یمنیٰ تیار ہو کر آئینے میں خود پر ایک سر سری نگاہ ڈال رہی تھی۔ جب پلوِشہ پر اعتمادی سے اس کے قریب جاکر کھڑی ہو گئی۔ یمنیٰ نے اس کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر اندازہ لگا لیا تھا۔
”چلو شکر ہے جان چھوٹی۔” پلوِشہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”میں نے تو بتایا بھی نہیں، کہ کیا ہوا؟تو پھر تمہیں کیسے پتا چلا؟”
”بس پتا چل گیا۔ تم بھی ذرا فریش ہو جائو، ہادی کی فیملی آنے ہی والی ہے۔”
”ہاں تو وہ کون سا مجھے دیکھنے آ رہے ہیں۔” وہ فوراً شیشے کے سامنے آن کھڑی ہوئی اور خود پر ایک نظر ڈال کر یمنیٰ سے مخاطب ہوئی۔
”بالکل ٹھیک تو لگ رہی ہوں۔”
”اچھا جناب میں تو یونہی کہہ رہی تھی۔”
”ویسے سب ٹھیک تو رہا نہ وہاں؟” یمنیٰ نے آخر نہ چاہتے ہوئے بھی پوچھ ہی لیا کیوں کہ وہ جانتی تھی جب تک وہ سب بتا نہیں دے گی اسے چین نہیں آئے گااور اس کے پوچھنے کی دیر تھی پلوِشہ نے تو ”اے ٹو زیڈ”پوری داستان ایک ہی سانس میں سنا ڈالی۔ یمنیٰ ستائش بھری نظر ڈال کر گویا ہوئی۔
”چلو دیکھتے ہیں واقعی اثر ہوا یا نہیں۔”ساتھ ہی ایف بی آن کر کے فرینڈلسٹ چیک کی اور دنگ رہ گئی۔
وقار حبیب اسے انفرینڈ کر چکا تھا۔ اس نے پلوشہ کو زور سے گلے لگایا اور ساتھ ہی خوشی سے ایف بی پر سٹیٹس لگا دیا۔
”ہیپیئسٹ ڈے آف لائف ود پلوِشہ شاہ ۔”
پلوِشہ اس کی معصوم حرکتوں پر ہنس کر باہر چلی آئی۔
نازش اور روبینہ آپس میں باتیں کرنے میں مصروف تھیں۔ پلوِشہ بھی ان کے پاس آ بیٹھی۔
”اب یمنیٰ کی شادی ہوجائے گی پھر پلوِشہ کا بھی اچھا سا رشتہ ڈھونڈتے ہیں بھابی۔” نازش نے پیار سے پلوِشہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں ہاں! اب اِسی کی تو باری ہے۔” روبینہ نے پیار سے پلوشہ کو دیکھا۔
”میں تو کہتی ہوں ہادی کے چھوٹے بھائی روفائل سے ہی رشتہ کر دیتے ہیں۔ اچھا لڑکا ہے۔ آج آئے گا تو آپ بھی دیکھ لیجیے گا۔ دونوں بہنیں ایک ہی گھر کی بہو بن کے ایک ساتھ رہیں گی اور آپ بھی تو اچھی طرح جانتی ہیں میرے بھائی کی فیملی کو، شمائلہ سے کتنی اچھی دوستی رہی ہے آپ کی۔”
نازش کا چہرہ خوشی سے کھِل اٹھا، ساتھ ہی پلوِشہ کے منہ پر بارہ بج گئے تھے۔
”افوہ! مما پہلے یمنیٰ کی تو شادی ہو لینے دیں۔ پھر میری ٹینشن لیجیے گا۔ ”
”پلوِشہ! بڑوں کی باتوں میں دخل اندازی نہیں کرتے۔ بڑے سوچ سمجھ کے ہی فیصلے کرتے ہیں۔ ہادی اور یمنیٰ کا رشتہ تو بچپن سے طے تھا اور تب سے اب تک ہمیں تو ہادی میں کوئی کمی نظر نہیں آئی۔” روبینہ نے اپنا پلڑا صاف کیا۔
”باجی! مہمان آگئے ہیں، انہیں ڈرائنگ روم میں بِٹھا دیا ہے۔” ان کی کام والی نے آکر اطلاع دی۔
”اللہ! حاجرہ گھر کے ہی لوگ ہیں یہاں لے آتی۔”
”اچھا باجی ابھی بلا لاتی ہوں انہیں۔”
”تم رہنے دو، جائو اندر جا کر چائے اور ناشتے کا بندوبست کرو۔”
”پلوِشہ بیٹا یمنیٰ کوپانچ منٹ تک نیچے لے آنا۔”
پلوشہ کو ہدایت کرتی ہوئی روبینہ اور نازش ڈرائنگ روم کی طرف چل دیں۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
آج وہ جلدی سونے کے باعث صبح سویرے ہی اٹھ بیٹھا تھا۔
اٹھتے ہی اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا لیپ ٹاپ اٹھایا جس پر فِیس بک پہلے سے ہی لاگ ان تھا۔
جھٹ سے سرچ میں پلوِشہ شاہ کا نام لِکھا، بہت ساری آئی ڈیز سامنے آ چکی تھیں۔
”لیکن وہ پلوِشہ کون سی ہے؟” اس الجھن میں اس کا دماغ بھی ٹھیک سے کام نہیں کر رہا تھا۔
اس کے لیے یہ کام آج سے پہلے کبھی اتنا مشکل نہیں ہوا تھا۔ پچھلے ایک گھنٹے سے وہ مسلسل ناکام ہو رہا تھا۔
”اوہ نو! میں نے پہلے کیوں نہیں سوچا۔” اس نے فوراً یمنیٰ شاہ کی آئی ڈی سرچ کی۔ خوشی سے اس کی آنکھیں جگمگا اٹھیں۔
یمنیٰ کی ”ہیپئیسٹ ڈے ”والی پوسٹ اس کی نظروں سے چھپ نہ سکی جس میں اسے پلوِشہ کی آئی ڈی بھی مِل گئی تھی۔
اس نے جھٹ سے اسے رِیکویسٹ سینڈ کردی۔ اب وہ اِنتظار میں تھا کہ کب وہ اس کی ریکویسٹ اِکسیپٹ کرے اور بات آگے بڑھے۔
روہاب نے کافی وقت اِسی اِنتظار میں فِیس بک پر گزارا ۔ لیکن جب کافی اِنتظار کے بعد بھی رکویسٹ اِکسیپٹ نہ ہوئی تو اس کا صبر جواب دے گیا۔ لیپ ٹاپ کو جھٹکے سے سائیڈ پر کیا اور اٹھ کر واش روم میں گھس گیا۔
٭…٭…٭
ہادی اپنے مما بابا کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوا تھا۔ نازش اور روبینہ جہانگیر اور شمائلہ سے باتوں میں مصروف تھیں۔ہادی کی نظریں بار بار دروازے کی جانب اٹھ رہی تھیں۔ حاجرہ چائے اور دوسرے لوازمات رکھ کے جا چکی تھی۔
”چلو بھئی اور کتنا تیار ہوگی، ہادی بھائی اِنتظار کر رہے ہیں۔” پلوِشہ نے یمنیٰ کو چھیڑا تو یمنیٰ مسکرا دی۔
دونوں ڈرائنگ روم کے پاس پہنچی ہی تھیں کے پلوِشہ کے ہاتھ میں پکڑا موبائل بج اٹھا۔
”افوہ! عنیزہ کو بھی ابھی کال کرنی تھی، تم چلو میں آتی ہوں۔” یمنیٰ اس کے کہنے پر کمرے کی جانب چل پڑی اور پلوِشہ باہر کی طرف بڑھ گئی۔
یمنیٰ کو آتا دیکھ ہادی کا چہرہ بھی کِھل اٹھا۔ شمائلہ نے اسے پیار کیا اور اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا ۔
”اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو ہم آج ہی منگنی کی رسم کرنا چاہتے ہیں۔ ویسے بھی رشتہ طے ہوئے کافی عرصہ بیت گیا ہے۔ میں تو چاہتی تھی سیدھا شادی ہی کریں لیکن ہادی کی ضد تھی منگنی کی رسم بھی ضرور ہونی چاہیے۔ اسی لیے آج آنے کا فیصلہ کیا۔ پھر جب ہادی دبئی سے واپس آئے گا تو شادی کردیں گے۔”
روبینہ کو پہلے ہی سے یقین تھا کہ ایسا کچھ ہوگا اِس لیے انہوں نے پہلے سے ہی بندوبست کر رکھا تھا۔
”جی ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یمنیٰ کے بابا بھی یہی چاہتے تھے لیکن آج کسی کام کے سلسلے میں انہیں بھائی صاحب کے ساتھ باہر جانا پڑا۔ اِس لیے میں نے نازش کو بھی یہیں بلا لیا۔”
”بہت اچھا کیا آپ نے۔” شمائلہ نے خوش دلی سے ان کی بات کو سراہا۔
”پلوِشہ نہیں آئی آپ کے ساتھ؟” ان کا اچانک دھیان پلوشہ کی طرف گیا۔
”یمنیٰ پلوِشہ کہاں ہے؟” نازش نے یمنیٰ کی طرف دیکھ کے استفسار کیا۔
”پھپھو وہ اس کی فرینڈ عنیزہ کی کال آ رہی تھی اِس لئے باہر رک گئی۔ ابھی آتی ہی ہو گی۔”
”آج کل کے بچوں کو موبائل زیادہ ہی عزیز ہو گیا ہے۔ ایک میرا بیٹا ہے روفائل، نہ جانے باہر کس سے بات کر رہا ہے۔ ماں باپ اور رشتے داروں سے زیادہ موبائل عزیز ہے اِن کو۔” شمائلہ نے بھی اپنے بیٹے کا رونا رو دیا۔
”ہماری پلوِشہ تو اِن باتوں سے دور ہی رہتی ہے، بس ایک عنیزہ کے علاوہ کسی سے بات نہیں کرتی۔” یہ روبینہ کی آواز تھی۔ نازش نے مسکرا کر روبینہ کی طرف دیکھا۔
”یہ تو اچھی بات ہے۔ اِس زمانے میں بھی ایسی لڑکیاں موجود ہیں۔” شمائلہ نے سراہا۔
عنیزہ سے بات کرنے کے بعد، پلوِشہ کوریڈور جانے کے لیے بڑھ رہی تھی جب سامنے سے پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک لڑکا اُلٹے قدم چلتا فون کان سے لگائے اس سے ٹکرانے ہی والا تھااگرپلوِشہ اپنی ڈائریکشن چینج نہ کرتی لیکن اس سے بچنے کے چکر میں پلوِشہ کے ہاتھ میں پکڑا موبائل زمین پر جا گِرا تھا۔ جس کی آواز سے سامنے کھڑے لڑکے نے پلٹ کر اسے دیکھا۔
پلوِشہ نے اسے اور گھورا پھر اپنے سیل کے پرزے اٹھانے لگی۔ موبائل کی بیٹری نکل چکی تھی۔
لمبے سلکی بال، گوری رنگت اور ہیزل برائون آنکھوں والی لڑکی اس کے سامنے تھی۔ روفائل نے اپنے گلاسِز اتارے اور اس کی مدد کرنے کو آگے بڑھا۔ پلوِشہ اپنا سیل اٹھا کہ اب اس کے سامنے کھڑی تھی۔
”کون ہیں آپ؟” پلوشہ کا لہجہ تھوڑا سپاٹ تھا۔
”اور یہ کون سا طریقہ ہے فون پر بات کرنے کا؟دیکھ کر نہیں چل سکتے آپ ؟” پلوشہ کو غصے میں یہ بھی دھیان نہیں رہا کہ وہ لڑکا اس وقت اس گھر پر موجود تھا تو اس کا مطلب یہی تھا وہ کوئی غیر نہیں بلکہ مہمان ہی ہوگا۔
”کول ڈائون مِس! میں یہاں اپنی فیملی کے ساتھ آیا ہوں، یمنیٰ بھابی کا ہونے والا اِکلوتا دیور روفائل اور آپ یقینا یمنیٰ کی نک چڑی کزن پلوِشہ ہوں گی۔”
یہ کہتے ساتھ ہی اس نے مسکراتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا اور پلوِشہ حیرت سے اسے تکتی رہی کیوں کہ اس کا اندازہ درست تھا۔
پلوِشہ کوئی جواب دیتی، اس سے پہلے حاجرہ انہیں بلانے آگئی۔
پلوشہ ایک غصیلی نگاہ ڈال کر اندر چلی گئی۔ رو فائل نے بھی اس کی تقلید کی تھی۔
٭…٭…٭
روہاب صبح سے تقریباً ہزار بار ایف بی کھول کر چیک کر چکا تھا مگر کوئی ریسپونس نہیں آیا تھا۔
بالآخر اس نے پلوِشہ کی پوسٹس پر موجود چند لڑکیوں کو بھی ریکویسٹ سینڈ کر دی جو تقریباً وقفے وقفے سے اِیکسیپٹ بھی ہو گئیں۔
آج سے پہلے کسی لڑکی نے اس کی شاندار پرسنیلٹی والی پروفائل پِکچر دیکھ کے اس کی ریکویسٹ ایکسیپٹ کرنے میں دیر نہیں کی تھی۔
روہاب کو ایک آئیڈیا سوجھا۔ اس نے اپنی دوسری آئی ڈی سے ریکویسٹ سینڈ کر دی۔
اب اسے تسلی ہو گئی تھی کہ اِس آئی ڈی سے کی ریکویسٹ وہ ضرور ایکسیپٹ کرلے گی۔ ساتھ ساتھ اس نے یمنیٰ کی باقی کچھ فرینڈز کو بھی ریکویسٹ سینڈ کردی تھی۔
٭…٭…٭
روفائل پورا وقت پلوِشہ کو ہی دیکھتا رہا جسے یمنیٰ نے بھی نوٹ کیا۔
سب کے جانے کے بعد وہ دونوں اب چھت پر ٹہل رہی تھیں۔ یمنیٰ نے آج اسے اپنے پاس ہی روک لیا تھا اور پلوِشہ اسے ٹال بھی نہ سکی تھی۔ یمنیٰ نے فیس بک کھول کر اسٹیٹس سنگل سے اِنگیجڈ کر دیا، جس پر فوراً مبارک باد کے کمنٹس آنے لگ گئے۔ پلوِشہ نے بھی ایف-بی آن کرکے کمنٹ کردیا۔ ساتھ ہی اس کی نظر فرینڈ ریکویسٹ پر پڑی، اسے زیادہ ریکویسٹ نہیں آتی تھیں اور نہ ہی وہ جلدی اِیکسیپٹ کرتی تھی۔ اس نے دیکھ کے بھی ان دیکھا کر دیا۔
وہ یمنیٰ کی آواز پر اس کی طرف متوجہ ہو گئی۔
”میں بھی سوچ رہی ہوں کہ ایک فیک آئی ڈی بنا لوں۔” یمنیٰ نے کہا تو پلوِشہ نے اسے گھورا۔
”ہادی کو تنگ کروں گی۔
”ارے اس کی ریکویسٹ تو مجھے بھی آئی ہوئی ہے دیکھو۔” پلوشہ نے اپنا موبائل اس کے سامنے کیا۔
پلوِشہ نے اس کا موبائل تھام کر پِروفائل چیک کی تو یہ وہ ہی پروفائل تھی جس کی ریکویسٹ اسے بھی آئی ہوئی تھی۔
”یہ تمہاری کوئی فرینڈ ہے کیا؟مجھے بھی ریکویسٹ آئی ہوئی ہے۔” پلوشہ نے پوچھا۔
”ہو سکتا ہے، پوچھتی ہوں کون ہے یہ مہا شے۔”
یمنیٰ نے اس کے کمنٹ کے رپلائے میں ہی ”ہو آر یو” کا کمنٹ کر دیا جس کا جھٹ سے رپلائے بھی آ گیا تھا ۔
”می یور ویل وِشر۔” پھر کیا تھا یمنیٰ میڈم بھی جان پہچان کی چکروں میں پڑ نکلیں۔
پلوِشہ اِس سے اکتا کر واک کرنے لگ گئی۔
کچھ دیر بعد یمنیٰ بھی اس کے پاس آ گئی۔
”پلوِشہ!”
”ہاں۔” پلوِشہ نے چاند کو تکتے ہوئے آہستہ آواز میں جواب دیا ۔
”تمہیں پتا ہے کل میں کراچی جا رہی ہوں۔ بڑی خالہ کی طرف ایک ہفتہ وہاں رہوں گی۔”
”اچھا جی اور یونیورسٹی کون جائے گا؟”پلوشہ نے ہاتھ کمر پر ٹکاتے ہوئے پوچھا۔
”وہ میری سر سے بات ہو گئی تھی۔ انہوں نے لِیو ایکسیپٹ کرلی ہے۔”
”اوہ مطلب مجھے اکیلے جانا ہوگا یونی۔”پلوشہ نے منہ بنا کر کہا۔ یمنیٰ نے اسے گلے لگا کر جلدی آنے کا وعدہ کیا۔
٭…٭…٭
”پلوِشہ کیسی لگی تمہیں روفائل ؟” ناشتے کی ٹیبل پر شمائلہ نے اچانک اس سے پوچھا۔ روفائل کا بریڈ پر مایونیز لگاتا ہاتھ اِک پل کو رکا۔
”اچھی ہے۔” وہ دوبارہ اپنے لیے سینڈوچ بنانے لگا۔
صرف اچھی ہے یا بہت اچھی؟؟
روفائل نے بریڈ پلیٹ میں رکھی اور پوری طرح شمائلہ کی طرف متوجہ ہو گیا۔
”آپ کس لحاظ سے پوچھ رہی ہیں؟اگر تو آپ چاہتی ہیں کہ میں اس سے شادی کر لوں، تو میں یہ فیصلہ اتنی جلدی نہیں کرسکتا، ہاں سوچ ضرور سکتا ہوں۔”شمائلہ کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔
”اچھا تو پھر سوچ لوکیوں کہ میں نے بھی سوچ لیا ہے۔”
روفائل مسکراہٹ دباتا سینڈوچ کھانے میں مصروف ہو گیا۔
پلوِشہ تو اسے پہلی نظر میں ہی پسند آگئی تھی بس وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ اس کے اسٹینڈرڈ کی ہے بھی یا نہیں۔ روفائل کافی اوپن مائنڈ لڑکا تھا۔ شروع سے ہی وہ پڑھائی کے سلسلے میں باہر رہا تھااِس لیے ہادی کی نسبت اس کی چوائس کافی مختلف تھی۔ اسے ایک خوب صورت، ماڈرن، اس کے جیسے ہی اوپن مائنڈ اور قدم سے قدم مِلا کر ساتھ دینے والی لڑکی چاہیے تھی اور پلوِشہ خوب صورت تو تھی لیکن خالص گھریلو اور نازک اندام سی لڑکی تھی۔
٭…٭…٭
روہاب نے جب سے پلوِشہ کو دیکھا تھا اسے کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔
وہ پہلے سے زیادہ فیس بک پر اِیکٹیو رہنے لگا تھا۔ اب ایک وقت میں دو دو آئی ڈیز یوز کر رہا تھا۔ یہ سب اس کے معمول میں تو شامل تھا مگر انتظار اس کے لیے نا قابل برداشت تھا۔
وہ یمنیٰ کی آئی ڈی سے پلوِشہ کے بارے میں کافی کچھ جان گیا تھا لیکن پلوِشہ نے اسے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا تھا اور نہ ہی ریکویسٹ ایکسپٹ کی تھی۔
وہ اپنے کمرے میں بیٹھا یہی سوچ رہا تھا کہ اس کا فون بج اٹھا۔ زوہیب کی کال آ رہی تھی۔
روہاب نے فوراً کال ریسیو کی کیوں کہ وہ جانتا تھا یہ کال لازمی اس کے ڈیڈ نے ہی کروائی ہوگی۔
وہ روز آفس آنے کا کہتاتھا ،لیکن روز کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر گھر ہی رک جاتا تھا۔
تیمور شاہ بھی کبھی خود سے اسے آفس آنے پر زیادہ زور زبردستی نہیں کرتے تھے، بلکہ زوہیب کے ذریعے اپنے بگڑے بیٹے کو راہِ راست پر لانے کے لیے پوری کوشش کرتے تھے۔
”کہاں ہو؟” زوہیب نے غصے سے پوچھا۔
”ایک ہفتہ پہلے شاید تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اب آفس آیا کرو گے اور مجھے کمپنی دو گے، ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ تم انکل کی گڈ بک میں بھی آنا چاہتے ہو تو اب کہاں گیا تمہارا وعدہ اور تمہارا شوق؟”
”ہاں میں نے کہا تھا اور میں آنا بھی چاہتا ہوں، لیکن کیا کروں سر بہت درد کر رہا ہے۔ رات کو نیند پوری نہیں ہوئی اِس لیے سوری یار، آج تو نہیں آسکتا۔” روہاب نے بہانہ گھڑا۔
”وعدہ کرو کل آفس ضرور آئو گے۔” زوہیب کو پتا تھا اس سے بحث کرنا فی الحال فضول ہے۔
روہاب نے اپنے سیدھے ہاتھ کی پہلی دو انگلیوں سے وکٹری کا سائن بنایا اور ایک اور جھوٹا وعدہ کرکے زوہیب کو تسلی دی اور خود پھر فیس بک کھول کر بیٹھ گیا ۔ لیپ ٹاپ پر سکرولنگ کرتے ہوئے اچانک اس کے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا۔ اس کی انگلیاں کی بورڈ پر تیزی سے چلنے لگیں۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});