الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۸

ابھی اس مخمصے میں گرفتار تھا، کش مکش سے ہمکنار تھا کہ اچانک غرانے کی آواز آئی اور ایک کالے رنگ کا کتا، دیو ہیکل قوی چوں، حسن بدر الدین پر آپڑا۔ حسن بدحواس اور پریشان حال ہوا، کُتا جی کا جنجال ہوا۔ حسن چلایا اور کہا ’’یا خدا، یہ کس مصیبت کا سامنا ہے، یہ کیا عبرت انگیز ماجرا ہے؟ اے سگِ پلیدو روُسیاہ میرا خون پی کر تجھے کیا ملے گا؟ ایسے کتے پر خدا کی مار، شیطان کی پھٹکار۔‘‘
حسن کی چیخ و پکار سن کر مُنّا اور اس کے دوست افتاں و خیزاں اندر آئے مصیبت زدہ، ستم رسیدہ حسن کو اس دیو زاد کتے کے پنجوں سے چھڑایا۔ حسن اس صدمہ جگر دوز سے مصروفِ گر یہ وبکا تھا اور رو رو کر آسمان سر پر اٹھاتا تھا اور اس قدر غل مچاتا تھا کہ الامان و الحفیظ۔ منّے اور اس کے دوستوں نے حسن کی یہ حالت دیکھی تو اسے ڈنڈا ڈولی کرکے لے چلے اور یوں اس حالت میں عزیز و خستہ جگر، زارو مضطر، مشتاقِ نظارۂ جمالِ جاناں حسن بدرالدین کوچۂ معشوق سے روانہ ہوا کہ کپڑے پھٹ چکے تھے، ٹانگوں بازوؤں کی خراشوں سے خون جاری تھا اور محلے بھر کے بچے اسے کچھ اٹھاتے، کچھ گھسیٹتے لیے جاتے تھے۔ اس عالم میں اوپر نظر گئی تو دیکھا کھڑکی کھلی ہوئی ہے اور وہ اغیدِ طاؤس زیب، زاہد فریب مصروفِ تبسمِ ناز ہے، عجب دلربائی کا انداز ہے۔ یہ دیکھ کر حسن کو اور بھی زیادہ جنوں ہوا، والہ و مفتوں ہوا۔
اسی حالتِ گریہ وزاری میں گھر پہنچا تو دیکھا کہ سامنے زلیخا برآمدے میں بیٹھی کتاب پڑھتی ہے۔ حسن کو اس عالم میں آتے دیکھا تو بھاگ کر آئی اور حسن کو بچوں کی مدد سے نانی کے تخت پر لٹایا۔ حیران تھی، پریشان تھی۔ پوچھا ’’یہ کیا کرکے آئے ہو؟ بائیک کا ایکسیڈنٹ ہوگیا کیا؟‘‘
منے نے کہا ’’نہیں آپی، حسن بھائی کو کرن آپی کے کتے نے کاٹ لیا۔‘‘
زلیخا آنکھیں پھاڑ کر بولی ’’تم وہاں کیا کرنے گئے تھے؟ منع کیا تھا نا کہ اس لڑکی سے دور رہنا۔‘‘
حسن نے بصدِ دقتِ تمام کہا: ’’افشائے رازِ عشق معیوب ہے۔ میرا خون کتے کی گردن پر ہے، کرن کا کوئی قصور نہیں۔ خدا اس سے روزِ حشر کو حساب نہ لے، یہ میری دعائے خیر ہے۔ میں رخصت ہوتا ہوں، اب میں ہوں اور عالمِ بالاکی سیر ہے۔‘‘
زلیخا نے ڈپٹ کر کہا :’’شٹ اپ۔ میلو ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ کتے نے کاٹا نہیں ہے تمہیں۔ صرف اس کے پنجوں کی خراشیں ہیں۔ دوائی لگا کر بینڈایڈ لگا دوں گی ٹھیک ہوجاؤ گے۔‘‘
یہ خوشخبری سن کر حسن کو تسلی ہوئی اور آنسو پونچھ کر اٹھ بیٹھا۔ زلیخا گرم پانی، روئی، دوا اور پٹی لے کر آئی اور حسن کے بازو کی خراشوں کو صاف کرکے دوا لگانے لگی۔ حسن نے ممنون ہوکر کہا :’’اے دستِ حنائی وسیمیں کلائی، درآبدار زیبِ گوش، نسترن بناگوش۔۔۔‘‘
’’یااللہ۔‘‘ زلیخا نے سر پکڑ کر کہا ۔’’پلیز ذرا اردو میں بتاؤ کہنا کیا چاہتے ہو۔‘‘
جب زلیخا یوں جو یاے راز ہوئی تو حسن نے سب معاملہ راست راست بیان کیا، بلاکم و کاست بیان کیا اور دست بستہ عرض پیرا ہوا کہ از برائے خدا تم بھی مجھے مدد دو اور اس زنِ خوش جمال کی انگلیوں کے اشارے کے معنی بیان کرو۔
زلیخا کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آئی مگر اس نے چھپالی اور حسن کی مرہم پٹی کرتے ہوئے بولی: ’’اس اشارے کا مطلب تھا کہ ہمارے گھر میں کتا ہے اور کتا کاٹتا ہے لہٰذا ذرا دھیان سے آنا۔‘‘
یہ سن کر حسن اس کی ذہانت پر عش عش کر اٹھا اور بولا ’’گو کہ اس کے کتے نے مجھے تقریباً مار ڈالا ہے مگر بات یہ ہے کہ میرا محبوب بہت بھولا بھالا ہے۔‘‘

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۶

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!