زلیخا نے خوش ہوکر کہا:‘‘رئیلی؟ کیسے کپڑے ہیں؟ بہت خوبصورت ہوں گے؟ ہائے مجھے بھی دکھاؤ نا کسی دن۔’’
حسن نے کہا:‘‘ہاں ہاں ضرور دکھاؤں گا۔ تم کسی دن دکان پر آجاؤ اور سب جوڑے دیکھ لو۔’’
زلیخا نے مایوسی سے کہا:‘‘دکان پر کیسے آؤں؟ مجھے تو سر کھجانے کی فرصت نہیں، پڑھائی اتنی ٹف ہے، تم کسی میگزین میں کیوں نہیں چھپواتے اپنے ڈیزائن؟ یا کسی فیشن شو میں پیش کرو، اس کی تصویریں آئیں گی میں دیکھ لوں گی۔’’
حسن کو بات تو سمجھ نہ آئی لیکن چھٹی حسن نے کہا کہ ضرور یہ کوئی مشورہ نادر و دلربا ہے۔ اسی وقت فون نکالا، بندو کو ملایا اور زلیخا سے بات کروائی۔ زلیخا نے بندو کے سامنے وہی بات دہرائی۔ بندو کو بے حد پسند آئی۔ اس وقت حسن کو دکان پر بلایا، دونوں نے مل کر اس کام کا بیڑا اٹھایا۔
قصہ مختصر جب وہ زرق برق اور فوق البھڑ ملبوسات تیار ہوگئے تو حسن نے ایک حسینہ ماہ جبینہ کو بلوایا۔ چند چنیدہ لباس اسے پہنوا کر اس کی تصویریں کھنچوائیں اور رسالے میں چھپوائیں، سب کو بہت پسند آئیں۔
اس کے بعد ایک میلہ سجا جیسے یہ لوگ فیشن شو کہتے تھے۔ اس میں جوان و حسین مرد اور عورتیں نت جوڑے پہن کر مٹکتے پھڑکتے آتے اور وہاں بیٹھے لوگوں کو یہ جوڑے دکھا کر، اداؤں سے لبھا کر چلتے بنتے۔ اس فیشن شو میں حسن نے دل کھول کر رقم لگائی اور ایک سے ایک حسینہ بلوائی۔ سب سے آخر میں حسن نے اپنے ڈرامے کی ہیروئن کو سب سے خوبصورت لباس عروسی پہنایا اور اس کا ہاتھ پکڑے باہر آیا۔ حسن اور اس کی ہیروئن کی جوانی و رعنائی اور ان کے جوڑوں کی دلربائی نے وہ رنگ اثر جمایا کہ دیکھنے والے تردماغ ہوگئے، مارے خوشی کے باغ باغ ہوگئے۔
اس فیشن شو کے بعد گاہک یوں آنے لگے گویاکسی لشکر نے چڑھائی کردی ہو۔ کام اس قدر بڑھا کہ حسن کو درجنوں کاریگر اور رکھنے پڑے اور انہیں بٹھانے کے لیے ایک جگہ کرائے پر لینی پڑی۔
ایک دن حسن ناوقت دکان پر آیا تو دیکھا بندو غور سے ایک کاغذ کو پڑھتا ہے۔ حسن کو دیکھا تو گھبرایا، کاغذ فوراً چھپایا۔ حسن کو تجسس ہوا اور بہت اصرار کرکے پوچھا تو اس نے ہچکچاتے ہوئے کاغذ آگے کیا اور کہا:‘‘عاصم کی شادی کا دعوت نامہ ہے۔’’
حسن کے دل میں گھونسا سا لگا، لیکن خود پر قابو پایا اور کچھ نہ کہا۔
بندو نے کہا:‘‘ہم سب کو کارڈ بھیجا ہے، لیکن اگر تجھے اچھا نہ لگے تو ہم میں سے کوئی نہیں جائے گا۔’’
حسن نے دل مضبوط کیا اور کہا:‘‘دعوت کا رد کرنا سنت کے خلاف ہے، ایسی ناشائستگی کہاں معاف ہے؟ عاصم تمہارا دوست ہے، بہتر ہے کہ اپنے دوست کے ساتھ خوشی مناؤ، کھاؤ پیو، ناچو گاؤ۔’’
بندو نے گومگو کے عالم میں کہا:‘‘نہیں یار، توُ زیادہ دوست ہے میرا۔ مجھے اچھا نہیں لگے گا کہ تو یہاں بیٹھا جل کڑھ رہا ہو اور میں وہاں……’’
حسن نے بات کاٹ کر کہا:‘‘تم سے کس نے کہا میں یہاں بیٹھ کر جلوں کڑھوں گا؟ میرا تو فقط ایک ہی شغل ہے کہ دن ہو یا شام، صرف کام سے کام، لاکھوں کے آرڈر آئے رکھے ہیں۔ خوب دل لگا کر تیار کرواؤں گا کہ سونے کی چڑیا ہاتھ آئی ہے، قسمت آزمائی ہے۔’’
حسن کے اس طرح یقین دلانے پر بندو اور دوسرے دوست شادی پر گئے اور حسن نہ گیا۔
جس رات محبوبۂ بے وفا کی شادی تھی اس رات حسن دیر تک دکان میں کام کرتا رہا اور جب کام ختم ہوگیا تو چپ چاپ وہیں سو رہا۔
دو دن اور دو راتیں دکان میں گزار کر حسن گھر گیا تو نانی کو صحن میں بیٹھا پایا۔ حسن کو دیکھا تو خاموشی سے چائے اس کے آگے رکھی اور بغیر کچھ کہے وہاں سے جانے لگیں۔ حسن کی عادت تھی کہ گھر آتا تا تو نانی کو چشم براہ پاتا تھا۔ وہ پیار کرتیں، بلائیں لیتیں اور کلیجے سے لگاتیں اب جو نانی کو یوں خاموش اور ملول پایا تو حسن بڑا گھبرایا۔ جلدی سے نانی کا ہاتھ پکڑ کر انہیں روکا اور کہا:‘‘اے مادرِ مہربان! یہ آپ کا کیا حال ہے؟ کون سی بات جی کا جنجال ہے؟ نصیبِ دشمناں کہیں طبیعت ناساز تو نہیں؟’’
نانی نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا:‘‘میری طبیعت کیا پوچھتا ہے بیٹے، خدا تنہائی کا آزار کسی کو نہ دے۔’’یہ کہہ کر آبدیدہ ہوئیں۔
جب نانی کی زبان سے بصد حسرت و یاس یہ بات سنی تو حسن کی طبیعت بہت پریشان ہوئی، دل بھر آیا، کچھ کہہ نہ سکا۔
نانی نے آنسو پونچھے اور بولیں:‘‘زاہد تھا تو کتنی رونق تھی گھر میں۔’’
حسن نے دل میں سوچا:‘‘ہاں رونق تو تھی۔ ممانی ہر دم شعلہ جوالا بنی رہتی تھی۔ دن رات گالم گلوچ جاری تھی، شور شرابے کی تیاری تھی، ماموں گئے تو ممانی کو چپ لگ گئی۔ گھر خاموش ہوگیا۔’’
نانی نے آہ بھر کر کہا:‘‘زاہد صبح دکان جانے سے پہلے میرے پاس بیٹھتا تھا۔ واپسی پر بھی میرے ساتھ کھانا کھاتا تھا۔ میرے پیر دباتا تھا۔ ہزاروں شعر یاد تھے اسے بات بات میں شعر و شاعری، اچھے اچھے اقوال زریں، کیا کیا کچھ نہیں سناتا تھا، اب تو……’’
نانی کی آواز بھرا گئی۔ آنسو پی کر بولیں:‘‘میں تو ترس گئی کسی سے بات کرنے کو۔ تم اور زلیخا تو نظر ہی نہیں آتے۔ تمہیں تمہارا کاروبار لے اڑا، زلیخا کو اس کی پڑھائی اور تو اور منّا بھی کبھی گھر نہیں ہوتا۔ جب پوچھو کہاں گئے تھے، کہتا ہے مسجد، اور تو اور، پروین کو بھی بالکل چپ لگ گئی ہے۔ ارے، اس خاموشی سے تو جھگڑے ہی بھلے تھے۔’’