اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (تیسرا اور آخری حصّہ)

شہباز کبیر کی اولاد میں وہ تیسرے نمبر پر تھی۔ بھولی بھالی۔ من موہنی صورت، بلا کی سادہ مزاج اور حد درجے ذہین۔ جس عمر میں بچے کھیل کھلونوں کی جانب رغبت رکھتے ہیں۔ وہ تب بھی کتابوں میں سردیئے ہوتی۔ اس کی اپنی ایک الگ ہی دنیا تھی۔ پہلے تو وہ گاؤں کے ہی پرائمری اسکول جاتی تھی پھر جب بھائی اور آپا کے پرائمری کے پاس کرنے کے بعد شہر کے اسکول میں داخلہ ہوا تو اباجی نے اسے بھی ان کے ساتھ ہی بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ یوں وہ تیسری جماعت سے ہی شہر جانے لگی اور یہ ایک بہترین فیصلہ ہوا اس کی صلاحیتوں کو نکھارنے کا۔
”میری بیٹی تو پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بنے گی۔” یہ آپابی کا خواب تھا۔
آپا بی جو خود کبھی پڑھنے لکھنے کی بے حد شوقین رہی تھیں۔ مگر دیہاتی زندگی، تعلیم ماحول کا فقدان، ناکافی سہولتیں، وہ صرف قرآن پاک پڑھنا ہی سیکھ سکیں جو وہ بہترین قرات سے پڑھا کرتیں۔ جب بیاہ کر شہباز کبیر کے گھر آئیں تو ان کے مشورے سے گاؤں کی بچیوں کو قرآن پاک پڑھانے لگیں۔ سب انہیں آپابی پکارنے لگے حتیٰ کہ پھر ان کی اولاد بھی یہی کہنے لگی۔ جب بچے پڑھنے لکھنے بیٹھتے ساتھ وہ بھی بیٹھ جاتیں یوں کوشش سے تھوڑی بہت اردو پڑھنا بھی سیکھ لی۔
اب اپنے خواب انہوںنے بیٹی کی پلکوں پر دوسردیئے اور وہ ایک اچھی امانت دار ثابت ہوئی پھر وقت نے بتایا۔
حسن و ذہانت میں ان کی بڑی بیٹی بھی کم نہ تھی۔ بلکہ دیکھا جاتا تو خوبصورتی میں وہ چھوٹی سے دو ہاتھ آگے ہی تھی۔ مگر بس اک کمی تھی اس کے مزاج میں وہ لگن اور جذبہ نہ تھا جس کے بل پر چھوٹی منزل پہ منزلیں مارتی چلی گئی۔
شاندار نمبروں سے بارہ جماعتیں پاس کرنے کے بعد قسمت کی یاوری سے اسے میڈیکل کالج میں بآسانی داخلہ مل گیا تھا۔ آپابی کے تو پاؤں ہی زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ یہ نہیں تھا کہ خاندان میں سے کوئی اور اس فیلڈ میں نہیں تھا زینت پھوپھو کا بڑا بیٹا ڈاکٹر بن رہا تھا۔ ہاں وہ پہلی لڑکی تھی جو اتنی سخت پڑھائی کرنے جارہی تھی۔
پہلے تو یہ تھا کہ اباجی نے گاڑی لگوا رکھی تھی صبح سویرے شہر لے جاتی پھر دوپہر واپسی پھر دلاور بھائی نے ڈرائیونگ سیکھ لی تو اپنی کار لے لی۔ مگر اب منہ اندھیرے اٹھ کر جانا اور شام تک واپسی کے بعد ہمت ہی نہ بچتی کہ رات گئے تک پڑھا جائے۔ بہت ہی مشکل ہونے لگا تھا۔ اس کی یہ روٹین دیکھ کر آپابی نے ہی شور ڈالا تھا۔
اس طرح تو یہ لڑکی بیمار ہوجائے گی۔ ارے دوسروں کا علاج کرنے جوگی تو اللہ جانے کب ہوگی یہ نہ ہو کہ ہمیں اس کا ہی علاج کروانا پڑ جائے۔
میں بہت تھک جاتی ہوں آپابی۔ پھر ٹھیک سے پڑھائی بھی نہیں ہوپاتی۔ اباجی سے کہیں نہ کہ مجھے ہاسٹل میں رہنے کی اجازت دے دیں۔
مگر اباجی کو زمانے کے حالات سے ڈر لگتا تھا لوگوں کی رنگ رنگ کی باتیں سن کر وہ سخت متامل تھے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

میں ذکیہ بھابھی سے بات کرلیتا ہوں۔ جب اپنے شہر میں ہیں تو ضرور ہاسٹل میں رہنا ہے۔ وہ ایک الگ کمرہ تمہیں دے دیں گی۔ آرام سے رہنا سکون سے پڑھنا۔ آخر انہوں نے ہی حل نکالا تھا۔ مگر جس پر آپابی تو کیا اسے بھی شدید اعتراض تھا۔
”افوہ بڑی تائی۔ نہیں نہیں آپابی خدا کے واسطے۔ اباجی کو سمجھائیں۔ کتنی باتیں کرتی ہیں بڑی تائی۔ وہ تو سارے زمانے کی خبریں رکھتی ہیں پھر ان پر بے مقصد ڈسکشن کرنا بھی ان کی ہابی ہے۔ اس پر ان کا اتنا بڑا کنبہ۔ میں اس ماحول میں قطعی ایڈجسٹ نہیں ہوپاوؑں گی۔ میں بالکل نہیں رہونگی وہاں۔ اس نے واویلا مچایا پھر کسی طرح آپابی نے اباجی کو راضی کیا یہ تو وہی جانتی ہوں گی اور جب وہ پہلی بار اسے ہاسٹل چھوڑنے گئے تو خوب غصے میں تھے۔
میرا دل ابھی بھی مطمئن نہیں ہے۔ پر میں نے تمہاری بات مان لی۔ لیکن یاد رکھنا۔ آئندہ تمہیں میرا ہر فیصلہ ماننا ہوگا۔” اور وہ تو اسی خوشی میں تھی کہ اب سکون سے پڑھا کرے گی زور و شور سے سرہلادیا۔
افضل ماموں کے بڑے بیٹے کی شادی تھی۔ آپابی خریداری کرنے شہر آئی تھیں۔ واپسی پر اسے بھی زبردستی ساتھ لے آئیں۔
”پڑھ پڑھ کر کتنا سا منہ نکل آیا ہے میری بچی کا چار دن رونق میلہ دیکھوگی تو طبیعت پر اچھا اثر پڑے گا اور ہاں کوئی کتاب مت اٹھانا ساتھ میں۔ خاندان والے تو پہلے ہی جل جل کر مررہے ہیں وہاں بھی جاکر پڑھتی رہیں تو کہیں نظر ہی نہ لگ جائے۔ دھیان کرو اپنا۔ وہ ماں تھیں۔ خوب وہمی ہورہی تھیں۔ اس نے پھر بھی نظر بچاکر ایک دو کتابیں بیگ میں ڈال لیں۔ چند ہی دنوں میں ٹیسٹ اسٹارٹ ہورہے تھے وہ وقت ضائع کرنے کے حق میں نہیں تھی۔ اور وہ مہندی کا فنکشن تھا سارے خاندان کی لڑکیوں نے تیاریوں میں ایک دوسرے کو مات دینے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ اس کے اور آپا کے ڈریس آپابی ہی لے کر آئیں تھیں۔ جو اس نے تو بخوشی قبول کرلئے تھے مگر آپا نے سب میں ہی خوب خوب نقص نکالے تھے وہ تو اگلے ہی دن شہر جاکر اپنی پسند کے کپڑے لے کر آئی تھیں بھئی ان کے سسرال والے بھی اس شادی میں شرکت کرنے آرہے تھے اور خاص طور پر منگیتر صاحب بھی تو ان کا نخرہ کرنا بنتا تھا وہ خوب سجتی سنورتی۔ جبکہ وہ ٹشو کی گوٹالگی گھیر دار فراک سے بنا کسی میک اپ اور بھاری جیولری کے لمبے بالوں کی ڈھیلی ڈھالی سی چٹیا گوندھے آگئی تھی۔
ہر طرف مخصوص ہلا گلا تھا۔ بڑے سارے صحن میں دریاں بچھی تھیں عین وسط میں علاقے کی مشہور میراثنیں اپنی پاٹ دار آوازوں میں پٹے اور شگنوں کے گیت گا رہی تھیں۔ خاندان کی بڑی بوڑھیاں بھی اردگرد گھیر ڈالے اپنی لرزتی آواز ساتھ ملانے لگیں۔ منچلی لڑکیاں کسی رشتے کی مامی، چاچی کو گھیر لائیں اور لڈی ڈالنے پر مجبور کرتیں۔ وہ بھی چار نا چار دونوں ہوا میں تلوار کی طرح لہراتے دو چار گول چکر کاٹ دیتیں۔
لڑکیوں کا ہنس ہنس کر برا حال ہوجاتا پھر رسم کے وقت سرخ دوپٹے کی چھاوؑں میں دولہا میاں کو لاکر رنگ رنگ کے پھولوں سے سجی چوکی پر بٹھا دیا گیا۔ اتنا شو رشرابہ کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ سب ادھر مصروف تھے۔ وہ چپکے سے کھسک کر ماموں جی کے کمرے میں جا بیٹھی۔ بڑے سادے ہینڈ پرس میں کتاب ، پین، پیڈ سب موجود تھا۔ عادت تھی جو یاد کرتی ساتھ کے ساتھ لکھتی بھی جاتی یوں زیادہ اچھے سے ذہن نشین ہوجاتا۔ وہ مصروف تھی تبھی کوئی کمرے میں آیا اور اسے سب سے چھپ چھپا کر کتابوں میں گم دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس کی خوبیوں کے متعلق سنا تو تھا آج آنکھوں سے دیکھ بھی لیا۔ باہر کی دل لبھاتی محفل کو چھوڑ کر یہاں اپنے ہی دھیان میں رٹے مارتی گلابی رنگ کی فراک میں وہ گلابی گڑیا ہی لگ رہی تھی۔ وہ اسے ڈسٹرب کئے بنا ہی پلٹ گیا۔
ان کے ہاں کا رواج تھا جو بھی دینا دلانا ہوتا وہ بھی آج کے دن ہی نبیڑلیاجاتا سب برادری والے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق تحفے تحائف دیتے جس کی سب تفصیل درج کرنا ضروری ہوتا تھا تاکہ پھرجب کوئی بیٹا بیٹی بیاہے تو اسے کے دیئے کے مطابق دیا جاسکے۔ مامی حلیمہ کاپی پنسل دھونڈتی پھر رہی تھیں۔ کہ ماموں کے کمرے میں اسے بیٹھے دیکھ لیا۔
”لوبھئی بڑے یونہی نہیں علم کے فائدے بتاگئے پڑھا لکھا ہی جانے کاغذ قلم کی حیثیت۔ ادھر اتنے بڑے گھر میں۔ میں تو ڈھونڈ ڈھونڈ کہ مرگئی اور مسئلے کا حل نکلا ہماری ڈاکٹرنی صاحبہ کے پاس۔ لا ادھر دے مجھے۔ اچھا بلکہ یوں کر میری ٹٹی پجی(ٹوٹی پھوٹی) لکھائی میں لکھا کیا سمجھ آئے گا کسی کو۔ اگلے سٹیم پڑنے پر گالیاں ہی دیں گے مجھے۔ چل آ میری شہزادی تو ہی لکھ دے سارا حساب۔
وہ اسے پنڈال میں کھینچ لائیں۔ ایک طرف دری پر سب چاچیاں، مامیاں، خالائیں، پھوپھیاں اپنا اپنا ”ورتارا” لے کر جمع تھیں۔ چلو لکھو۔
خالہ فاخرہ کی طرف سے مبلغ پانچ سو روپیہ سمیت چار جوڑے۔
چابی کبریٰ کی طرف سے ووہٹی کے لئے سونے کا چھلا سمیت مارے ٹیر کے جوڑے اور … مامی حلیمہ اسے لکھواتی جارہی تھیں۔ وہ بری پھنسی تھی۔ کاغذ قلم پاس رکھنے کا کبھی یہ انجام بھی ہوگا سوچا نہ تھا۔ وہ جھنجھلائی ہوئی بار بار چہرے پر پھسل آنے والی ریشمی لٹ کو کان کے پیچھے اڑستی۔ وہ ادھر سے گذرا تھا کہ نظر پڑی۔ اس کی حالت زار پر بے اختیار ہنسی آئی مگر اگلے ہی پل یہ خیال کہ وہ تو تندہی سے پڑھ رہی تھی اور اس کی پڑھائی ہر کام سے زیادہ ضروری ہے اور یہ اس سے بہتر بھلا کون جانتا وہ ادھر ہی آگیا۔
”کتنا مال اکٹھا ہوگیا مامی جی۔ آپ سب تو پوری دکان سجا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر حساب میں ذرا سی بھی گڑ بڑ رہ گئی تو… اور اگر کل کلاں کو سحرش باجی کی شادی پر آپ نے ورتارے میں ایک جوڑا بھی کم رکھا نہ تو خالہ بشریٰ نے ذرا لحاظ نہیں کرنا وہ تو لڑنے پہنچ جائیں گی اور پھر آپ کو بچانے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔ لائیں مجھے دیں میں تمام تفصیل لکھ دیتا ہوں۔” اور اس نے نہایت ممنون نگاہ سے دیکھا تھا۔
”تھینکس محسن بھائی۔”
مینشن ناٹ۔ جاؤ جاکر پڑھو۔” وہ مسکرایا۔ وہ بھی مسکراتی ہوئی اٹھ گئی۔
محسن کی نظر پشت پر لہراتی لمبی چوٹی کے بلوں میں الجھ کر ساتھ چلی گئی تھی۔ یہ کیا اور کیوں ہوا تھا اس کے ساتھ۔ وہ خود نہیں سمجھ پایا۔ جسے دیکھنے کا اسے حق تھا اسے تو نظر بھر بھی نہ دیکھا جبکہ وہ سچ سنور کر سامنے آتی رہی۔
اس کی اور نفیسہ کی منگنی بہت دھوم دھام سے تو نہ ہوئی تھی بس چار سال پہلے جب نفیسہ نے دسویں کا امتحان بہت اچھے نمبروںسے پاس کیا تو زینت پھوپھو مبارک باد دینے کے بہانے آئیں تھیں۔ اپنی یہ خوبصورت اور نخریلی سی بھتیجی تو انہیں شروع سے ہی بہت پیاری تھی۔ پھر ان کا شہزادوں جیسا بیٹا بھی کسی سے کم نہ تھا پورے خاندان کا پہلا قابل اور ذہین بچہ تھا جو ڈاکٹر بن رہا تھا ایسا پڑھا لکھا اور خوبرو کوئی اور نہ تھا پوری برادری میں سمجھو چاند سورج کی جوڑی ہوتی۔ انہوں نے تو بہت پہلے سے سوچ رکھا تھا۔ اس بار آئیں تو بھائی کے سامنے اپنی خواہش کااظہار کرڈالا۔ اور انہیں بھلا کیا اعتراض ہونا تھا۔ گاوؑں کے مشہور حلوائی سے پانچ کلو بالو شاہی منگوا کر اور شگن کے ایک سو ایک روپیہ نفیسہ کے ہاتھ پر رکھ کر وہ بات پکی کرگئیں۔
اور اب یہ تھا کہ عید کے عید نفیسہ کا شاندار جوڑا۔ چوڑیاں، مہندی، مٹھائی آجاتی، ادھر سے بھی محسن کے لئے عید کا جوڑا، جوتا، ٹوپی، رومال چلا جاتا۔ اس بار بھی زینت پھوپھو کی بہو کے شایان شان خریداری کرنا تھی وہ بیٹے کے سر ہوگئیں کہ بازار لے چلے۔ دو چار دن تو وہ ٹال مٹول کرتا رہا۔ پھر اک شام جب باقی افراد خانہ ادھر ادھر مصروف تھے تو ہ فیصلہ کن انداز اپنائے سامنے آبیٹھا۔
”مجھے آپ سے ایک بہت ضروری بات کرنا ہے۔”
”ہاں بولو۔” وہ دھلے کپڑے تہہ لگا رہی تھیں۔
آپ اس بار ماموں کی طرف عید لے کر جائیں گی مگر …
مگر… زینت پھوپھو نے گردن موڑ کر بیٹے کو دیکھا جس کی نظریں فرش پر گڑی تھیں۔ چہرہ حد درجے سرخ۔ ”مگر … کیا” ان کا دل جانے کیوں ہول ہوگیا تھا۔
”مگر نفیسہ کے لئے نہیں سجیلہ کے لئے۔” اور انکے ہاتھ سے پھوپھا کی بوسگی کی قیمتی قمیض چھوٹ کر پیروںمیں جا پڑی۔
”ہائے میرے اللہ۔ یہ کیا بکواس کررہا ہے تو محسن؟ ”انہوں نے دو ہتھڑ سینے پر مارے تھے۔
”بے غیرتا، بے شرما، یہ کیا بک رہا ہے۔ ہوش میں تو ہے اپنے ۔”
میں اپنے پورے حواسوں میں ہوں اماں۔ میں نے بہت سوچا ہے۔ نفیسہ بے شک بہت خوبصورت ہے۔ مگر اس کے انداز دیکھے ہیں آپ نے اس کا مزاج میری سمجھ میں نہیں آیا۔ قاسم کی شادی پر دیکھتا رہا ہوں میں اسے۔ جبکہ اس کے برعکس سجیلہ بہت سمجھدار لڑکی ہے۔ پھر وہ بھی تو ڈاکٹر بن رہی ہے میری طرح اور میری خواہش ہے کہ میری بیوی بھی ڈاکٹر ہو۔ مجھے یقین ہے ماموں میری بات سمجھ جائیں گے وہ بھی تو انہی کی بیٹی ہے پھر ہم کونسا رشتہ ختم کریں گے۔ نفیسہ نہ سہی… سجیلہ ہی…
”بس۔ میں ادھر ہی ڈک (بند) لے منہ کو۔ خبردار جو آئندہ تیری زبان پر یہ بات آئی۔ اوئے کم بختا اس عمرے میرے چٹے چونڈے میں سواء ڈلوائے گا زمانے کے ہاتھوں ۔ نفیسہ تیری منگ ہے۔ ساری دنیا کو پتہ ہے۔ تیری شادی بھی اسی سے ہوگی کن کھول کہ سن لے تو۔ اپنی خواہشیں تو اپنے پاس رکھ اور اس گل کو یہیں مکا کے دفع ہوجا ادھر سے۔ ” ان کا غصہ تو آسمان کو چھونے لگا اور وہ اس وقت تو اٹھ گیا تھا مگر بات ختم نہیں کی تھی۔ اور اگلی بار جب پھر دل کے ہاتھوں سخت مجبور ہوکر مدعا گوش گزار کرنے لگا تو اماں نے ابا کا پشاوری جوتا اٹھا کر پیٹ ڈالا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (دوسرا حصّہ)

Read Next

نیا قانون — سعادت حسن منٹو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!