الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۴

شیطان کے کانوں پر پھٹکار، اس ملعون کو کہیں خدا بہرہ کردے تو انسان کی اس سے جان چھوٹے۔ جہاں کہیں کوئی معصوم انسان نادانی سے ایسی بات کہہ جاتا ہے جو نانی نے کہی تو ابلیس ِلعین کے کان فوراً کھڑے ہوتے ہیں اور اسی وقت دل و جان سے اس بات کو پورا کرنے میں لگ جاتا ہے تاکہ حضرتِ انسان رنج اٹھائے اوریہ کثیفِ پلید بغلیں بجائے اور مزے سے دندنائے۔
بے چاری نانی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جونہی انہوں نے کہا کہ اس خاموشی سے تو جھگڑے ہی بھلے، شیطان نے جا کر ممانی کو انگلی دکھائی، وہ کمرے سے اٹھ کر باہر آئی۔
آتے ہی بددماغ ہوکر نانی سے بولی:‘‘یہ سب آپ کا اپنا قصور ہے، آپ نے ہی رکھا تھا اس منحوس عورت کو گھر میں۔ آپ نے اس کو بے چاری بے چاری کہہ کر زاہد کے دل میں اس کی ہمدردی ڈالی تھی۔ اس وقت تو آپ بڑی خوش ہوئی ہوں گی جب زاہد میرے اوپر سوتن لایا، لیکن اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اب آپ کو سمجھ آئی تنہائی کیا ہوتی ہے؟ اب پتا چلا میں کیسے گزار رہی ہوں وقت؟’’
نانی نے خفا ہوکر کہا:‘‘تیری زندگی میں تو صرف لڑائی جھگڑے کی کمی ہوئی ہے۔ انسان لڑنے والا ہو تو ہواؤں سے بھی لڑ لیتا ہے۔ پیار کرنے والا کیا کرے؟ کس سے دل کی بات کہے؟ کس کو شعر سنائے؟ کس سے پیار کرے؟’’
ممانی نے طعنہ دیتے ہوئے کہا:‘‘اتنا اس کو آپ کا پیار ہوتا تو یوں چھوڑ کے نہ چلا جاتا آپ کو۔ اب وہ اس چڑیل کو شعر سناتا ہے اور اس سے کرتا ہے دل کی باتیں، آپ کوتو اس نے کبھی جھوٹے منہ اپنے پاس آنے کے لیے نہیں کہا۔’’
نانی کے چہرے پر دکھ اور آنکھ میں آنسو بھر آئے بولیں:‘‘روز بلاتا ہے مجھے، نسیمہ بھی ہر دفعہ کہتی ہے۔ میں صرف تیرے خیال سے نہیں جاتی کہ توُ اکیلی پڑ جائے گی۔ ابھی اِس صدمے سے گزری ہے، کوئی تو دلجوئی کے لیے ہونا چاہیے۔’’
ممانی نے ناک چڑھا کر کہا:‘‘میرا بہانہ نہ بنائیں۔ میرا اتنا خیال ہوتا تو زاہد کی اس حرکت پر آپ اس سے قطع تعلق کرلیتیں۔ آپ کو صرف اس گھر کا مان ہے، صرف یہ تکلیف ہے کہ یہ گھر آپ کے نام ہے تو کہیں میں نہ اس پر راج کرنے لگ جاؤں۔’’
نانی کے ہونٹ کانپنے لگے۔ کچھ کہنے کی کوشش کی مگر بولا نہ گیا۔ آخر کہا:‘‘لے پھر، تجھے تیرا راج مبارک ہو۔’’ یہ کہہ کر اندر کو چلیں۔
حسن نے گھبرا کر چائے کی پیالی وہیں پٹخی اور نانی کے پیچھے اندر کو بھاگا۔ جا کر دیکھا تو نانی زار زار روتی ہیں اور الماری سے کپڑے اور دیگر سامان نکال نکال کر پلنگ پر ڈھیر کرتی جاتی ہیں۔ حسن نے گھبرا کر پوچھا:‘‘کیا کرتی ہیں، نانی جان؟’’
‘‘بس اب میں اس گھر میں نہیں رہ سکتی۔ میں زاہد کے پاس جاؤں گی، وہیں رہوں گی۔’’
حسن نے مغموم ہوکر کہا:‘‘ہمیں چھوڑ کے چلی جائیں گی، نانی جان؟’’
نانی نے دلگیر ہوکر کہا:‘‘میں کسی کو کیا چھوڑوں گی بیٹے، مجھے تو خود وقت نے چھوڑ دیا۔ زاہد کیا گیا، میں تم سب سے گئی۔ سارا سارا دن خاموش بیٹھی دیواریں تکتی ہوں۔ تنہائی کے سو آزار دل جلاتے ہیں میرا۔ وہاں جاؤں گی تو اور کچھ نہیں تو نسیمہ کے بچے کے ساتھ ہی دل لگا رہے گا۔’’
حسن کی آنکھیں بھی ڈبڈا آئیں۔ نانی کے ہاتھ تھام لیے اور کہا:‘‘مجھے ایک موقع اور دے دیجیے، نانی جان۔ کل سے جلدی آیا کروں گا۔ آپ کے پاس بیٹھوں گا، شعر سنایا کروں گا۔’’ اسی وقت دروازہ کھلااور زلیخا افتاں و خیزاں کمرے میں داخل ہوئی۔ پیچھے پیچھے ممانی بھی آدھمکی۔
زلیخا نے جو نانی کے کپڑے اور سامان الماری سے باہر پڑا دیکھا تو گھبرا کر بولی:‘‘دادی اماں، آپ ابا کے پاس جارہی ہیں؟’’
نانی نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا:‘‘ہاں بیٹی!’’
زلیخا نے بے تابی سے کہا:‘‘میں آپ کو نہیں جانے دوں گی۔’’
ممانی نے بددماغ ہوکر کہا:‘‘جانے دے انہیں، دو دن نہیں رکھیں گے وہ کباب میں ہڈی کو۔ دیکھنا خود ہی واپس چھوڑ جائے گا زاہد۔’’
نانی کو یہ سن کر غصہ آیا اور وہ تیزی سے اپنے کپڑے تھیلے میں رکھنے لگیں۔
زلیخا نے لجاجت سے کہا:‘‘دادی اماں، پلیز!’’
نانی نے اس کا ہاتھ جھٹکا اور حسن سے کہا:‘‘چل ،حسن۔’’
زلیخا نے گھبرا کر کہا:‘‘تم بھی جارہے ہو؟’’
حسن گومگو کے عالم میں کھڑا تھا۔ نانی سے بولا:‘‘ممانی اور زلیخا اکیلی کیسے رہیں گی نانی جان؟’’
نانی نے طنز سے کہا:‘‘اکیلی کیوں؟ بلائے نا بنّے کو، اسے رکھے اپنے ساتھ۔’’
ممانی نے چلاّ کر کہا:‘‘ہاں ہاں، بلا لوں گی۔ مر نہیں جاؤں گی میں آپ کے اور زاہد کے نہ ہونے سے۔ اللہ نے بیٹا دیا ہے مجھے۔ وہ بنے گا میرا سہارا۔’’
نانی نے استہزاء سے کہا:‘‘میں کیا تجھے اور اسے جانتی نہیں؟ تو ُکبھی اسے نہیں بلائے گی۔ کیوں کہ تم دونوں ایک جیسے ہو، تمہاری کبھی آپس میں نہیں بنے گی۔’’
یہ کہہ کر حسن سے کہا:‘‘چلتا ہے حسن؟ سامان لے لے اپنا۔’’
حسن نے گہرا سانس لے کر کہا:‘‘میں دو عورتوں اور ایک بچے کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جاسکتا، نانی جان۔ آئیے میں آپ کو پہنچا آتا ہوں۔’’
یہ کہہ کر سامان اٹھایا۔ جاتے جاتے ممانی پر نظر پڑی۔ انہوں نے اونہہ کہہ کر منہ پھیر لیا۔ زلیخا آٹھ آٹھ آنسو روتی تھی، رو رو کر جان کھوتی تھی۔ نانی بھی اس سے گلے مل کر خوب روئیں۔ آخر بھاری دل کے ساتھ خدا کے سپرد کیا اور چلی گئیں۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۳

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!