انوکھی محبت (انٹرنیٹ والا لو) — مہک شاہ

ہر طرف گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سب لوگ نہ جانے کب کے سو چکے تھے۔ روہاب نے لیپ ٹاپ کی اسکرین سے نظریں ہٹا کے دیواری گھڑی کی طرف دیکھا جو صبح کے چار بجا رہی تھی۔ معمول کے مطابق اس کے سونے کا وقت ہوا چلا تھا۔ اِس کے ساتھ ہی اس نے ثانیہ ، وشمہ اور تمام آن لائن دوستوں کو گڈ نائٹ کہا اور سونے کے لیے آنکھیں موند کر لیٹ گیا۔
ابھی اسے سوئے چند گھنٹے ہی ہوئے تھے کہ فون کی گھنٹی کی آواز پورے کمرے میں گونجنے لگی۔
آنکھوں میں سرخ ڈورے اس کی شب بیداری کے گواہ تھے۔ اس نے غصے سی بنا دیکھے ہی کال کاٹ دی۔ چند سیکنڈ بھی نہ گزرے تھے کہ دوبارہ بیل بجنے لگی۔
زوہیب کا نام اسکرین پر جگمگا رہا تھا۔ کسی اور کی کال ہوتی تو وہ فون بند کرکے سو جاتا، مگر یہ اس کے قریبی دوست کی کال تھی اِس لیے بلاتاخیر اٹینڈ کر لی تھی۔نہ جانے فون پر کیا کہا گیا تھا کہ روہاب جھٹ سے بیڈ سے اٹھ کر واش روم میں گھس گیا۔ جب وہ باہر آیا تو چہرے سے پانی کی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔ اس نے سائیڈ ٹیبل سے کار کی چابی اٹھائی اور باہِر چل دیا۔
اسپتال کے اندر گہری خاموشی کا راج تھا۔ یہ پہلی بار نہیں تھا آج وہ یہاں تیسری بار لایا گیا تھا.. اس کی سوشل میڈیا پر بنی تیسری گرل فرینڈ بھی اسے چھوڑ کر جا چکی تھی۔
ہر بار کی طرح اس بار بھی وہ یہ صدمہ برداشت نہ کر پایا تھا۔ روہاب اور اس کے باقی دوستوں نے کئی بار اسے سمجھایا تھا کہ سوشل میڈیا کے تعلقات زیادہ دیر نہیں ٹکتے۔ پھر بھی وقار ہر بار سنجیدہ ہو جاتا تھا۔
زوہیب کو اسپتال کے کاریڈور میں چکر لگاتا دیکھ روہاب بھی بھاگتا ہوا اس کے قریب آگیا۔
”کیا ہوا وقار کو؟”
”وہی جو ہر بارہوتا ہے۔” زوہیب نے ماتھے پر تیوری چڑھا کر جواب دیا۔
”بریک اپ! پھر سے؟” روہاب نے اس کے تاثرات کو سمجھتے ہوئے خود ہی اندازہ لگایا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”یار کیا کریں اس کا؟ ہرچار پانچ مہینے بعد اس کا یہی رولا ہوتا ہے۔”
”اس بار کون سا طریقہ آزمایا ہے جان دینے کا؟”روہاب نے استفسار کیا۔
”خود ہی چل کر دیکھ لے ۔” زوہیب نے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھا اور دونوں وارڈ کی جانب چل پڑے۔
وقار کے قریب ایک نرس کھڑی چیک اپ کے ساتھ اس سے سوال جواب کر رہی تھی۔
وقار چہرے پر بے زاری سجائے اس کے سوالوں کے جواب دے رہا تھا۔
”اوکے! بٹ یو ہیو ٹو بی کئیرفل نیکسٹ ٹائم ۔ اس بار ڈوز کم تھی توجان بچ گئی۔ اگر ڈوز زیادہ ہوتی تو جان جا بھی سکتی تھی۔” یہ کہہ کر نرس باہر چلی گئی۔
”جینا بھی کون چاہتا ہے۔”وقار نے نرس کے جاتے ہی دیوداسی انداز میں کہا۔
”یار ایک لڑکی کی خاطر تو ہمیں بھول گیا۔ ایک بار بھی نہ سوچا تیرے گھر والوں اور تیسرے معصوم دوستوں کا کیا ہو گا؟ ”روہاب نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے معصومیت سے کہا۔
”چل بھول جا کوئی یمنیٰ بھی تھی تیری لائف میں ۔ دیکھنا اس سے اچھی لڑکی مل جائے گی اب۔” فیس بک تو بھری پڑی ہے خوب صورت لڑکیوں سے۔” زوہیب نے اسے تسلی دینے کو ایک نیا شوشہ چھوڑا۔
”شٹ اپ یار! اس بار میں سیریس ہوں۔ مجھے سچ میں یمنیٰ سے پیار ہو گیا ہے۔” وقار نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ وہ ہر بار یہی کہتا تھا۔
روہاب کا سیب منہ تک لے جاتا ہاتھ وہیں تھم گیا۔
”اچھا ٹھیک ہے ابھی تم آرام کرو بعد میں اس موضوع پر بات کرتے دیکھتے ہیں۔”
”ویسے اس موقع پر سیلفی تو بنتی ہے نا؟ ”
کہتے ساتھ ہی روہاب نے موبائل کا فرنٹ کیمرا کھولا اور تینوں نے سیلفیاں بنوائیں۔ وقار نے اس لیے سیلفی بنوائی تھی کہ یمنیٰ ان کے ”Matual” میں تھی اور وقار کی تصویر دیکھ کر اس سے رابطہ ضرور کرتی۔
روہاب نے فوراً سیلفی کے ساتھ سٹیٹس اپڈیٹ کر دیا تھا۔
”می اینڈ زوہیب ود وقار ایٹ ہاسپٹل۔ ”
”with zohaib and waqar at hospital”
٭…٭…٭
اُف اللہ! میں کیا کروں، میں کس سے کہوں؟ماما جانی کدھر ہیں آپ؟ اتنی زوروں کی بھوک لگی ہے۔”
”آآآ میرا بچہ! بس آ گیا کھانا۔” نازش نے خود نوالہ بنا کر اپنی نازوں پلی بیٹی پلوشہ کے منہ میں ڈالا۔
”ماما جانی بہت مزے کا بنا ہے۔” نازش نے پیار سے اپنی بیٹی کو ساتھ لگایا۔
”ماما! میں نے آج یونی میں بھی کچھ نہیں کھایا۔ آپ کی بھتیجی نے کچھ کھانے نہیں دیا۔” پلوشہ نے یمنیٰ کی طرف برا سا منہ بنا کر اسے گھورا۔ نازش نے ایک نظر یمنیٰ کو دیکھا جو گھر جانے کے بجائے سیدھا یہاں چلی آئی تھی اور مسلسل پلوشہ کی ڈراما بازی دیکھ کر کڑھ رہی تھی۔ پلوشہ نے مزے سے کھاتے ہوئے اسے آنکھ ماری۔ یمنیٰ نے برا سا منہ بنا کر سر جھکا لیا۔
پلوشہ اٹھ کر واش بیسن پر ہاتھ دھونے چلی گئی۔
”توکب آ رہے ہیں ہادی لوگ؟” پلوشہ کے جانے کے بعد نازش نے یمنیٰ سے پوچھا۔
”جی پھپھو کل آنا ہے۔”
پلوشہ نے سیڑھیاں چڑھتے یمنیٰ کو اشارہ کیا۔ یمنیٰ بیگ اور موبائل اٹھائے اس کے پیچھے چلی آئی۔
”ہاں جی اب بتائیں کیوں صبح سے سڑے ہوئے بینگن جیسی شکل بنا رکھی ہے محترمہ نے؟”
”مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔” یمنیٰ بے چارگی سے بولی۔
”کیسی مدد؟”
”میں ہادی سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔”
”وہاااااااٹ؟” پلوشہ جھٹکے سے اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
”لیکن کیوں؟ ہادی میں کیا خرابی ہے؟ تمہارا فرسٹ کزن ہے۔ اسمارٹ ہے، ہینڈسم ہے، اچھا بزنس ہے اس کا دبئی میں اور کیا چاہیے؟ تم بس جلدی سے شادی کروائو تو میرا نمبر آئے گا نا۔ میں نے تو سوچ بھی لیا ہے میرا پرنس چارمنگ کیسا ہوگا۔”
”بکواس نہیں کرو۔ میں مذاق کے موڈ میں بالکل نہیں ہوں۔” پلوشہ اب خاموشی سے اس کے چہرے کے بگڑے تاثرات کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش میں لگی تھی۔
”اچھا ٹھیک ہے بتا کیا مسئلہ ہے؟” یمنیٰ نے اپنا موبائل اٹھا کر وقار کی اسپتال والی تصویر دکھائی۔
”ارے! یہ تو وہی چمپو ہے نا جو روز کینٹین میں ہمارے ساتھ والی ٹیبل پر بیٹھ کر گھورتا رہتا تھا۔”
”ہاں! وہی ہے اور ہم ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔ اب جب میں نے اسے کہا کہ میری شادی ہو رہی ہے اور اب بات نہیں کروں گی تو اس نے سوسائیڈ اٹیمپٹ کرنے کی کوشش کی اور اب اسپتال میں ہے۔” اس نے افسردہ سا منہ بنا کر بتایا۔
پلوشہ تو شاک کے مارے گنگ رہ گئی۔
”بولو بھی کچھ۔” یمنیٰ نے اسے جھنجھوڑا۔
”اب کیا کر سکتے ہیں۔” پلوشہ کو اپنی آواز دور سے آتی سنائی دی۔
”تم اس سے پیار کرتی ہو؟” پلوشہ نے رازداری سے اس کے قریب آکر پوچھا۔
”پیار کا تو پتا نہیں لیکن اس کے لیے برا لگ رہا ہے۔ پانچ ماہ سے ہم دوست ہیں۔”
”ہیں؟ ابھی تو کہہ رہی تھی پیار کرتی ہو۔ یہ کیسا پیار ہے؟اور ایک بات بتائو، 5ماہ تو یونی جاتے بھی نہیں ہوئے ابھی، تو یہ سب؟” پلوشہ نے بھنویں چڑھاتے ہوئے کہا۔
”ہماری دوستی فیس بکپر ہوئی تھی، یونی تو بعد میں جوائن کی تھی۔”
”افففف! تم لوگ بھی کن چکروں میں پڑے ہوئے ہو۔ مجھے دیکھو فیس بک بس DP کور بدلنے کو آن لائن جاتی ہوں۔
”اچھا اب اپنی تعریفوں کے پل بعد میں باندھ لینا، ابھی بتائو کیا کرنا ہے؟
”ہممم! تم ٹینشن نہ لو اِس کو میں سمجھا دوں گی۔ آرام سے ہادی بھائی کے ساتھ شادی کی تیاری کرو ۔” پلوِشہ نے اسے تسلی دی، یمنیٰ کو بھی کچھ حوصلہ ہو گیا تھا۔ اسے بس یہ ڈر تھا کہ وقار کی وجہ سے وہ کسی مصیبت میں نہ پڑ جائے۔
اب مسئلہ پلوِشہ کا تھا اور اسے پلوِشہ پر پورا یقین تھا۔
ٹی وی کے سامنے بیٹھے میچ دیکھتے ہوئے وقفے وقفے سے فیس بک پر سکورز کی کمنٹری چل رہی تھی اور میچ دیکھنے سے زیادہ اس کا دھیان ان پوسٹس پر آنے والے کمنٹس پر تھا۔
روہاب اسپتال سے آتے ہی ٹی وی آن کر کے بیٹھ گیا تھا۔ فین فالوئنگ کے چکر میں زیادہ پوسٹس ڈالنا اس کی عادت کے ساتھ مجبوری بھی تھی۔
وقار کی ٹینشن اسے بالکل بھی نہیں تھی کیوں کہ وہ جانتا تھا اس کا یہ پیار کا بھوت دو دن میں ہوا ہو جائے گا۔
”آگئے جناب! کہاں غائب تھے صبح سے؟”
”جی بس فرینڈز کے ساتھ تھا۔”
”کس فرینڈ کے ساتھ اور وقار کی طبیعت اب کیسی ہے؟”تیمور صاحب اس کی پوسٹ پہلے ہی دیکھ چکے تھے۔
”جی ڈیڈ بس ایسے ہی طبیعت ذرا خراب تھی، اب بہتر ہے۔”
روہاب اگر انہیں بتا دیتا کہ وقار نے پھر سوسائیڈ کرنے کی کوشش کی ہے تو تیمور صاحب کا لمبا چوڑا لیکچر سننا پڑنا تھا جسے سننے کے لیے وہ بالکل تیار نہ تھا۔
صبح بھی جلدی جاگ گیا تھا۔ اِس لیے فوراً اٹھ کے کمرے میں چلا گیا اور خلافِ معمول جلدی سو گیا ۔
٭…٭…٭
”وقار کا روم کون سا ہے؟” پلوِشہ نے ریسیپشن پر موجود لڑکی سے پوچھا۔
”میم انہیں آئی سی یو سے پرائیویٹ روم میں شفٹ کر دیا گیا ہے، آپ سیکنڈ فلور پر روم نمبر5 میں چلی جائیں۔”
”اوکے تھینک یو۔”
پلوِشہ جیسے ہی وقار کے کمرے میں پہنچی، وہ اسے دیکھ کر حیران رہ گیا۔
”آپ؟”
”جی میں؟ کیسے ہیں اب آپ؟”
”جی میں ٹھیک ہوں اب۔” وقار نے اچنبھے سے اسے دیکھ کر جواب دیا۔
”کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں آپ؟ ہاں؟ بہت شوق ہے آپ کو جان دینے کا، تو بارڈر پر چلے جائیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں آپ کی اِس چیپ حرکت سے میری کزن اِمپریس ہو جائے گی؟ بہت ہی فضول سوچ ہے آپ کی۔” پلوشہ نے تمہید باندھے بغیر اسے سنانا شروع کردیا۔ وقار اس کے بدلتے رویے پر حیران سا ہو کر اسے دیکھنے لگا۔
”لڑکیاں کبھی بھی آپ جیسے کم ہمت اور بزدِل لڑکوں سے محبت نہیں کرتیں اور نہ اِمپریس ہوتی ہیں، سمجھے آپ ؟” پلوشہ اب اسے آئینہ دکھا رہی تھی۔
”میں بس آپ کو یہی بتانے آئی ہوں کہ یمنیٰ آپ کو صرف دوست مانتی تھی، اِس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ مہربانی فرما کہ ایسی فضول پوسٹس میں آئندہ اسے ٹیگ مت کیجیے گا۔”
”She`s gonna engaged tomorrow.”
روہاب گنگ کھڑا پلوشہ کی اِک اِک بات سن رہا تھا۔ وقار بھی اسے چپ چاپ خاموشی سے کھڑے دیکھ کہ حیران ہو رہا تھا اور پلوِشہ کی باتوں سے اس کا دماغ بھی صاف ہو رہا تھا۔ اس کی ساری دیوداسی جیسے اڑن چھو ہو گئی تھی۔
”اِیکسکیوز می پلیز۔” پلوشہ جانے کے لیے مڑی تو روہاب کو دروازے پر کھڑا پا کر اِس سے کہا، لیکن وہ بت بنا اسے دیکھتا رہا۔
”کیا آپ یہاں سے ہٹنے کی زحمت کریں گے؟” روہاب دروازے کے بیچ و بیچ ہوش و حواس سے بے گانہ کھڑا تھا۔
”بہرے ہو؟ ہٹو سامنے سے۔” پلوِشہ نے ذرا چیخ کر کہا تو روہاب نے کسی روبوٹ کی طرح فوراًدروازہ چھوڑ دیا اور اسے جاتے ہوئے دیکھنے لگا ۔ اس کے نظروںسے اوجھل ہوتے ہی فوراً وقار کے سر پر آن پہنچا۔
”کون تھی یہ لڑکی؟” وقار نے بہت مان سے اسے دیکھا۔
”یہ یمنیٰ کی کزن ہے میرے ساتھ یونی میں پڑھتی ہے ۔”
”آج تک مجھے تو نہیں ملوایا؟” وہ پتا نہیں کیا معلوم کرنا چاہ رہا تھا۔
ابھی چند سیکنڈ پہلے جو امید اس کے دل میں جاگی تھی کہ اس کا دوست اس کو حوصلہ دے گا وہ لمحہ بھر میں چکنا چور ہو گئی تھی، مگر وہ جواب دینے پر مجبور تھا۔
”عجیب انسان ہو، چلو خیر اِس کی آئی ڈی بتا مجھے۔ آج ہی ریکویسٹ سینڈ کرتا ہوں۔” روہاب نے جیب سے موبائل نکالتے ہوئے کہا۔
”کیوں! کیا ضرورت ہے اس لڑکی کو ریکویسٹ سینڈ کرنے کی؟”وقار نے گھور کر پوچھا۔
”کیوں؟ اسے ریکویسٹ سینڈ کرنے میں حرج ہی کیا ہے؟ایسی حوصلے والی لڑکی آج تک نہیں دیکھی یار۔” روحاب نے ستائشی انداز میں کہا۔
”پلوِشہ شاہ ! یمنیٰ کی میوچل میں ایڈ ہے۔” وقار نے بیڈ سے اُٹھتے ہوئے غضب ناک نگاہوں سے گھور کر کہا جسے روہاب نے جان بوجھ کر ان دیکھا کر دیا۔
”تھینک یو!”
”بہت ہی کمینے ہو، وہ میری اِتنی انسلٹ کر کے گئی ہے اور تمہیں ریکویسٹ سینڈ کرنے کی سوجھ رہی ہے۔” وقار نے آخر خود ہی خفگی کا اظہار کیا۔
اِسی وقت زوہیب کمرے میں داخل ہوا ۔
”ایک گڈنیوز ہے۔”
”کون سی گڈنیوز؟”دونوں نے ایک ساتھ پوچھا ۔
”ڈاکٹر نے کہہ دیا ہے کہ اب تم بالکل ٹھیک ہو اور گھر جا سکتے ہو۔” وقار اور روہاب دونوں نے خاموش نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
”کیا ہوا تم دونوں کو خوشی نہیں ہوئی؟”زوہیب نے حیرت سے پوچھا۔
روہاب نے اسے ساری داستان مزے لے کر سنائی۔
”اوہ! یہ تو بہت برا ہوا۔” زوہیب نے وقار کے تاثرات پر غور کرتے ہوئے روہاب کی امید کے بر عکس جواب دیا۔
”ٹھیک ہوا جو بھی ہوا۔”
”تم لوگوں سے زیادہ مجھے اس لڑکی کی باتوں سے سمجھ آئی ہے۔ میں ہی غلط سمجھ رہا تھا۔ جب میری اپنی دوست ہی بے وفا ہے تو اِس سے کیا گِلہ۔”
یہ کہنے کے ساتھ ہی وقار نے موبائل فون نکال کر ایف بی آن کی اور فرینڈلسٹ سے یمنیٰ کو ڈیلیٹ کر دیا۔
”آج سے یہ ٹاپِک بند۔” روہاب اور زوہیب نے خوشی سے اسے گلے لگا لیا۔
”شکر ہے پیار کا بھوت تو سر سے اُترا۔” روہاب نے ذرا اونچی آواز میں کہا۔
دونوں کو اپنا دوست واپس ہنستا مسکراتا مل گیا تھا۔
”یہ سب پلوِشہ کا کمال تھا۔” روہاب دل میں صرف اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

ادھوری کہانیاں — کوثر ناز

Read Next

بلا عنوان — ثناء شبیر سندھو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!