یہ کہہ کر کاغذ قلم منگوایا اور حسن کو انگریزی حروفِ ابجد سمجھائے اور لکھ کر دیے کہ یاد کرے اور روز مشق کرے۔ یہ کام ہوگیا تو حسن کا فون منگوایا اور اسے سکھایا کہ اس کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ کیسے فون ملانا ہے، کیسے بات کرنی ہے، کون سا حصہ کان سے لگانا ہے، کون سا منہ سے۔ سحر کا یہ کرشمہ دیکھ کر حسن بدر الدین کو اس قدر حیرت ہوئی کہ حیطۂ تحریر سے خارج ہے۔
اب حسن کے دن یوں گزرنے لگے کہ دن بھر انگریزی کے حروفِ ابجد اے بی سی ڈی لکھتا تھا اور انگریزی کی کتابیں دیکھ کر لفظ یاد کرتا تھا۔ نانی اور زلیخا اسے یوں مصروف دیکھ کر خوش ہوتی تھیں اور سمجھتی تھیں کہ امتحان کی تیاری کرتا ہے اور بہت پڑھتا ہے۔ حسن فون کرنا سیکھ چکا تھا اور اپنے فون کے عدد جسے سب لوگ نمبر کہتے تھے یاد کر چکا تھا۔ ہر روز بندو کو فون کرتا تھا اور انگریزی کا سبق سناتا تھا اور عشق کا سبق پڑھتا تھا۔ دن یوں گزرتا تھا، رات محبوبہ کے جمالِ مبین، رُخِ رنگین کی یاد میں گزرتی تھی۔ عشق کا مارا کبھی گریہ و زاری کرتا تھا، کبھی اختر شماری کرتا تھا۔ جب حروفِ ابجد کا سبق یاد ہوا تو نئے سبق کا آغاز ہوا۔ بندو آیا اور حسن کو اپنے لوہے کے گھوڑے پر بٹھایا، بائیک نامی وہ گھوڑا چلانا سکھایا۔ گو کہ اسے چلانے کی کوشش میں حسن کئی مرتبہ گرا اور پے در پے چوٹیں کھائیں مگر عشق آدمی کو دیوانہ کردیتا ہے اور دیوانگی کی حالت میں آدمی سوچنے سمجھنے کا نام نہیں لیتاہے۔ حسن نے بائیک چلانے کا پہلا سبق بندو سے لیا اور پھر روز ماموں کا سکوٹر چلانے لگا۔ گرتا تھا پڑتا تھا مگر ہمت نہ ہارتا تھا۔ بندو کا سبق تھا کہ محبوبہ کے دل میں گھر کرنے کے لیے انگریزی سیکھو اور بائیک چلانا سیکھو ورنہ وہ بدھو سمجھے گی، گھاس نہ ڈالے گی اور چونکہ بندو عشق کا شاہسوار تھا، حسن کے نزدیک اس کی رائے اور خیال صحیح اور قرینِ ثمر بار تھا۔
جب بائیک چلانا بھی آگئی تو بندو نے مشورہ دیا کہ اب بائیک پر بیٹھ کر جاؤ اور محبوبہ کے گھر کے سامنے گلی میں کرکٹ کھیلو۔ آج کل لڑکیاں یا تو فلمی ہیروز کو پسند کرتی ہیں یا کرکٹرز کو۔ حسن کہ عشق کے سامنے کسی مشکل کو درخورِاعتنا نہ جانتا تھا،کرکٹ سیکھنے پر تل گیا۔ منّے کے ساتھ کھیل سیکھنے جانے لگا۔ یہ کھیل اسے جی جان سے پسند آیا اور حسن جان گیا کہ محبوب کو لبھانے کے لیے کرکٹ اکسیر ہے۔ بھلا اس سے بہتر اور کون تدبیر ہے؟
آخر وہ دن آیا کہ حسن نے منّے کو بائیک پر بٹھایا اور خود کو کرن کے گھر کے سامنے پہنچایا۔ گلی میں ڈیرا لگایا اور کرکٹ کے کھیل نے وہ رنگ جمایا کہ حسن بدر الدین بے اختیاریہ اشعار زبان پر لایا۔
اے ترا لطف زندگی افزا
اے ترا عہد عاشقی فرجام
اب سنیے کہ یہ کرکٹ کا کھیل ایسا تھا کہ ایک شخص دوڑتا آتا تھا اور دیوانہ وار گیند پھینکتا تھا اور دو اشخاص بلے اٹھائے تاک لگاتے تھے۔ گیند کی جان کو آتے تھے۔ ان دونوں میں سے ایک دم کے دم میں گیند کو بلے سے چوٹ لگاتا تھا اور کوسوں دور دے مارتا تھا اور پھر دونوں جوش میں آکر دوڑنے لگتے تھے۔ جب حسن بدر الدین کی باری بلے بازی میں آئی تو وہ بہت ہی خوش ہوا اور اس خوشی کے سرور اور جوش کے غرور سے اس زور سے گیند پر بلا مارا کہ گیند اڑتی ہوئی محبوبۂ پری زاد کے مکان میں جا پہنچی اور گم ہوگئی۔
یہ ماجرا دیکھا تو حسن نے جی میں ٹھان لی کہ گیند لا کر رہوں گا، اس موقع سے فائدہ اٹھائے بغیر نہ ٹلوں گا۔ فوراً فون نکال کر بندو کو فون کیا اور اس سے مشورہ مانگا۔ بندو نے کہا فوراً اندر جاؤ اور دروازہ کھٹکھٹاؤ۔ وہ پری روُ دروازہ کھولے تو ناز سے کہو ، ہائے ہاؤ آر یو؟ اور یہ بھی کہو کہ گیند لینے آیا ہوں اور جب وہ گیند دینے لگے تو چپکے سے ایک کاغذ کہ جس پر اپنا فون نمبر لکھ کر ہاتھ میں دبایا ہو، اسے تھما دو۔ حسن نے یہ تجویز بے حد پسند کی اور اسی وقت جیب سے کاغذ نکال کر اس پر اپنا فون نمبر لکھ لیا۔
حسن پھاٹک کھول کر روش پہ پہنچا تو اچانک اوپر نگاہ اٹھی۔ معاً ایک کھڑکی کھلی اور اس معشوقہء طرحدار، یوسف رخسار کو دیکھا تو حسن خود فراموش ہوگیا، اس شوخ و شنگ کا رخِ انور دیکھ کر تقریباً بے ہوش ہوگیا۔ پھر دل کو سنبھالا اور اس کے جمالِ مبین، رخِ رنگین پر نظر ڈالی اور جیسا کہ بندو نے سکھایا تھا، بڑے انداز سے کہا، ‘‘ہائے ہاؤ آر یو؟ ‘‘جواب میں اس عفیفہ نے ہاتھ کی چونچ سی بنائی۔ دو تین مرتبہ کھول بند کی اور اتنا سا جھمکڑا دکھا کر کھڑکی بند کرکے غائب ہوگئی۔ حسن حیران ہوا کہ یا الٰہی، اس کارروائی سے کیا مراد ہے؟آفت کی پرکالہ یہ پری زا د ہے۔