الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۳

ادھر حسن کا یہ حال کہ مصیبت میں گرفتار تھا، وفورِ رنج و فرطِ غم والم گرانبار تھا۔ اب یہ لڑائی جھگڑا جو دیکھا تو اور گھبرایا کہ ہاتھی چھوٹے یا گھوڑا چھوٹے۔ قریب تھا کہ دل میں ایک ہوک اٹھے اور کلیجا بیٹھ جائے۔ آہ آتشیں آسمان کی خبر لائے کہ دفعتہ چھلانگ مار کر اٹھا اور پھاٹک سے نکل کر گلی میں بھاگ گیا۔
گلی میں نکلا ہی تھا کہ سامنے ایک مہیب عفریت کی صورت نظر آئی۔ یہ دیو اتنا بڑا تھا کہ گو زمین پر کھڑا تھا مگر سر آسمان سے جا کر لڑا تھا۔ جثہلحیم شحیم، سر بہت بڑے گنبد کے برابر، منہ تھا کہ ایک غارِ عظیم۔ دونوں نتھنے ایسے معلوم ہوتے تھے جیسے دو قرنائے جنگ ہوں۔ آنکھیں مثلِ مشعل روشن تھیں۔ فرطِ غیظ و غضب سے کھڑا کھڑا تھراتا تھا اور غراتا تھا۔ اس کے غرانے سے تمام عالم کانپ جاتا تھا۔ اس عفریت کی صورتِ مہیب دیکھ کر حسن کے ہوش و حواس اڑے۔ بدن کا رواں رواں کھڑا ہوگیا۔ مارے ڈر کے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے، دانت بیٹھ گئے۔ تمام عالم نظروں میں تیرہ و تار تھا، اجل سے دوچار تھا۔ شک کی جگہ یقین تھا کہ یہ دیو پیامِ قضا ہے۔ ابھی دم کے دم میں منہ پھاڑے گا اور کھا جائے گا، ہرگز جیتا نہ چھوڑے گا۔ اتنے میں بڑی آواز سے وہ عفریت یوں غرایا کہ حسن کا کلیجا تھرتھرایا۔ حسن نے ہاتھ باندھے اور گڑگڑا کر عرض کیا۔
’’اے دیووں کے سردار، عفریت والا تبار، میں ایک غریب الوطن سوداگر بچہ ہوں۔ کسی بدی سے سروکار نہیں، اجنہ و دیووں سے تابِ پیکار نہیں۔اگر آپ نے میرے قتل پر کمر باندھی ہے تو جان نذر ہے قبول فرمائیے، ورنہ خطا کی اطلاع دیجیے، وجہ بتائیے۔ اگر کوئی قصور مجھ سے سرزد ہوا ہو تو معاف فرمائیے، اپنے عتاب سے اس بندۂ پر تقصیر کو بچائیے۔‘‘
اتنے میں زلیخا افتاں و خیزاں پھاٹک سے باہر آئی۔ حسن کو دیکھا تو حیران ہوکر بولی: ’’کیا کررہے ہو حسن؟ یہ ٹرک کے آگے ہاتھ جوڑے کیوں کھڑے ہو؟‘‘
حسن نے رو کر کہا:’’یہ عفریت در پے آزار ہے، دیووں کا سردار ہے،ہر گز جیتا نہ چھوڑے گا، قتل سے منہ نہ موڑے گا۔‘‘
زلیخااور بھی حیران ہوئی، بولی۔’’ کیسا دیو، کیسا قتل؟ یہ تو خان انکل کا ٹرک ہے۔ وہ یونہی اسے چلتا چھوڑ جاتے ہیں، ابھی آئیں گے تو لے جائیں گے، لو وہ آ بھی گئے۔‘‘
اتنے میں ساتھ کے گھر سے ایک شخص باہر نکلا اور اس عفریت کا کہ جس کا نام ٹرک تھا، کان کھینچا۔ فوراً ایک دروازہ کھلا اور وہ شخص عفریت پر سوار ہوا۔ حسن نے موقع غنیمت جانا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ زلیخا آوازیں دیتی رہ گئی۔
حسن بدر الدین گلی سے نکل کر سڑک پر آیا تو مزید چکرایا۔ وہاں چھوٹے بڑے بے شمار عفریت، جن کے نیچے پہیے لگے تھے، دوڑ بھاگ رہے تھے۔ ان کے شور شرابے سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ لوگ باگ عجیب وضع کی پوشاکیں پہنے اِدھر سے اُدھر آجا رہے تھے۔ حسن گھبرا کر ایک طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ اُسے بھاگتا دیکھ کر ایک شخص اس کے پیچھے بھاگنے لگا۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک دوسرے شخص نے بھی دوڑ لگائی۔ ایک سے دو ہوئے، دو سے تین اور ہوتے ہوتے بیسیوں لوگ حسن کے پیچھے بھاگنے لگے۔ اتنے میں کوتوالی کا ایک سپاہی وہاں آنکلا۔ اس نے جو ایک ہجوم کو حسن کے پیچھے بھاگتے دیکھا تو چیخ پکار کی ، سیٹیاں بجائیں اور حسن کو پکڑ ہتھکڑی ڈال دی اور کوتوالی لے گیا۔ اس کے ساتھ پیچھے بھاگنے والا ہجوم بھی کوتوالی پہنچ گیا۔ وہاں حسن کو کوتوال کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس نے پوچھا، اس نے کیا جرم کیا ہے؟ سپاہی نے کہا چور ہے، چوری کرکے بھاگ رہا تھا میں پکڑ لایا۔ کوتوال نے لوگوں سے پوچھا، تم میں سے کس کی چوری ہوئی؟ وہ ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے، بغلیں جھانکنے لگے۔ کوتوال نے سب کو ڈانٹ ڈپٹ کر کوتوالی سے نکالا اور حسن سے پوچھا۔ کیوں میاں صاحبزادے کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ کہاں کو جاتے تھے، آخر کیا ارادے تھے؟
حسن نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا ’’میرے ساتھ ایک واقعہ ایسا حیرت ناک ہوا کہ تباہی سے دوچار ہوں، جان دینے پر مجبور و ناچار ہوں۔‘‘
کوتوال چونکا اور بولا:’’اوئے پکڑ لو اس کو، لگتا ہے دہشت گرد ہے، خودکش بمبار ہے، جان دینے کی بات کرتا ہے، ڈالو اس کو حوالات میں۔‘‘
سپاہیوں نے پکڑ کر حسن کو چار چوٹ کی مار لگائی اور حوالات میں بند کردیا۔ آدھا گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ زلیخا اور نانی جان ہانپتی کانپتی کوتوالی پہنچ گئیں۔ نانی جان نے رو رو کر کوتوال کے آگے ہاتھ جوڑے اور قسمیں کھائیں کہ حسن ان کا نواسہ ہے۔ بے قصور ہے، دماغ میں فتور ہے، اس لیے گھر سے مفرور ہے۔ کوتوال نے کوئی ثبوت حسن کے خلاف نہ پا کر اسے چھوڑ دیا اور نانی جان اور زلیخا حسن کو لے کر گھر آگئیں۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲

Read Next

سوئ بار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!