انوکھی محبت (انٹرنیٹ والا لو) — مہک شاہ

یمنیٰ کو کراچی سے آنے میں کافی دن لگ گئے تھے۔ کہاں ایک ہفتے کا بول کر گئی اور آج پندرہ دن بعد لوٹی تھی۔ پلوشہ کی منگنی کی خبر اس تک بھی پہنچ چکی تھی۔ اس کا ہمیشہ سے دیکھا گیا خواب پورا ہونے جا رہا تھا۔ اسی خوشی میں بھاگتی ہوئی پلوشہ کے گھر پہنچی۔
پلوشہ صوفے پر اُداس بیٹھی نہ جانے کن خیالوں میں گم تھی۔ یمنیٰ کودیکھ کر اس کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آ گئی۔ لیکن اپنی پکی سکھی کو دیکھ کر اس کا دل بھر آیا اور آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔
کہتے ہیں نا دل اداس ہو تو آنسو خوشی میں بھی ساتھ نہیں چھوڑتے۔ یہی اس کے ساتھ بھی ہو رہا تھا۔ وہ چاہ کر بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس کا دل مطمئن کیوں نہیں ہے۔ یمنیٰ، پلوشہ کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔
”کیا بات ہے پلوشہ؟ کیا ہوا ہے تمہیں؟ کیا تم اس رشتے سے خوش نہیں ہو؟ ”پلوشہ اس سوال پر مزید رونے لگی اور یمنیٰ کے گلے لگ گئی۔
”میں روفائل سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔” یمنیٰ یہ بات سن کر چپ رہ گئی۔
”بس؟ اتنی سی بات؟ میں آج ہی ہادی سے بات کرتی ہوں۔” آخر اس نے اسے چپ کرواتے ہوئے روکا۔
”تم سچ کہہ رہی ہو؟ وہ مان جائیں گے؟” پلوشہ نے بے یقینی سے پوچھا۔
”ہاں! بس اداس مت ہو۔ تم بس ہنستی مسکراتی ہی اچھی لگتی ہو۔”
”روفائل کو تو ویسے بھی ماڈرن لڑکیاں پسند ہیں اور نہ جانے کتنی لڑکیوں کے ساتھ اس کی دوستی ہے۔ تم ٹینشن مت لو اسے فرق نہیں پڑے گا۔” یمنیٰ اس کے آنسو پونچھتے ہوئے بولی تو پلوشہ خوشی سے اس کے گلے لگ گئی۔
اسے یقین تھا کہ یمنیٰ یہ کام کر کے ہی دم لے گی۔ اب اس بات کی ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں تھی ، لیکن نہ جانے کیوں وہ پوری طرح مطمئن نہیں تھی۔ پلوشہ نے لیپ ٹاپ آن کیا اور پھر سے روہاب کی پروفائل دیکھنے لگی، لیکن وہاں آج بھی نہ تو کوئی نئی پوسٹ تھی اور نہ ہی کوئی کمنٹ۔ اس نے افسردگی سے لیپ ٹاپ آف کر دیا۔ آج اتنے دن بعد وہ سکون کی نیند سوئے گی۔ یہی سوچ کر اس نے لائٹ آف کر دی اور سونے کے لیے لیٹ گئی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”روہاب بیٹا ہمیں لگتا ہے اب تم اپنی ذمہ داریوں کو اچھے سے سمجھ گئے ہو۔ اب تمہارے لیے اچھی سی لڑکی ڈھونڈ کر شادی کر دینی چاہیے۔” روہاب کا نوالہ منہ میں لے جاتا ہاتھ وہیں رک گیا۔
”ڈیڈ! میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔” روہاب نے نظریں جھکائے جواب دیا۔
”کیوں؟ کیا ہم تمہارے انکار کی وجہ جان سکتے ہیں؟”تیمورشاہ نے خشمگیں نظروں سے اسے دیکھا۔
”ایسے ہی بابا، کوئی خاص وجہ تو نہیں ہے اور ابھی میری عمر ہی کیا ہے؟”
”برخودارچوبیس کے ہو اور یہ بالکل مناسب عمر ہے شادی کی۔”
”ہوگی ڈیڈ، لیکن مجھے ابھی شادی نہیں کرنی۔” اس نے دو ٹوک جواب دیا۔
بھئی تمہاری مرضی اب نہیں چلے گی۔ اگر کوئی پسند ہے تو بتا دو۔ ورنہ ہم تو کل جا رہے ہیں لڑکی دیکھنے۔” عنیزہ بھی مسکرا اٹھی۔ روہاب نے چونک کر انہیں دیکھا۔
”پھر سے کہہ رہے ہیں اگر تمہیں کوئی پسند ہے توابھی بتا دو۔ پھر نہ کہنا پوچھا نہیں۔” تیمورشاہ نے بارعب آواز میں جتایا۔ روہاب کی ذہن کی اسکرین پر پلوشہ کا معصوم چہرہ لہرایا۔ اس نے فوراً سرجھٹکا۔
”نہیں ڈیڈ! کوئی پسند نہیں لیکن اتنی بھی کیا جلدی ہے۔” اس نے ایک بار پھر ایڑی چوٹی کا زورلگایا۔
”ہمیں جلدی ہے۔ پتا نہیں اور کتنی زندگی بچی ہے میری۔ ہم چاہتے ہیں جلد از جلد اپنی ذمہ داریوں سے آزاد ہو جائیں۔ پھر عنیزہ کے لیے بھی اچھا سا لڑکا دیکھ کر اسے بھی اس کے گھر رخصت کریں گے۔”
”پاپا!”عنیزہ نے ایک دکھ بھری نگاہ تیمورشاہ پر ڈالی، تیمور شاہ ہلکا سا مسکرا دیے۔
”آپ کو ہمیشہ ایموشنل بلیک میل کر کے اپنی بات منوانے کی اور مجھے آپ کی بات ماننے کی عادت ہو گئی۔ ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی ڈیڈ۔” اتنا کہہ کر وہ اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔
”تم نہیں مل سکیں تو کوئی بھی ملے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ”
کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کوئی انسان آنکھوں کی دسترس میں بھی نہیں ہوتا اور ہم اسے سانس سانس جی رہے ہوتے ہیں۔
پھر چاہے وہ جہاں بھی رہے اور جس کے ساتھ بھی اور پیار تو ایک احساس ہے جو انسان کے دل میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
٭…٭…٭
روہاب روز کی طرح تیار ہوکر آفس کے لیے نکل گیا۔ گھر میں خوشی کا ماحول تھا۔ تیمورشاہ کے ساتھ عنیزہ بھی تیار ہو گئی تھی، پلوشہ کے گھر جانے کے لیے۔
سب روہاب کو سرپرائز دینا چاہتے تھے۔ اسی لیے اسے ابھی لڑکی کا نام نہیں بتایا تھا۔ تیمورشاہ پوری تیاریوں کے ساتھپلوشہ کے گھر روانہ ہوئے۔عنیزہ نے پلوشہ کو بھی اپنے آنے کی اطلاع دے دی تھی، لیکن یہ نہیں بتایا تھا کہ کون کون آرہا ہے اور کیوں؟
٭…٭…٭
وہ لان میں ہاتھ میں پھول پکڑے بیٹھی تھی۔ گم صم ہر پنکھڑی کو توڑ کر پھینک رہی تھی۔
جب ہی یمنیٰ اس کے پاس چلی آئی۔
”کس کے لیے کنفیوژ ہو رہی ہو ؟مجھ سے پوچھ لو میں ہیلپ کر دیتی ہوں؟” پلوشہ کے پاس آکر اس نے یک دم سوال کیا۔ پلوشہ اسے دیکھ کر فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔
”تم پہلے یہ بتائو ہادی بھائی سے بات ہو گئی؟ کیا کہا انہوں نے؟” اسی وقت نازش بھی ادھر آگئیں۔
”ہاں جی بات ہو گئی ہے اب وہ لوگ نہیں آئیں گے منگنی کے لیے۔”
”انہوں نے کوئی بات تو نہیں کی؟”نازش نے بے چینی اور فکر مندی سے استفسار کیا۔
نہیں پھوپھو! میں نے ساسو ماں سے صاف صاف کہہ دیا کہ پلوشہ اس رشتے کے لیے رضامند نہیں ہے۔ انہوں نے بس یہی کہا کہ بچی کی مرضی کے بغیر رشتہ ہم بھی نہیں کرنا چاہتے۔ کیا فائدہ ایسے رشتے جوڑنے کا جب بچی کی خوشی ہی شامل نہیں۔”
نازش کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آ گئے۔ انہوں نے پلوشہ کو گلے لگا لیا۔
اچانک گیٹ کھلنے پر عنیزہ اندر آتی دکھائی دی۔ پلوشہ خوشی سے بھاگ کر اس کے گلے جا لگی۔ اس کے پیچھے تیمورشاہ اور رحیم بابا ہاتھ میں مٹھائی پکڑے اندر داخل ہوئے۔
”السلام علیکم!” پلوشہ نے آگے بڑھ کر تیمورشاہ اور رحیم بابا کو سلام کیا۔ انہوں نے پلوشہ کے سر پر پیار دیا اور نازش کی دعوت پر ان کے پیچھے چل دیے۔
اب سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے جب کہ عنیزہ پلوشہ کے ساتھ اس کے کمرے میں چلی آئی۔
”خیر ہے؟انکل بھی ساتھ آئے ہیں؟ تم نے بتایا بھی نہیں انکل اور رحیم بابا بھی آرہے ہیں۔” پلوشہ نے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں جی! سب خیریت ہے۔ٹینشن مت لو اور یہاں بیٹھ کرمیری بات سنو، ہم آج یہاں ایک خاص وجہ سے آئے ہیں۔” عنیزہ نے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
”کون سی وجہ؟” پلوشہ نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے پوچھا۔
”بھائی کے لیے تمہارا رشتہ مانگنے۔”
”کیا؟” پلوشہ کو کرنٹ لگا تھا۔
”ہاں جی! بھائی تو پہلی نظر میں ہی تمہیں پسند کرنے لگے تھے اور اب جو بتانے جا رہی ہوں پلیز اسے سمجھنے کی کوشش کرنا۔” عنیزہ اس کی حیرتوں میں اضافہ کرتی جارہی تھی۔
”وہ جس فیک آئی ڈی سے تمہیں میسج آتے تھے، وہ بھی بھائی کی ہی تھی۔ صرف تم سے بات کرنے کے لیے انہوں نے وہ بنائی تھی۔ ان کی کوئی غلط نیت نہیں تھی۔ وہ صرف تمہیں جاننا اور سمجھنا چاہتے تھے اوریہ اتفاق ہی تو ہے کہ تم نے خود انہیں سے مدد مانگ لی۔اس کے آگے جو ہوا تم جانتی ہی ہو۔”
”لیکن وہ تو روفائل کی تھی؟”
”ہاں! وہ تمہیں غلط فہمی ہو گئی سمجھنے میں، وہ بھائی کی آئی ڈی تھی۔ بھائی خود بھی نہیں جانتے وہ سب کیسے ہوا اور آج ہم یہاں آئے ہیں اس کی بھی انہیں خبر نہیں ہے۔”
پلوشہ بے یقین بھی تھی اور حیران بھی۔ عنیزہ اسے لیے ڈرائنگ روم میں آگئی۔
جہاں تیمورشاہ اور نازش بیگم پہلے ہی سے موجود تھے اور یمنیٰ بھی انہی کے ساتھ بیٹھی تھی۔پلوشہ وہیں صوفے پر بیٹھ گئی۔ تیمور شاہ کی بارعب شخصیت سے یمنیٰ اور نازش دونوں ہی متاثر ہوئی تھیں۔
انہوں نے نہا یت مہذب انداز میں پلوشہ کے رشتے کی بات کی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ روہاب کی پسندیدگی کا اظہار بھی کر دیا تھا۔ روہاب کی تصویر نازش کے ساتھ یمنیٰ بھی دیکھ چکی تھی۔ انہیں روہاب واقعی بہت پسند آیا تھا۔ عنیزہ کو بھی وہ اچھی طرح جانتی تھیں۔ انہوں نے ایک نظر پلوشہ کو دیکھا جہاں ایک انجانی سی خوشی چھلک رہی تھی۔ انہوں نے رضا مندی کا اظہار کردیا۔
تیمورشاہ نے پلوشہ کو پیار دیا اور جلد ہی منگنی کے لیے آنے کی اجازت چاہی۔ نازش بیگم نے خوشی خوشی اجازت دے دی۔ تیمور شاہ اور رحیم بابا گیٹ کی طرف بڑھ گئے جب کہ عنیزہ پلوشہ کے قریب آکر مخاطب ہوئی:
”پلوشہ میں نے تمہیں ہمیشہ اپنی بیسٹ فرینڈ اور بہن سمجھا ہے اور اب بھائی کے حوالے سے تم مجھے اور زیادہ عزیز ہو گئی ہو۔ میرے خیال سے اس بات کو محض ایک اتفاق سمجھ کر یا بھائی کی چھوٹی سے بھول سمجھ کر بھلا دو۔ بھائی حقیقتاً تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔” پلوشہ کے چہرے پر حیادار مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
”ابھی انہیں مت بتانا کہ مجھے سب پتا چل گیا ہے۔” عنیزہ اس کی بات پر مسکرا دی اور اسے گلے لگا کر دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
”ٹھیک ہے ۔” عنیزہ نے حامی بھر لی۔
”تم تو بڑی چھپی رستم نکلی بتایا بھی نہیں مجھے کچھ۔”ان کے باہر جاتے ہی یمنیٰ نے پلوشہ کو گھیر لیا۔
”ایسی بات نہیں ہے۔ میں تمہیں بتانے ہی والی تھی سب، لیکن تمہیں خود ہی پتا چل گیا۔” پلوشہ نے اپنی صفائی دی لیکن یمنیٰ کچھ ماننے کو تیار ہی نہ تھی۔
”اچھا ٹھیک ہے سب بتاتی ہوں، تم آرام سے بیٹھو تو سہی۔” پلوشہ نے اسے کندھوں سے پکڑ کر ساتھ بٹھا لیا اور اسے شروع سے آخر تک ساری رام کتھا سنا ڈالی۔
٭…٭…٭
روہاب کے گھر آتے ہی عنیزہ نے اسے گھیر لیا ۔
”بھائی اچھا ہوا آپ میرے سونے سے پہلے آ گئے۔ آپ کے لیے ایک گڈ نیوز ہے۔”
”کون سی گڈ نیوز؟”
”آپ کا رشتہ طے ہو گیا ہے۔” یہ خبر روہاب پر بجلی کی طرح ٹوٹی تھی۔
”اچھا!”افسوس سے اس کے منہ سے بس یہی نکل سکا۔
”بھائی آپ پوچھیں گے نہیں آپ کا رشتہ کس سیطے ہوا ہے؟”عنیزہ دو قدم پاس آ گئی۔
”تم تو سب جانتی ہو نا، پھر بھی میرے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہو۔”
”میں اگر آج سب جانتی نہ ہوتی تو آپ کا رشتہ پلوشہ سے کیسے ہوتا؟” روہاب جو افسردہ سا اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا اس کے قدم وہیں ساکت ہو گئے۔
”کیا؟ کیا کہا تم نے؟”
”وہی جو آپ نے سنا۔” عنیزہ محظوظ ہوتے ہوئے بولی۔
”I can’t believe ” روہاب ابھی بھی بے یقینی کے عالم میں تھا۔
”اگر آپ کو یقین نہیں آ رہا تو رحیم بابا سے پوچھ لیں، لیکن بھائی ہو سکے تو منگنی کی رسم سے پہلے آپ خود پلوشہ کو سب بتا دیں۔ یہ نہ ہو یہ سب اسے بعد میں پتا چلے تو وہ ہرٹ ہو۔”
”ہاں! تم ٹھیک کہ رہی ہو،میں کل ہی اسے سب بتا دوں گا۔” روہاب پلوشہ سے بات کرنے کی ہمت ہی نہ کر پا رہا تھا۔ وہ کسی بھی قیمت پر اسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔ کل صبح اٹھتے ہی وہ پلوشہ کو کال کر کے ملنے بلا ئے گا، یہی سب سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی۔
عنیزہ نے پلوشہ کو کمرے میں آتے ہی میسج کر کے بتا دیا کہ اس نے روہاب کو رشتہ طے ہونے کی بات بتا دی ہے۔ پلوشہ کافی دیر اس کی کال کا انتظار کرتی رہی اور اسی انتظار میں اس کی آنکھ لگ گئی۔
٭…٭…٭
صبح آفس کے لیے نکلتے ہوئے روہاب کا موبائل بج اٹھا۔ کسی پرائیویٹ نمبر سے کال آ رہی تھی۔ ایک لمحہ سوچنے کے بعد اس نے کال کاٹ دی، مگر ابھی موبائل جیب میں ڈال کر وہ کار میں بیٹھا ہی تھا کے دوبارہ بیل بجنے لگی۔ اس نے مجبوراً کال اٹینڈ کر لی۔
”ہیلو !کہاں مصروف رہتے ہیں آج کل آپ، کب سے کال ملا رہی ہوں۔” آگے ایک نسوانی آواز تھی۔
”Sorry! میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔” روہاب نے تعارف مانگا۔
”بس آپ مجھے اپنی well wisher ہی سمجھ لیں۔” آواز میں شوخی تھی۔
”دیکھیں محترمہ! آپ جو بھی ہیں اپنا نام بتائیے۔” اس مرتبہ اس کی آواز میں تھوڑی سختی تھی۔
”نام میں کیا رکھا ہے۔ کام کی بات کرتی ہوں۔ ابھی چند دن پہلے آپ ایک فیس بک آئی ڈی سے میری دوست کو پریشان کر رہے تھے اور تو اور خود ہی اس کی مدد کرنے کا ڈراما بھی کیا۔”
”آپ کون ہیں؟” روہاب نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔
”مجھے چھوڑیں اگر آپ چاہتے ہیں آپ کا یہ راز راز ہی رہے تو شام چار بجے آئس کریم پارلر پہنچ جائیے گا۔”
یہ کہہ کر یمنیٰ نے فون کاٹ دیا اور کپڑا منہ سے ہٹا دیا جو اس نے آواز بدلنے کے لیے منہ کے آگے رکھا تھا۔
”جیسا تم نے کہا تھا وہ تو ہوگیا، لیکن آگے کیا کرو گی؟”
”وہ سب مجھ پر چھوڑ دو۔ میں بس حساب برابر کرنا چاہتی تھی۔ جس طرح اس نے مجھے پریشان کیا، اسی طرح اسے بھی ذرا سا شاک دینا چاہتی تھی۔”
٭…٭…٭
روہاب پریشانی کے عالم میں آفس پہنچا۔ یہ راز تو اس کے اور عنیزہ کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا تو پھر یہ لڑکی کون تھی۔ گھبراہٹ سے اس کا برا حال تھا۔ کچھ بھی ہو وہ پلوشہ کی نظر میں برا نہیں بن سکتا تھا۔
”میں ضرور جائوں گا اس سے ملنے۔” روہاب نے فیصلہ کیا۔
وہ آفس سے سیدھا اس جگہ پہنچا جہاں اسے بلایا گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اسے ایک نقاب پوش لڑکی آتی دکھائی دی جو سیدھا اسی کی طرف چلی آ رہی تھی ۔ اس کے ٹیبل کے قریب پہنچتے ہی وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
”مجھے تو لگا تھا آپ نہیں آئیں گے۔”
”مجھے تو آنا ہی تھا۔ آپ بتانا پسند کریں گی یہ سب آپ کو کیسے پتا چلا اور آپ پلوشہ کو کیسے جانتی ہیں۔”
”آپ کو ان باتوں سے مطلب نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آپ چاہتے ہیں یہ راز راز ہی رہے تو آپ کو…”
نقاب پوش لڑکی نے فقرہ ادھورا چھوڑا جس سے روہاب کی ٹینشن میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔
”کیا؟”
”تو آپ کو مجھے بھی ایک فیک آئی ڈی بنا کر دینا ہو گی۔”
”what?” روہاب نے نہ سمجھی کے عالم میں پوچھا۔
”دیکھیے آپ جو بھی ہیں۔ یہ ہر گز مت سمجھیں میں پلوشہ کو یہ سب بتانا نہیں چاہتا۔ بس اتنا چاہتا ہوں کہ یہ بات اسے میرے علاوہ کسی اور سے پتا نہ چلے۔ میں خود اسے سب بتانا چاہتا ہوں اور آپ سے ریکویسٹ کرتا ہوں۔”
”تو بتائیے۔” اس سے پہلے وہ بات مکمل کرتا پلوشہ جو نہ جانے کب ان کے برابر والی میز پر آبیٹھی تھی اچانک اس کے سامنے آ کر بول اٹھی۔
روہاب کو بالکل بھی امید نہیں تھی کہ یہ سب ہو جائے گا۔
پلوشہ کو سامنے دیکھ کر روہاب کو اپنے دل کی دھڑکن کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔
”ٹینشن ہو رہی ہے نہ اب آپ کو؟ اسی طرح مجھے بھی پریشانی ہوئی تھی۔ میرا حساب برابر ہو گیا۔” پلوشہ نے مسکرا تے ہوئے کہا۔ اس کے ساتھ ہی یمنیٰ نے بھی اپنا نقاب ہٹا دیا۔ روہاب یمنیٰ کو دیکھ کر سب سمجھ گیا۔
”چلیں اب سب گلے شکوے یہیں ختم کر لیں آپ دونوں میں چلتی ہوں۔” روہاب خاموشی سے بیٹھا رہا۔ اس کا رنگ ابھی تک اُڑا ہوا تھا۔
”کیا ہوا؟”روہاب کا اڑا رنگ دیکھ کر پلوشہ بول اٹھی۔
”اگر یہ مذاق تھا تو بہت ہی برا تھا۔” پلوشہ کی مسکراہٹ کو بریک لگ گئی۔
”یہ کیا طریقہ ہوا حساب برابر کرنے کا۔” روہاب پھر بول اٹھا۔ پلوشہ یک دم سنجیدہ ہوگئی تھی۔
”یہ باڈی سپرے یاد ہے؟” روہاب نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”جب آپ یمنیٰ کے آنے سے پہلے میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی تھیں مجھے اسی وقت پتا چل گیا تھاکہ یہ ساری کھچڑی ضرور آپ نے اور عنیزہ نے ہی پکائی ہو گی۔”
پلوشہ حیرانی سے اس کا منہ تک رہی تھی۔
”میں آپ کو خود ہی مل کر یہ سب بتانا چاہتا تھا۔”
ویٹر ان کے پاس آگیا۔
”کیا لیں گی آپ؟ کافی؟ یا جوس؟” روہاب نے پلوشہ سے پوچھا۔
”کولڈ کافی۔”
”دوکولڈ کافی پلیز۔”ویٹر آرڈر لے کر چلا گیا۔ پلوشہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔
” پلوشہ! میں آپ سے معافی مانگنا چاہتا تھا۔ مجھے سچ میں افسوس ہے آپ کو تنگ کرنے کا۔”
”اب اس بات کو یہیں ختم کر دیں۔” پلوشہ نے اسے ٹوکا۔ ویٹر کافی رکھ کر جا چکا تھا۔ پلوشہ نے کافی کا گھونٹ بھرا ۔
”آپ کچھ بول کیوں نہیں رہیں؟ کیا آپ خوش نہیں اِس رشتے سے۔”
”خوش؟ بہت خوش ہوں۔ میں نے بھی کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے میرا لائف پارٹنر ایسے ملے گا۔ ہماری اس انوکھی محبت کی تکمیل ایسے ہو گی۔ کبھی نہیں سوچا تھا۔” پلوشہ نے کہا۔
”محبت!” روہاب نے چونک کر اس کا بولا لفظ دہرایا۔ پلوشہ نے شرما کر سر جھکا لیا۔
ان کی محبت کی تکمیل واقعی ہونے والی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

ادھوری کہانیاں — کوثر ناز

Read Next

بلا عنوان — ثناء شبیر سندھو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!