مسجد کے خادم نے بجلی کے بل کی دو تین تہیں لگائیں اور اسے مسجد کے چندے والے ڈبے میں ڈال دیا۔ مامون مسجد کے صحن میں کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔وہ کچھ بے چین سا دکھائی دے رہاتھا۔آخر بھاگ کر وہ خادم صاحب کے پاس آیااور بولا:
”انکل! بجلی کا بل تو بازار میں دیا جاتا ہے نا ،آپ نے یہاں کیوں ڈال دیا؟”
”بیٹا یہ مسجد کا بل ہے اورمسجد اللہ کا گھر ہے ۔ اللہ اپنے گھر کے بل کا انتظام خود ہی کرلے گا ۔ہم کمزور بندے بھلا کیا کر سکتے ہیں۔”
مسجد کے خادم نے مسکرا کر جواب دیا۔
”انکل کیا اللہ تعالیٰ کے پاس بہت سارے پیسے ہیں؟” مامون نے دونوں بازو پھیلا کر تجسس سے پوچھا، تو مسجد کا خادم ارشاد ایک بار پھر مسکرا نے لگا۔
”ہاں بیٹا اللہ کے پاس بہت زیادہ پیسے ہیں ۔”اتنا کہہ کر ارشاد ایک جانب چل دیا۔ مامون اب کچھ سوچ میں پڑگیا ،پھر کچھ دیر بعد اس نے اپنے گھر کی جانب دوڑ لگا دی ۔گھر پہنچ کر اس نے اپنے اسکول بیگ سے کاپی پنسل نکالی اور سب سے چھپ کر کچھ لکھنا شروع کردیا۔تحریر مکمل کرنے کے بعد اس نے کا غذ کا پرزہ تہ کر کے اپنی جیب میں ڈالا اور مسجد کی جانب چل پڑا۔
اس مرتبہ جب مسجدکی انتظامیہ نے چندے والا ڈبا کھولا تو اس میں بجلی کے بل کے علاوہ ایک عدد چھو ٹا سا تہ شدہ تہ شدہ کاغذ بھی موجود تھا۔مسجد کمیٹی کے چیئر مین حاجی اللہ بخش نے بجلی کا بل اپنی جیب میں ڈالا اور کاغذ کی تہ کھو ل کر پڑھنے لگے ۔یہ ٹوٹی پھو ٹی لکھائی والی کوئی بچگانہ سی عبارت تھی۔
”پیارے اللہ میاں کے نام…!”
السلام علیکم، پیارے اللہ میاں جی! آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ میں کتنا پریشان ہوں۔ اسرار انکل بہت گندے ہیں وہ مجھے اور میری مما کو ڈانٹتے ہیں۔ ان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ہمارے پاس کھانے پینے کا سامان لانے کو بھی پیسے نہیں لیکن وہ ہمیں گھر سے نکالنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اِدھر مائرہ آئس کریم، دودھ اور بسکٹ مانگتی رہتی ہے۔ اسے مما ٹال دیتی ہیں، لیکن خود وہ روتی رہتی ہیں۔
میرے پیارے اللہ جی! آپ تو بہت بڑے ہیں نا۔ آپ کے پاس تو بہت سارے پیسے بھی ہیں۔ مما کہتی ہیں کہ آپ کو ہماری طرح کسی چیز کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔پھر آپ اتنے زیادہ پیسو ں کا کیا کریں گے؟ پیارے اللہ میاں! اگر اس دفعہ آپ اپنے گھر یعنی مسجد کا بل نہ دیں، تومیں بڑاہو کر یہ رقم آپ کو واپس کردوں گا۔
ابو جان تو ہمارے لیے چیزیں لینے گئے تھے۔ مما نے ہمیں یہی بتایا تھا، مگر میں اب بڑا ہوگیا ہوں ۔مجھے پتا ہے کہ میرے ابو اب کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ اللہ جی! اگر آپ ہمارے دوست ہیں، تو مہربانی کرکے ہمیں یہ چیزیں دلا دیں۔ گھی، چینی، دودھ ، مکان کے کرا یہ کے لیے کچھ رقم، مما کے کپڑے پرانے ہیں۔ ان کے لیے کپڑے، سبزی وغیرہ… اور ہاں! چھوٹی گڑیا رانی بہت روتی ہے، اس کے لیے ایک چوسنی، مائرہ کے لیے آئس کریم، میرے لیے اسکول کی فیس اور دوعدد کاپیاں!
نوٹ: پیارے اللہ میاں جی! پلیزانکار مت کرنا اور نہ ہی دیر کرنا ورنہ میںناراض ہو جائوں گا۔ مجھ سے مما کے آنسو نہیں دیکھے جاتے۔ میںآپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا۔
آپ کا دوست
مامون اعظم
آخری سطورپڑھتے ہوئے مسجد کمیٹی کے چیئر مین حاجی اللہ بخش کی آنکھوں میں آنسوئوں کا سیلاب رواں تھا ۔وہ اس ٹوٹی پھو ٹی تحریر کو باربار پڑھ کر چومتے اور پھر اپنے سینے سے لگا تے ۔ساتھ ساتھ وہ اپنے آپ کو بری طرح کوس رہے تھے ۔اسی لمحے وہ جوش سے اٹھے اور مسجد سے باہر چل دیے۔ان کا رخ نامعلوم منزل کی طرف تھا۔ اُنہیں اس تیزی سے مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھ کر کچھ لوگ حیرا ن رہ گئے۔
٭…٭…٭
دروازہ آج بھی اسی شدت سے کھٹکھٹایا گیا تھا ۔ صحن میں بچھی چارپائی پرگڑیا رانی سے کھیلتا ہوا مامون بری طرح سہم گیا۔ ایک بار پھر وہ ڈانٹ اور جھڑکیاں سننے کے لیے خود کو تیار کر چکا تھا ۔اس کا دل نہیں کر رہا تھا کہ وہ اٹھ کر دروازے تک جائے ،اسی لمحے فرخندہ آگے بڑھی تو مامون بجلی کی سی تیزی سے باہر کو لپکا اور ماں کے بڑھتے قدم رک گئے۔ ”ماں جی! آپ نہیں جائیں گی باہر۔” اُس نے سیانوں کی طرح اپنی ماں کو باہر جانے سے روکا۔ پھر دھیرے دھیرے مردہ دلی سے اس نے اپنے قدم دہلیز سے پار کیے۔ باہر کا منظر اس کے لیے حیرت کا ساماں لیے ہوئے تھا۔ایک ضعیف سفید ریش فرشتہ نما انسان اپنے ہاتھوں میں دو تین وزنی شاپرز لیے کھڑا تھا۔ مامون کو حیر ت زدہ دیکھ کر باباجی آگے بڑھے۔
”کیا نام ہے تیرا پتر؟” انہوں نے مامون کے سر پرشفقت کا ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا:
”جی… مامون!” ڈرتے ہوئے مامون نے جواب دیا۔
”اوہ بیٹا! مجھے تمہاری ہی تلاش تھی۔” یہ کہہ کر باباجی نے اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھمایا۔
”یہ بیٹا تمھارے مکان کا کرایہ” اس کے بعد باباجی نے باقی سامان بھرے ہوئے دو تھیلے دروازہ کھول کر اندر رکھ دیے۔ مامون ابھی تک حیرت زدہ تھا۔ یہ منظر دیکھ کر اس کی ماں بھی دروازے تک چلی آئی۔ محو حیرت وہ باہر کا منظر دیکھ رہی تھی۔ فرشتہ صفت بزرگ نے اب مامون کے سرپر شفقت سے ہاتھ رکھ دیاپھر اس ننھے وجود کے سامنے اپنے نحیف ہاتھ جوڑتے ہوئے آنسو بہانے لگے۔
”بیٹا! ہمیں معاف کردینا۔ ہم لاعلم تھے۔”
”باباجی !یہ…یہ سب کیا اور کس کے لیے ہے؟” مامون نے ہمت کرکے باباجی کو مخاطب کیا۔
”بیٹا! تمہارے مکان کے کرائے کے علاوہ باقی ضرورت کی چیزیںاور راشن وغیرہ ہے۔ تمہاری کاپیاںہیں۔ مٹھائیاں، کپڑے، چوسنی اور چاکلیٹ بھی ہے۔” بابا جی نے جواب دیا۔
”لیکن یہ کس نے بھیجی ہیں؟ مامون کی آنکھوں میںحیرانی اور چمک نمایاں تھی۔
”اللہ میاں نے ۔”بابا جی نے جواب دیا اورآنسو پونچھتے ہوئے ایک طرف چل دیے۔ مامون کے چہرے پر خوشی دوڑ گئی۔ وہ تیزی سے اندر کی طرف بھاگا۔ اس کی ماںحیرت کا بت بنی صحن میں کھڑی تھی۔ مامون نے اللہ کے نام لکھے خط کے متعلق ساری بات مما کو بتادی۔ ماں پھٹی پھٹی آنکھوں سے کبھی ان ساری چیزوں کواور کبھی مامون کو دیکھے جارہی تھی۔ آخر اس کے ضبط کا بندھن ٹوٹا تو بے چاری دکھوں کی ماری سجدئہ شکر میں گری اور زارو قطار رونے لگی۔
”ماںجی! آپ ٹھیک کہتی تھیں کہ اللہ کے علاوہ یہاں کوئی کسی کی نہیں سنتا۔ واقعی ماں اللہ میاں جی کتنے اچھے ہیںنا۔ ڈھیر سارے کپڑے، چاکلیٹس اور دودھ ملنے پر مائرہ اور مامون آسمان کی جانب منہ کرکے پکارنے لگے: ”شکریہ اللہ میاں جی بہت شکریہ۔”
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});