زلیخا کی باتوں کا فائدہ یہ ہوا کہ حسن بدرالدین میں وہی ہمت عود کر آئی جس کے بل پر اس نے زندگی کے دن کاٹے تھے۔ سوچا، جو ہوا سو ہوا۔ اگر غم میں غلط کرنا منظور ہے تو بہتر ہے کہ کام میں دل لگاؤ اور اس سانحۂ عبرت خیز کو بھول جاؤ۔
یہ سوچ کر دکان کو آیا، دوستوں کو اپنا جلوہ دکھایا۔ وہ سب حسن کو دیکھ کر خوش ہوئے۔
بندو نے کہا:‘‘یار شکر ہے تو آگیا، مجھے تو فکر لگ گئی تھی کہ……کہ……’’
یہ کہہ کر ہکلایا اور خاموش ہورہا۔
حسن نے پوچھا:‘‘کہ کیا؟’’
بندو نے خفیف ہوکر گدی پر ہاتھ پھیرا اور کہا:‘‘دیکھ یار، ہماری بات اور ہے۔ ہم بھائی آدمی ہیں، گھڑے گھڑے کا پانی پیا ہوا ہے۔ ذرا چرس ورس کے سوٹے لگا لیتے ہیں تو ہینڈل کرسکتے ہیں، تو اور طرح کا ہے۔ مجھے فکر تھی کہ کہیں مجنوں بن کے تو چرس نہ شروع کردے پھر سے۔’’
حسن جو تازہ تازہ زلیخا سے اپنی تعریفیں سن کر آیا تھا، اشتیاق سے بولا:‘‘میں اور طرح کا ہوں؟ کس طرح کا ہوں؟’’
بندو نے ہچکچا کر کہا:‘‘یعنی کہ تو ذرا کیک بچہ ہے نا۔ ممی ڈیڈی ٹائپ، تو ہینڈل نہیں کرسکتا کوئی سٹرونگ چیز۔’’
حسن نے کچھ دیر اس بات پر غور کیا لیکن سمجھ نہ سکا کہ بندو تعریف کرتا تھا مضحکہ اڑاتا تھا۔ لہٰذا بات کو بدلا اور پوچھا:‘‘یہ تو بتاؤ کہ جب اس شام تم لوگ مجھے گھر لے کر گئے تھے تو کیا میں ہوش میں تھا؟’’
اس نے فوراً کہا:‘‘ہاں ہاں بالکل ہوش میں تھا۔ بول بول کے کان کھا گیا تھا ہمارے۔’’
حسن گھبرایا، دل میں سوچا، یا خدا کہیں میں فرط غم سے بے حواس ہوکر کچھ اول جلول تو نہیں کہہ گیا۔ دھڑکتے دل سے پوچھا۔‘‘کیا کہتا تھا میں؟’’
بندو نے کہا:‘‘زلیخا کے نام کی دہائی دیتے تھے۔’’
یہ سن کر حسن کو اس قدر حیرت ہوئی کہ حیطۂ تحریر سے خارج ہے۔بھونچکا ہوکر بولا:‘‘زلیخا کو پکارتا تھا؟ کیوں؟’’
بندو نے حیران ہوکر کہا:‘‘مجھے کیا پتا کیوں؟ ویسے سنا ہے کہ تکلیف میں انسان اس کو پکارتا ہے جس کے بارے میں یقین ہوتا ہے کہ آکر تکلیف دور کرے گا۔’’
یہ تازہ شگوفہ جو پھولا تو حسن اپنا رنج یک قلم بھولا۔ دل میں سوچا، آخر یہ کیا معاملہ ہے؟ کرن کے غم میں میں زلیخا کو کیوں پکارتا تھا؟ کہیں صدمے سے میرا دماغ تو نہیں الٹ گیا؟
گھبرا کر بندو سے پوچھا:‘‘ یہ تو بتاؤ کوئی اور خلافِ عقل بات پیش آئی تھی مجھ سے؟’’
وہ بولا:‘‘خلافِ عقل باتیں تو تجھ سے ہر وقت پیش آتی رہتی ہیں۔ حیرت تو تب ہوتی ہے جب تجھ سے کوئی عقل کی بات سرزد ہو جائے۔’’
حسن نے خفا ہوکر کہا:‘‘کیسی باتیں کرتے ہو؟’’
بندو نے کہا:‘‘جو بات سچ ہے وہی کرتا ہوں، تجھے کس الو کے پٹھے نے مشورہ دیا تھا کہ اس جم والے کی بیٹی پہ عاشق ہو جا، جو مانا ہوا ذلیل آدمی ہے اور جس کی لڑکے کے سو قصے مشہور ہیں۔ چل اگر عاشق ہو ہی گیا تھا تو چٹ منگنی پٹ بیاہ کرتا، چل اگر معاملہ لٹکانے کی غلطی بھی کرلی تھی تو یہ کس گدھے نے کہا تھا کہ اپنے امیر دوست سے ملوا۔ نہ صرف ملوا بلکہ اس کی گاڑی میں بھی بٹھا۔ یار حسن، تیرے سے بڑا چغد بھی کوئی ہوگا دنیا میں؟’’
اس عزت افزائی کے جواب میں حسن نے مغمول ہوکر کہا:‘‘یعنی یہ سب میری غلطی ہے؟’’
بندو نے ڈپٹ کر کہا: ‘‘سو فیصد تیری غلطی ہے اور اس سے بھی بڑی غلطی تو کرے گا اگر اس کی یاد کو دل سے لگا کے بیٹھ جائے گا۔ پہلے تو میں نے تجھے کچھ نہیں کہا لیکن اگر اب تو اس کے لیے مجنوں بنا تو اتنے جھانپڑ لگاؤں گا کہ عقل ٹھکانے آجائے گی۔’’ بندو کی لعن طعن نے وہ کیا جو زلیخا کی تسلیاں نہ کرسکی تھیں۔
حسن نے جوشِ غضب میں بھر کر بولا:‘‘وہ اس قابل کہاں کہ میں اس کے لیے مجنوں بنوں؟ جو مجھے ٹھکرا گئی، میں اس کی یاد کو ٹھکراتا ہوں، ہرگز نہ پچھتاتا ہوں۔’’
بندو نے پیٹھ ٹھونکی اور کہا:‘‘شاباش، مرد بن، کیک نہ بن، چل اب آکے ذرا کاریگروں کی خبر لے، بے کار بیٹھے ہوئے تھے تیرے پیچھے۔’’
یوں حسن سوداگر بچے نے اپنے کام میں دل لگایا اور اسی کو درد کی دوا پایا۔
٭……٭……٭