”ایکچوئیلی میں بھی یہی سپرے استعمال کرتی ہوں۔”
”same choice”! Good۔”روہاب نے خوشی سے کہا۔
”چلیں؟” پلوشہ نے پوچھا۔
”جی چلیے!” روہاب نے مہذب انداز میں اسے ہاتھ سے آگے چلنے کا اشارہ کیا۔ پلوشہ فوراً عنیزہ اور رحیم بابا کو بائے کہتی باہر نکل گئی۔
پلوشہ پورچ میں کھڑی BMWکو دیکھ کر حیران ہو گئی۔
”یا اللہ! یہ کیا ہو رہا ہے۔ جو بھی چیز مجھے پسند ہے وہی ہر چیز آج میرے سامنے آ رہی ہے۔”
روہاب نے اس کے لیے کار کا فرنٹ ڈور کھولا۔ پلوشہ دھڑکتے دل کے ساتھ کار کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ سفر خاموشی سے جاری تھا ۔
”تو آپ بھی عنیزہ کے ساتھ ماس کمیونیشن کر رہی ہیں؟”روہاب نے خود ہی بات کا آغاز کیا۔
”جی! ماس کمیونیکیشن کر رہی ہوں۔”
”آپ کو نیوز چینل پر اینکر بننے کا شوق کیوں ہوا؟” روہاب صرف بات کرنے کے لیے بات سے بات نکال رہا تھا۔
”ایسے ہی۔” اس سوال پر کوئی جواب نہ بننے پر یہی بول دیا۔
”مطلب آپ ایسے ہی ماس کمیونیکیشن کر رہی ہیں؟” روہاب نے پھر سوال کر ڈالا۔
”وہ اس لیے کہ بچپن سے ہی نیوز کاسٹرز کو دیکھ کر میرا دل کرتا تھا کہ میں بھی ایسے ہی ٹی وی پر بیٹھ کر نیوز ریڈنگ کروں۔ پھر میری کزن کہتی ہے کہ مجھ میں کانفیڈینس بھی ہے اور بولنے کی قابلیت بھی۔” روہاب کو ایک پل کو وہ ہاسپٹل والا سین یاد آیا تو بول اٹھا۔
”ہاں واقعی۔”
”جی؟” پلوشہ نے رک کر پوچھا۔
”کچھ نہیں۔very good all the best” روہاب نے بات پلٹی۔
”یہاں سے لیفٹ یا رائٹ؟”
”رائٹ۔” دونوں پورا راستہ باتوں میں مصروف رہے۔ جب گھر آیا تو روہاب کو پوری امید تھی کہ وہ اسے اندر آنے کا کہے گیمگر پلوشہ ایک لفظ شکریہ بول کر گیٹ میں داخل ہو گئی۔
روہاب مسلسل اسے جاتا دیکھتا رہا۔ پھر اچانک اس کو گھبراہٹ ہونے لگی۔ وہ گھر سے آفس جانے کے لیے نکلا تھا لیکن اب تو ایک بج رہا تھا۔ ”اس وقت آفس جائوں؟” من ہی من میں سوچا۔
”کل چلا جائوں گا، ابھی گھر چلا جاتا ہوں۔”
”نہیں مگر عنیزہ اور رحیم بابا کیا سوچیں گے؟” اس نے خود ہی اپنے خیال کی نفی کی اور دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے کار آفس کے راستے پر ڈال دی۔
٭…٭…٭
ادھر عنیزہ اور رحیم بابا دونوں حیران تھے کہ آج سورج کہاں سے نکلا ہے۔
”بیٹی یہ لڑکی کون تھی؟ ” رحیم بابا آخر کار پوچھے بغیر نہ رہ سکے۔
”میری دوست تھی بابا۔”
”روہاب جانتا ہے کیا اسے؟” رحیم بابا شاید معاملے کی نزاکت بھانپ گئے تھے۔
”نہیں بابا! یہ تو آج پہلی بار ہمارے گھر آئی ہے۔” عنیزہ کے لیے شاید ابھی تک چونکنے کا مقام نہیں آیا تھا۔
”جہاں تک میں روہاب کو جانتا ہوں، وہ پہلی بار میں ایسا رویہ نہیں رکھتا۔ آج تک اس نے کسی لڑکی کو اپنی پسندیدہ کار میں ڈراپ نہیں کیا۔”
عنیزہ کو بھی یاد آیا کہ پچھلی بار جب وہ شاپنگ کے لیے گئی تھی تو اس نے اس کار میں خرابی کا بہانا بنا دیا تھا۔
”اچھا! تو یہ بات ہے۔ اب تو میں جان کر رہوں گی کہ یہ معاملہ کیا ہے۔” عنیزہ نے دل ہی دل میں ٹھانی۔ اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ بھی چھائی ہوئی تھی۔
٭…٭…٭
پلوشہ جب سے گھر آئی تھی، سب بھول بھال کر صرف روہاب کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی۔” ایسا کیسے ہو سکتا ہے ہماری پسند اتنی ملتی جلتی ہو۔”
”اُف! میں کیوں سوچ رہی ہوں اس کے بارے میں۔”پلوشہ نے خود کو دھپ لگائی اور اٹھ کر کچن میں نازش کے پاس چلی آئی۔
”آج جلدی آ گئیں؟”نازش نے کفگیر ہلاتے ہوئے پوچھا۔
”جی ماما! بس آج ایک ہی لیکچر تھا اس لیے۔”
”اوہ اچھا!پلوشہ میں نے تمہارے بابا سے بات کی تھی روفائل کے لیے انہیں روفائل اچھا لگا ہے اور مجھے بھی اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی۔ نیو جنریشن ہے، ذرا لائف اسٹائل تم سے الگ ہے۔ میرا خیال ہے تمہیں سوچ کر جواب دیناچاہیے اور روبینہ بتا رہی تھی کہ روفائل بھی ابھی کچھ وقت چاہتا ہے۔ یہ تو شمائلہ نے خود ہی بات کی ہے اسے تم بہت پسند آئی ہو۔”
پلوشہ کسی اور ہی خیالوں میں تھی اسی لیے غائب دماغی سے ہاں میں سر ہلاتی باہر کو چل دی۔ پیچھے نازش کھڑی خوشی سے مسکرا اٹھیں۔
٭…٭…٭
روہاب کو آفس میں دیکھ کر زوہیب خوشی سے اچھل پڑا۔
”خوش آمدید! آج ویسے سورج کہاں سے نکلا ہے؟ بادشاہ سلامت تشریف فرما ہو ہی گئے آخر۔ شکر الحمدللہ۔” زوہیب نے دونوں ہاتھوں کو منہ پر پھیرا۔ مجال ہے روہاب کو ذرا بھی شرمندگی ہوئی ہو۔ اس کے چہرے پر تو ایسی رونق چھائی ہوئی تھی جیسے گولڈ میڈل جیت کر آیا ہو۔ زوہیب نے جیسے ہی یہ سب محسوس کیا فوراً پوچھ بیٹھا۔
”خیر تو ہے؟ جلدی بتا کیا بات ہے؟مممم کچھ تو ہوا ہے کچھ ہو گیا ہے۔ خیر پہلے اندر چلو۔” روہاب خاموشی سے اندر چلا آیا۔
”اب بتا کیا بات ہے؟” روہاب نے ساری بات اسے بتا دی۔
”اچھا جی! اسی خوشی میں جناب آج آفس آئے ہیں؟چلو اب آ ہی گئے ہو تو کام پر لگو۔ یہ پکڑو فائل سر نے کہا ہے کہ یہ پروجیکٹ تم ہی ہینڈل کرو گے۔”
”او یار آتے ہی کام۔” روہاب نے الجھن زدہ لہجے میں کہا اور فائل میز پر پھینکنے کے انداز میں رکھ دی۔ زوہیب نے سنجیدہ ہو کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”یار پہلے اسٹیٹس تو ڈال دوں۔ دونوں کے قہقہے اس بات پر گونج اٹھے۔ روہاب نے سیلفی لے کر فیس بک پر پوسٹ کردی۔
٭…٭…٭
تیمور شاہ روہاب کی آفس آمد سے بہت خوش تھے۔ زوہیب کے بتانے پر ان کا دل باغ باغ ہو گیا تھا۔ ان کی دلی خواہش پوری ہو گئی تھی۔ وہ روہاب کو جلد از جلد ایک ذمہ دار انسان بنتا دیکھنا چاہتے تھے۔
٭…٭…٭
پلوشہ بار بار یمنیٰ کو کال کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر اس کا نمبر بند جا رہا تھا۔ نازش اسے کافی دیر سے موبائل میں مصروف دیکھ کر اس کے پاس چلی آئیں۔
”کیا بات ہے پلوشہ؟ کس کو کال کر رہی ہو بار بار ؟”
”ماما اور کس کو کروں گی یمنیٰ کو کر رہی ہوں لیکن اس کا نمبر ہی بند جا رہا ہے۔”پلوشہ روہانسی ہوکر بولی۔
”پلوشہ وہ مصروف ہو گی بیٹا۔ ایسا کرو روفائل سے یمنیٰ کی خالہ نگہت کا نمبر لے لو ان کا نمبر تو آن ہو گا۔” نازش نے کچھ سوچتے ہوئے اسے یہ مشورہ دیا۔
”لیکن ماما میرے پاس کہاں ہے روفائل کا نمبر بھی؟”
”ارے ہاں! کل شمائلہ کی کال آئی تھی تو اس نے لکھوایا تھا۔ فون کے پاس ہی ڈائری میں لکھا ہوا ہے دیکھ لو۔” نازش کو بہانا خود ہی مل گیا تھا۔ وہ اور شمائلہ چاہتی تھیں کہ ان کے بچے ایک دوسرے کو سمجھ لیں لیکن نازش پلوشہ کی فطرت اچھی طرح جانتی تھیں اس لیے براہ راست بولنے سے ہچکچا رہی تھیں۔
پلوشہ نے بھی سوچے بغیر روفائل کا نمبر ملا لیا تھا۔
”السلام و علیکم!” یہ روفائل کی آواز تھی۔
”وعلیکم السلام! آپ روفائل ہیں؟ ”
”جی نہیں! میں روفائل کا جڑواں بھائی بات کر رہا ہوں۔ آپ پلوشہ ہیں؟” روفائل بھی اسے پہچان گیا تھا اس لیے محظوظ ہوتے ہوئے بولا۔
”جی نہیں! میں بھی پلوشہ کی جڑواں بہن بات کر رہی ہوں۔” اس نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
اس بات پر روفائل کی ہنسی چھوٹ گئی۔
”سوری میں روفائل ہی بات کر رہا ہوں وہ فوراً لائن پر آیا۔”
”گڈ! مجھے آپ سے ہی کام تھا۔” پلوشہ نے نپے تلے لہجے میں کہا۔
”جی محترمہ فرمائیے! ناچیز آپ کے کس کام آسکتا ہے؟”
”مجھے آنٹی نگہت کا نمبر چاہیے تھا۔ یمنیٰ کا نمبر آف جا رہا ہے اور مجھے اس سے ضروری بات کرنی ہے۔” پلوشہ نے اپنے آپ کو قابو کرتے ہوئے جواب دیا۔
”اہاں! آپ کے پاس ہی تو رہتی ہیں وہ۔ ابھی انہیں گئے دو دن بھی نہیں ہوئے اور آپ کو ان کی یاد ستانے لگی ہے؟” پلوشہ کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔
”اُف کتنا باتونی انسان ہے۔ کیا آپ مجھے نمبر دے سکتے ہیں؟” اس کے لہجے سے اب بے زاری عیاں تھی۔
”جی میرا نمبر تو آپ کے پاس ہے اب اگر آپ کہیں تو آفس کا نمبر بھی دے دوں؟”
What?? مجھے آنٹی نگہت کا نمبر چاہیے۔” اب کی بار پلوشہ کی آواز بلند تھی۔ روفائل اس کی بے زاری کو سمجھ گیا تھا اس لیے اس نے فوراً نمبر لکھوا دیا اور پلوشہ نے اللہ حافظ بول کر کانوں کو ہاتھ لگایا۔
”بہت عجیب انسان ہے یہ تو۔” لیکن وہ یہ بھول چکی تھی کہ وہ اس رشتے کیلئے انجانے میں ہاں کر گئی تھی۔
لیکن انسانوں کے چاہنے نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے رشتے تو آسمانوں پر بنتے ہیں۔
٭…٭…٭
روہاب جتنا ٹائم آفس میں رہا، دل لگا کر کام کیا۔ زوہیب کے ساتھ ساتھ تیمور شاہ بھی دنگ رہ گئے تھے۔ جو کام وہ ایک ہفتے سے کر رہے تھے وہی کام اس نے ایک دن میں کر لیا تھا۔ کل اس کی پریذنٹیشن تھی۔ روہاب نے کام تو کیا تھا لیکن کسے پتا تھا کہ وہ سب امیدوں پر پانی پھیر دینے والا ہے۔
”روہاب کل صبح نو بجے USA سے کلائنٹ آ رہے ہیں ان کے سامنے یہ پریذنٹیشن دینی ہے تمہیں۔”
”Yes boss ”
وہ تیمور شاہ کو ”باس” بول رہا تھا جس کی اس سے امید نہیں تھی۔ زوہیب نے ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر انہیں تسلی دی۔
٭…٭…٭
روہاب آفس سے نکل کر گھر جانے کے لیے کار میں بیٹھ گیا۔ ساتھ ہی اس کا موبائل بج اٹھا اسکرین پر پلوشہ کا نمبر جگمگا رہا تھا۔ اس نے خود ہی آفس میں بیٹھے پلوشہ کو فیک آئی ڈی سے میسجز کیے تھے کہ وہ اس کی یونی آنا چاہتا ہے اور ایک بار اس سے ملنا چاہتا ہے اور یہی بات پلوشہ یمنیٰ کو بتانا چاہتی تھی مگر رابطہ نہ ہونے پر اب وہ نہ چاہتے ہوئے بھی روہاب کو کال کرنے پر مجبور ہو گئی تھی۔
” Hi palwasha! how are you?? ”روہاب نے مہذب انداز میں پوچھا۔
”Not feeling good. ”پلوشہ نے مختصر جواب دیا۔
”کیوں؟ کیا ہوا بتائو؟” سب جانتے ہوئے بھی روہاب نے اس سے پوچھا۔
پلوشہ نے اسے ساری بات بتائی۔ روہاب کو افسوس بھی ہو رہا تھا کہ اس کی وجہ سے ایک معصوم لڑکی پریشان ہو رہی تھی۔
”ایسا کرو کل اسے یونی بلا لو، میں بھی آ جائوں گا مل کر اس کی کلاس لیں گے۔” روہاب نے نہ چاہتے ہوئے بھی بول دیالیکن اب اس کے دماغ میں ایک نیا آئیڈیا آیا تھا۔
پلوشہ نے روہاب کے کہنے پر فیک آئی ڈی پر دس بجے آنے کا میسج کر دیا۔ روہاب نے میسج دیکھ کر رپلائی کیا کہ ”وہ ضرور آئے گا۔” پلوشہ کو بہت ٹینشن ہو رہی تھی۔ بہرحال جو بھی تھا، اس نے اس سے کوئی بھی فضول بات نہیں کی تھی۔ کوئی آوارہ لڑکا بالکل نہ تھا پلوشہ نے خود کو تسلی دی۔ ابھی اس کو رپلائے کر کے کھڑکی میں آکر کھڑی ہوئی ہی تھی کہ عنیزہ کی کال آگئی۔
”ہاں کیسی ہو؟ ”پلوشہ نے پوچھا۔
”میں ٹھیک ہوں تم سنائو کیا چل رہا ہے۔”
”یارٹینشن ہو رہی ہے۔ تمہارے بھائی کے کہنے پر کل اس فیک آئی ڈی والے کو یونی بلایا ہے۔”
”اوہ !یہ مشورہ بھائی نے دیا ہے؟”عنیزہ نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں نا! وہ بھی کل یونی آئیں گے اگر کوئی مسئلہ ہوا تو وہ دیکھ لیں گے۔ بس ذرا تم جلدی آ جانا۔ عنیزہ نے ہامی بھرلی اور فون بند کردیا۔
٭…٭…٭
روہاب نے طے کر لیا تھا کہ اب وہ پلوشہ کو تنگ نہیں کرے گا اور وہ پلوشہ کو باتیں سنا کر اکائونٹ ڈیلیٹ کر دے گا اور اب اپنی طرف سے دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا۔
”اگر پلوشہ نہ مانی تو؟” اس نے خود سے سوال کیا۔
”پھر سوچ لوں گا کہ کیا کرنا ہے۔” اس نے خود کو تسلی دی۔
٭…٭…٭
عنیزہ سے بات کرنے کے بعد وہ روہاب کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اس کے کمرے میں رکھے فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی مگر جیسے ہی وہ اٹھانے لگتی، گھنٹی بند ہو جاتی۔ اسے لگا یہ وہی فیک آئی ڈی والا ہوگا۔ کچھ دیر بعد کال آنا بند ہو گئی۔
پلوشہ لیپ ٹاپ پر روہاب کے اکائونٹ سرچ کرنے لگ گئی۔ نہ جانے وہ ایسا کیوں کر رہی تھی۔ آخر اسے روہاب شاہ کی آئی ڈی مل گئی۔ روہاب کی ٹائم لائن بہت مصروف دکھائی دے رہی تھی۔ کافی لڑکیوں کے کمنٹس اور لائکس تھے۔ اس کے دل میں اچانک ایک ٹیس سی اٹھی شاید اسے برا لگ رہا تھا۔ اس نے غصے سے لیپ ٹاپ بند کر کے رکھ دیا۔
٭…٭…٭
روہاب ان سب باتوں میں کل کی پریذنٹیشن کے بارے میں بالکل بھول چکا تھا۔نو بجے کا الارم لگا کر وہ سونے کے لیے لیٹ گیا۔ وہ مسلسل پلوشہ سے ملنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
٭…٭…٭
عنیزہ نے سر درد کے بہانے یونی سے چھٹی کر لی تھی۔ پلوشہ کو رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا۔ آج وہ اکیلی گرائونڈ میں بنچ پر بیٹھی مسلسل اسے ہی کوس رہی تھی۔ اچانک ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی۔ وہ پاس بنے شیلٹر کے نیچے باقی اسٹوڈنٹس کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ اس کی نظریں مسلسل گیٹ پر تھیں۔
وائٹ پینٹ پر گرے ٹی شرٹ پہنے وہ ہلکی بارش میں چہل قدمی کرتے یہاں وہاں دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں گہری چمک تھی۔ گیلے بال انتہائی خوب صورت دکھائی دے رہے تھے۔ اس کی پرسنیلٹی کی وجہ سے پاس کھڑی لڑکیوں کی نظروں کا فوکس بھی اسی پر تھا۔
پلوشہ نے اسے ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ روہاب نے اس کی طرف کا رخ کیا۔ پلوشہ شیلٹر سے نکل کر درخت کے نیچے آ گئی۔
”اس بارش کو بھی آج ہی ہونا تھا۔”
روہاب اس کے عین سامنے آ کھڑا ہوا۔
”ہیلو! میں شاید جلدی آ گیا۔
”نہیں اچھا کیا آپ جلدی آ گئے ۔ اب پتا نہیں وہ آئے گا یا نہیں۔” عنیزہ بھی نہیں آئی آج۔” وہ فکرمندی سے بولی۔
”جی اسے بخار ہو رہا تھا اس لیے وہ نہیں آسکی۔” لڑکیاں مڑ مڑ کر روہاب کو دیکھ رہی تھیں اور جان بوجھ کر دونوں کے قریب سے گزر رہی تھیں۔ پلوشہ کو باقی لڑکیوں سے زیادہ روہاب پر غصے آ رہا تھا۔”کیا ضرورت تھی اتنا تیار ہو کر آنے کی۔”
”Nice perfume.. ”ایک لڑکی نے روہاب کو کمپلیمینٹ دیا۔
”Thank you ”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});