الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۸

زلیخا معنی خیزی سے بولی: ’’اس خوش فہمی میں نہ رہنا۔ ویسے بھی تم اس کے بارے میں جانتے ہی کیا ہو؟ بس شکل دیکھی اور شادی کرنے پر تل گئے؟‘‘
حسن نے کہا ’’ایسی حور مثال مشتری تمثال بڑے خوش قسمتوں کو ہاتھ آتی ہیں۔ شہزادیاں ان کو دیکھ کے شرماتی ہیں۔ میں اس دوشیزۂ جادو نگاہ کو عقد میں لانا چاہتا ہوں اور انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں پاتا ہوں۔‘‘
زلیخا ہنس پڑی۔ بولی: ’’عقل سے کام لو تو بہت سی وجہیں نظر آجائیں گی اس سے شادی سے انکار کرنے کی۔ ویسے بھی اس کا باپ بہت جھگڑالو ہے۔ باڈی بلڈر ہے، اپنا جِم چلاتا ہے اور بہت سے مشٹنڈے بھی پال رکھے ہیں۔ آج کُتے نے تمہارا یہ حال کردیا ہے، یہ نہ ہو کل کو باپ سے پِٹ کر آجاؤ۔‘‘
حسن نے سینہ پُھلا کر کہا: ’’وہ عاشق ہی کیا جو راہِ محبت میں تکلیف نہ اٹھائے۔ عشق کرنا مردوں کا کام ہے، جوانی اسی کا نام ہے۔‘‘
زلیخا کندھے اچکا کر بولی ’’تمہاری مرضی۔ میرا کام تھا سمجھانا، آگے تمہاری قسمت۔‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*
گرچہ زلیخا نے سمجھایا تھا، نیک و بد دکھایا تھا مگر حسن کے سر پر عشق سوار تھا، جنون سے دوچار تھا۔ درِ عشق باز تھا، دل سے منزلوں دور خیالِ نشیب و فراز تھا۔ دن رات خیالی پلاؤ پکاتا تھا، سودائی ہوا جاتا تھا۔ بہت سے دن چشمِ زدن میں گزرے، موسم بدلا اور امتحان سر پر آپہنچے۔ حسن کو تب معلوم ہوا جب ایک رات زلیخا اس کے کمرے میں آئی اور بولی: ’’ یہ لو تمہارے کپڑے استری کردیئے ہیں میں نے ،اور یہ نئے پین مارکرز بھی لائی ہوں تمہارے لیے۔‘‘
حسن حیران ہوا اور بولا: ’’وہ کیوں؟‘‘
زلیخا حیران ہوکر بولی :’’پیپر کے لیے اور کیوں؟ امتحان دینے جاؤ گے تو نئے پین سے لکھنا اور یہ تمہارا کالج آئی ڈی کارڈ بھی رکھ دیا ہے۔ بھول نہ جانا صبح۔‘‘
امتحان کا نام سن کر حسن گھبرایا۔ پریشانی سے پوچھا :’’زلیخا، میں امتحان میں لکھوں گا کیا؟‘‘
زلیخا کے چہرے پر ہمدردی کی لہرابھری اور اس نے پچکار کر کہا: ’’ایگزیمینیشن اینگزائٹی ہورہی ہے تمہیں ۔فکر مت کرو تمہاری اچھی تیاری ہے اتنے دنوں سے جو کچھ پڑھ رہے ہو، وہی لکھ دینا۔‘‘
اور زلیخا کی ہدایت کے بموجب حسن جب امتحان دینے بیٹھا اور انگریزی زبان میں لکھا ہوا پرچا اس کے سامنے آیا تو اس نے جواب کے کاغذات پر انگریزی کے تمام حروفِ تہجی لکھ ڈالے اور سی اے ٹی کیٹ معنے بلی اور ڈی او جی ڈوگ معنے کتا بھی لکھ دیا۔ پھر بھی جگہ بچ گئی تو اُردوئے معلی کے اشعار اور فارسی اساتذہ کا کلام بھی لکھ آیا۔
اسی طرح تمام پرچوں میں حسن نے فصاحت و بلاغت کے دریا بہادیے۔ کسی پرچے میں ان تمام ریشمی کپڑوں کے نام لکھ دیئے جو زمانِ پاستان میں اس کے باپ کی دکان پر بکا کرتے تھے۔ کسی پرچے میں سلاطینِ دہلی کے نام و القاب درج کیے اور کسی میں محبوبہ کی تصویریں بنا دیں اور ان تصویروں کو انواع و اقسام کے کپڑے بمثال غرارہ، پشواز، کرتا پاجامہ، نئے نئے انداز کا پہنا دیا۔
آخری امتحان دے کر حسن بدرالدین بے حد خوش و مسرور گھر آیا اور پھاٹک کھول کر صحن میں داخل ہوا۔ کیا دیکھتا ہے کہ برآمدے میں نانی کے تخت پر ان کے ساتھ ایک جوان عورت بیٹھی ہے۔ حسن کو آتے دیکھا تو تڑپ کر اٹھی اور روتی ہوئی اس کے گلے لگ گئی۔
اتنے میں لیلائے شب رو پوش ہوئی، شہرزاد خاموش ہوئی۔

(باقی آئندہ)

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۶

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!