نانی کے چلے جانے سے حسن کو معلوم ہوا کہ گھر کی فضا گھر کی عورت کی مرہونِ منت ہوتی ہے، اس کی شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے۔ نانی کیا گئیں، گھر سے شفقت، نرمی اور محبت جاتی رہی، گھر کا ایک ایک ذرہ چڑچڑا اور جھگڑالو محسوس ہونے لگا۔ پورا گھر آئینہ بن گیا اور اس میں ممانی کی شخصیت جھلکنے لگی۔ حسن، زلیخا اور منّاسارا سارا دن گھر سے باہر رہنے لگے۔ حتیٰ کہ ممانی خود بھی تنگ آگئی۔ اس تنہائی اور نیک انسانوں سے جدائی کے سب مرضِ فساد کو روز افزوں ترقی ہوتی گئی اور وہ بے حد جھگڑالو اور لڑاکا ہوگئی۔
حسن تو ہر روز جا کر نانی سے مل آتا تھا، ان کی محبت سے دل ٹھنڈا کر آتا تھا، لیکن بے چاری زلیخا کا یہ حال تھا کہ زندگی ناگوار تھی، زیست بیزار تھی۔بنّے بھائی روز آتے تھے، کوئی نہ کوئی آگ لگا جاتے تھے۔ پھر ممانی بہت چڑ چڑاتی، غصہ کھاتی ، سب سے زیادہ زلیخا کی شامت آتی ۔
ایک دن حسن کو کچھ خیال آیا اور اس نے زلیخا سے کہا:‘‘میں کئی دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ منّا کبھی گھر نظر نہیں آتا ہے، کچھ معلوم ہے کہاں جاتا ہے؟’’
زلیخا نے گھبرا کر کہا:‘‘میں تو خود گھر نہیں ہوتی،کالج آف ہونے کے بعد لائبریری میں بیٹھی پڑھتی رہتی ہوں، اتنے دن سے میں ماما کی وجہ سے اتنی پریشان ہوں کہ منّے کی طرف تو میرا دھیان ہی نہیں گیا۔ پتا نہیں کن چکروں میں ہے۔’’
حسن نے سوچتے ہوئے کہا:‘‘نانی کہتی تھیں مسجد جاتا ہے، لیکن یہ کون سی مسجد ہے جہاں ہر وقت نماز ہوتی ہے؟ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے، اس میں کوئی فتور ہے۔’’
چنانچہ اگلے دن حسن نے دکان سے چھٹی کی اور جونہی منّا مدرسے سے آیا اور مسجد کے لیے نکلا، حسن چپکے سے پیچھے ہو لیا۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد مُنے نے ایک گلی کی طرف قدم بڑھائے۔ وہاں چند اور لڑکے اس کے ہم عمر نظر آئے۔ اس گلی میں مکان بہت بڑے تھے اور لوگوں کی آمدورفت صفر تھی۔ ایک مکان کے خالی قطعے میں ان لڑکوں نے ڈیرہ جمایا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر لڑکے کے ہاتھوں میں سگریٹ نظر آیا۔ کش پر کش لگانے لگے، دھواں اڑانے لگے۔ رات کو حسن نے ساری کارروائی زلیخا کو بتائی، وہ بے حد غصے میں آئی۔
تیوری چڑھا کر بولی:‘‘تم نے وہیں اسے پکڑ کر دو تھپڑ کیوں نہیں لگا دیئے؟ گردن سے پکڑ کر گھر لاتے اسی وقت۔ ابا کے جانے کا خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔’’
حسن نے کہا:‘‘ممانی کا اس کو بے حد لاڈ ہے، بڑی محبت ہے اسے ہاتھ لگائے، کس کی ہمت ہے؟’’
زلیخا نے غصے سے کہا:‘‘اچھا تو پھر میں لگاتی ہوں اسے دو تھپڑ، ماما نے پوچھا تو بتا دوں گی کہ سگریٹ پیتا ہے۔’’
حسن نے سمجھایا، نیک و بد بتایا اور کہا:‘‘ممانی کبھی یقین نہ کریں گی، بہتر ہے کہ مدرسے سے آنے کے بعد میں اسے اپنے ساتھ دکان پر لے جایا کروں۔ نامعقول دوستوں کی صحبت سے دور رہے گا تو منہ زوریاں سب بھول جائے گا۔’’
یہ تجویز سن کر زلیخا رضامند ہوئی، خوش و خورسند ہوئی۔
٭……٭……٭