اُن کے گھر داخل ہوتے ہوئے مومنہ کے کانوں میں ماسٹر ابراہیم کی آواز گونج رہی تھی۔
”میں نے کہاں آنا تھا پاکستان۔۔۔ جوانی میں بھاگا تھا یہاں سے یورپ کے چکر میں۔۔۔پر بس پہلے عبدالعلی صاحب کی صحبت ملی پھر حُسنہ کا ساتھ تو دُنیا اور آخرت دونوں سنور گئیں میری۔” انہوں نے اُسے ایک بار بتایا تھا۔
”ایک عورت کے کہنے پر چل پڑے آپ پاکستان؟” مومنہ کو تجسس ہوا تھا۔
”نیک عورت کے کہنے پر۔” انہوں نے جواباً عجیب تعظیم کے ساتھ حُسنہ کا ذکر کرنا شروع کردیا تھا۔
”نیک عورت کا ساتھ بادشاہ ہوں کو بھی نصیب نہیں ہوتا۔۔۔ میں سوچتا ہوں میں نے کیا نیکی کی کہ اللہ نے مجھے اس نعمت کے لائق سمجھا۔” ماسٹر ابراہیم اُس کا ذکر کرتے ہوئے ہمیشہ ایسے ہی اشکبار ہوئے تھے۔
”حُسنہ نے کہا پاکستان چلتے ہیں میں پاکستان آگیا۔۔۔ پھر ایک دن مسجد میں قاری صاحب نے ایک قرآن تھما دیا مرمت کے لیے میں اور حُسنہ گھر میں ہی اُسے ٹھیک کرنے بیٹھ گئے۔ اُسے واپس مسجد دینے گئے تو قاری صاحب نے چند قرآن اور تھما دیئے بس پھر یہی کام کرنے لگے ہم دونوں میاں بیوی، پھر پتہ نہیں مرمت کے لیے اور پھر اللہ مددگار بھی بھیجنے لگا۔۔۔ حُسنہ نے اپنے مہر کی رقم سے یہ کام شروع کروایا تھا اور وہ رقم اب تک بڑھتی ہی چلی جارہی ہے ختم ہی نہیں ہوتی۔
ایک صندوق میں پیسے رکھے ہیں وہ۔ میں اُسے اُس میں رکھ دیتا ہوں۔ اتنے سال ہوگئے بس اُس کی وہ مہر کی رقم جوں کی توں چلی آرہی ہے ورنہ میں سوچتا تھا جب یہ ختم ہوجائے گی تو کیا کریں گے ہم؟ َکام زیادہ بڑھا لیا ہے وسائل اُتنے ہیں نہیں۔ یہ یورپ تو تھا نہیں جہاں دومنٹوں میں لاکھوں بنا لیتا میں۔ پر حسنہ کا مہر بڑا برکت والا ہے۔ اسی لیے تو کہتا ہوں بیٹا نیک عور ت کا ساتھ بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں ہوتا یہ نصیب والوں کو نصیب ہوتا ہے۔”
اُس کے کانوں میں ماسٹر ابراہیم کی اپنی بیوی اور اس کام کے حوالے سے کی جانے والی ساری گفتگو آئی تھی اور آج جب وہ سب کو جان کر ماسٹر ابراہیم سے ملنے آئی تھی تو ”حُسنہ” کے بارے میں اُن کی ساری باتیں اُس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ وہ حُسنہ جو کبھی ”حسنِ جہاں” تھی۔
ماسٹر ابراہیم آج بھی اپنے کمرے میں ہی تھے۔ ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے۔ مومنہ برآمدے میں رُکے بغیر دروازہ بجا کر اُن کے کمرے میں داخل ہوگئی تھی۔ اُس کا دماغ اس وقت جیسے بھنور بنا ہوا تھا۔ پتہ نہیں کیا کیا اس بھنور کی گردش میں آرہا تھا۔
”مومنہ۔ دیکھو کتنی لمبی عمر ہے تمہاری۔ مجھے ابھی تمہارا ہی خیال آیا تھا اور تم خود آگئی۔” ماسٹر ابراہیم اسے دیکھتے ہی مسکرائے تھے۔ وہ کرسی پر بیٹھے میز پر ایک خطاطی رکھے ہوئے اسے دیکھ رہے تھے۔
”یہ دیکھو۔” انہوں نے مومنہ سے کہا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
” یہ وہ خطاطی ہے جو عبدالعلی صاحب نے اور میری بیوی کی شادی پر حُسنہ کو تحفے میں دی تھی۔” وہ کہہ رہے تھے۔ مومنہ ان کے پاس دوسری کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ اس نے اس خطاطی کو پکڑ کر دیکھا تھا۔
”بے حد خوبصورت۔ کیا مطلب ہے اس آیت کا؟” اس نے خطاطی کی گئی آیت کا مطلب پوچھا تھا۔
”اللہ جسے چاہتا ہے چُن کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔”
(سورة الشوریٰ : آیت نمبر13)
انہوں نے بے اختیار کیا تھا۔ مومنہ کو لگا کوئی چیز اُس کے حلق میں پھنسی تھی۔
تو حسنِ جہاں بھی اُن لوگوں میں سے تھی جنہیں اللہ نے چن کر اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔
اُس نے حسرت سے سوچا تھا۔
”ماسٹر صاحب مجھے اپنی بیوی کے بارے میں بتائیں۔” خود پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے اُس نے ماسٹر ابراہیم سے پوچھا۔ انہوں نے چونک کر اُسے دیکھا۔
”حُسنہ کے بارے میں؟” مومنہ نے سر ہلا دیا۔
”ہمیشہ تو بات کرتا رہتا ہوں۔۔۔ آج کیوں پوچھ رہی ہو مومنہ؟ ”انہوں نے مومنہ کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ وہ خاموشی سے اُنہیں دیکھتی رہی تھی اور اُس کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا کہ ماسٹر ابراہیم اُس سے نظریں نہیں ہٹا سکے تھے۔ بہت دیر تک اُسے دیکھنے کے بعد اعتراض انداز میں اُس سے نظریں ہٹائے ہوئے انہوں نے کہا تھا۔
”ہرراز امانت ہوتا ہے۔ ہر بھید اپنے وقت پر کُھلتا ہے۔” وہ جیسے جان گئے تھے وہ اُن کے پاس آج کس چیز کی تصدیق کے لیے آئی تھی۔
”آپ جانتے تھیناکہ حسنِ جہاں ہی حُسنہ۔” مومنہ نے بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔
ماسٹر ابراہیم نے مدھم آواز میں اعترافی انداز میں سر بلاتے ہوئے کہا۔
” جس دن تم وہ تصویریں لائی تھیں اُس دن پتہ چلا تھا مجھے کہ حُسنہ۔۔۔ حسن جہاں ہے۔عبدالعلی صاحب نے کبھی بتایا ہی نہیں مجھے کہ وہ اُن کی بہو تھی۔ اُن کے بیٹے کی بیوہ۔” وہ بڑبڑا رہے تھے۔
”کیوں نہیں بتایا۔۔۔؟ عبدالعلی اتنا بڑا جھوٹ کیسے بول سکتے تھے آپ سے؟” مومنہ کو سمجھ نہیں آئی تھی۔
”جھوٹ بھی تھا تو میں نے معاف کر دیا انہیں۔” ماسٹر ابراہیم کو جیسے سب کچھ یاد آنے لگا تھا۔ مافی اُن کی آنکھوں کے سامنے ورق کی طرح اُلٹنے پلٹنے لگا تھا۔
٭…٭…٭
دُلہن بنی حسنِ جہاں پر ابراہیم پہلی ہی نظر میں فریفتہ ہوئے تھے۔ انہوں نے شادی سے پہلے اُسے دیکھا نہیں تھا اور اب دیکھا تھا تو دنگ رہ گئے تھے۔ وہ دُلہن بنی نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔
”عبدالعلی صاحب نے مجھے یہ بتایا ہی نہیں کہ آپ اتنی خوب صورت ہیں۔” اُس نے حُسنِ جہاں سے کہا تھا۔
”آپ کا حسِن نظر ہے۔” اُس نے نظریں اُٹھائے بغیر ابراہیم سے کیا تھا۔
”آپ صرف حُسنہ ہی نہیں حسنِ جہاں بھی ہیں۔ میں بے حد خوش قسمت ہوں۔” ابراہیم نے بے ساختہ اُسے سراہا تھا۔ حُسن جہاں نے بے اختیار نظریں اُٹھا کر اُسے دیکھا تھا۔
”میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔” ابراہیم نے مسکراتے ہوئے اُس سیکہا تھا۔
”ضرور کہیں۔”
”اگر آپ کو پتہ چلے کہ میں نے آپ سے کوئی جھوٹ بولا ہے تو۔۔۔”
اُس نے ابراہیم سے ایک عجیب سوال کیا تھا۔ سوچے سمجھے بغیر ابراہیم نے اُس سے کہا۔
”تو میں آپ کو معاف کردوں گا کیوں کہ آپ کی گواہی عبدالعلی صاحب نے دی ہے۔” اُس کے جملے پر وہ کچھ عجیب انداز میں ٹھٹھکی تھی۔
”کیا کہا تھا انہوں نے میرے بارے میں؟” اُس نے ابراہیم سے پوچھا تھا۔
”انہوں نے کہا تھا آپ کا کردار سونے کے کاغذ پر لکھنے کے قابل ہے۔۔۔ آپ کی نیکی دُنیا کے تمام خزانوں پر بھاری۔۔۔ آپ کی اللہ سے محبت عبدالعلی کی زندگی بھر کی خطاطی سے بڑھ کر۔” حسنِ جہاں کی آنکھوں میں اُمڈنے والا پانی ہیرے کی کنیوں کی طرح جھلملایا تھا۔ اُس کے ہونٹوں پر اُبھرنے والی مسکراہٹ نے ابراہیم کو کسی معمول کی طرح سحر زدہ کیا تھا۔
”عبدالعلی صاحب نے مجھے مقروض کردیا ۔”اُس کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔
”آپ کا ہر قرض اُتارنے کی استطاعت رکھتا ہوں میں۔” ابراہیم نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا تھا۔
”یہ وہ قرض ہے جو قیامت کے دن بھی اُتار نہیں سکوں گی میں۔” ابراہیم نے اپنی بیوی کو سر جھکاتے ہوئے دیکھا تھا وہ رو رہی تھی اور ابراہیم کو کبھی سمجھ نہیں آیا وہ ساری عمر عبدالعلی صاحب کے ذکر پر رو کیوں پڑتی تھی۔
٭…٭…٭
ماسٹر ابراہیم کے سامنے بیٹھے ہوئے مومنہ حسنِ جہاں کا ذکر سُنتے ہوئے پلکیں بھی نہیں جھپکا رہی تھی۔ سانس بھی نہیں لے پارہی تھی۔ ماسٹر ابراہیم خاموش تھے۔ اُن کی آنکھوں میں نمی تھی اور مومنہ سوچ رہی تھی وہ کس دُنیا کے لوگ تھے۔۔۔کس کائنات کے رہنے والے تھے۔۔۔ عبدالعلی۔۔۔ ماسٹر ابراہیم۔۔۔ اور حُسنِ جہاں۔۔۔
”میری ہی غلطی تھی۔۔۔ عبدالعلی صاحب سے کہا تھا میں نے کہ کسی بچے والی عورت سے شادی نہیں کرنا چاہتا میں۔۔۔ یہ نہ کہتا تو وہ بتا دیتے مجھے۔۔۔ پر بتا دیتے تو پتہ نہیں کیا سوچتا میں۔۔۔پاکستان کی کی فلم انڈسٹری کا کچھ پتہ نہیں تھا مجھے۔۔۔نہ ہی حسنِ جہاں کا لیکن یہ پتہ تھا کہ عبدالعلی صاحب کی بہو ایک رقاصہ اور اداکارہ تھی اور عبدالعلی صاحب کے ساتھ بڑی زیادتی کی تھی اُس نے اُن کا بیٹا چھین کر پھر اُن کا پوتا چھین کر۔۔۔ میں کبھی بھی یہ یقین کرنے پر تیار نہ ہوتا کہ وہ اچھی عورت تھی شائید اس لیے بھی نہیں بتایا مجھے عبدالعلی صاحب نے۔” وہ کہہ رہے تھے۔
”ہم سب یہی کرتے ہیں نا، انسانوں کے بارے میں اپنے گمانوں پر چلتے ہیں۔ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے کہ ہم غلطی کرکے بدل سکتے ہیں تو دوسرا بھی غلطی سے سیکھ سکتا ہے تو بہ کے دروازے پر کسی ایک انسان کا نام تو نہیں لکھا ہوتا۔” انہوں نے مومنہ سے کہا تھا اور وہ اُسی طرح گنگ بیٹھے اُن کا چہرہ دیکھتی رہی تھی۔ وہ کیا کہتی۔ وہ کیا کہہ سکتی تھی۔
”آپ نے عبدالعلی صاحب کو کبھی نہیں بتایا کہ آپ سچ جان گئے تھے؟” اُس نے مدھم آواز میں ماسٹر ابراہیم سے پوچھا۔ انہوں نے نفی میں سر ہلا دیا۔
”کیسے بتاتا۔۔۔ وہ نگاہ نہیں ملا پاتے مجھ سے۔۔۔ انہوں نے حسنِ جہاں نہیں دی تھی مجھے انہوں نے تو حُسنہ ہی دی تھی۔ میں نے اپنی زندگی میں ویسی عورت نہیں دیکھی۔ اب سوچتا ہوں میں اگلی دُنیا میں جاؤں گا تو کیا کروں گا؟ حسنِ جہاں طہٰ کے ہوتے ہوئے میرے پاس کیسے آئے گی۔۔۔ تم نے پوچھا تھا نا میری بیوی کیسی تھی۔۔۔” انہوں نے مومنہ سے کہا تھا۔
”اُس کا کردار سونے کے کاغذ پر لکھا جانے والا۔۔۔ اُس کی نیکی دُنیا کے تمام خزانوں پر بھاری۔۔۔ اُس کی اللہ سے محبت ماسٹر ابراہیم کے عشق سے بڑھ کر۔” آنسو موتیوں کی طرح ماسٹر ابراہیم کی آنکھوں سے گر رہے تھے اور سیلاب کے ریلے کی طرح مومنہ سلطان کی آنکھوں سے۔ وہ کسی اور دُنیا میں آکر بیٹھی ہوئی تھی اور وہ اسی دُنیا میں رہ جانا چاہتی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});