کالج میں پڑھتی ہے۔ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تو؟‘‘
حسن نے شرما کر گردن جھکائی، نانی کی آنکھ بھر آئی۔ آہستہ سے بولیں: ’’ایک دفعہ پھر سوچ لے۔ کچھ اچھی باتیں نہیں سنیں میں نے اس گھرانے کے بارے میں۔‘‘
حسن نے بصدِ عاجزی و ادب عرض کیا: ’’انسان خطا کا پتلا ہے، مثل مشہور ہے۔ دنیا میں کون شخص بے قصور ہے؟‘‘
نانی جان نے ٹھنڈا سانس لیا اور بولیں: ’’اچھا بیٹا جیسے تیری مرضی۔ تو امتحان پاس کر لے اور تیری نوکری لگ جائے پھر تیرا رشتہ کر دوں گی جہاں تو کہے گا۔‘‘
یہ سن کر حسن خوش و شاد ہو گیا، از بس مسرور و محظوظ ہو گیا۔
اس شام پھاٹک کی گھنٹی بجی اور معلوم ہوا کہ حسن بدرالدین سے ملنے اس کے کالج کا دوست نعیم آیا ہے۔ حسن جلدی سے باہر نکلا اور نعیم کے گلے سے چمٹ گیا۔
نعیم نے دھکا دے کر اسے دور کیا اور بولا: ’’کیا ہو گیا ہے تجھے؟ لسوڑے کی لیس کیوں بن رہا ہے؟ پڑھ پڑھ کے دماغ تو نہیں چل گیا؟‘‘
حسن بدرالدین کہ نشہء عشق میں مخمور اور کسی قدر مسرور تھا، بولا: ’’ایک حسینہء ماہروُ پرہزار جان سے عاشقِ زار ہوں، دامِِ محبت میں گرفتار ہوں۔‘‘
نعیم حیران ہو کربولا: ’’کس کی بات کر رہا ہے؟‘‘
حسن نے سارا حال بیان کیا، بلا کم و کاست بیان کیا۔
نعیم نے کہا : ’’ابے کیا کہہ رہا ہے؟ اور وہ کالج والی۔۔۔ کیا نام تھا اس کا؟ ہاں نازیہ۔ اس کا کیا کرے گا؟ اس سے تو شادی کا وعدہ کر چکا ہے تو۔‘‘
حسن نے کہا: ’’میں کسی نازیہ کو نہیں جانتا۔‘‘
نعیم نے سر ہلایا اور بولا: ’’ہئی شاباش، صحیح جا رہا ہے بیٹا، خیر میں تیری یہ بکواس سننے نہیں آیا، مجھے بتا پروگرامنگ کے نوٹس ہیں تیرے پاس؟ ایگزامز میں تھوڑے دن رہ گئے ہیں اور میرے پاس نوٹس بھی پورے نہیں۔ فیل ہوگیا تو والد صاحب گھر سے نکال دیں گے۔‘‘
حسن نے سنی ان سنی کرکے کہا: ’’یہ بتاؤ آج کل عاشق معشوق باہم ملاقات کیسے کرتے ہیں؟ کسی راز دان کے ذریعے بلواتے ہیں یا خط بھجواتے ہیں؟‘‘
نعیم حیران ہوکر بولا: ’’خط؟ کیا باوا آدم کے زمانے کی باتیں کررہا ہے۔ اس کا نمبر پتا کر اور اسے فون کر یا میسج بھیج اور وہ پروگرامنگ کے نوٹس ۔۔۔‘
حسن نے بات کاٹ کر کہا: ’’از برائے مہربانی مجھ پر احسان کرو اور مجھے فون کرنا سکھا دو۔‘‘
نعیم نے مایوس ہوکر کہا: ’’تیرا تو بالکل دماغ اُلٹ گیا ہے۔ یار میں اس معاملے میں تیری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ تو بندو سے مل وہ ہے ایسے معاملوں کا ایکسپرٹ۔‘‘
حسن نے سوچ کر کہا:’’ کون بندو؟ وہ حضرت جنہوں نے اپنی محبوبہ کو طوطا خرید کر دیا تھا؟‘‘
نعیم نے کہا: ’’ہاں ہاں وہی۔‘‘
حسن خوش ہوا اور بندو سے ملاقات کی درخواست کی۔ نعیم نے وہیں کھڑے کھڑے فون نکالا۔ اس پر کچھ انگلیاں چلائیں اور کان سے لگا کر بولا: ’’ہاں یار بندو، بڑی گڑ بڑ ہوگئی ہے۔ ذرا حسن کے گھر آجا۔‘‘
ایک گھنٹے بعد حسن، نعیم اور بندو حسن کے کمرے میں بیٹھے تھے۔ بندو سارا قصہ سن چکا تھا اور سوچ میں پڑا تھا۔ آخر اس نے کہا: ’’یہ تو مجھ سے بھی سیریس کیس ہے۔ میری تو عشق میں صرف عقل ماؤف ہوتی ہے، اس کا تو دماغ بھی ماؤف ہوگیا ہے۔ فون کرنا بھول گیا۔ انگریزی بھول گیا، امتحانوں کو بھی بھول گیا۔ چل بیٹا تجھے سب کچھ سکھاتا ہوں، تو عشق کے ڈیڈی کے پاس پہنچ گیا ہے۔ اب دیکھ ڈیڈی تجھے کیسا ٹرین کرتے ہیں۔‘‘