہ کیا ہونے لگا؟” اور بھائی صاحب نے جو اب دینا کسر شان سمجھا تھا۔ اپنی سب سمیٹی چیزیں بیگ میں بھرتے رہے۔
اوہ بھیا اتنی ایمرجنسی بھی کیا آن پڑی ہے۔ یہ پیکنگ صبح بھی ہوسکتی ہے۔ کل گیارہ بجے ہم یہاں سے نکلیں گے اور شام کو جب ہم خیر سے فارغ ہوجائیں گے تو میں بذات خود آپ جناب کو کوچ میں سوار کروا آوؑں گا اور ابھی چھوڑو یہ سب کچھ تم نے کھانا بھی نہیں کھایا آجاوؑ کم از کم چائے ہی پی لو۔ یہ آخری بار ہے اگلی بار جب ہم ملیں گے تو پھر چائے میرے ہاتھ کی نہیں بلکہ تمہاری…”
”مجھے کل سویرے پہلی بس پر نکلنا ہے میں شام تک نہیں ٹھہر سکتا سوری۔” اس نے لب کشا کئے تھے یا لٹھ ماری تھی جرار تڑپ ہی گیا۔
”ابتہاش۔” مارے دکھ کے وہ بدقت اس کا نام ہی لے سکا۔
”ٹھیک ہے بھئی۔ مرضی والے ہو۔ جاوؑ تم بھی چھوڑ دو۔ نہ دو میرا ساتھ۔ کوئی نہیں ہے۔ میرا جب میرے اپنے میرے نہیں رہے۔ جب ماں کسی اور کی خاطر روٹھی بیٹھی ہے۔ جب باپ ننانوے فیصد شوہروں کی طرح مجبور ہے۔ تو پھر تم پر کیا تکیہ کروں تم بھی ہوا دو مجھے۔ رج رج کہ دو۔” وہ بے طرح تڑخا تھا۔
یار جب انکل پاور رکھتے ہوئے مجبور ہوسکتے ہیں تو میں تو زیادہ مجبور ہوں۔ کیونکہ خالہ جان کی کتاب میں تو ہمارے لئے پہلے ہی معافی کا لفظ نہیں تھا۔ اب اگر میں نے تمہارا ساتھ دیا تو سمجھو تمام عمر کے لئے معتوب ٹہرا دیا جاوؑں گا۔ میرے خیال میں پہلے والا جرم ہی کافی ہے۔ میں مزید دفعات نہیں لگوا سکتا خود پر۔ مجھے تو معاف ہی رکھو۔ اس کے ہونٹوں پر مجروح مسکراہٹ تھی۔ جرار چپ کا چپ رہ گیا۔ وہ اپنی جگہ بالکل سچا تھا اب کیا بحث کرتا۔
اچھا چائے تو پی لو۔ ٹھنڈی ہورہی ہے۔ وہ خود ٹھنڈا ہوکر بیٹھ گیا تھا۔ ابتہاش کاندھا تھپکتا ساتھ ہی ٹک گیا۔
”پکوڑے بہت مزے کے ہیں۔” نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے ایک اٹھا لیا تھا۔”
”ہاں واقعی۔ پہلی بار زرتاشہ کے ہاتھ سے کوئی چیز پرفیکٹ بنی ہے۔ اس نے بنائے ہیں۔ سچ میں اچھے بنے ہیں۔” جرار ایک کے بعد دوسرا چٹنی میں ڈبو رہا تھا۔
جبکہ اس کے حلق میں وہی پتھر کی طرح پھنس گیا۔
بجلی ایک بار پھر چمکی تھی۔ وہی سایہ پلر سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ بارش اک بار پھر زور پکڑنے لگی اور اک بارش اس کے اندر ہورہی تھی۔ جس کی اطلاع محکمہ موسمیات والے نہیں دیتے یہ تو بس ہونے لگتی ہے۔
کبھی بھی۔
کہیں بھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (دوسرا حصّہ)

Read Next

نیا قانون — سعادت حسن منٹو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!