ایک دن حسن کو گلی میں ایک جوان آتا دکھائی دیا۔ اس پر نظر پڑی تو حسن لجۂ حیرت میں غرق ہوا کہ یا الٰہی، یہ انسان ہے یا بچہء لنگور؟ دیکھ کر صدمے سے غش آئے، بندر دیکھ پائے تو شرما جائے۔ یا اللعجب یہ کیا بو العجبی ہے؟
اتنے میں پیچھے سے کنیزِ بے تمیز آتی دکھائی دی۔ اس کو فوراً بلایا اور پوچھا:‘‘سچ کہنا، تمام عمر کبھی اس شکل و صورت کا آدمی نظر سے گزرا تھا؟ آدمی کاہے کو ہے بندر ہے، عقل اسے دیکھ کر ششدر ہے۔’’
کنیز نے گھبرا کر حسن کا بازو دبایا اور سرگوشی میں بولی:‘‘شش! چپ! یہی تو ہیں پچھلے محلے والے آفتاب بھائی۔’’
یہ سن کر حسن کو اس قدر حیرت ہوئی کہ حیطۂ تحریر سے خارج ہے۔ بے ساختہ پکار اٹھا۔
‘‘یاالٰہی یہ خواب ہے یا عالم ِبے داری؟ اللہ ری سحر کاری، لنگور کی سی وضع پائی ہے اور عاشقی کی دھن سمائی ہے؟ کجا طاؤسِ باغ کی زاغ راغ؟’’
کنیز نے سرگوشی میں کہا:‘‘پہلے اتنے برے نہیں تھے، جب سے کرن باجی کی شادی ہوئی ہے، کمزور ہوگئے ہیں۔ زیادہ لنگور لنگور لگنے لگ گئے ہیں۔’’
یہ سن کر حسن کو اس قدر رحم آیا اور اتنا ترس کھایا کہ بے اختیار آگے بڑھ کر اس مرد لنگور کے سامنے آیا۔ اگرچہ عقلاء نے رقیب سے محبت کے خلاف عقل بتایا ہے لیکن حسن کے دل میں رحم اور ہمدردی نے قبضہ جمایا اور جھپٹ کر اس مرد لنگور کوگلے لگایا اور کہا:‘‘اے پچھلے محلے والے آفتاب بھائی، میری دلی ہمدردی قبول فرمائیے کہ میں آپ ہی کی کشتی کا سوار ہوں، اس لیے دل سے آپ کا مونس و غمخوار ہوں۔’’
پچھلے محلے والے آفتاب کو یہ حرکت ذرا پسند نہ آئی۔ حسن کو چشمِ خشم آلودہ دکھائی اور ڈپٹ کر کہا:‘‘یہ کیا بدتمیزی ہے؟ پرے ہو۔’’
یہ کہہ کر حسن کو دھکا دیا اور اپنی راہ لی۔ حسن دور تک اسے جاتا دیکھتا رہا اور سر دھنتا رہا کہ واہ، خدا نے بھی اپنی قدرت سے لوگوں کو کیسے کیسے غموں میں مبتلا کیا ہے۔ ایک تو انسان کی شکل لنگور جیسی ہو، اوپر سے اس کی محبوبہ بھی اسے چھوڑ جائے۔ سبحان اللہ!
پچھلے محلے والا آفتاب تو پھر کبھی نہ دکھائی دیا لیکن حسن نہ جانے کیوں خوش خوش رہنے لگا۔ اسی خوشی کے عالم میں جب بندو نے اپنی شادی کی خوشخبری سنائی تو حسن کی طبیعت اور بھی کھلکھلائی۔
بندو نے کہا:‘‘یار حسن، توُ اس شادی کا چیف گیسٹ ہے۔ توُ نہ ہوتا تو میں آج بھی نوکری میں دھکے کھا رہا ہوتا اور میرا کمبخت سسر میری منگیتر کی کہیں اور شادی کردیتا۔’’ یہ سن کر حسن بے حد خوش ہوا کہ خدا نے یاروں کے کام آنے کا موقع دیا، بڑا کرم کیا۔
بندو کی شادی پر عاصم اور کرن بھی آئے۔ حسن نے کرن کو دیکھا کہ کاالبدر فی النجوم تھی، بڑی دھوم تھی۔ خوشبوؤں میں بسی تھی، ازسر تا پا جواہرات سے گوندنی کی طرح لدی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا بِن گہا چاند ہے، چاند بھی اس کے مقابل ماند ہے۔ اس قدر خوش و مسرور تھی کہ رہ رہ کر موتیوں سے دانت چمکتے تھے، گویا ستارے دمکتے تھے۔ نزاکت سے چلتی تھی اور اردگرد یوں غرور و تحقیر سے دیکھتی تھی گویا دنیا اس کے پاؤں کی گرد ہو، اس کے مقابلے میں سارا عالم ہیچ ہو۔
حسن نے کرن کو دیکھا۔ نہ اس کے دل میں کسی یاد نے کروٹ لی، نہ کسی درد کا احساس جاگا۔ زندگی نے ایک مرتبہ پھر اس پر احسان کیا تھا۔ عشق اور بے وفائی کا داغ اس کے دل سے اس طرح مٹا دیا تھا کہ نشان بھی نہ رہا تھا۔
اتنے میں قافلہ سالار نے روزِ عاملِ شب پر نرغہ کیا اور نیزۂ شعاعی کی چمک دمک سے دشمن کو ہٹا دیا۔ شہرزاد نے کہ تمام شب بیدار رہی تھی، بستر استراحت پر آرام فرمایا اور بادشاہ نماز صبح ادا کرکے دیوانِ خاص میں آیا۔
(باقی آئندہ)