الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۸

کرن نے اوورآل لیا اور شکریہ کہہ کر چلی۔ پھاٹک پر پہنچ کر ایک ادا سے مڑ کر حسن کی طرف ترچھی نظر سے دیکھا، مسکراہٹ کا تیر چلایا اور باہر نکل گئی۔
زلیخا نے حیران ہو کر کہا: ’’اس کو کیا ہوا؟ اتنی ادائیں کیوں دکھا رہی تھی؟‘‘
وہ کنیزِ بدتمیز کہ جس کے دل میں حسن کی ڈانٹ کا رنج تھا، زلیخا سے بولی: ’’حسن بھائی ان سے فلرٹ کر رہے تھے، انہی کو دکھا رہی تھیں ادائیں۔‘‘
زلیخا حیران ہوئی مگر اپنی حیرت پر قابو پا کر بولی: ’’تم جاؤ کنیز، اپنا کام کرو۔ ماما کے کمرے کی صفائی شروع کرو میں آتی ہوں۔‘‘
کنیز نے منہ بنا کر جھاڑو اٹھایا اور اندر چلی گئی۔ زلیخا نے حسن کی طرف رخ موڑا اور پوچھا: ’’یہ کنیز کیا کہہ رہی تھی؟‘‘
حسن بدرالدین صاحب اس وقت نشہء عشق میں مخمور تھے، دیدارِ یار سے مسرور تھے۔ زلیخا کا سوال سنی ان سنی کر کے پوچھا۔ ’’یہ رشکِ حسن و جمال، زنکۂ لاجواب کون تھی؟‘‘
زلیخا چڑ کر بولی: ’’سیدھی طرح اردو میں بات کیا کرو۔ ذرا ٹرانسلیٹ کر کے بتاؤ کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
حسن نے اپنی ترنگ میں کچھ برا نہ منایا اور ہنس کر پوچھا: ’’یہ لڑکی کون تھی؟‘‘
زلیخا نے حیران ہو کر کہا: ’’کرن تھی۔ جانتے تو ہو تم۔ عرصے سے محلے دار ہے ہماری۔‘‘
حسن نے سرور میں آکر کہا: ’’میں نے تو آج پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔ جال زلفِ سیاہ کا سارا ہے۔ تیرِ کا فرنگاہ نے مارا ہے۔‘‘
زلیخا نے سر پکڑ لیا: ’’اسی کی کسر رہ گئی تھی۔ کوئی لڑکی رہ گئی ہے جس پر تمہارا دل نہ آیا ہو؟ ہر راہ جاتی لڑکی پر پھسل جاتے ہو۔‘‘
حسن نے اپنی ترنگ میں کہا: ’’اور کوئی لڑکی اس کا مقابلہ کہاں کر سکتی ہے۔ یہ تو لاکھوں لڑکیوں میں انتخاب ہے، حسن و جمال میں اپنا آپ ہی جواب ہے۔‘‘
زلیخا ہنس پڑی: ’’کبھی میک اپ کے بغیر دیکھ لینا اس کو۔ سارے حسن و جمال کا پول کھل جائے گا۔‘‘
حسن اس وقت کچھ نہ سن رہا تھا، اپنی رو میں بولے گیا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ میری اس کی خوب نبھے گی، گہری چھنے گی۔ وہ بھی کمسن، میں بھی جوان۔ وہ نازُک بدن، میں بھی دھان پان۔‘‘
زلیخا ہنس کر بولی: ’’تم تو دھان پان ہو مگر اس کا باپ باڈی بلڈر ہے۔ ذرا دھیان رکھنا۔‘‘
حسن سنی ان سنی کر کے کہتا رہا: ’’وہ محوِ جادو آفرینی، میں سرور چمن زار نازنینی۔ وہ عربدہ جوُ ، میں قوس ابروُ ، اس کا بانکپن، میرا پھبن۔ یہ دوشیزۂ جادونگاہ عقد میں آئے تو بختِ خفتہ بیدار ہو، فضلِ خالق کردگار ہو۔‘‘
زلیخا اُکتا کر بولی: ’’اب ذرا اُردو میں بتا دو کہ چاہتے کیا ہو۔‘‘
حسن نے مسرور ہو کر کہا: ’’کرن کو چاہتا ہوں۔ اس سے آئیلو یُولُو ہو گیا ہے۔ اسے اپنی زوجہء منکوحہ بناؤں گا۔ لطفِ زندگانی اٹھاؤں گا۔‘‘
چند لمحے زلیخا حیرت سے منہ کھولے حسن کو دیکھتی رہی۔ پھر بولی: ’’ان دونوں میں سے ایک ہی کام ہو سکتا ہے ۔یا اسے منکوحہ بنا لو یا لطفِ زندگانی اٹھا لو۔ اس سے شادی کر لوگے تو جینا حرام ہو جائے گا تمہارا۔‘‘
حسن نے آہِ سرد بھری اور بولا: ’’جینا تو حرام ہو چکا ہے۔ جب سے اسے دیکھا ہے، خود اپنی خبر نہیں رہی۔ اب نہ رات کو نیند آئے گی نہ دن کو چین۔ کوئی ترکیب کرو کہ میری اس کی باہم ملاقات ہو، اظہارِ محبت کی بات ہو۔‘‘
زلیخا نے سرہلایا اور کندھے اچکا کر بولی: ’’اب اگر تم خودکشی پر تلے ہو تو میں کیا کر سکتی ہوں۔ ضرور کرو ملاقات اور اظہارِ محبت۔ لیکن ذرا خیال رکھنا۔ یہ لڑکی بڑی تیز ہے اور زمانہ می ٹو کا ہے۔ کسی مصیبت میں نہ پھنس جانا۔‘‘

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۶

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!