”نقلی سگریٹ سے اصلی سگریٹ پر کیوں آگئے ہیں آپ؟ بس لائٹر جلائیں۔” اس نے سگریٹ ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے اس سے کہا تھا۔ لائٹر ابھی بھی مومن کی انگلیوں میں دبا ہوا تھا۔
”یہ بہت تھوڑی آگ ہے۔ میرے اندر ایک جہنم ہے جس میں سب کچھ جل رہا ہے۔” لائٹر کو میز پر پھینکتے ہوئے اس نے عجیب لہجے میں اس سے کہا تھا یوں جیسے وہ وہی غم گسار تھی جس کی اسے ضرورت تھی جس سے وہ سب کچھ کہہ پاتا۔ وہ پچھتاوے کی آگ تھی جس میں وہ اس وقت جل رہا تھا اور مومنہ کو یہ بوجھنے کے لیے مومن کی زبان سے کسی اعتراف کی ضرورت نہیں تھی۔
”آپ کا کوئی قصور نہیں تھا۔” اس نے مومن کو جیسے دلاسہ دیا تھا۔ وہ ہنسا اور ہنستا ہی چلا گیا۔
”میرے علاوہ کس کا قصور تھا؟ میری ماں میرے جیسی اولاد deserve نہیں کرتی تھی۔ کوئی اپنی ماں کے ساتھ وہ سب کیسے کرتا ہے جو میں نے کیا۔ کیسے کر سکتا ہے۔” وہ اب عجیب تکلیف کے عالم میں اپنی مٹھیاں بھینچ رہا تھا۔ مومنہ کو اس پر ترس آیا۔
”اپنے آپ کو معاف کر دو۔”
”آخری دم تک نہیں کر سکتا۔”
اس نے مومنہ کی بات کاٹ دی تھی۔
”تم سب کچھ جانتی تھی مومنہ میرے بارے میں اور تم نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا۔ کیوں چھپایا سب کچھ مجھ سے؟” اس نے مومنہ سے گِلہ کیا تھا۔
”ہر راز امانت ہوتا ہے۔ ہر بھید اپنے وقت پر کھلتا ہے۔ میرے استاد نے کہا تھا اور ٹھیک ہی کہا تھا۔ اس سب کا یہی وقت تھا۔ وقت سے پہلے سب کچھ کیسے جان لیتے تم؟” وہ اسے آپ کہتے کہتے تم پر آگئی تھی کسی پرانے دوست کی طرح۔
”میری خواہشات نے ممی اور بابا کو تباہ کیا، ان کے گھر کو، ان کی زندگی کو۔” قلبِ مومن نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا تھا۔ وہ جیسے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”تم بچے تھے، تم معصوم تھے، گناہ گار نہیں ہو تم۔” مومنہ نے جیسے اس کے زخموں پر کوئی مرحم رکھنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے سرجھٹکا تھا یوں جیسے اس نے مومنہ کی بات کو قبول نہیں کیا تھا۔
”اب تو ہوں نا۔ اب تو ہو گیا ہوں نا۔ یہاں مومنہ۔ یہاں کچھ جلتا ہے اور یہاں اور ہر جگہ میں نے حسنِ جہاں پر ظلم کیا۔ میں نے اپنی ماں پر بار بار ظلم کیا۔” وہ بمشکل اپنے آنسوؤں کو روک رہا تھا۔ اپنی کنپٹیاں مسلتے ہوئے وہ مومنہ سے کہہ رہا تھا۔ اسے یوں سب کو بتا رہا تھا جیسے اسے یقین تھا وہ اس کی کیفیت سمجھتی تھی۔
”تم معافی مانگ سکتے ہو ان سے۔ اگر وہ زندہ ہیں۔” مومنہ نے یک دم اس سے کہا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”نہیں ہیں۔ She passed away many years ago” مومن نے بے ساختہ کہا۔ اس کی آنکھوں سے یک دم آنسو بہنے لگے تھے یوں جیسے وہ ضبط کھو بیٹھا تھا۔ کسی چھوٹے بچے کی طرح۔ آستین سے وہ اپنے آنسو صاف کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ کسی سیلاب کی طرح امڈ سے چلے جا رہے تھے۔
کسی طاقتور آدمی کو ٹوٹتے دیکھنے کے لیے بے پناہ حوصلہ چاہیے اور وہ حوصلہ اور ہمت دکھانا اس وقت مومنہ کو مشکل لگ رہا تھا۔
”ان کی شادی ہو گئی تھی۔ میں نہیں جانتا کس سے۔ مگر دادا نے کروائی تھی ان کی شادی۔” وہ اسے کچھ بھی پوچھے بغیر بتاتا چلا جا رہا تھا۔
”تم نے جاننے کی کوشش نہیں کی؟” مومنہ نے اس سے پوچھا تھا۔
”تب نہیں کی تھی۔ اب کر رہا ہوں اور مجھے لگتا ہے میں جانتا ہوں۔ ایک ہی شخص تھا جس سے دادا پاکستان آکر ہمیشہ ملا کرتے تھے۔ جس کا نام وہ ہمیشہ لیتے تھے۔ ماسٹر ابراہیم۔” مومنہ کو لگا زمین چند لمحوں کے لیے اس کے پیروں کے نیچے ہلی تھی۔ اسے لگا تھا اس کے دماغ نے کچھ دیر کے لیے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔
”میں ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں انہیں۔ ڈھونڈھ نہیں پا رہا اب تک پر ڈھونڈ لوں گا۔ کم سے اب اب بہت ضروری ہے میرا ان سے ملنا۔” اس کے تاثرات پر غور کیے بغیر قلب مومن اس سے کہہ رہا تھا۔
”ہر راز امانت ہوتا ہے۔ ہر بھید اپنے وقت پر کھلتا ہے۔” کسی نے مومنہ سلطان کے کانوں میں سرگوشی کی تھی۔
”تمہیں کیا ہوا؟” وہ یک دم اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور مومن نے اسے دیکھ کر کہا تھا۔
”کچھ نہیں۔ مجھے کہیں جانا ہے۔ یہ ابا نے تمہارے لیے دیے ہیں۔” اسے اپنے جملوں کی بے ربطی خود چبھی تھی لیکن مومنہ کو اس وقت اپنے حواس کو قابو میں رکھنا ناممکن لگ رہا تھا۔
”کیا ہے یہ؟” خطوں کے اس بنڈل کو پکڑتے ہوئے مومن نے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔
”تم کھول کر دیکھ لینا۔” اس نے کہا تھا اور اُس کے رکے بغیر وہاں سے چلی آئی تھی۔
گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی مومنہ اپنا سر پکڑے ہوئے تھی۔ وہ اتنے سالوں سے ماسٹر ابراہیم کے پاس جاتی رہی تھی اور اسے کبھی یہ خیال کیوں نہیں آیا تھا۔ پر یہ خیال اسے کیسے آسکتا تھا کہ وہ چوبیس گھنٹے اپنے گھر میں جس حسنِ جہاں کا ذکر اپنے باپ سے سنتی رہتی تھی۔ وہ ماسٹر ابراہیم کی مرحومہ بیوی تھی۔
اسے یہ اندازہ تب بھی نہیں ہوا تھا یا ماسٹر ابراہیم نے ہونے ہی نہیں دیا تھا جب وہ حسنِ جہاں کی ان تصویروں کو ماسٹر ابراہیم کے پاس بیچنے کے لیے گئی تھی جو سلطان نے کئی سال اپنے پاس رکھے رکھنے کے بعد جہانگیر کے علاج کے لیے پیسہ اکٹھا کرنے کی کوششوں کے دوران اسے دی تھیں اور مومنہ سلطان طہٰ کی بنائی گئی ان تصویروں کو لے کر ماسٹر ابراہیم کے پاس گئی تھی وہ تین سال پہلے کی بات تھی۔
”ابا کے پاس یہ پرانی پینٹنگز ہیں۔ ماضی کی ایک ڈانسر اور ہیروئن ہوتی تھی۔ حسنِ جہاں ان کی تصویریں ہیں یہ۔ ان کے شوہر ایک خطاط تھے ترکی کے۔ انہوں نے بنائی تھیں۔ جہانگیر کے علاج کے لیے اب سب کچھ بیچ رہے ہیں آہستہ آہستہ۔ ابا نے کہا ہے ماسٹر صاحب سے پوچھو ان سے ان کے پاس لوگ آتے جاتے رہتے ہیں آرٹ سکولز سے۔ کیا یہ بک سکتی ہیں؟” مومنہ نے انہیں رول ہوئی تصویروں کا وہ بنڈل پکڑایا تھا جو وہ بڑے احتیاط سے ایک بیگ میں ڈال کر لائی تھی۔
”اچھا لاوؑ میں دیکھوں۔ ہو سکتا ہے کچھ کر سکوں میں۔” ماسٹر ابراہیم نے اس سے وہ تصویریں لے کر انہیں کھولنا شروع کیا تھا اور وہ پہلی تصویر کو دیکھتے ہی ساکت ہو گئے تھے۔ مومنہ کو لگا تھا ان کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوا تھا۔ اس نے کچھ اور سمجھا تھا۔
”پرانی ہو گئی ہیں پڑی پڑی اس لیے ایسی دکھ رہی ہیں۔ ورنہ ابا نے ہمیشہ بڑی حفاظت سے رکھا ہے نا۔ کبھی بیچنے کا سوچا بھی نہیں۔ اب صرف جہانگیر کی وجہ سے مجبور ہو گئے ہیں ابا۔ یہ بک جائیں گی نا؟” مومنہ کو تب لگا تھا وہ شاید تصویروں کی حالت دیکھ کر کچھ عجیب سے ہوئے تھے تو اس نے انہیں جلدی سے وضاحت دینے کی کوشش کی تھی اور پھر آخر میں بڑی آس سے پوچھا تھا۔
”یہ بڑی قیمتی ہیں۔” انہوں نے سر اٹھا کر مومنہ کو دیکھا تھا۔ مومنہ کو ان کی نظروں میں کوئی عجیب سا تاثر نظر آیا۔
”ہاں ابا بھی یہی کہتے ہیں مگر اتنی قیمتی ہوتیں تو ابا انہیں بیچ کر کوئی کاروبار کر لیتے۔ یا پہلے جب جہانگیر بیمار ہوا تھا تبھی کچھ کر لیتے۔” مومنہ نے ان کی بات کے جواب میں کہا تھا۔
”کیا نام ہے تمہارے ابا کا؟” انہوں نے مومنہ سے پوچھا تھا۔
”حضور بخش نام ہے اصلی مگرفلم انڈسٹری میں حسنِ جہاں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تو اس نے ابا کا نام سلطان رکھ دیا۔ ابا کہتے ہیں وہ کہتی تھی میں حسنِ جہاں ہوں تم کم از کم سلطان تو ہونا چاہیے۔تو اب سلطان ہی کہتے ہیں سب ابّا کو۔” مومنہ نے انہیں بتایا تھا۔
”کاش تم چند سال پہلے یہ تصویریں لے آتی۔” وہ عجیب سے انداز میں بڑبڑائے تھے۔
”تو کیا ہوتا؟” مومنہ حیران ہوئی تھی۔
”میں کچھ کرسکتا۔” انہوں نے مدھم آواز میں کہا تھا۔
مومنہ فکر مند ہوئی تھی۔
”اب نہیں بکیں گی یہ؟” اُس نے پریشانی سے کہا تھا۔
”اتنی دولت کسی کے پاس ہوگی کہ یہ خرید سکے۔” اُسے لگا تھا ماسٹر ابراہیم کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر اُسے اُس کی وجہ سمجھ نہیں آئی تھی۔ وہ اُن تصویروں کو دیکھ کر کہاں روتے وہ خطاطی نہیں تھی قرآنی آیات کی۔ ایک رقاصہ کے رقص کے پوز تھے۔
”مگر میں بیچ دوں گا انہیں مومنہ۔۔۔ کچھ نہ کچھ کروں گا۔۔۔ تم اپنے ابّا سے کہنا وہ فکر نہ کریں۔” انہوں نے مومنہ کو تسلی دی تھی اور دوسرے دن اُسے ایک لاکھ روپیہ دیا تھا۔ مومنہ وہ رقم دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی تھی۔
”یہ تو بہت سارے پیسے ہیں ماسٹر صاحب۔” اُس نے ماسٹر ابراہیم سے کہا تھا۔
”بس ایک لاکھ ہیں۔”
”ایک لاکھ بہت بڑی رقم ہوتی ہے یہ اُن تصویروں کے بدلے میں ملی ہے؟ ”مومنہ کو جیسے یقین نہیں آرہا تھا۔
”ہاں لینے والے کے پاس صرف اتنے ہی تھے ورنہ وہ اور بھی دیتا۔” انہوں نے اُس سے کہا تھا۔
”ابّا کو تو یقین نہیں آئے گا اور میں۔۔۔ میں بھی نہیں جانتی تھی کہ یہ اتنی قیمتی ہیں کہ کوئی ان کے لیے ایک لاکھ دے دے گا۔” مومنہ نے اُن کی بات پر غور کیے بغیر بے حد خوشی کے عالم میں اُن سے کہا تھا۔
”جس نے بنائی ہیں وہ بہت قیمتی ہے جس کی بنائی ہیں وہ انمول ہے۔” ماسٹر ابراہیم نے کہا تھا اور مومنہ کے کانوں میں آج بھی اُن کے یہ جملے گونج رہے تھے۔
اُسے آج یقین تھا وہ رقم انہوں نے اپنے پاس سے دی تھی لیکن کیوں یہ چھپایا اُس سے کہ وہ اُن کی بیوی کی تصویریں تھیں۔ وہ حسنِ جہاں کو جانتے تھے یا وہ صرف حُسنہ کو جانتے تھے یہ مومنہ کو اُن سے جاننا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});