الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۴

حسن نے رنج سے کہا:‘‘ٹھیک کہتی ہو زلیخا، میرے باپ کی نصیحت تھی کہ مکار عورت پر کبھی اعتبار نہ کرنا خواہ اس کی خوبصورتی کتنی ہی بھلی لگے۔ افسوس میں نے اس نصیحت پر کان نہ دھرے۔ اس کا حسن دیکھ کر عاشق ہوگیا، سیرت کی طرف نظر ہی نہ کی۔’’
زلیخا نے آہستہ سے کہا:‘‘یہ انسانی فطرت ہے، خوبصورتی چیز کی طرف لپکتا ہے، تم خود کو blame مت کرو۔’’
حسن نے پچھتاوے سے رنجور ہوکر کہا:‘‘دوسروں کی فطرت تو میں نہیں جانتا مگر میری فطرت بہت کج فہم ہے۔ ماں باپ کے کہے کو مانتا ہی نہیں، جب تک خود ٹھوکر نہیں کھاتا، سبق ہی نہیں سیکھتا۔ اس لیے تو ٹھوکر پر ٹھوکر کھاتا ہوں۔’’
زلیخا نے تڑپ کر کہا:‘‘ایسے مت کہو، تم سے زیادہ بہادر کون ہوسکتا ہے؟ جو افتاد تم پر پڑی تھی، کسی اور پر پڑی ہوتی تو مر گیا ہوتا۔ ایک بالکل نئے زمانے میں آنا، اجنبی دنیا میں رہنا، آسان کام تو نہیں تھا، لیکن تم نے کتنی ہمت سے حالات کا سامنا کیا۔ یہ ہمت، خدا پر بھروسہ، ہر حال میں صبر و شکر کی عادت، دھن کا پکا ہونا، یہ ساری باتیں تو تم نے مجھے سکھائی ہیں حسن۔ تم نہ ہوتے، مجھے motivateنہ کرتے، میری ہمت نہ بندھاتے تو میں کبھی ڈاکٹر نہ بن پاتی، تم ہی سے تو سیکھے ہیں میں نے زندگی کے یہ سارے سبق، یہ سارے ہنر، تم کیوں اپنے آپ کو کج فہم سمجھ رہے ہو؟’’
حسن نے جب زلیخا کی زبانی اپنی تعریف سنی تو خوش ہوا۔ دل میں سوچا، مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میں اس قدر عقلمند ہوں، صاحب ِعلم و فن ہوں۔
زلیخا کہتی رہی:‘‘اس نے تمہاری قدر نہیں کی تو یہ اس کی بدقسمتی ہے، تم کیوں اس کے آئینے میں خود کو دیکھتے ہو؟ اپنی قدر و قیمت ہم سے پوچھو۔ تم نے ابا کے بزنس کے لیے، نسیمہ باجی کے لیے اور میرے لیے اتنا کچھ کیا ہے تو کیوں کیا ہے؟ کیوں کہ تمہارا دل بہت اچھا ہے، معصوم ہے، خالص ہے۔’’
حسن نے بے اختیار کہا:‘‘ اور یہی دل میں نے اس معشوقۂ سیم تن کو دیا تھا جسے اس نے جوتے کی نوک پر رکھا۔ جب تک دل چاہا، کھیلا، پھر ٹھوکر سے اڑا دیا۔’’
زلیخا نے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ کہا:‘‘دنیا ایسی ہی ہے، حسن۔ ارسلان نے بھی تو میرے ساتھ یہی کیا تھا۔ میری ذہانت، شرافت یا اچھائی سے اسے کوئی مطلب نہیں تھا۔ مطلب تھا تو صرف اس سے کہ کیا وصول ہوسکتا ہے۔’’
یہ وہ لمحہ تھا جب حسن کو عین معلوم ہوگیا کہ زلیخا کے دل پر کیا گزرتی تھی۔ ارسلان اور کرن ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے۔ جہاں فائدہ نظر آیا، وہاں سرکا لگایا، فائدے کی امید نہ رہی تو بے دردی سے رشتہ الفت توڑا، پیمان سے منہ موڑا۔ وہ خاموشٍ سے زلیخا کو دیکھتا رہا، آج اس نے صحیح معنوں میں زلیخا کے درد کو پہچانا تھا۔ ارسلان بھی زلیخا سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا، بس دل بہلانے کے لیے رکھنا چاہتا تھا اور کرن کو بھی حسن سے صرف اتنی دلچسپی تھی کہ ‘‘اس کے لیے آپ ہیں نا۔’’
زلیخا کہہ رہی تھی:‘‘اس وقت تم ہی نے تو مجھے تسلی دی تھی۔ تم ہی نے مجھے کہا تھا کہ کچھ بن کے دکھاؤں۔ کوئی دوسرا اگر دغا باز نکلا تو اس کے لیے ہم کیوں اپنی زندگی ضائع کریں؟ all the more reason کہ اپنی کامیابی سے اس کا منہ بند کریں۔’’
حسن یک ٹک زلیخا کو دیکھتا رہا، درد دل کے کیسے عجیب رشتے میں بندھے تھے وہ کہ ایک ہی غم تھا اور ایک ہی بپتا اور غیرمحسوس طریقے سے دونوں ایک دوسرے کے لیے اس درد کا درماں تھے۔
زلیخا ٹھٹکی، مسکرائی اور بولی:‘‘اور تم بالکل ٹھیک کہتے تھے حسن، اس دن جب ارسلان بینک میں ملا تھا اور اسے پتا چلا تھا کہ میں ڈاکٹر بن رہی ہوں تو تم نے اس کی شکل دیکھی تھی؟ اُف، اتنی خوشی ہوئی مجھے اس دن، مجھے لگا اس نے میری جو بے عزتی کی تھی، آج میں نے اسے لوٹا دی ہے۔’’
حسن بھی ہنس پڑا۔
زلیخا نے ہنس کر کہا:‘‘اسی لیے تو میں کہتی ہوں کہ تم نے آج تک مجھ سے جو کہا ٹھیک کہا اور مجھے تمہاری بات ماننی چاہیے۔’’
یہ کہہ کر رکی اور شرارت سے بولی:‘‘سوائے ایک بات کے۔’’
حسن نے چونک کر کہا:‘‘کون سی بات؟’’
زلیخا نے مزے سے کہا:‘‘عشق میں غش آنے والی بات، عشق میں کسی کو غش نہیں آسکتے۔’’
حسن نے اصرار سے کہا:‘‘آسکتے ہیں، مجھے بھی تو آیا تھا۔’’
زلیخا نے چونک کر کہا:‘‘کب؟ تمہیں کب غش آیا؟’’
حسن نے کہا:‘‘جب میں نے اس کے نکاح کی خبر سنی۔ غش آیا اور ایسا آیا کہ اگلے دن ہوش میں آیا۔’’
زلیخا نے حیران ہوکر کہا:‘‘کیا باتیں کررہے ہو؟ جب تم گھر آئے تو ہوش میں تھے اور مسلسل بول رہے تھے۔’’

حسن اس قدر حیران ہوا کہ اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ پوچھا:‘‘کیا بول رہا تھا؟’’
زلیخا نے یکدم نظریں چرائیں اور سرخ ہوتا چہرہ موڑ کر کہا:‘‘مم…… مجھے یاد نہیں۔’’
یہ سن کر حسن کو اور بھی حیرت ہوئی کہا:‘‘یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تمہیں یاد نہ ہو؟ آدھی رات تک تو تم میرے سرہانے بیٹھی رہی تھیں۔’’
زلیخا نے نظریں ملائے بغیر جلدی جلدی برتن سمیٹنے شروع کیے اور کہا:‘‘اُف، کتنی دیر ہوگئی ابھی مجھے ٹیسٹ کی تیاری بھی کرنی ہے، اب کافی بنا کر پیوں گی اور رات دیر تک جاگ کر پڑھوں گی۔ تمہارے لیے چائے لاؤں؟’’
حسن نے کہا:‘‘اے خاتونِ شمع قد، جو میں پوچھتا ہوں اس کا تو جواب دو۔’’
لیکن زلیخا نے یوں ظاہر کیا کہ جیسے کچھ سنا ہی نہیں۔ بعجلت تمام برتن سمیٹے اور حسن کی طرف دیکھے بغیر کمرے سے نکل گئی۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۳

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!