الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۴

حسن بدرالدین نے عشق کا صلۂ افسوسناک پایا، جو کہا آگے آیا، اب کان پکڑے اور جنابِ باری کے آگے یوں گڑگڑایا کہ یاالٰہی اب میں قسم کھاتا اور صدقِ دل سے تجھے یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ کبھی عشق نہ کروں گا، اس الجھیڑے پن میں نہ پڑوں گا۔ پس توُمیری خطا معاف کر اور میرا نامۂ اعمال اس کا لک سے صاف کر۔ گزشتہ و اصلوٰۃ آئندہ احتیاط۔ اس دعا پر فرشتوں نے آمین کہی اور باری تعالیٰ کی جناب میں سفارش کی کہ اس نے شرعی قسم کھائی ہے، مناسب اس کی دہائی ہے۔
شاید جنابِ باری میں حسن کی دعا قبول ہوئی، فرشتوں کی سفارش مقبول ہوئی کہ چند عورتیں حسن کے پاس آئیں اور کہا کہ ہمارے یہاں چار شادیاں ہیں، ان چار بہنوں کے لیے ملبوساتِ شاہی دکھاؤ، مگر صرف وہی پوشاک جو شہر بھر میں سب سے اعلیٰ و قیمتی ہو، لے کر آؤ۔ ان بڑے گھر کی بیبیوں، امیر زادیوں کو حسن نے خوب عمدہ عمدہ لباس، بھاری جوڑے دکھائے، انہیں پسند آئے۔ کہنے لگیں، اب ہر دلہن کے لیے اکیس اکیس بھاری کامدانی جوڑے بناؤ، دام کی فکر مت کرو، دل کھول کر لگاؤ۔
چنانچہ حسن بدرالدین نے دنیا کو بھلایا، ملبوساتِ عروسی کی تیاری میں دل لگایا۔ دن اطلس و کمخواب، کامدانی و جامدانی کے تھانوں میں گزرتا تھا اور رات گوٹا، بنت، گوکھرو اور کناری کے خواب دیکھتے گزرتی تھی، اس قدر کام تھا کہ سر کھجانے کی فرصت نہ تھی۔ کاریگر رات گئے تک بیٹھے رہتے تھے اور کام میں جُتے رہتے تھے۔ ان کے ساتھ حسن بھی وہیں رہتا تھا اور جب تک آخری کاریگر نہ چلا جاتا، گھر نہیں جاتا تھا۔
ایسا نہیں تھا کہ حسن کو محبوبہء زریں بدن کی یاد نہیں آتی تھی۔ یاد ضرور آتی تھی، دل کو تڑپاتی تھی لیکن وہ اس یاد کو دل سے نہ لگاتا تھا، اک آہِ سرد بھر کر دل سے بھگاتا تھا اور بھی زیادہ کام میں مصروف ہو جاتا تھا۔
کچھ پیسہ ہاتھ میں آیا تو حسن نے کنیز کا قرضہ بھی چکا دیا۔ کنیز نے لاکھ روپیہ پایا تو یقین نہ آیا۔ زار زار رونے لگی، اشکوں سے منہ دھونے لگی۔
سسکیاں لیتے ہوئے بولی: ‘‘آپ سچ مچ فرشتہ ہیں، بھائی جان۔ میں نے آج تک جتنے لوگ دیکھے مطلبی ہی دیکھے۔ کسی کو کیا کہوں، میں خود بڑی مطلبی ہوں۔ آپ سے پیسے کھینچتی رہی اور اس کے ساتھ پچھلے محلے والے آفتاب بھائی کا معاملہ بھی سیٹ کراتی رہی۔ اب وہ بندوق لے کر میرے پیچھے پھر رہے ہیں اور آپ…… آپ نے مجھے اتنے پیسے دے دیے ہائے بھائی جان آپ سچی سے فرشتے ہیں۔’’
اتنے میں زلیخا آئی اور یہ ماجرا دیکھا تو حیران ہوئی پوچھا:‘‘یہ کیا ہورہا ہے؟’’
کنیز نے شرم سے نظریں نیچے کیں اور رو رو کر سارا واقعہ بتایا۔
زلیخا نے ساری بات سن کر کنیز کو جانے کا اشارہ کیا اور حسن سے کہا:‘‘اتنی مشکل سے تمہاری دکان سیٹ ہوئی ہے، تم اس طرح پیسے لٹا رہے ہو؟’’
حسن نے بے بسی سے کہا:‘‘کیا کروں کسی کی ضرورت دیکھی نہیں جاتی۔ برداشت نہیں ہوتا کہ میں تو کھاؤں پیوں اور کوئی دوسرا بھوکا رہے۔’’
زلیخا نے پوچھا:‘‘کیا کہانی سنائی ہے تمہیں کنیز نے؟’’
حسن نے ساری بات بتائی۔
زلیخا نے پوچھا:‘‘اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ سچ بول رہی ہے؟’’
حسن نے گھبرا کر کہا:‘‘تو کیا وہ جھوٹ بول رہی ہے؟’’
زلیخا نے کہا:‘‘نہیں، کہتی تو وہ سچ ہے، اس کی واقعی ایک بیوہ بہن ہے جس کے بچے کے علاج کے لیے یہ لوگ دربدر پھرتے ہیں۔ میں تو تم سے یہ کہہ رہی ہوں کہ تمہیں فوراً یوں کسی کی بات پر یقین نہیں کرلینا چاہیے۔ کسی کو بھی یوں پیسے پکڑا دینے سے پہلے کم از کم اس کی چھان بین تو کروایا کرو۔’’
حسن نے آبدیدہ ہوکر کہا:‘‘اے زلیخا! اب دنیا داری تو خیرباد کہہ کر سدھاری ہے، اب تو بس دوسروں کی خیر خواہی و غمگساری ہے۔’’
زلیخا نے حیران ہوکر کہا:‘‘ہیں؟ دنیا داری چھوڑ دی تم نے؟ دکان پہ نہیں جاتے؟ تو پھر کہاں رہتے ہو سارا دن اور آدھی رات تک؟’’
حسن نے جز بز ہوکر کہا:‘‘بھئی یعنی کہ یہ تو محاورہ تھا۔ جاتا تو میں دکان ہی کو ہوں، ڈیڑھ سو ریشمی کامدانی جوڑوں کی تیاری ہے، دن رات کام جاری ہے۔’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۳

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!