”آسان ہے نا قلبِ مومن اُس ماں کو بُرا اور بدکردار سمجھنا جس کا تعلق شوبز سے ہو؟ مشکل ہے نا مرد ہوکر اپنے گریبان میں جھانکنا؟” سلطان نے مذاق اڑانے والے انداز میں مومنہ کو دور دھکیلا تھا۔ یوں جیسے قلبِ مومن کو چیلنج کررہا تھا یوں جیسے مومنہ کو اس جھگڑے میں نہ آنے دینا چاہتا ہو۔
”70ہزار روپے میں اپنا گھر بیچ کر میں نے وہ پیسہ حسنِ جہاں اور تمہارے لئے بھیج دیا تھا۔ تمہاری ماں سے یہ جھوٹ بولا تھا کہ وہ تصویریں منہ مانگے داموں بک گئیں تھیں۔ اُسے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہاں پاکستان میں لوگ اب اُسے بھول گئے تھے۔ وہ سارا روپیہ تم پر خرچ ہوا تھا قلبِ مومن۔۔۔تم یاد کرو طہٰ کے اُس دن گھر چھوڑ کر جانے کے بعد بھی تمہاری ماں کہاں سے روپیہ خرچ کرتی رہی تھی تم پر۔۔۔ ؟”
قلبِ مومن کے ہاتھ سے سلطان کا گریبان چھوٹ گیاتھا۔ اُسے یاد آگیا تھا۔ طہٰ کے جانے کے بعد بھی ایک سال تک حسنِ جہاں اُسے سب کچھ دلاتی رہی تھی جو بھی دلاسکتی تھی۔ اُن کے گھر کا کرایہ کئی مہینوں سے واجب الادا تھا وہ بھی ادا ہوا تھا اور اُس کے سکول کی فیس بھی۔۔۔ اور قلبِ مومن کا خیال تھا حسنِ جہاں وہ سب کچھ اُس کے باپ کے پیسوں سے ہونے والی بچت سے کررہی تھی۔
اُس کا سرگھومنا شروع ہوگیاتھا ۔ تو کیا یہ وجہ تھی کہ بار بار غلطی کا پوچھنے پر بھی دادا خاموش رہتے تھے۔ حسنِ جہاں خاموش رہتی تھی کیونکہ وہ حسنِ جہاں کی غلطی نہیں تھی وہ قلبِ مومن کی خواہشات اور ضروریات تھیں جو اس گھر کو لے ڈوبیں تھیں۔ بڑا غلط ہوا تھا قلبِ مومن کے ساتھ اور بڑے ہی غلط وقت پر ہوا تھا۔ سلطان غلط نہیں کہہ رہا تھا قلبِ مومن کی چھٹی حس نے جیسے سلطان کی ہر بات کی تائید کرنا شروع کردی تھی۔
وہ تصویریں جو مومن نے ہمیشہ اپنے گھر کی دیواروں پر لگی دیکھیں تھیں۔ وہ سلطان کے اُس گھر میں آنے سے پہلے اُس کی ماں نے اُتاری تھیں اور مومن نے دوبارہ اُن تصویروں کو اُس گھر میں کہیں نہیں دیکھا۔ تب بھی نہیں جب وہ اپنا سارا سامان اُٹھا کر لے آئے تھے اور طہٰ کی ساری خطاطی حسنِ جہاں عبدالعلی کو دے آئی تھی تب بھی اُن تصویروں میں وہ تصویریں نہیں تھیں۔۔۔ سُرخ لباس میں رقص کرتی ہوئی حسنِ جہاں کی تصویریں۔
ایک لفظ بھی کہے بغیر وہ برق رفتاری سے وہاں سے چلا گیا تھا۔ ثریا جب تک چائے لائی وہ وہاں نہیں تھا۔
”یہ قلبِ مومن کہاں گیا؟” ثریا نے حیران ہوکر پوچھا تھا۔
”وہ چلا گیا امّاں۔۔۔ اب نہیں آئے گا۔” مومنہ نے سلطان کو دیکھ کر ثریا سے کہا تھا اور پھر سے چلی گئی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
قلبِ مومن کے گھر کی دیوار پر اھدنا الصراط المستقیم کی وہ خطاطی ویسے ہی لگی ہوئی تھی وہ روز گھر آکر اُس کے سامنے کچھ دیر کھڑا ہوتا۔ ہر روز صبح گھر سے جاتے ہوئے بھی اس کے سامنے کھڑا ہوتا اور وہ آیت بار بار دہراتا۔۔۔ آج وہ اندر آکر وہاں رُک نہیں پایا تھا۔ وہ سیدھا راستہ جو اُسے نظر آنا شروع ہوا تھا۔ وہ سیدھا راستہ اُسے بہت آزما رہا تھا۔
اپنے بیڈ روم میں آکر وہ اپنے بیڈ پر بیٹھ گیا تھا۔ اُس کا ذہن ماؤف ہورہا تھا۔ اُس نے اپنی ماں کے ساتھ کیا کیا تھا اتنے سالوں میں۔۔۔ کیا کر بیٹھا تھا وہ۔۔۔ اور کیوں۔۔۔؟ بازگشت تھی کہ تھم ہی نہیں رہی تھی۔ اُس کی فلم کی کہانی اپنی مرضی سے ہیرو اور ولن چُننے لگی تھی وہ جس کو ولن بنا کر چل رہا تھا وہ ہیرو نکلا تھا اور اُس کا ہیرو ولن بن گیا تھا۔ ایک کم ظرف چھوٹے دل کا شخص۔۔۔
اُسے حسنِ جہاں یک دم بے پناہ یاد آئی تھی اور وہ لیٹر باکس بھی جس پر خون کا پہلا دھبہ اُس کا تھا دوسرا حسنِ جہاں کا۔
٭…٭…٭
ہتھوڑی پوری قوت سے حسنِ جہاں کے ہاتھ میں پکڑی کیل کے بجائے اُس کے ہاتھ پر پڑی تھی۔ وہ چیخی نہیں تھی لیکن تڑپ کر رہ گئی تھی۔ مومن نے خوف زدہ ہو کر ہتھوڑی ہاتھ سے گرائی تھی۔ حسنِ جہاں کے ہاتھ سے خون بہہ رہا تھا اور بہتا ہی جارہا تھا۔
”ممّی۔” مومن ایک دم خوف زدہ ہوکر رونے لگا تھا۔
” بس بس رونا نہیں تمہارا قصور نہیں ہے میرا ہاتھ ہل گیا تھا۔ جلدی جلدی فرش صاف کرتے ہیں۔ تمہارے بابا آنے والے ہیں وہ خفا ہوں گے۔” خون آلود ہاتھ کے ساتھ بھی اُس نے مومن کو بچکارتے ہوئے اُٹھ کر وہ چیزیں ایک طرف کرکے فرش پر گرنے والے خون کو ایک کپڑا لاکر صاف کرنا شروع کردیا تھا۔ طہٰ کے آنے سے پہلے اُس نے ہاتھ پر پٹی بھی لپیٹ لی تھی اور فرش بھی صاف ہوگیا تھا مگر طہٰ نے آتے ہی سب سے پہلا سوال اُس کے ہاتھ کو پکڑ کر کیا تھا۔
”یہ کیا ہوا؟”
” بس دیوار پر کیل لگا رہی تھی تو ہتھوڑی لگ گئی۔” مومن نے ماں کو مسکرا کر طہٰ سے کہتے سُنا تھا۔
”بابا میں نے ممّی کو چوٹ لگا دی۔” مومن سے جیسے برداشت نہیں ہوا تھا اور اُس نے ایک بار پھر روتے ہوئے باپ سے کہنا شروع کیا تھا۔
”ایسے ہی رو رہا ہے۔۔۔ بس بس میری جان مت روؤ۔۔۔ بابا سے کچھ مت کہو۔۔۔ مجھے درد نہیں ہورہا۔”
اُس نے روتے ہوئے قلبِ مومن کو اُٹھاتے ہوئے گلے سے لگا کر جیسے اُس کو تسلی دیتے ہوئے اُس کے کان میں سر گوشی کی تھی اور مومن نے ایک دم رونا بند کرتے ہوئے اپنی انگلی اُسے دکھاتے ہوئے کہا تھا۔
”پر مجھے تو ہورہا ہے۔” حسنِ جہاں نے بے اختیار اُس کی اُنگلی چومتے ہوئے کہا۔
”پھر مجھے بھی ہورہا ہے۔”
٭…٭…٭
وہ لیٹر باکس اُس کے ہاتھ میں تھا اور اُس کی کنڈی پر اتنے سالوں کے بعد اُن خون کے دھبوں کو ڈھونڈنا بے وقوفی تھی لیکن مومن کو جیسے لیٹر باکس پر وہ جگہ یاد تھی جہاں پر خون کے دھبے لگے تھے اپنے ہونٹوں سے اُس لیٹر باکس کو چومتے ہوئے اُس نے رونا شروع کیا تھا اور پھر اُسے آنکھوں سے لگائے روتا ہی چلا گیا تھا۔ بلک بلک کر چھوٹے بچوں کی طرح۔۔۔ اُسے لگا تھا اُس نے آج بھی اپنی ماں کو چوٹ لگائی تھی۔ اُس کی ماں نے آج بھی چوٹ کو چھپا لیا تھا۔ پر وہ سارا درد جس سے مومن بے حال تھا وہ کہاں سے اُبل اُبل کر نکل رہا تھا اُسے سمجھ آرہی تھی۔
الف کی کہانی اُسے اُس کی اپنی نظروں میں بے وقعت کردے گی اُس نے کبھی نہیں تھا۔
”I am sorry Mummy I hurt you.” روتے ہوئے اُس نے جیسے حسنِ جہاں سے معافی مانگی تھی جیسے وہ ہمیشہ بچپن میں غلطی کرکے مانگتا تھا۔ وہ آواز کہیں نہیں تھی جو اُسے ہمیشہ کہہ دیا کرتی تھی۔
” It’s alright Momin. It’s alright.”
٭…٭…٭
”یہ خط دے دینا مومن کو۔” لفافوں کا ایک بنڈل تھا جو اُس دن سلطان اُس کے کمرے میں لے آیا تھا۔
”یہ کیا ہے ابّا؟”
”مومن کی امانت ہے وہ خط ہیں جو حسنِ جہاں مجھے ترکی سے بھیجا کرتی تھی جو طہٰ سے شروع ہوکر مومن پر ختم ہوجایا کرتے تھے۔ سلطان تو اُس میں کہیں ہوتا ہی نہیں تھا۔” سلطان نے کھڑے کھڑے عجیب رنجیدگی میں ہنستے ہوئے کہا تھا۔
”ابّا وہ کیا کرے گا اب ان خطوں کو۔۔۔ اور میں کس منہ سے دینے جاؤں گی؟ مجھ سے ملنا نہیں چاہے گا وہ۔”
وہ کہیں جانے کے لیے تیار ہورہی تھی اور اُس نے سلطان سے کہا تھا۔ وہ قلبِ مومن کا سامنا اب نہیں کرنا چاہتی تھی۔
”اُس سے بس یہ پوچھ آنا مومنہ کہ حسنِ جہاں کہاں ہے۔۔۔ زندہ ہے۔۔۔ کس سے شادی کی تھی اُس نے؟” سلطان نے جیسے اُس کا انکار سُنا ہی نہیں تھا۔ وہ اُسے کہہ کر کمرے سے چلا گیا تھا۔
مومنہ کی سمجھ میں نہیں آیا وہ کیا کرے بڑی مشکل ڈالی تھی اُس کے باپ نے اُسے ایک بار پھر قلبِ مومن کا سامنا کرنا۔ ایک بار پھر اپنے دل کو سمجھانا کہ وہ غلطی نہ کرے جو حسنِ جہاں کو بیٹھی تھی۔
٭…٭…٭
”یار نہ جاؤ اندر آفس میں۔۔۔ مومن بھائی کو پتہ نہیں کیا ہوا ہے۔ پھر تمہیں کچھ کہہ دیں گے تو میں تم سے نظریں نہیں ملا پاؤں گا۔” داؤد نے مومنہ کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ وہ اُس سے ملنے آفس آئی تھی۔
”کچھ نہیں کہوں گی تمہیں داؤد۔ میں شکایتیں کرنے کی عادت نہیں ہوں۔” اس نے جواباً داؤد کو تسلی دی تھی۔ وہ اس سے کہہ کر مومن کے آفس میں آگئی تھی۔
دروازہ بجا کر مومنہ اندر داخل ہوئی تھی۔ وہ اپنے لیپ ٹاپ پر کام کرنے میں مصروف تھا۔ بے ترتیب بالوں، سرخ آنکھوں، بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ مومنہ نے اسے اس حلیے میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے سر اٹھا کر مومنہ کو دیکھا تھا پھر کام کرتے کرتے اُکتا گیا تھا۔
لیپ ٹاپ چھوڑ کر وہ اپنی آفس چیئر سے اٹھ کر صوفہ پر آکر بیٹھ گیا تھا۔ چیئر پر پڑی سگریٹ کی ڈبیا اٹھا کر اس نے لائٹر سے ایک سگریٹ جلایا تھا۔ مومنہ اس کے بالکل قریب صوفہ پر بیٹھ گئی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ ہونٹوں میں دبے سگریٹ کا کش لیتا۔ مومنہ نے اس کے ہونٹوں میں دبا سگریٹ بہت نرمی سے نکال لیا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});