ماسٹر ابراہیم کے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔ مومنہ حیران ہوئی تھی۔
”پتہ نہیں کیوں بند ہے یہ تو نماز کا وقت بھی نہیں ہے۔ میں پوچھتی ہوں ہمسایوں سے۔”
مومنہ نے مومن سے کہا تھا۔ وہ دونوں صبح سویرے ہی ماسٹر ابراہیم کے گھر آگئے تھے لیکن دروازے پر تالا تھا۔
مومنہ نے ماسٹر ابراہیم کے گھر کے ساتھ والے گھر پر بیل دینا چاہی مگر اُس سے پہلے ہی دروازہ کھول کر ساتھ والوں کا لڑ کا باہر نکل آیا تھا جو مومنہ کی وہاں آمدورفت کی وجہ سے اُس سے واقف تھا۔
”یہ ماسٹر صاحب کہاں ہیں؟” مومنہ نے عادل سے پوچھا تھا۔
”مومنہ باجی اُن کا تو شام کو انتقال ہوگیا اور رات ہی کو دفنا دیا اُنہیں۔” عادل نے بے حد افسردگی سے کہا تھا اور مومنہ اور قلبِ مومن شاکڈ رہ گئے تھے۔ مومنہ کو لگا جیسے کسی نے اُس کی جان نکال دی تھی۔
”طبیعت خراب ہوئی تو مجھے بلایا انہوں نے۔ میں ہی ہاسپٹل لے کر گیا تھا اُنہیں لیکن بس ہارٹ اٹیک ہوا اور ختم ہوگئے۔ گھر کی چابی مجھے دی تھی انہوں نے کہ مومنہ آئے گی تو اُسے دے دوں۔ میں لاتا ہوں اندر سے۔۔۔ آپ کا نمبر نہیں ملا مجھے ورنہ آپ کو بھی اطلاع کرتا۔”
عادل کہتا ہوا اندر چلا گیا تھا۔ مومنہ نے قلبِ مومن کو دیکھا اُس کا چہرہ سُتا ہوا تھا۔
وہ جو پردہ عبدالعلی نے رکھا تھا وہ پردہ رب نے بھی ہٹنے نہیں دیا تھا۔ نہ ماسٹر ابراہیم کا ۔۔۔نہ عبدالعلی کا۔۔۔ نہ حسنِ جہاں کا۔۔۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ماسٹر ابراہیم کے کمرے کا دروازہ قلبِ مومن نے کھولا تھا اور پھر مومنہ کو پہلے اندر جانے کے لیے رستہ دیا۔ مومنہ بہت غم زدہ اندر داخل ہوئی تھی۔ قلبِ مومن نے کمرے میں آتے ہی ماسٹر ابراہیم کی جوانی کی بہت ساری تصویریں دیواروں پر دیکھی تھیں۔ وہ وہی شخص تھا جسے اُس نے عبدالعلی کے گھر پر حسنِ جہاں کے ساتھ دیکھا تھا۔ ملال بڑھا تھا۔
مومنہ اُس میز کی طرف گئی جہاں وہ پینٹنگ پڑی تھی جسے وہ کل اُسے دکھا رہے تھے اور اُن پینٹنگ کے پاس رول کی ہوئی دوسری کچھ تصویریں بھی۔ مومنہ اُس میز کے پاس پڑی کُرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ اُس فریمڈپینٹنگ کے اوپر ایک کاغذ تھا اور اُس کا غذ کی تحریر کو مومنہ نے خاموشی سے پڑھنے کے بعد قلبِ مومن کی طرف بڑھایا تھا۔ قلبِ مومن نے وہ کاغذ اُٹھا کر دیکھا تھا۔
”میرے بیٹے قلبِ مومن کے لیے”
وہ ماسٹر ابراہیم کے ہاتھ کی تحریر تھی۔ قلبِ مومن کی آنکھوں میں پانی آیا۔ اُس نے آنکھیں رگڑیں۔
”اور اللہ جسے چاہتا ہے چُن کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔۔۔یہ تمہارے لیے ہے یہ ساری پینٹنگز۔’ ‘
مومنہ نے اُس فریمڈ پینٹنگ کی آیت کا ترجمہ پڑھتے ہوئے اُسے قلبِ مومن کی طرف بڑھا دیا تھا۔ وہ پینٹنگ پکڑے ہوئے دوسری کُرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ اُس آیت پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اُس نے عبدالعلی کا نام دیکھ لیا تھا۔ وہ اب اُن کا کام پہچان سکتا تھا۔
”عبدالعلی صاحب نے تمہاری ممّی کو تحفے میں دی تھی یہ خطاطی جب ماسٹر صاحب سے اُن کی شادی ہوئی تھی۔” مومنہ نے بتایا تھا۔ پھر رول ہوئی ایک پینٹنگ اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”اسے تم پہچان لو گے۔” مومن نے اُس رول کی ہوئی پینٹنگ کو کھولا۔ اُس پینٹنگ پر حسنِ جہاں رقصاں تھی۔ وہ اُن ہی تصویروں میں سے ایک تھی جو اُس نے بچپن میں اپنے گھر کی دیواروں پر لگی دیکھیں تھیں۔ وہ پلک جھپکتے میں اُسے پہچان گیا تھا۔ اُس پینٹنگ پر طہٰ عبدالعلی کا نام لکھا ہوا تھا۔ قلبِ مومن نے افسردہ مسکراہٹ کے ساتھ اُس نام کو چھوا۔ مومنہ اُسے بتا رہی تھی وہ پینٹنگز ماسٹر ابراہیم کے پاس کیسے آئی تھیں۔
”باہر صحن میں کبوتر بیٹھے ہیں۔ اُنہیں دانہ اور پانی ڈال آؤں۔” وہ کہتے ہوئے اُٹھ کر باہر چلی گئی تھی۔
قلبِ مومن اُن سب تصویروں کو کھول کھول کر دیکھتا رہا اور اُنہیں دوبارہ اُسی طرح رول کرکے رکھتا رہا۔ وہ اُس کے ماں باپ کی داستان محبت تھی۔ دہائیوں کے سفر کے بعد بھی وہیں تھی۔ کسی نہ کسی کے ہاتھ سے گزرتے اُس تک واپس پہنچ گئی تھی۔
آخری تصویر رول کرکے رکھتے ہوئے اُسے میز پر بڑے سائز کا ایک البم نظر آیا تھا۔ اُس نے وہ الیم اُٹھا کر کھول لیا۔
پہلی ہی تصویر حسنِ جہاں اور ماسٹر ابراہیم کی شادی کی تصویر تھی۔ قلب مومن کے ہونٹوں پر مدھم مسکراہٹ آئی۔ اُس نے صفحہ پلٹ دیا۔ وہ ماسٹر ابراہیم کے ساتھ حسنِ جہاں کی تصویریں تھیں۔ اُس کی یورپ میں گزاری ہوئی آسودہ اور خوشحال زندگی کی جھلکیاں۔۔۔ مہنگی گاڑیوں اور ہوٹلز میں گزارے ہوئے لمحے۔۔۔ اٹلی میں اُن کے گھر کے لان میں چائے پیتے ہوئے حسنِ جہاں اور ماسٹر ابراہیم کی زندگی کا سکون۔۔۔
”میں بہت خوش ہوں ماسٹر ابراہیم صاحب آپ نے میری ماں کو وہ سب کچھ دیا جو میں اور بابا نہیں دے سکے۔۔۔ آپ نے اُنہیں خوش رکھا۔” البم کے صفحات پلٹتے ہوئے بڑبڑایا تھا۔
اُسے اپنا سکرپٹ ایک بار پھر تبدیل کرنا تھا۔
وہ قلبِ مومن کی کہانی نہیں تھی وہ حسن جہاں سے حُسنہ بننے تک کے سفر کی کہانی تھی۔
٭…٭…٭
آٹھ مہینے بعد
”مومنہ آٹو گراف پلیز، میڈم ایک سیلفی، مومنہ I Love you.۔” میڈیا کے نمائندوں، فوٹوگرافرز اور سینما میں آئے ہوئے لوگوں کی بھیڑ اور تالیوں میں الف کے پریمیئر کے لیے ریڈکارپٹ کی طرف جاتے ہوئے مومنہ سلطان نے رک کر ایک فین کی شرٹ کے بازو پر آٹوگراف دیتے ہوئے اس ساری بھیڑ میں کہیں قلبِ مومن کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی اور اس کی کوشش ناکام نہیں رہی تھی وہ کسی چینل کو انٹرویو دے رہا تھا جب اس نے مومنہ کو دور سے آتے دیکھا تھا۔ اتنی دور سے بھی دونوں جانتے تھے انہیں کسی کی تلاش تھی۔ بات مختصر کرتے ہوئے وہ بھیڑ میں سے راستہ بناتے ہوئے اس کی طرف آیا تھا کچھ کہے بغیر وہ اس کے ساتھ چل پڑی تھی۔ سکیورٹی کے لوگوں نے اب انہیں سینما کے اس حصے میں بھیجتے ہوئے باقی لوگوں کا داخلہ وہاں بند کر دیا تھا جہاں اب الف کی کاسٹ اور پروڈکشن ٹیم گیلری میں داخلے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔
مومنہ نے قلب مومن کے ساتھ چلتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”نروس ہو؟” قلب مومن گردن موڑ کر اسے دیکھتے ہوئے مسکرایا۔
”زندگی میں پہلی بار نہیں۔”
”میں ہوں۔” مومنہ نے کہا تھا۔
”کیوں؟” مومن حیران ہوا تھا۔
”فلم ہٹ ہو گئی تو تم یہیں رہو گے۔ فلاپ ہو گئی تو ترکی چلے جاؤ گے سب کچھ چھوڑ کر کیلی گرافی کا سکول بناؤ گے اور کیلی گرافر بنو گے تمہارے اور عبدالعلی کے درمیان یہی طے ہوا تھا نا؟” مومنہ نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے کہا تھا۔
”ہاں۔۔۔ تم کیا چاہتی ہو؟ فلم ہٹ ہو یا فلاپ؟” قلبِ مومن نے اس سے پوچھا تھا۔وہ مسکرا رہا تھا۔
”وہ ہو جو تمہارے حق میں بہتر ہے۔”
اس نے جواباً کہا تھا۔ قلبِ مومن نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے سرہلایا۔ پھر اس کا ہاتھ پکڑا تھا گیلری میں داخل ہونے کے لیے کسی ساتھی کی طرح۔ مومنہ نے ہاتھ پر اس کا لمس محسوس کیا تھا۔ دل کو اداسی نے جکڑا تھا۔ وہ اس سے ہاتھ چھڑانا چاہتی تھی۔ وہ اپنی عادت خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔ شو شروع ہونے والا تھا۔
٭…٭…٭
ڈھائی گھنٹے کی اس فلم میں ہال میں تالیاں سسکیاں گونجتی رہی تھیں۔ وہ قلبِ مومن کی پہلی فلم تھی جس میں ہال میں لوفرانہ سیٹیاں نہیں بجی تھیں نہ عامیانہ جملوں اور مذاق پر نوجوانوں کے فلک شگاف قہقہے اور بے ہودہ جملے۔
وہاں بیٹھی ہوئی audienceجیسے کسی ٹرانس میں تھی اور ٹرانس میں ہی رہی تھی۔ وہ بلاشبہ قلبِ مومن کا شاہکار تھا جس میں مومنہ سلطان نے جان ڈالی تھی۔
شو ختم ہوتے ہی اس سپیل پریمیئر کی audience نے ہال میں کھڑے ہو کر تالیاں بجانی شروع کی تھیں اور وہ تالیاں بہت دیر تک نہیں تھمیں اور جب تھمنا شروع ہوئی تھیں تو مومنہ سلطان نے جرنلٹس اور میڈیا کے لوگوں کو مکھیوں کی طرح قلبِ مومن کو گھیرتے دیکھتا ایسے ہی ایک ہجوم نے مومنہ سلطان کو گھیر لیا تھا۔ وہ دونوں اب ایک دوسرے سے بہت دور تھے اور ان کے گرد جو لوگ تھے وہ انہیں اور دور لیے جا رہے تھے۔
ہال سے نکلنے والے تماشائیوں سے میڈیا والے فلم کے بارے میں رائے لے رہے تھے اور ان کے جملے مومنہ سلطان کو وقفے وقفے سے سنائی دے رہے تھے۔
”Oh I can’t describe it in words. I just hugged my mother while watching it.”
وہ ایک سترہ اٹھارہ سال کی برگر بچی تھی ۔
””بیوی کو منانے جا رہا ہوں سیدھا یہاں سے ضمیر جگا دیا میرا اس فلم نے۔” وہ ستائیس اٹھائیس سال کا ایک نوجوان تھا جو ایک میڈیا والے کو شرمندہ مسکراہٹ سے بتا رہا تھا۔
”کچھ لوگوں کو معاف کر دیا۔ فلم دیکھتے ہوئے۔ کچھ کو معاف کرنے جا رہی ہوں۔ کوئی ایسے بات سمجھائے تو کیوں سمجھ نہ آئے۔” وہ ایک شادی شدہ عورت تھی جو آنکھیں رگڑتے اور ساتھ ہنستے ہوئے کہہ رہی تھی۔
اس ساری آوازوں کے بیچ میں مومنہ سلطان نے ایک بار مومن کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے گرد بڑھتا ہجوم اب بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ وہ قلب مومن کی چوتھی ہٹ فلم تھی اور سب سے بڑی ہٹ۔ وہ واقعی جس چیز کو ہاتھ لگا دیتا تھا وہ سونا بن جاتی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});