الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۶

حسن بدر الدین انہی سوچوں میں غلطاں و پیچاں تھا کہ اس کے کمرے کا دروازہ کھلااور زلیخا اندر داخل ہوئی۔ آتے ساتھ ہی دیوارٹٹول کر پرزہ دبایا اور روشی جلائی۔ حیران ہوکر بولی۔ ’’کیا بات ہے؟ اندھیرا کرکے کیوں لیٹے ہو؟ ابھی سے سوگئے کیا؟‘‘
حسن نے جواب دیا۔ ’’نہیں۔ عشاء پڑھ کر سوؤں گا۔‘‘
زلیخا یہ جواب سن کر حیران ہوئی۔ کچھ کہنے کو منہ کھولا پھر ارادہ بدل دیا۔ چپ چاپ کھڑی حسن کو کھوجتی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔
حسن نے کہا۔ ’’اے عزیزہ، صدماتِ جاں گزا کے سبب میری جان بسورتی ہے، پر تو کیوں مجھے گھورتی ہے؟‘‘
زلیخا بولی۔ ’’جان بوجھ کے کررہے ہو یا سچ مچ پتا نہیں چلا کہ تمہارا کیا گم گیا ہے؟ پہلے تو سیکنڈ سے پہلے میرے پاس بھاگے آتے تھے جب کچھ بھی گم جاتا تھا تو۔‘‘
حسن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آہ بھر کربولا۔ ’’کیا بتاؤں کیا گم گیا ہے۔ میرا وقت گم گیا ہے، زمانہ گم گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خود گم گیا ہوں۔‘‘
زلیخا اس کے بستر پر بیٹھ گئی اور بولی۔ ’’اچھا بس اب اتنی سی چیز کے پیچھے دیواداس بننے کی ضرورت نہیں۔ یہ لو اپنا فون۔ شکر کرو آج میں نے تمہارے کمرے کی صفائی خود کروائی اور میری نظر پڑ گئی۔ ورنہ کنیز کا کوئی اعتبار نہیں۔ بڑی شوقین مزاج ہے وہ، لے جاتی تو کبھی نہ ملتا۔‘‘
حسن نے زلیخا کے ہاتھ کی طرف دیکھا جس میں سیاہ رنگ کا ایک چھوٹا سا تختہ تھا۔ تختے پر کچھ لکیریں اور روشنی کے کچھ حروف۔ حسن ڈرا کہ یا اللہ اب کیا سحر دیکھنے میں آئے گا۔
زلیخا اکتا کربولی۔ ’’اب پکڑ بھی لو، چارج بھی کردیاہے میں نے۔ کہاں تو تم ایک سیکنڈ فون کے بغیرنہیں رہتے تھے۔ اور اب پورا ایک دن اس کے بغیر گزار دیا اور اب بھی اسے یوں دیکھ رہے ہو جیسے پہلی دفعہ دیکھا ہو۔ تمہیں ہوا کیا ہے آخر؟‘‘
حسن نے گڑگڑا کر کہا۔ ’’میں کل سے ایک ایک کو بتانے کی کوشش کررہا ہوں مگر کوئی میری بات نہیں سنتا۔ آہ میں غم و الم کا بیمار ہوں ، اجل سے دوچار ہوں۔‘‘
زلیخا اس کلامِ پر اثر کو سن کر حیران ہوئی۔ پھربولی۔ ’’اچھا مجھے بتاؤ کیا پرابلم ہے تمہیں؟ میں کل سے دیکھ رہی ہوں۔ عجیب حرکتیں کررہے ہو۔‘‘
زلیخا کو ہمدرد پایا تو حسن کا دل بھر آیا۔ اپنا حال راست راست کہہ سنایا، بلا کم و کاست کہہ سنایا۔ زلیخا خاموشی سے سنتی رہی۔ حسن نے اپنی سرگزشت ختم کی اور کہا۔ ’’یہ تھی میرے غم و الم کی کہانی۔ وادردا وا حسرتا۔ اب میرا عجب حال ہے۔ جینا محال ہے۔ بس اب مجھے لگتا ہے جنازہ یہاں سے نکلے گا، بے مرے اب بندہ نہ ٹلے گا۔‘‘
حسن اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا۔ مگر زلیخا بدستوراسے گھورتی رہی۔ آخر بولی۔ ’’بس؟ہوگیا؟‘‘
حسن نے آہِ سرد بھری، بہ دل پر درد بھری اور کہا۔ ’’باقی باتیں تو ٹھیک ہیں مگر جس قسم کی اردو آپ لوگ بولتے ہیں اسے سن کر میرا براحال ہے۔ بہت حزن و ملال ہے۔‘‘
زلیخا نے ڈپٹ کر کہا۔ ’’حزن و ملا ل کے کچھ لگتے، میں سب جانتی ہوں یہ حرکتیں کیوں کر رہے ہو تم۔ امتحان سر پر ہیں اور تم پڑھتے لکھتے خاک نہیں، سارا دن دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرتے ہو۔ فیل ہوگئے تو بہانہ کردوگے کہ میرا تو دماغ چل گیا تھا۔‘‘
حسن نے التجا سے کہا۔ ’’خدارا میرا یقین کرو۔ میں اس زمانے میں اجنبی ہوں۔ حالت زار ہے، دل بے قرار ہے۔‘‘
’’کون سی گھٹیا فلم دیکھ کر آئے ہو؟‘‘ زلیخا چڑکربولی۔ ’’ہونہہ، جادوگرنی نے باپ کو بکرا بنایا اور مجھے اگلے زمانے میں بھیج دیا۔ بتاؤ۔ انیس سو دو کے زمانے کی فلموں کی کہانی ہوتی ہوگی ایسی اور وہ فلمیں بھی فلاپ چلی جاتی ہوں گی۔‘‘
یہ کہہ کر اٹھی اور سنگِ سیاہ کی تختی حسن کی طرف پھینک کر بولی۔ ’’یہ لو پکڑو اپنا فون اور آدھے گھنٹے تک کھانے کے لئے آجانا۔ دادی اماں نے تمہارے لئے حلوہ پکایا ہے۔‘‘
یہ کہہ کردروازے کی طرف بڑھی۔ حسن نے پکار کر کہا۔ ’’اے عروسِ عبدہ جو، اگر تو مجھے۔۔۔‘‘
زلیخا تڑپ کر مڑی اور رنج سے بولی۔ ’’حسن بدر الدین، میں سائیکولوجی پڑھ رہی ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم مجھے پاگل بن کر دکھاؤ۔‘‘ یہ کہتے کہتے اچانک زلیخا کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں، گلو گیر آواز میں بولی۔ ’’کم از کم تم سے یہ امید نہیں تھی۔‘‘
یہ کہہ کر مڑی اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔
زلیخا کے جانے کے بعد حسن چپ چاپ لیٹارہا۔ آخر اٹھا، آنسو پونچھے اور ایک عزمِ باہمت سے کہا۔ ’’اے حسن بدرالدین تم نے اپنی سی پوری کوشش کرلی مگر صدائے برنخواست۔ یہاں نہ کوئی تربت ہے نہ مزار ہے، نہ کوئی مقبرہ عظمت بار ہے۔ مگر تمہارا وقت، تمہارا زمانہ، تمہارا ماضی مرگیا۔ اب اسے اپنے دل میں دفن کرو اور عہد کرو کہ اب کسی سے کچھ نہ کہوگے۔ زندگی ہے سو زندگی کو جیو گے اور مرد انہ وار جیو گے۔‘‘
یہ عہد کرکے اٹھا اور ایک نئے عزم و ہمت سے زندگی کا سامنا کرنے کے لئے باہر نکل گیا۔
اتنے میں مشرق سے صبح کی سپیدی عیاں ہوئی، پردہء حجاب میں ظلمت نہاں ہوئی۔ بادشاہِ خاقانِ کلاوہ نے کہا۔ ’’اب ختم داستان کرو اور ذکرِ حق وظیفہء زبان کرو۔ رات کو حسن بدر الدین کے عزم و ہمت کی داستان سنانا، ہمارا خوب دل بہلانا۔ ‘‘


(باقی آئندہ)

 

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۵

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!