”یمنیٰ کے بغیر میرا تو دل ہی نہیں کر رہا یونیورسٹی آنے کا۔” پلوشہ نے بے دلی سے کہا۔
اچھا! مطلب یمنیٰ کی وجہ سے ہی یونی آتی ہو تم؟” عنیزہ نے خفگی سے پوچھا۔
یمنیٰ کل سے کراچی گئی ہوئی تھی اِس لیے آج پلوِشہ کا بھی یونیورسٹی جانے کا موڈ نہیں تھا۔ اِسی لیے اس نے چھٹی کرلی تھی مگر بھول گئی تھی اپنی پکی سہیلی کو جس کو شاید پلوِشہ کے علاوہ کچھ سوجھتا بھی نہیں تھا۔ ان کی دوستی یونیورسٹی کے پہلے دن ہی ہوئی تھی اور بہت جلد وہ دونوں بہت اچھی فرینڈز بن گئی تھیں۔
”عنیزہ اصل میں تمہارے لیے ہی آتی ہوں نا یونیورسٹی۔ ورنہ یمنیٰ سے تو ایسے بھی مِل سکتی ہوں۔”پلوشہ نے اس کا دل بہلانے کی خاطر کہا تو عنیزہ بھی مسکرا دی۔
”اچھا تو تم کل آئو گی نا یونیورسٹی؟
”اچھا میں کل صبح بتائوں گی اگر موڈ بن گیا تو چلیں گے کل یونی، نہیں تو پرسوں پکا جائیں گے۔”
”پکا؟” عنیزہ کو کچھ حوصلہ ہوا۔
”ہاں پکا۔” پلوِشہ نے ہامی بھری۔ عنیزہ نے خوشی سے موبائل سائیڈ پر رکھ کے کتاب اٹھا لی۔
٭…٭…٭
نازش اور روبینہ شاپنگ کے لیے لسٹ بنا رہی تھیں جب شمائلہ کی کال آ گئی۔
حال احوال پوچھنے کے بعد شمائلہ نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ پلوِشہ بھی وہیں قریب بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔
شمائلہ نے جیسے ہی روفائل کے متعلق بات شروع کی تو روبینہ نے فون سپیکر پر ڈال دیا۔
”پلوِشہ بیٹا ذرا آواز کم کرو۔” پلوِشہ نے فوراً ٹی وی کا والیم کم کر دیا۔
”روفائل کو پلوِشہ بہت پسند آئی ہے۔ آپ نازش سے بات کریں اِس بارے میں اور مجھے ان کی رضامندی پوچھ کر بتائیں، پھر میں خود رشتہ لے کر آ ئوں گی۔”
شمائلہ انہیں تفصیلات سے آگاہ کررہی تھی اور نازش خاموشی سے سن رہی تھیں۔ پلوِشہ کے کانوں میں بھی یہ آواز پہنچ چکی تھی۔
ان کی اِس ٹاپک پر پہلے بھی بات ہو چکی تھی۔ روبینہ نے بھی جواب دینے کے لیے کچھ وقت مانگ کر کال بند کردی۔
موبائل کو سپیکر پر ڈالنے کا مقصد بھی صرف براہ راست پیغام دینا تھا کیوں کہ وہ شمائلہ کی نظر میں پلوِشہ کے لیے پسندیدگی اسی وقت دیکھ چکی تھیں۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
آخر انتظار کی سولی پر کافی دیر تک لٹکنے کے بعدروہاب نے اپنی فیک آئی ڈی سے پلوشہ کی آئی ڈی پر میسج کر دیے تھے۔ اب وہ میسج سین کرنے کے انتظار میں تھا اور آخر کار پلوشہ نے سین کر کے پوچھ ہی لیا تھا۔
”Who are you? ”
روہاب کی انگلیاں تیزی سے کی بورڈ پر چلنے لگیں۔
”I’m your well wisher. Will you be my friend? ”
پلوشہ کو ٹینشن ہو رہی تھی اور یہ میسج دیکھنے کے بعد مزید گھبراہٹ ہونے لگی۔
اس نے الجھن سے ٹائپ کرنا شروع کر دیا۔ روہاب کی نظریں اسی کی چیٹ پر تھی جہاں ٹائپنگ کا سائن آرہا تھا۔
”Ur name? ”
”نام بھی جان جائیں گی اتنی بھی جلدی کیا ہے۔” روہاب نے فوراً رپلائی کیا۔
”آپ جو بھی ہیں اپنا نام بتائیں۔”پلوشہ نے غصے سے ٹائپ کر کے پوچھا۔
”آپ ہر وقت غصے میں کیوں رہتی ہیں؟” روہاب نے فوراً رپلائی کیا۔
”میں بالکل بھی غصے میں نہیں رہتی۔”پلوشہ نے جواب دیا۔
”جی رہتی ہیں غصے میں لیکن غصے میں بھی بہت کیوٹ لگتی ہیں آپ۔”
روہاب نے ایک لمحہ سوچ کر فوراً میسج لکھ بھیجا۔ پلوشہ میسج دیکھ کر چکرا گئی اور اسی وقت لیپ ٹاپ بند کر کے سونے کے لیے لیٹ گئی۔
”پتا نہیں کون پاگل ہے؟”
کچھ دیر تک وہ اسی کے بارے میں سوچتے سوچتے سو گئی۔
روہاب کا خوشی سے چھلانگیں مارنے کو دل کر رہا تھا۔ اسی خوشی میں اس نے فیصلہ کیا کہ صبح آفس ضرور جائے گا۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ چاہتا کیا ہے۔ یہی سوچتے سوچتے وہ نیند کی وادی میں جا پہنچا۔
٭…٭…٭
صبح بیدار ہوتے ہی اس کے ذہن کی اسکرین پر رات والا واقعہ گھوم گیا۔ وہ فوراً سے اٹھ بیٹھی۔
”اُف! کیا مصیبت ہے۔ ایک تو مجھے فیس بک کا کچھ پتا بھی نہیں ہے کیا کروں؟ یمنیٰ کو بھی ابھی کراچی جانا تھا۔” اسے بلا وجہ یمنیٰ پر غصہ آ رہا تھا۔ فیس بک آئی ڈی بھی یمنیٰ کے کہنے پر ہی بنائی تھی۔ اس وقت بھی یمنیٰ نے بڑی مشکل سے منایا تھا اور اب وہ خود فیس بک پر بھی نظر نہیں آرہی تھی۔
اس نے فوراً یمنیٰ کا نمبر ڈائل کیا لیکن وہ بند جا رہا تھا۔ پلوشہ نے غصے سے موبائل بیڈ پر پھینک دیا اور خود واش روم میں گھس گئی۔
واش روم سے نکلی تو اس کے موبائل کی بیل پورے کمرے میں گونج رہی تھی۔ اس کے ذہن میں پہلا خیال یمنیٰ کا ہی آیا تھا۔ پلوشہ نے بھاگ کر فون اٹھایا۔ عنیزہ کی کال تھی جس نے چھوٹتے ہی یونیورسٹی آنے کا پوچھا تھا۔ پلوشہ نے ایک لمحہ سوچنے کے بعد یونی آنے کی حامی بھر لی۔
٭…٭…٭
پوری رات جاگنے کے بعد نکلتے سورج کے سر پے آنے سے بے خبر وہ سکون کی نیند سو رہا تھا۔ روز کی طرح آج بھی وہ آفس نہیں جا سکا تھا۔
اس کے کام والی کب کی صفائی کر کے جا چکی تھی۔ اب رحیم بابا اس سے ناشتے کا پوچھنے کمرے میں چلے آئے لیکن روہاب کو سوتا دیکھ کر پھر سے لوٹ آئے۔
٭…٭…٭
عنیزہ اس کا گرائونڈ میں بچھے بنچ پر بیٹھی کب سے انتظار کر رہی تھی تب ہی سامنے سے آتی پلوشہ کو دیکھ کر بھاگتی ہوئی اس تک آئی۔
”اتنا لیٹ آ رہی ہو؟ میری تو امید ہی ختم ہونے کے قریب تھی۔ مجھے لگا تم آئو گی ہی نہیں۔” عنیزہ نے اپنی تشویش ظاہر کی۔
”یار آنا تو تھا ہی بہت بڑی پرابلم ہو گئی ہے۔” پلوشہ کے چہرے پر ٹینشن کے آثار دیکھ کر عنیزہ بھی سہم گئی۔ کچھ دیر پہلے اسے لیکچر مس ہو جانے کی ٹینشن تھی جو یہ سنتے ہی ہوا ہو گئی۔
”کونسی پرابلم؟”
”یار پتا نہیں کون ہے فیس بک پر تنگ کر رہا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے جو بھی ہے جان بوجھ کر تنگ کر رہا ہے۔ بس ایک بار پتا چل جائے کہ ہے کون چھوڑوں گی نہیں اسے۔” پلوشہ نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
”تو لگائو نا پتا۔”عنیزہ نے بھی جوش میں کہا۔
”ہاں لیکن کیسے؟” پلوشہ نے بیچارگی سے کہا۔
”یمنیٰ بھی یہاں نہیں ہے۔ کسی سے ہیلپ بھی نہیں لے سکتی۔ تمہیں تو پتا ہے ان سب کو کوئی نہ کوئی gossipچاہیے ہوتی ہے اور کوئی بھی اعتبار کے قابل نہیں ہے۔ پلوشہ نے تمام شبہات بیان کیے۔
”ایک انسان ہے جو اس معاملے میں تمہاری مدد کر سکتا ہے اور وہ اس یونی سے بھی نہیں ہے۔ نہ تمہیں جانتا ہے نہ کوئی مسئلہ ہو گا۔”عنیزہ نے ذرا شوخی سے کہا۔
”کون؟” پلوشہ نے استفسار کیا۔
”میرے بڑے بھائی روہاب، ان کا تو سارے دن کا یہی معمول ہے۔ جتنا ان کو فیس بک کی اے بی سی کا پتا ہے شاید ہی کسی کو پتا ہوگا۔”عنیزہ نے تفصیل سے بتایا۔
”وہ میری مدد کریں گے؟” پلوشہ نے بیچارگی سے پوچھا۔
”ہاں وہ تو کیا ان کے فرشتے بھی مدد کریں گے۔”عنیزہ نے بھی پلوشہ کو تسلی دی۔
”چلو پہلے لیکچر لیتے ہیں، پھر تم میرے ساتھ گھر چلنا۔” عنیزہ نے اسے مشورہ دیتے ہوئے اپنے ساتھ کھینچا لیکن پلوشہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
”چلو تمہارے گھر چلتے ہیں پہلے۔ یہ مسئلہ حل ہو جائے پھر لیکچر بھی آرام سے لیے جا سکیں گے۔ مجھ سے ایسے نہیں پڑھا جائے گا۔” عنیزہ کو آخر ماننا پڑا اور دونوں عنیزہ کے گھر کی طرف چل پڑیں۔
٭…٭…٭
روہاب جب آٹھ سال کا تھا تو اس کی امی ایک کار ایکسیڈنٹ میں اللہ کو پیاری ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد رحیم بابا نے ہی اسے سنبھالا تھا۔ تیمور شاہ کام میں مصروفیت کے باعث بچوں کے لیے وقت ہی نہ نکال پاتے۔ عنیزہ کو تو اس کی چھوٹی خالہ کے پاس بھیج دیا گیا جس کے باعث اسے ایک مکمل فیملی والا ماحول مل گیا لیکن روہاب وہاں کسی صورت بھی جانے کو تیار نہیں تھا اس لیے وہ یہیں رک گیا۔ رحیم بابا کے سہارے پہلے تنہائی میں اپنی ماں کو یاد کر کے وقت گزارتا اور پھر چھوٹی عمر میں ہی اس نے اپنی ایک الگ دنیا بسا لی۔ پہلے اپنے دوستوں کے ساتھ اور پھر سوشل میڈیا۔ یہی اس کی دنیا تھی۔
تیمور شاہ روہاب کے اکیلے پن کو بھانپ گئے تھے۔ اسی لیے انہوں نے روہاب کا ماحول بدلنے کے لیے بہت جتن کیے۔ مگر سب بے سود ۔
آخر انہوں نے عنیزہ کو اپنے پاس بلا کر یونیورسٹی میں ایڈمیشن دلوا دیا تھا، لیکن روہاب پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
زوہیب کے ذریعے اسے روز میسج بھجواتے تھے لیکن روہاب روز کوئی بہانا بنا کر ٹال دیتا۔
٭…٭…٭
تقریباً بارہ بجے کے قریب روہاب کی آنکھ کھلی۔ اس نے فوراً موبائل اٹھا کر فیس بک پر گڈمارننگ کا اسٹیٹس اپڈیٹ کیا اور اپنی فیک آئی ڈی کھول کر پلوشہ کے میسجز دیکھنے لگا۔ وہاں کوئی میسج نہ دیکھ کر مایوسی سے موبائل بیڈ پر پھینک کر واش روم گھس گیا اور فریش ہونے کے بعد نیچے چلا گیا۔ رحیم بابا اسے آتا دیکھ فاخرہ کو ناشتا تیار کرنے کا بول کر اس کے پاس چلے آئے۔
”اٹھ گئے بیٹا؟”
”جی بابا۔”
”کیا مصروفیات اپنا لیں ہیں تم نے ؟ کب تک ایسا چلے گا؟ بیٹا اب میرے خیال سے تم اتنے بڑے ہو گئے ہو کہ اپنی ذمہ داریاں سمجھو۔”
”کیا مطلب بابا؟میری کون سی ذمہ داریاں؟”
”میرا مطلب ہے بیٹا اب تم جوان ہو ،تعلیم بھی مکمل کر لی ہے۔ بہت جلد تمہاری شادی بھی کرنا ہو گی تو تب بھی تم ایسے ہی ویلے گھومتے رہو گے یا اپنے باپ کے سہارے بیٹھے رہو گے؟” روہاب اک دم ہنسا۔
”بابا ظاہر ہے تب تو خود کام کروں گا نا۔”
”تو میرے بچے ابھی سے عادت ڈالو گے تو کل کو اپنی اور فیملی کی ذمہ داریاں بھی اٹھا سکو گے نا۔”
”بابا جب وقت آئے گا تب ذمہ داریاں بھی اٹھانا آ جائیں گی۔ ابھی سے کیوں ٹینشن لوں؟” روہاب نے ہر بار کی طرح اس بار بھی جان چھڑائی۔
”بیٹا! چڑیا کا بچہ بھی پہلے صرف پَر مارنا سیکھتا ہے پھر پرواز بھرتا ہے۔ ایک چھوٹا بچہ فوراً چلنا شروع نہیں کر دیتا بلکہ پہلے رینگتا ہے پھر لڑکھڑاتا ہے اس کے بعد اس کے قدم زمین پر جمتے ہیں اور ایک دن وہ پوری طرح چلنا سیکھ جاتا ہے۔ اسی لیے کہتا ہوں یہ فضول سرگرمیاں چھوڑ کر اپنی آنے والی زندگی کا سوچو اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو۔”
”میں تو روز ہی سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں بابا لیکن بھائی سمجھیں تو نا۔”عنیزہ نے اندر آتے ہوئے درمیان میں لقمہ دیا۔
عنیزہ کے پیچھے آتی پلوشہ کو دیکھ کر روہاب جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے دل کی دھڑکن اس کے کانوں میں گونجنے لگی تھی۔ پلوشہ سفید سوٹ میں بالکل پری جیسی لگ رہی تھی۔ اسے ایک پل کو لگا وہ خواب دیکھ رہا ہے لیکن عنیزہ نے فوراً اس کی تردید کر دی تھی۔
”یہ میری بیسٹ فرینڈ ہے پلوشہ۔” پلوشہ نے سب کو سلام کیا۔
روہاب گنگ کھڑا اسے تک رہا تھا۔ پلوشہ کو بھی اسپتال والا منظر یاد آ گیا۔ یہ تو وہی لڑکا ہے جو اس دن اسپتال میں دروازے پر کھڑا مجھے گھور رہا تھا۔ عنیزہ کی آواز پر وہ حال میں واپس آئی۔ دوسری طرف روہاب مختلف شبہات میں گھرا ہوا تھا۔
”کہیں اسے پتا تو نہیں چل گیا میری آئی ڈی کا۔ نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے میں بھی نا۔” روہاب نے خود کو تسلی دی اور فوراً ناشتا کرنے میں مصروف ہو گیا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے انجان بننے کا ڈراما کرنا پڑا۔
عنیزہ اور پلوشہ بھی وہیں بیٹھ کر اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگیں۔ روہاب دل ہی دل میں حیران ہو رہا تھا۔
”یہ دونوں یہاں کیوں بیٹھی ہیں؟”
آخر عنیزہ بول اٹھی۔
”بھیا آپ سے ایک کام ہے۔”
پلوشہ بھی جوس کا گلاس رکھ کر اسے دیکھنے لگی۔
”ہاں بولو۔”روہاب نے مصروف انداز میں کہا۔
”بھائی دراصل پلوشہ کو فیس بک پر کوئی تنگ کر رہا ہے۔ آپ کو تو پتا ہے نا فیس بک کے بارے میں تو کیا آپ اس کی کوئی ہیلپ کر سکتے ہیں؟ اسے پتا کرنا ہے کہ وہ کون ہے؟” روہاب کی دھڑکن پھر سے تیز ہو گئی تھی۔
”تو مسئلہ کیا ہے؟ بلاک کر دو۔” گھبراہٹ میں اس نے صحیح مشورہ دے کر بات ختم کی۔
”ہاں مگر بلاک کرنا نہیں آتا نا اس کو۔روہاب کو فوراً اک آئیڈیا سوجھا۔
”اوہ صحیح ہے میں بتا دیتا ہوں۔ پر میرے خیال سے تو بلاک کرنے کا فائدہ نہیں۔ جو ایک آئی ڈی سے تنگ کر سکتا یا سکتی ہے وہ دوسری بھی بنا لے گا۔ بہتر ہے اس سے دوستی کر کے اسے بھروسے میں لو، اس کی بات سنو۔آخر چاہتا کیا ہے وہ۔”
”ہاں! کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہیں بلاک کا فائدہ نہیں۔” پلوشہ نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔دل ہی دل میں روہاب کا دل بھنگڑے ڈالنے کو کر رہا تھا۔
”آپ مجھے اپنا FBاکائونٹ دکھا سکتی ہیں؟” روہاب نے سنجیدگی سے کہا۔ پلوشہ نے فوراً موبائل پر فیس بک آن کر کے روہاب کو پکڑا دیا۔ روہاب نے جھٹ اس کا موبائل پکڑا اور فٹ سے فرینڈ لسٹ اور ان بکس پر نظر ماری اور دل کی پوری تسلی کر لی۔ ”مطلب کہ لائن کلیئر ہے۔” اس نے خوشی سے سرگوشی کی۔
”جی۔”پلوشہ نے پوچھا۔
”مطلب کہ آپ کو محتاط رہنا ہوگا۔ لگتا ہے یہ انسان آپ کو اچھے سے جانتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے آپ آرام سے بات کریں۔”
پلوشہ نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔
”اور سنیں میں اپنا نمبر سیو کر رہا ہوں۔ کوئی بات ہو تو آپ مجھے بتائیے گا پھر میں آپ کو بتائوں گا کہ آگے کیا کرنا ہے۔”
”جی ٹھیک ہے، تو اب میں چلتی ہوں۔” پلوشہ یہ کہہ کر کھڑی ہو گئی۔
”آپ جائیں گی کیسے؟” روہاب نے اسے جاتے دیکھ کر سوال کیا۔
”میں آفس کے لیے ہی نکل رہا تھا آپ چاہیں تو میں آپ کو گھر تک چھوڑ دیتا ہوں۔” رحیم بابا کے ساتھ ساتھ عنیزہ کا بھی شاک سے منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
”شکریہ! میں چلی جائوں گی۔” پلوشہ نے فوراً ٹال دیا۔
”ارے آپ اتنی فارمیلٹی میں نہ پڑیں، میں بس آتا ہوں پانچ منٹ میں۔آپ بیٹھیے۔”یہ کہہ کر روہاب جلدی سے اپنے کمرے کی طرف دوڑا۔
کمرے میں آتے ہی اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ہوا میں ایک پنچ اڑایا اور فوراً الماری کھول کر اس میں سے استری شدہ ڈریس نکالا۔ کپڑے تبدیل کر کے وہ خود کو آئینے میں دیکھنے لگا۔ سامنے پڑے اپنے فیورٹ باڈی سپرے کو خود پر چھڑکا اور نیچے کی طرف چل پڑا جہاں پلوشہ اسے آتا دیکھ کر دیکھتی ہی رہ گئی۔
روہاب کی پرسنیلٹی سے امپریس ہوئے بغیر آج تک کوئی لڑکی نہ رہ پائی تھی تو پلوشہ کا امپریس ہونا تو یقینی تھا۔
”Burbery ”
روہاب کے قریب آتے ہی پلوشہ کے منہ سے اچانک نکل گیا۔ روہاب ایک پل کے لیے وہیں رک گیا۔
”آپ کو کیسے پتا چلا؟” روہاب کو واقعی حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔
پلوشہ اب اس نام کے لینے پر شر مندہ ہو رہی تھی۔