الف — قسط نمبر ۱۲ (آخری قسط)

”ابّا آج میں حسنِ جہاں کے شوہر سے مل کر آئی ہوں۔” سلطان لاؤنج میں آتے ہوئے چلنا بھول گیا تھا۔ اُس نے بے یقینی کی کیفیت میں مومنہ کو دیکھا تھا۔ جو ابھی گھر آئی تھی۔
”کون۔۔۔؟ کون ہے وہ؟” اٹکتے ہوئے اُس نے پوچھا تھا۔
”وہی ماسٹر ابراہیم صاحب جن کے پاس میں جاتی ہوں۔ عبدالعلی صاحب نے ان ہی سے شادی کروائی تھی اُن کی۔” مومنہ نے مدھم آواز میں کہا۔
سلطان کے چہرے کی رنگت بدلی تھی۔
”اور حسنِ جہاں۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ مر گئی نا؟” اٹکتے ہوئے سلطان نے یوں پوچھا تھا جیسے سوال کا جواب وہ پہلے ہی جانتا تھا۔ مومنہ نے آنکھوں میں چمکتے پانی کے ساتھ نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”نہیں وہ حُسنہ بن گئی۔” سلطان کے ہونٹ پھڑپھڑانے لگے پھر اُس کی آنکھیں برسنے لگی تھیں۔ مومنہ کی آنکھوں کی طرح۔
٭…٭…٭
قلبِ مومن کے ہاتھ میں وہ خط لرزنے لگا تھا پھر اُس پر اُس کے آنسو گرنے لگے تھے۔ اُس کے سامنے میز پر خطوں کا ایک ڈھیر تھا جو وہ پڑھ رہا تھا اور یہ وہ آخری خط تھا جس کے بعد دادا اُس کی زندگی میں آئے تھے اور وہ سارے خط اتنے سالوں سے سلطان کے پاس پڑے رہے تھے۔
اُس نے اُس خط پر لکھے ہوئے اپنی ماں کے نام کو انگلیوں سے چھوا تھا پھر ہونٹوں سے اُس نے لکھا تھا وہ طہٰ کو حسنِ جہاں سے زیادہ پیار کرتا تھا۔ اُس نے یہ بھی لکھا تھا کہ اُس نے طہٰ کے لیے اللہ کو خط لکھ دیا ہے وہ حسنِ جہاں کے لیے کبھی نہیں لکھے گا۔ وہ ماں کو کیا بتاتا وہ حسنِ جہاں کے لیے اللہ کو کتنے خط لکھتا رہا تھا۔۔۔ کتنے خط۔۔۔ وہ حسنِ جہاں کو کیا بتاتا وہ اُس کی جانِ جہاں تھی۔۔۔ قلبِ مومن اُس کے لیے کچھ بھی کرسکتا تھا۔ قلبِ مومن جو کر سکتا تھا اُس نے کردیا تھا۔
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”دادا۔۔۔ دادا۔۔۔ ممّی آئی ہیں کیا مجھے ناصر نے بتایا ہے۔”
اپنی سائیکل تقریباً پھینکتے ہوئے وہ ایک ہی چھلانگ میں سُرخ چہرے اور پھولے ہوئے سانس کے ساتھ برآمدے میں کھڑے عبدالعلی کے پاس آیا تھا۔اُسے ہمسائے میں رہنے والے کسی دوست نے حسنِ جہاں کے آنے کی خبر دی تھی اور قلبِ مومن خوشی سے پاگل ہوگیا تھا۔
لیٹر باکس میں اللہ کو بھیجے ہوئے خط کا جواب اتنی جلدی آئے گا اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
”مومن ایک بات بتاؤ۔” دادا نے اُسے اندر جانے سے روکتے ہوئے اُس سے پوچھا تھا۔ وہ بے حد سنجیدہ تھے۔
”تم اپنی ممّی سے کتنا پیار کرتے ہو؟” اُس نے اُن کو اُلجھ کر دیکھا تھا پھر بازو پھیلا دیئے۔
”اتنا ڈھیر سارا” دادا نے جیسے مطمئن ہوتے ہوئے سر ہلایا۔
”پھر تم اُن کے لیے ایک کام کرسکتے ہو؟” دادا نے اُس سے پوچھا تھا۔
”کیا؟” مومن نے فوراً کیا تھا۔ اُسے یقین تھا وہ اُسے جنگل سے پھول لانے بھیجیں گے وہ بھاگ کر لے آئے گا ہوا کی رفتار سے سائیکل چلاتے ہوئے۔ یا پھر کھانے کی چیزیں منگوانے کے لیے بھیجیں گے وہ وہ بھی بھاگ کر لائے گا بیکری سے۔۔۔ ڈھیر ساری چیزیں جو ممّی کو پسند تھیں۔ مومن نے دل ہی دل میں فہرست بنائی تھی۔
”تم اُن سے مت ملو۔۔۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے آئی ہیں ابھی چلی جائیں گی۔” عبدالعلی نے اُس سے کہا تھا۔ قلبِ مومن کا چہرہ پھیکا پڑا۔
”لیکن کیوں نہ ملوں؟” وہ بے چین ہوا۔
”کیوں کہ تم اگر اُن سے ملو گے تو وہ اُس انکل کے ساتھ نہیں جائیں گی جن کے ساتھ اُن کی شادی ہوئی ہے۔” انہوں نے اُس سے کہا تھا۔
”شادی؟” مومن نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں کہا تھا۔
”ہاں تم چاہتے تھے تاکہ تمہاری ممّی کے پاس بہت ساری چیزیں ہوں۔ بہت سارے کپڑے، زیور۔۔۔ سب کچھ۔۔۔” عبدالعلی نے عجیب بہلانے والے انداز میں اُس سے پوچھا تھا۔
”ہاں۔” بے حد سادگی سے اُس نے سر ہلایا تھا۔
”تو پھر تم میری بات مان لو۔” عبدالعلی نے اُس سے کہا۔
”اور اگر میں اُن سے نہیں ملوں گا تو اُن کے پاس سب کچھ آجائے گا؟” مومن نے یک دم پوچھا تھا عبدالعلی نے سر ہلایا تھا۔
” اور ممّی کبھی روئیں گی بھی نہیں؟” مومن نے مزید سوال کیا تھا۔
”نہیں روئیں گی اور ہمیشہ خوش رہیں گی۔۔۔ تم چاہتے ہو نا وہ ہمیشہ خوش رہیں؟” عبدالعلی نے اُس سے پوچھا تھا۔ مومن کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ اُس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ آنسو اُس کے سر کی جنبش سے گالوں پر لُڑھکے تھے۔ عبدالعلی نے اُسے تھپکا تھا۔
”دادا کیا میں ایک بار اُنہیں دیکھ سکتا ہوں۔۔۔؟ دور سے؟” اُس نے بھرائی ہوئی آواز میں دادا سے پوچھا تھا۔ ایک لمحہ کی ہچکچاہٹ کے بعد عبدالعلی نے کہا تھا۔
”ہاں لیکن تم روؤو گے نہیں۔” مومن نے برق رفتاری سے سر ہلاتے ہوئے اپنے آنسو آنکھوں سے رگڑے تھے۔
”نہیں روؤں گا۔” اُس نے بھرائی ہوئی آواز میں وعدہ کیا تھا۔
٭…٭…٭
باہر کی کھڑکی سے قلبِ مومن نے حسنِ جہاں کو اُس کے شوہر کے ساتھ عبدالعلی کے گھر میں پڑے ایک لکڑی کے صوفہ پر بیٹھے دیکھا تھا۔ وہ بے حد خوش و خرم لگ رہی تھی۔ بے حد خوب صورت کپڑوں میں ملبوس کچھ زیورات پہنے ہوئے اور پھول لگائے ہوئے بالکل ویسے ہی جیسے وہ کبھی اُس کے بابا کے لیے تیار ہوکر لگایا کرتی تھیں۔
کھڑکی سے صرف اُس کا سر اور آنکھیں ہی اوپر تھیں۔ وہ پورا سر نکالتا تو سامنے بیٹھی ہوئی حسنِ جہاں کو نظر آجاتا اور دادا نے اس سے کہا تھا پھر وہ اُسے چھوڑ کر نہیں جائے گی اور پھر وہ دوبارہ اُداس رہتی اور روتی اور اُن کے پاس وہ ساری چیزیں بھی نہ ہوتیں جو اب تھیں۔
قلبِ مومن پلکیں جھپکائے بغیر اُسے دیکھتے ہوئے جیسے سارے حساب کتاب کر رہا تھا۔ ماں اچھی لگ رہی تھی۔۔۔ بہت اچھی اسی طرح جیسے وہ تھی اور اُسے پروا نہیں تھی کہ وہ ساتھ والا آدمی اُس کے باپ کی جگہ لے چکا تھا۔ وہ بس ماں کے لیے خوش تھا مگر غم زدہ بھی۔ اُس کا دل بے اختیار ماں کو آواز دینے کے لیے چاہا تھا مگر شیشے سے اُس کی آواز حسنِ جہاں تک پہنچ نہیں سکتی تھی۔ اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرنے اور دُھندلانے لگیں تھیں اور پھر اُس نے بالآ خر پلکیں جھپکا کر آنسو گراتے ہوئے حسنِ جہاں کو نظروں سے اوجھل ہونے دیا۔ کھڑکی سے نیچے زمین پر بیٹھ کر وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ ڈھانپ کر پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا۔
اُسے اب اللہ کو کبھی کوئی خط نہیں لکھنا تھا۔
٭…٭…٭
تاش کے پتوں کی طرح قلبِ مومن نیم تاریک سٹوڈیو میں بیٹھا اُن خطوں کو ایک کے اوپر ایک رکھ رہا تھا۔ یوں جیسے وہ کوئی کھیل کھیل رہا تھا۔ اُس کی آنکھیں نم تھیں سُرخ اور سوجی ہوئی جیسے بہت دیر تک برستی رہی ہوں۔
الف کی کہانی جہاں ختم ہورہی تھی وہیں سے شروع ہورہی تھی۔
٭…٭…٭
”تم ماسٹر ابراہیم کو جانتی ہو نا؟”
مومنہ نے قلب مومن کا نام دیکھ کر کال ریسیو کی تھی اور اُس کے پہلے سوال پر ہی وہ چُپ ہوگئی تھی۔
”ہاں۔” کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اُس نے قلبِ مومن سے کہا۔
”میرے اُستاد ہیں وہ اور تمہارے دادا نے اُنہیں سے شادی کروائی تھی تمہاری ممّی کی۔” وہ کچھ دیر خاموش رہا تھا پھر اُس نے کہا۔
”میں کل ملنا چاہتا ہوں اُن سے۔۔۔ تم ساتھ چلو گی یا ایڈریس دو گی؟”
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۱۱

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!