حسن گھبرایا کہ شاید کسی رقیب کا ذکر آیا۔ پوچھا: ’’یہ می ٹوکون ہے؟‘‘
زلیخا نے ماتھے پر ہاتھ مارا اور بولی: ’’کبھی اخبار پڑھا ہو تو پتا ہو کہ دنیا میں ہو کیا رہا ہے۔ پاگل نہ ہو تو۔‘‘ یہ کہہ کر مڑی اور اندر چلی گئی۔
حسن اپنے نئے عشق کے سرور میں وہیں تخت پر بیٹھا مسکراتا رہا۔ نانی جان آئیں تو اسے وہاں بیٹھے مسکراتا دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ وہ اس کے لیے چُوری بنا کر لائی تھیں کہ اپنے ہاتھ سے کھلائیں، نواسے کے لاڈ اٹھائیں۔
نانی جان حسن کے قریب بیٹھ گئیں اور محبت سے پوچھا: ’’کیا بات ہے؟ بڑا خوش نظر آرہا ہے؟‘‘
حسن بدرالدین شرمایا، مسکرایا اور نظریں نیچی کر کے کہا: ’’مشیتِ ایزدی میں کیا چارہ ہے، دل پر کسی کا کیا اجارہ ہے؟ شباب کے دن ہیں جوانی کی امنگ ہے۔ نشاطِ آرزو رنگ برنگ ہے۔‘‘
نانی کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ حسن کیا کہتا ہے لیکن ان کو حسن سے پیار اس قدر تھا کہ ان کے لیے یہ پیار ہی کافی تھا۔ اسے سمجھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ حسن کی بے سروپا باتیں سنیں تو لاڈ سے بولیں: ’’اصل میں تجھے بھوک لگی ہے۔ لے میں تیرے لیے چُوری بنا کر لائی ہوں۔ اپنے ہاتھ سے کھلاتی ہوں اپنے بچے کو۔‘‘
حسن نے نانی کے ہاتھ سے چُوری کھائی، دل میں مزید ترنگ آئی۔ شوخی سے بولا: ’’نانی جان کچھ میری شادی کا ارادہ بھی ہے یا میں کنوارہ ہی رہ جاؤں گا۔‘‘
نانی جان نے ایک آہِ سرد بہ دلِ پر درد بھری اور اداسی سے بولیں: ’’میری تو زندگی کی ایک ہی خواہش تھی بیٹا کہ تیر ااور زلیخا کا رشتہ ساتھ طے ہو جاتا۔ گھر کی بات گھر ہی میں نبڑ جاتی۔‘‘
حسن نے کہا: ’’ساتھ رشتہ ہونا کیا ضرور ہے؟ جس کا پہلے مل جائے اس کی کر دیجئے۔‘‘
نانی نے ایک اداس مسکراہٹ سے حسن کو دیکھا اور کہا: ’’ہر وقت مذاق کرتا رہتا ہے۔ ساتھ رشتے کا مطلب تیرا اور زلیخا کا آپس میں رشتہ ہو جاتا۔‘‘
حسن حیران ہوا اور بولا: ’’میں اور زلیخا؟ یعنی زلیخا اور میں؟‘‘
نانی نے مایوسی سے کہا: ’’ہاں پوچھا تو تھا تجھ سے۔ تو نے کہا میں تو بہن سمجھتا ہوں۔ اس سے پوچھا تو کہنے لگی حسن ہائپر ہے، غیر ذمہ دار ہے۔ بالکل بچہ ہے ابھی۔ ہاں بھئی کیا کہہ سکتے ہیں ہم۔ نیا زمانہ ہے۔ نئے ڈھنگ ہیں۔‘‘
حسن نے تائید میں سرہلایا اور کہا: ’’ہاں زمانہ تو واقعی نیا ہے مگر دل بھی وہی ہے اور جوانی کے تقاضے بھی وہی۔‘‘
نانی جان نے چوری کا نوالہ حسن کے منہ میں ڈالا اور کہا: ’’ہمارے زمانے میں تو گھروں میں ہی رشتے ہو جاتے تھے۔ اب دیکھ، زلیخا کو کیسی کیسی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ سنا تھا نا، کل وہ عورتیں کیا کہہ رہی تھیں۔ سادہ شکل کی ہے اور موٹی بھی۔‘‘
حسن کو کل کی بات یاد آئی، چہرے پر ناگواری در آئی۔ بولا: ’’کیا کمی ہے زلیخا میں؟ گلعذار ہے، شعلہ رخسار ہے اور موٹی نہیں ہے۔ کھاتے پیتے گھروں میں تو بھرے بدن کی لڑکیوں کو پسند کیا جاتا ہے۔‘‘
نانی جان خوش ہوئیں اور بولیں: ’’یہی تو میں کہتی ہوں کتنے پیارے نین نقش ہیں میری بچی کے۔ بس رنگ ذرا سانولا ہے اور موٹی تو اب ہوئی ہے۔ جب سے انٹری ٹیسٹ میں فیل ہوئی ہے، دکھ کے مارے زیادہ کھانے لگی ہے۔ اب دیکھو کل ان عورتوں کی باتوں سے اتنی ٹینشن ہوئی بے چاری کو کہ پورا دو پاؤنڈ کا چاکلیٹ کیک کھا گئی۔ اب وزن نہ بڑھے گا تو اور کیا ہو گا۔‘‘
نانی جان بے رکے باتیں کرتی تھیں مگر حسن کو اس زلیخا نامہ میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ تو عاشقِ یارِ گلعذار تھا، کرن کا امیدوار تھا، نانی سے پوچھا: ’’یہ آپ کے محلے میں جو لڑکی کرن رہتی ہے، کیسی ہے؟‘‘
نانی جان تاڑ گئیں کہ دال میں کچھ کالا ہے، آخر بچپن سے حسن کو پالا ہے۔ کہنے لگیں: ’’بڑی خوبصورت لڑکی ہے۔ زلیخا کے ساتھ کنیئرڈ