انوکھی محبت (انٹرنیٹ والا لو) — مہک شاہ

روہاب انکی طرف متوجہ ہو گیا۔ اس لڑکی کی باقی دوستوں نے بھی روہاب کو گھیر لیا۔ پلوشہ تلملا گئی۔
اچانک کسی نے اس کے کندھے کو چھوا اور اس کے روبرو آ کھڑا ہوا۔ ایک پل کو اسے اس فیک آئی ڈی والے کا خیال آیا۔”
”تم۔”
”جی میں۔” وہ مسکرا کر بولا۔
”یعنی کہ آپ ہی مجھے تنگ کر رہے تھے؟” وہ اس کی طرف حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔ روفائل کو لگا کہ رات والی کالز کے بارے جان گئی ہے۔
”ہاں وہ بس ایسے ہی۔”وہ اپنی چوری پکڑے جانے پر شرمندگی سے بولا۔
‘کیا مطلب ایسے ہی؟آپ کو اندازہ بھی ہے میں کتنا پریشان ہو گئی تھی۔”وہ غصہ سے بول رہی تھی۔
”ارے وہ بس ایک پرانک تھا، میں دیکھنا چاہتا تھا آپ کیا کرتی ہیں؟”
”دیکھ لیا؟”
”جی دیکھ لیا،کیا ہم کہیں بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں؟”
پلوشہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو روہاب وہاں موجود نہیں تھا۔ پلوشہ کو روفائل سے زیادہ روہاب پر غصہ آ رہا تھا۔وہ سر جھٹک کر روفائل کے ساتھ کینٹین کی طرف بڑھ گئی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وقار روہاب کو یونی میں دیکھ کر حیران ہوا تھا۔روہاب کے منع کرنے کے باوجود بھی وہ اسے لے کر کاریڈور کی طرف بڑھ گیا۔ پلوشہ بھی وہاں موجود نہیں تھی۔ روہاب کو اپنی بے وقوفی پر غصہ آ رہا تھا۔
”کیا ضرورت تھی ان لڑکیوں کو جواب دینے کی۔” وقار نے اس کی بے چینی کو سمجھ کر آخر پوچھ ہی لیا۔ روہاب نے اسے ساری بات بتا دی۔
”اوہ! اب سمجھا کہ جناب کی آنکھ اتنی جلدی کیسے کھل گئی اور یونی آنے کا خیال کیسے آیا۔”
”ہاں! لیکن میرا سارا پروگرام تم نے خراب کر دیا۔” روہاب کو وقار پہ سخت غصہ آرہا تھا۔
”پلوشہ یہاں ہی ہو گی،کال کر کے پوچھ لو۔” وقار نے اسے تسلی دی۔
ادھر روفائل پلوشہ کی ایک ایک بات نوٹ کر رہا تھا۔ کتنا دھیمابول رہی تھی۔ انتہائی خوب صورت آواز اور خوش گفتار۔ روفائل اسے پوری طرح پرکھ چکا تھا۔ وہ باقی لڑکیوں جیسی بالکل بھی نہ تھی لیکن روفائل پر تو جیسے اس کا جادو چل گیا تھا۔
”آپ کو اس رشتے پر کوئی اعتراض تو نہیں؟ مجھے آپ پسند ہیں ہاں لیکن مجھے کچھ وقت چاہیے تھا آپ کو جاننے کے لیے اس لیے آج ملنے بھی آ گیا۔ روفائل کی ایک ایک بات پلوشہ کو حیرت کے سمندر میں دھکیل رہی تھی۔ وہ خاموشی سے بیٹھی اسے دیکھتی رہی۔
”اوکے میں چلتا ہوں۔ سوری میری وجہ سے آپ کا ٹائم ویسٹ ہوا۔” وہ پلوشہ کی خاموشی بھانپ گیا تھا۔ اس لیے فی الحال وہاں سے جانے میں ہی عافیت جانی۔
روہاب اسے ڈھونڈتے ہوئے کینٹین کی جانب چلا آیا۔ سامنے اسے پلوشہ بیٹھی نظر آئی۔ وہ اکیلی بیٹھی نہ جانے کیا سوچ رہی تھی۔
روہاب نے اس کے سامنے چٹکی بجائی تو پلوشہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی۔
”کیا ہوا کدھر غائب ہو گئی تھیں۔” روہاب نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”Thank you ”اس نے برا سا منہ بنا کر اسے کہا۔
”آپ نے میری بہت مدد کی۔ میرے لیے یہاں تک آئے، اب مسئلہ حل ہو گیا ہے۔آپ کا بہت شکریہ۔” روہاب کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
”مسئلہ حل؟” روہاب نے چونک کر استفسار کیا ۔
”جی! وہ میرے کزن کی آئی ڈی تھی، وہ مجھے آزما رہا تھا۔”
” What? ”روہاب کے کانوں نے جو سنا اس کی تصدیق کرنی چاہی۔
سوری! آپ کا بھی ٹائم ویسٹ کیا۔” پلوشہ اس کے تاثرات دیکھے بغیر بولتی چلی گئی۔
”کیا آپ کے کزن نے خود بتایا ہے کہ وہی آپ کو تنگ کر رہا تھا؟” روہاب نے ایک بار پھر اپنی تسلی کے لیے پوچھا۔
”جی انہوں نے معذرت کی ہے اس کے لیے۔ وہ بس مجھے جاننا چاہتے تھے۔” پلوشہ نے بغیر دیکھے جواب دیا۔
”کیوں جاننا چاہ رہے تھے وہ آپ کو؟” اس کی حیرانیوں میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
”شادی کے لیے۔” .پلوشہ اتنا کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔
لیکن اس کا یہ جواب روہاب پر پہاڑ کی طرح ٹوٹا تھا۔ اتنے ٹھنڈے موسم میں بھی پیشانی پر پسینہ آ رہا تھا۔ روہاب وہیں کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا۔
٭…٭…٭
زوہیب اسے کال ملائو کہاں رہ گیا ہے وہ؟” تیمورشاہ غصے سے چنگھاڑے۔
”میں تو سمجھا تھا میرا بیٹا سمجھ دار ہو گیا۔ میں سمجھ رہا تھا میری خاموشی اور پیار اسے راستے پر کھینچ لائے گا۔ پر میں غلط سمجھ رہا تھا وہ صرف میرا غصہ اور سختی ہی ڈیزرو کرتا ہے۔” تیمور شاہ غصے سے بولتے جارہے تھے۔ ان کا رنگ سرخ ہوچکا تھا۔
اس کے ساتھ ہی ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ تمام منظر دھندلا چکا تھا اور وہ پورے قد سے زمین پر ڈھے گئے۔
زوہیب کے بار بار کال کرنے پر بھی روہاب کال نہیں اٹھا رہا تھا۔
٭…٭…٭
اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ یعنی کوئی بھی آکر کچھ بھی کہہ دے جب کہ اکاونٹ تو اس کا ہے۔ جب سے وہ گھر آیا تھا انہی سوچوں میں گھرا تھا۔ غصے سے اس کی رگیں تنی ہوئی تھیں، اس نے پاس پڑا گلدان اٹھا کر شیشے پر دے مارا جس سے شیشہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھر گیا۔
عنیزہ اور رحیم بابا بھاگتے ہوئے اس کے کمرے میں آئے۔
”کیا ہوا بیٹا؟ تم ٹھیک تو ہو؟ ”
آج سے پہلے کسی نے بھی روہاب کو اتنے غصے میں نہ دیکھا تھا۔ ایسا کبھی کچھ تھا ہی نہیں جو اس کی مرضی کے مطابق نہ ہوا ہو۔ وہ چپ تھا لیکن اس کی آنکھیں طیش کے مارے لال ہورہی تھیں۔
عنیزہ اور رحیم بابا روہاب کو نیچے ہال میں لے آئے تاکہ وہ ان کی نظروں کے سامنے رہے۔ روہاب اب چپ چاپ بیٹھا تھا۔ عنیزہ روہاب کو گم صم سا دیکھ کر اس کے پاس چلی آئی۔
”بھائی !اچانک آپ کو ہوا کیا ہے؟ آپ تو آج یونی جانے والے تھے نا؟ پلوشہ سے ملنے، وہاں کچھ ہوا ہے کیا؟ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
”نہیں۔” روہاب نے یک لفظی جواب دے کر بات ختم کرنا چاہی۔
”بھائی! آپ کو مجھے سب سچ بتانا ہوگاورنہ میں پلوشہ کو سب سچ بتا دوں گی؟”
”کون سا سچ؟”روہاب نے ستے ہوئے چہرے سے اسے دیکھا۔
”رکیے اک منٹ ذرا۔” عنیزہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ چند سیکنڈ بعد روہاب کا لیپ ٹاپ اٹھائے باہر آئی۔ روہاب کی نظریں اسی کے تعاقب میں تھیں۔ اس کے ہاتھ میں اپنا لیپ ٹاپ دیکھ کر چونک گیا۔
”تم نے میرا لیپ ٹاپ۔”
”ہاں جی۔” عنیزہ روہاب کی بات مکمل ہونے سے پہلے بول اٹھی۔
”پلوشہ کے آنے پر جس طرح آپ ڈر گئے اور اس کے بعد جو جو ہوا، وہ آج تک ہوتا میں نے تو نہیں دیکھا تھا۔ اسی پل میں سمجھ گئی تھی کہ ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ جب صبح میں آپ کے کمرے میں یہ پوچھنے کے لیے آئی تھی تو آپ کمرے میں نہیں تھے اور آپ کا لیپ ٹاپ کھلا پڑا تھا اور ایک enter دباتے ہی پلوشہ کی چیٹ سامنے آ گئی جو آپ کے فیک اکائونٹ سے تھی۔”وہ بولے جارہی تھی۔
”بھائی! مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ نے یہ سب کیوں کیا؟” اس کا لہجہ سرد تھا۔
”ہاں! یہ سب میں نے ہی کیا لیکن یہ سب کرنے کے پیچھے میرا کوئی غلط ارادہ نہیں تھا۔میں تو صرف اس سے بات کرنا چاہتا تھا اور مجھے تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ وہ تمہاری دوست ہے۔ پہلی نظر میں ہی وہ مجھے اچھی لگنے لگی تھی جب وہ ہاسپٹل میں میرے دوست وقار کو وارن کرنے آئی تھی۔”
روہاب نے صاف گوئی سے شروع سے آخر ایک ایک بات بتا دی۔
”اوہ یہ تو برا ہوا لیکن اس کے کزن کو یہ سب کیسے پتا اور اس نے ایسا کیوں کہا؟” عنیزہ نے حیرانگی سے پوچھا۔
”یہی تو مجھے سمجھ نہیں آ رہا یہ کیسے ہوا؟ تم اس سے کچھ نہیں کہو گی۔ اس بات کو یہیں ختم کر دینا بہتر ہے۔ ویسے بھی وہ اپنے کزن سے شادی کرنے والی ہے بہت جلد۔” اس کی آنکھیں بہ دستور لال تھیں اور آواز رندھی ہوئی۔
”میں تو ویسے بھی یہ فیک اکائونٹ آج ڈیلیٹ کرنے والا تھا۔” عنیزہ کچھ بولتی اس سے پہلے رحیم بابا بھاگتے ہوئے ہال میں نمو دار ہوئے۔
”بیٹا! وہ مالک۔”گھبرائی ہوئی آواز میں وہ بہ مشکل اتنا ہی بول پائے۔
”کیا ہوا بابا؟” روہاب نے ان کے قریب آ کر انہیں جھنجوڑا۔
”مالک اسپتال میں ہیں، زوہیب کا فون آیا تھا انہیں انجائنا کا اٹیک ہوا ہے۔”
”کیا؟” روہاب جلدی سے سب وہیں چھوڑ کر اسپتال کی طرف بھاگا۔زوہیب اسپتال کے کاریڈور میں ہی چکر لگا رہا تھا۔ روہاب سیدھا اسی کی طرف چلا آیا۔
” کیا ہوا ڈیڈ کو؟ کیسے ہیں اب وہ؟ ”زوہیب نے ایک نظر اسے دیکھا اور منہ موڑ لیا۔
”زوہیب میں کچھ پوچھ رہا ہوں۔”اس نے پورے زور سے زوہیب کا منہ اپنی طرف موڑا۔
”انجائنا کا اٹیک ہوا ہے اور یہ سب تیری وجہ سے ہوا ہے۔ کتنا خوش تھے وہ کل کہ ان کا بیٹا اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ گیا ہے۔ انہوں نے پورے اعتماد کے ساتھ تمہیں کام سونپا تھا، لیکن تم نے ان کا اعتبار ہی نہیں انہیں بھی توڑ دیا ہے۔ ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اس بات کا انہیں شدید صدمہ پہنچا ہے۔ میں نے صبح سے نہ جانے کتنی بار تمہیں کال ملائی مگر تم ہو کے کسی اور ہی دنیا میں گم ہو۔” زوہیب اسے آئینہ دکھا رہا تھا اور روہاب کے اندر کچھ ٹوٹ سا رہا تھا۔
روہاب کو سب یاد آگیا، کل ان کے چہرے پر کتنی خوشی چھلک رہی تھی اور اس کی بدولت وہ اسپتال میں تھے۔ روہاب کے دل پر جمی بے حسی کی تمام پرتیں آہستہ آہستہ ہٹ رہی تھیں۔ آنسو خود بہ خود اس کے رخساروں پر بکھر رہے تھے۔ روہاب آج پہلی بار اتنی شدت سے رو رہا تھا۔ زوہیب اسے اس حال میں نہیں دیکھ سکا اور فوراً اسے گلے لگا کر حوصلہ دینے لگا۔
٭…٭…٭
”ڈاکٹر! میرے پاپا اب کیسے ہیں؟”اس نے رندھی ہوئی آواز میں پوچھا۔
”ان کی حالت کافی کریٹیکل تھی۔ اب پہلے سے بہتر ہیں، مگر انہیں بیڈ ریسٹ کی ضرورت ہے اور انہیں ہر قسم کی بری خبر اور ٹینشن سے دور رکھیے گا۔ کسی بھی قسم کا ڈپریشن ان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ انہیں خوش رکھنے کی پوری کوشش کیجیے گا۔”
روہاب اور زوہیب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
”ڈاکٹر کیا ہم ان سے مل سکتے ہیں؟” روہاب نے آنسو پونچھتے ہوئے پوچھا۔
”جی بالکل! انہیں اس وقت فیملی کے پیار اور کیئر سے جتنی شفا ہو سکتی ہے اتنی شاید ادویہ سے نہیں۔” روہاب اور عنیزہ کمرے کی طرف بھاگ گئے۔
٭…٭…٭
”ڈاکٹر عباسی بہت شکریہ آپ کا، لیکن یہ سب بہت ضروری تھا ۔” زوہیب نے آگے بڑھ کر ڈاکٹر عباسی کا شکریہ ادا کیا۔
”کوئی بات نہیں بیٹا! اگر میرے اس چھوٹے سے جھوٹ سے تمہارے دوست کی زندگی سنورتی ہے، تو اس سے اچھی بات تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ ہاں انجائنا کی نہیں لیکن ڈپریشن کی دوا ضرور دیتے رہنا تیمورشاہ کو۔” ڈاکٹر عباسی نے زوہیب کو صلا ح دیتے ہوئے کہا۔
”انکل! امید ہے اب انہیں ڈپریشن کی ادویہ کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔” زوہیب نے مسکرا کر کہا۔ ڈاکٹر عباسی بھی ہلکے سے مسکرا دیے۔
ڈاکٹر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے جب کہ زوہیب فوراً کمرے کی طرف لپکا کہ کہیں تیمورشاہ کچھ بول نہ دیں اور سارا پلان فلاپ ہو جائے۔
٭…٭…٭
روہاب اور عنیزہ تیمورشاہ کے پاس بیٹھے تھے۔
”ڈیڈ پلیز مجھے معاف کر دیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد کبھی ایسی غلطی نہیں کروں گا۔ اپنی ہر ذمہ داری کو سمجھوں گا۔” روہاب ان کا ایک ہاتھ تھامے رندھی ہوئی آواز میں انہیں یقین دلا رہا تھا جب کہ تیمور شاہ سپاٹ چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہے تھے۔ زوہیب ان کے سامنے آ گیا اور انہیں دیکھ کر آنکھ ماری۔ تیمورشاہ سمجھ گئے کہ ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ انہوں نے اپنا شفقت بھرا ہاتھ روہاب کے سر پر پھیرا تو روہاب بھی ان کے گلے لگ گیا۔ روہاب کے دل میں اپنے لیے چھپا اتنا پیار دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
”نہیں ڈیڈ! آج سے آپ بالکل نہیں روئیں گے اور نہ کوئی ٹینشن لیں گے۔” روہاب ان کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔
”بیٹا! یہ تو خوشی کے آنسو ہیں۔ میں سمجھتا تھا میں نے اپنے بیٹے کو کھو دیا ہے۔ تمہارے پیار اور ساتھ کے لیے ہر لمحہ ترستا رہا ہوں۔ ایک بیٹا ہی اپنے باپ کا سب سے اچھا دوست اور ایک بہترین سہارا ہوتا ہے جو بڑھاپے میں اس کی لاٹھی بنتا ہے، مگر میں نے ہر لمحہ تمہیں خود سے دور جاتا ہی دیکھا۔ آج سمجھا ہوں کہ تم بھی مجھ سے اتنا ہی پیار کرتے ہو جتنا میں۔” تیمور شاہ کی آواز بہ دستور رندھی ہوئی تھی۔
”مجھے معاف کر دیں ڈیڈ۔” دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔
”مجھے تو بھول ہی گئے آپ دونوں۔” عنیزہ روتے ہوئے ان کی طرف بڑھی۔ زوہیب پاس کھڑا ایک فیملی کو مکمل ہوتا دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
تیمورشاہ کو گھر آئے پورا ہفتہ ہو چکا تھا اور اس ایک ہفتے میں روہاب پوری طرح بدل چکا تھا۔ آفس کی تمام ذمہ داریاں اس نے پوری طرح سنبھال لی تھیں اور تیمورشاہ کو تمام باگ ڈور سے دور کر دیا تھا۔ زوہیب ہر قدم پر اس کے ساتھ تھا۔
تیمورشاہ جو ذمہ داریاں اپنے بیٹے کو دینا چاہتے تھے وہ اس نے خود ہی سنبھال لی تھیں۔ وہ اپنی تمام سرگرمیوں بشمول سوشل میڈیا سے بھی کٹ گیا تھا، مگر نہ چاہتے ہوئے بھی اسے پلوشہ کا خیال بے چینی اور اسے کھو دینے کے اضطراب میں مبتلا کر رہا تھا۔ اس کی یہ بے چینی عنیزہ کے ساتھ ساتھ تیمور نے بھی نوٹ کی تھی۔
٭…٭…٭
روفائل جب سے پلوشہ سے مل کر گیا تھا اس نے جاتے ہی رشتے کے لیے ہاں کر دی تھی۔ شمالہ نے خوشی خوشی نازش کو کال کی وہ منگنی کی رسم کے لیے ان کے گھر آنا چاہتی ہے۔ پلوشہ کی ہاں سننے کے بعد انہوں نے اطمینان سے انہیں آنے کا عندیہ دے دیا تھا۔
٭…٭…٭
پلوشہ روفائل سے ملنے کے بعد اداس رہنے لگی تھی۔ نہ جانے کب وہ روہاب کو پسند کرنے لگ گئی تھی۔
”پلوشہ بیٹا! شمائلہ کی کال آئی تھی، وہ بتا رہی تھیں کہ روفائل تم سے ملنے یونی آیا تھا؟ تم نے مجھے بتایا بھی نہیں۔”
”جی ماما! بس یاد نہیں رہا۔ ”پلوشہ نے کتاب بند کرتے ہوئے جواب دیا۔
”کیا ہوا تمہارے منہ پربارہ کیوں بجے ہوئے ہیں؟سب ٹھیک تو ہے نا؟”نازش نے فکری مندی سے پوچھا۔
”ماما! روفائل مجھے بالکل بھی پسند نہیں آیا میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔” اس سے پہلے کہ پلوشہ جتنی روانی سے یہ بات بول گئی تھی لیکن اگلے ردعمل سے وہ واقف نہیں تھی۔
”تم نے مجھے خود ہاں کی تھی روفائل کے لیے۔ پلوشہ یہ کوئی مذاق نہیں ہے جب دل کیا ہاں کر دی اور جب دل کیا نا۔ ہماری بھی کوئی عزت ہے اور تمہاری وجہ سے میں ان رشتوں یا اپنی عزت کو کم ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔” نازش بولی نہیں تھیں، چنگھاڑی تھیں۔ اپنی بات ختم کرکے وہ رکے بنا وہاں سے چل دیں اور پلوشہ بت بنی انہیں جاتا دیکھتی رہی۔
عنیزہ اپنے کمرے میں بیٹھی کتاب کے صفحے پلٹ رہی تھی جب تیمورشاہ نے دروازے پر دستک دی اور اندر آگئے۔
”پاپا آپ؟ کوئی کام تھا؟ مجھے بلا لیتے۔”
”نہیں بیٹا! بیٹھو مجھے ایک بات کرنی ہے آپ سے۔” تیمور شاہ اس کے پاس ہی بیٹھ گئے۔
”بیٹا میں جب سے اسپتال سے آیا ہوں۔ روہاب بالکل بدل گیا ہے۔ اب اپنی ذمہ داری بھی سمجھنے لگ گیا ہے۔ جیسا میں چاہتا تھا اس سے بھی بہتر طریقے سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھا رہا ہے، مگر نہ جانے کیوں مجھے اس کے چہرے پر اداسی نظر آتی ہے۔ تم تو اس کی بہن ہو اور بہنیں بھائیوں کے ہر راز سے واقف ہوتی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم پتا کرو اسے کیا پریشانی ہے۔”
”پاپا میں جانتی ہوں بھائی کیوں اداس رہتے ہیں، لیکن انہوں نے مجھے کچھ بھی بتانے سے منع کیا ہے۔” عنیزہ ذرا توقف سے بولی:
”لیکن میں آپ کو سب بتاتی ہوں۔” تیمور شاہ کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔
عنیزہ انہیں سب بتاتی چلی گئی۔ جب سے روہاب نے آفس سنبھالا تھا، تیمور شاہ کے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا، لیکن اب انہیں عنیزہ کے تعاون سے ایک نئی وجہ مل گئی۔
”عنیزہ! آپ نے مجھے یہ سب بتا کے بہت عقل مندی کا کام کیا ہے، مگر یاد رہے روہاب کو اس کے متعلق کچھ بھی پتا نہ چلنے پائے۔” وہ دونوں ہی اب مطمئن تھے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

ادھوری کہانیاں — کوثر ناز

Read Next

بلا عنوان — ثناء شبیر سندھو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!