حسن بدر الدین سراسیمہ اور پریشان نانی جان اور زلیخا کے ساتھ گھر آیا تو سامنے ہی برآمدے میں اس بلائے بے امان بے ادب گستاخ ماما کو کھڑے پایا۔ نانی چپکے سے بولی:
’’اے بیٹا اب یہ غصہ کرے گی مگر تو کوئی جواب نہ دینا، بڑی سمجھ کے درگزر کرنا، بات بڑھانے سے کیا فائدہ؟ آخر کو تو نے یہیں رہنا ہے۔‘‘
حسن نے پریشان ہوکر کہا:’’مگر ایسی گستاخ ماما کو آپ نے کیوں رکھ چھوڑا ہے؟ نوکری سے نکال کیوں نہیں دیتے؟‘‘
نانی کچھ نہ سمجھی، بولی:’’کیسے نکال دیں بھلا؟ اور تو اسے ماما کیوں کہہ رہا ہے؟ ماں تو یہ زلیخا اور مُنے کی ہے، تیری تو ممانی ہے۔ تیرے ماموں کی بیوی ہے۔‘‘
حسن بدر الدین مزید چکرایا، بھلا یہ کون ذات شریف ماموں ہیں جو کنیزوں، ماماؤں سے نکاح کرتے ہیں، کارِ فضول خوامخواہ کرتے ہیں۔ اتنے میں وہ ماما یعنی ممانی حسن کو دیکھ کر چلائی:’’پھر اٹھا لائے اس مصیبت کی پوٹ کو؟ میں تو سمجھی اب جان چھٹی اس مفت خورے سے۔‘‘
زلیخا نے منت کی’’ماما پلیز، دیکھیں تو اس کا کتنا برا حال ہے۔‘‘
ممانی نے حسن کی حالت دیکھی کہ پسینے میں بھیگا تھا، سراسیمہ و مغموم تھا تو کچھ خیال آیا اور اونہہ کہہ کر چلی گئی۔ نانی جان نے حسن کو تخت پر بٹھایا اور اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا۔ پھر زلیخا اس کے لیے ایک کڑوا سا محلول لائی جسے حسن نے اگل نگل کر دوا سمجھ کر پیا۔ زلیخا حیران ہوئی اور بولی:’’کیا ہوگیا ہے تمہیں؟ تم تو چائے بڑے شوق سے پیتے تھے۔‘‘
حسن کو سمجھ نہ آ تی تھی کہ یہ کیا ماجرا ہے، عقل کو چکر ہے، سمجھ پتھر ہے، وہ زمانِ پاستان کے حسن بدر الدین سے دو ہزاراٹھارہ کا حسن بدر الدین کیسے بن گیا ہے؟ اسی مخمصے میں گرفتار تھا۔ غم و الم کا شکار تھا۔ نانی جان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور اسے اس کمرے میں پہنچایا جس میں اس کی آنکھ کھلی تھی۔ نانی بولی: ’’تیری طبیعت ٹھیک نہیں میرے بچے، تو آرام کر۔‘‘
حسن نے سوچا، شاید یہ ڈراؤنا خواب ہے، جاگوں گا تو خود کو اپنے گھر میں پاؤں گا، کچھ ملال دل میں نہ لاؤں گا۔ یہ سوچ کر جلدی سے بستر میں گھسا اور سو گیا۔
آنکھ کھلی تو چار سُو اندھیرا پایا۔ کھڑکی سے چاندنی آتی تھی اور وہ اسی کمرے میں تھا جس میں سویا تھا۔ سمجھ گیا کہ وہیں ہوں اور آدھی رات کا وقت ہے۔ اچانک ایک آواز سنائی دی۔ کان دھر کے سنا تو معلوم ہوا کہ کوئی مرد قرآن خوانی کرتا ہے۔ قرأت کے ساتھ بہ صدمہ سوز و گداز کوئی نازک آواز قرآن پڑھتا ہے۔ خیال گزرا کہ کوئی شب زندہ دار ہے، حبیب کردگار ہے۔ حسن فوراً اٹھا اور کمرے سے نکل کر آواز کی سمت چلا، ایک جانب کو ایک کمرا نظر آیا۔ اندر گیا تو دیکھا کہ ایک مرد جائے نماز بچھائے اللہ سے لو لگائے، قرآن پڑھتا ہے، یادِ معبودِ حقیقی کرتا ہے۔ حسن نے اس کی صورت دیکھی تو جان میں جان آئی کہ الحمد للہ خدا نے کسی مرد کی صورت دکھائی۔ پہنچتے ہی السلام و علیکم کہا، اس نے آنکھ اٹھا کر دیکھا اور وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاۃ جواب دیا۔ علیک سلیک کے بعد حسن نے سوال کیا: ’’یا حضرت، پہلے تو یہ فرمائیے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ میں کون ہوں، آپ کون ہیں؟ یہ کیا حال ہے؟ شومئی قسمت کا جال ہے؟
اتنا سننا تھا کہ وہ خوش الحان مرد تڑپ اٹھا اور حسن بدر الدین کے گلے میں بازو ڈال کر زار زار رونے لگا۔
اس قدر قصہ کہہ کر شہر زاد نے کہا، اے جہاں پناہ، قدر قدرت، عطارد منزلت اب رات قریب الاختتام ہے، اگر جاں بخشی ہوگی تو شب کو بقیہ قصہ سناؤں گی نیتِ شب بخیر۔
(باقی آئندہ)