الف — قسط نمبر ۱۲ (آخری قسط)

”تم اُداس کیوں ہو؟” سینما سے واپس جاتے ہوئے گاڑی میں اقصیٰ نے مومنہ سے پوچھا تھا۔
”تمہارے لیے۔ ”اُس نے بات بدلنے کی کوشش کی اور اقصیٰ جیسے اُس کے جھانسے میں آگئی۔ اُس نے مومنہ کے گلے میں بازو ڈال کر اُسے ساتھ لگانے کی کوشش کی اور گاڑی جسے وہ چلا رہی تھی وہ ذرا سی ڈگمگائی۔
”اوہ یار بس کرو۔۔۔ دبئی اتنی دور نہیں ہے۔ میں مایوں چھوڑ کر تمہاری فلم کا پریمیئر دیکھنے آئی ہوں نا اسی طرح دبئی سے بھی آ جاؤں گی۔” اُس نے اپنے مہندی سے سجے ہوئے ہاتھ لہراتے ہوئے مومنہ کو تسلی دی تھی۔
”صرف میری نہیں داؤد کی فلم کا پریمیئر تھا۔” مومنہ نے اُس سے کہا۔
”بکواس مت کرو۔۔۔داؤد کو تو سوبار انکار کردیتی تمہیں نہیں کرسکتی تھی۔۔۔ اتنی اچھی کمپنی میں جاب ملی ہے داؤ کو دبئی میں۔۔۔ ورنہ میں اور وہاں کہاں جاتے پاکستان چھوڑ کر۔۔۔ اور خاص طور پر تمہیں چھوڑ کر۔ یہ فلم کا رزق بڑا ہوائی رزق ہے ہوا ہوا۔۔۔ نہ ہوا نہ ہوا۔۔۔ ہم مومنہ سلطان تو ہیں نہیں کہ آسکر تک جاپہنچیں۔” اقصیٰ اُس سے کہہ رہی تھی۔ پھر اُس نے یک دم مومنہ سے کہا۔
”تمہاری اور مومن کی کوئی بات نہیں ہوئی؟”
”کس سلسلے میں؟”
”شادی کے بارے میں اور کس بارے میں؟” اقصیٰ نے اُس کا مذاق اُڑایا تھا۔
”تم بھی۔۔۔ اقصیٰ۔۔۔ بالکل gone case ہو کیا بات ہورہی ہے کہاں لے گئی ہو۔” مومنہ نے اُسے ڈانٹا تھا۔
”میرے گلے لگ کر روئی تھی تم کہ اُس سے پیار کرنے لگی ہو اور داؤد کہتا ہے مومن ہر وقت فلم کی ایڈیٹنگ میں مومنہ کے فرمیز دیکھتا رہتا ہے اُسے اس فلم میں مومنہ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔”
”کیوں کہ فریمز میں میں حسنِ جہاں کے گیٹ اپ میں ہوتی تھی اور اُسے مجھ میں حسنِ جہاں نظر آتی تھی۔۔۔ اب ڈاراپ کر دو مجھے۔ گھر آگیا ہے میرا۔” مومنہ نے اُسے ٹوکا تھا اور اپنا بیگ اُٹھا کر اُترنے کے لئے تیّار ہوگئی تھی۔
”میری بات پر غور کرنا۔”اقصیٰ پھر بھی کہے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔ مومنہ خاموش رہی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”جہانگیر سے ملنا چاہیے تھا تمہیں وہ تو یہ فلم دیکھو لیتا تو بس fan ہوجاتا تمہارا۔” اندر لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے مومنہ نے ثریا کی آواز سُنی تھی اور لاؤنج میں چلتے ہوئے LCD پر الف کی چلتی ہوئی فلم۔
”مومنہ نے کیا پرفارمنس دی ہے لگتا ہی نہیں کہ حسنِ جہاں نہیں ہے وہ۔” اُس نے سلطان کو کسی سے کہتے سُنا تھا اور پھر اُس نے قلبِ مومن کی پشت دیکھی تھی۔ وہ اُن کے ساتھ بیٹھا ہوا فلم دیکھ رہا تھا اور وہی اُس کی کاپی وہاں لے کر آیا ہوگا۔
مومنہ دبے پاؤں وہاں رُکے بغیر اپنے کمرے میں آگئی تھی یوں جیسے یہ چاہتی ہی نہ ہو کہ وہ اُسے دیکھیں۔
اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی اُس نے سامنے پڑے vase میں دو سفید گلاب دیکھے تھے۔ وہ ٹھٹک کر رُک گئی پھر اُن کی طرف گئی۔ وہ تازہ تھے۔
”آج زیادہ لانا چاہتا تھا مگر سوچا تمہارے لیے تو دو بھی کافی ہیں۔” اُسے اپنے عقب میں قلبِ مومن کی آواز سُنائی دی تھی۔ وہ بے اختیار پلٹی۔
”تمہیں کیسے پتہ چلا میرے آنے کا۔” اُس نے بے اختیار مومن سے پوچھا تھا۔
”جیسے سینما سے تمہارے جانے کا پتہ چل گیا تھا۔ ”مومن نے بے اختیار کیا۔ چند لمحے دونوں خاموش رہے پھر مومنہ نے کہا۔
”Congrats۔۔۔ الف ہٹ ہوگئی۔۔۔ شرط جیت لی تم نے۔آج سینما میں بہت بڑے investor مل رہے تھے تم سے۔۔۔ اگلے پروجیکٹ کے لیے نا؟”
”میں کل ترکی جارہا ہوں۔” اُس کی بات کاٹ کر اُس نے مدھم آواز میں کہا تھا۔
”کس لیے؟” وہ حیران ہوئی۔
”ہمیشہ کے لیے۔”
”لیکن تم تو۔۔۔ فلم فلاپ ہوجاتی تو۔” اُس نے ایک بار پھر مومنہ کی بات کاٹ دی۔
”اب فرق نہیں پڑتا۔۔۔ یہ جو سکون آیا ہے نا اتنے سالوں میں میرے اندر اس کو کھونانہیں چاہتا میں۔ قلبِ مومن کی جگہ کوئی بھی لے سکتا ہے مگر عبدالعلی کی جگہ صرف قلبِ مومن لے سکتا ہے۔” اُس نے کہا تھا۔ ایک گہرا سانس لے کر مومنہ نے کہا۔
”ٹھیک فیصلہ کیا۔” چند لمحے کے توقف کے بعد اُس نے کہا۔
”میں نے دُعا کی تھی فلم فلاپ ہوجائے۔” وہ مسکرا دیا تھا۔
”میں جانتا ہوں۔” مومنہ چند لمحے کھڑی رہی پھر اُس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل کا دراز کھول کر اُس میں سے ایک چابی نکالی اور اُسے لا کر مومن کی طرف بڑھا دی۔
”یہ تمہاری امانت۔۔۔ ماسٹر صاحب کے گھر چابی۔۔۔” مومن نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر وہ چابی اُس کی ہتھیلی پر رکھی اور اُس کی مٹھی بند کرتے ہوئے کہا۔
”یہ وہ تمہارے لیے چھوڑ کر گئے تھے۔ میرے لیے کچھ دوسرااثاثہ چھوڑا تھا۔”
مومنہ نے ہونٹ بھینچے وہ رونا چاہتی تھی۔
”تم میرے ساتھ چلو گی؟” اس نے ایک دم پوچھا تھا۔ مومنہ نے چونک کر اُس کو دیکھا پھر نفی میں سر ہلا دیا۔
”کیوں؟” وہ بے قرار ہوا۔
”ماسٹر صاحب کا گھر ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا، وہ کام جو حسنِ جہاں نے شروع کیا تھا وہ بھی تو کسی کو سنبھالنا ہے۔” اُس نے مدھم آواز میں مٹھی میں دی گئی چابی دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”تم دور رہ کر بھی۔۔۔” مومن نے کچھ کہنا چاہا مومنہ نے روک دیا۔
”مومن میں طہٰ اور حسنِ جہاں کی کہانی دوبارہ دہرانا نہیں چاہتی۔۔۔
رومی کہتا ہے نا۔۔۔ صحیح اور غلط کی حد سے پرے میں تمہیں ایک اور جہاں ملوں گا۔ تم اور میں بھی کسی اور جگہ کسی اور جہاں میں ملیں گے۔” وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”وہ جگہ یہ بھی ہوسکتی ہے۔ وہ وقت اب کا بھی ہوسکتا ہے۔ صحیح اور غلط تو جان ہی لیا ہے ہم دونوں نے۔” مومن نے کہا تھا۔
”تمہیں توفیق مل گئی ہے تم جاؤ۔۔۔ میں راستے میں ہوں۔ مجھے سفر کرتا ہے۔” اُس کی آنکھوں میں پانی اُترنے لگا تھا۔ مومن خاموش رہا تھا۔ دو دونوں چپ چاپ ایک دوسرے کو دیکھتے رہے تھے۔
”میں انتظار کروں گا۔۔۔ جب تم تھک جاؤ اور تمہیں vase کے بجائے بالوں میں سفید گلاب لگاتے ہوں تو تم آجاتا، قلبِ مومن صرف مومن بن کر جارہا ہے۔ قلب تمہارے پاس چھوڑے جارہا ہے۔” مومنہ نے اُس کا ہاتھ پکڑے ہوئے کوئی چیز اُسے تھماتے ہوئے کہا تھا۔ مومنہ کے حلق میں آنسوؤں کا پھندا لگا تھا۔
”یہ کیا ہے؟” اُس نے اُس چیز کو دیکھا جو مومن نے اُس کے ہاتھ پیر رکھی تھی۔
”دادا کے گھر کی چابی تاکہ تمہیں دروازے پر کھڑے رہ کر انتظار نہ کرنا پڑے۔” اُس نے کہا تھا۔
مومنہ نے اُس کا چہرہ دیکھا، وہ آنسوؤں میں دھندلایا ہوا تھا۔ کچھ بھی کہے بغیر وہ اُس سے لپٹ کررونے لگی تھی۔ قلبِ مومن بھی اُسے اپنے بازوؤں کے حصارمیں لیے رو رہا تھا۔
٭…٭…٭
عبدالعلی کا گھر تاریک اور ایک عجیب سی اُداسی میں لپٹا ہوا تھا۔ سورج غروب ہورہا تھا جب قلبِ مومن وہاں پہنچا تھا۔ پورا گھر گردوغبار سے اٹا ہوا تھا۔ مین سوئچ آن کرنے کے بعد اُس نے لائٹس آن کرنی شروع کردی تھیں۔ گھر آہستہ آہستہ روشن ہونا شروع ہوگیا تھا رات ہوجانے سے پہلے ہی۔
وہ چلتا ہوا اُس کمرے میں آیا تھا جہاں دادا پینٹ کرتے تھے۔ وہ کمرہ ویسا ہی تھا۔ کچھ مکمل کچھ آدھی پینٹنگز اور رنگ برش۔۔۔ ہر چیز پر گرد کی ایک تہہ تھی۔ اُس کے کانوں میں کہیں ایک سرگوشی گونجی تھی اُسی مانوس شفیق آواز میں۔
”تمہارا نام قلبِ مومن ہے۔ تمہارا خاندان محقق خطاطی کرتا ہے پچھلی دس نسلوں سے گیارھویں نسل تم ہو قلبِ مومن اور تم بھی آیات ہی لکھو گے۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور ثنائی بیان کرنا تمہارے خون اور genes میں ہے۔ میرے بعد تم آؤ گے یہاں۔”
وہ ہولے سے ہنسا تھا، سامنے دیوار پر اُس کے باپ کی وہ ادھوری خطاطی لگی ہوئی تھی۔
اللہ نور السموت والارض
مومن اُس خطاطی کے پاس گیا۔ اُس نے انگلیوں کی پوروں سے اُس پر جمی گرد کو چھوا اُس پر طہٰ عبدالعلی کا نام نہیں تھا۔ اُس پر قلب مومن کا نام لکھا جانا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۱۱

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!