جانِ جہاں!
یہ خط تمہیں حسنِ جہاں نہیں لکھ رہی۔ قلبِ مومن کی ماں لکھ رہی ہے۔ آج میں نے قلبِ مومن کے وہ خط پڑھے جو اُس نے اللہ کے نام لکھے ہیں۔۔۔ تمہیں یاد ہے وہ لیٹر باکس جو میں نے اُسے بنا کر دیا تھا۔ وہ اُسے جنگل میں رکھ آیا ہے اور اُس میں روز خط ڈالتا ہے۔ جو خط آج میں نے پڑھا ہے۔ وہ اُس کا 30 واں خط ہے۔ اُس نے اللہ سے تمہیں واپس بھیجنے کا کہا ہے۔
تمہارے اور میرے جھگڑے میں قلبِ مومن کا کوئی قصور نہیں تھا۔ وہ بوجھ جو تمہارے جانے کے بعد میرے سینے پر آپڑا تھا۔ وہ یہ خط پڑھ کر اور بڑھ گیا ہے۔
میں تمہاری مجرم ہوں طہٰ اور میں تمہارے بیٹے کی بھی مجرم ہوں۔ مجھے وہ تصویریں نہیں بیچنی چاہیے تھیں اور بیچتی تو بھی تم سے پوچھ کر ۔
تم اُس دن سفید گلاب لائے تھے میرے لیے اور قلبِ مومن کے لیے بہت ساری چیزیں تمہارے جانے کے بعد پتہ چلا تھا مجھے، اور یہ بھی یقین ہے تم کو کام مل گیا ہوگا۔ بہت پچھتائی تھی میں تمہارے جانے کے بعد۔ سوچا تھا تمہارے پیچھے عبدالعلی صاحب کے گھر جاؤں اور تمہیں منالوں۔
میں جانتی تھی مجھے چھوڑ کر واپس اُن ہی کے پاس گئے ہوگے لیکن پھر تمہارے لفظ میرے پیروں کی زنجیر بن گئے۔ اُن کی بازگشت ختم ہی نہیں ہوئی تھی۔
میں نے سوچا مجھے تمہارے پیچھے نہیں جانا چاہیے۔ اگر میں تمہارے اور اللہ کے درمیان آئی ہوں تو مجھے نہیں آنا چاہیے۔ اگر میری وجہ سے تم خطاطی کرنے کے قابل نہیں رہے تو مجھے تمہارے ہاتھوں کی یہ بیڑی اُتار دینی چاہیے۔
پر آج قلبِ مومن کے اس لیٹر باکس نے میری انا کے ہر بُت کو توڑ دیا۔ میں اپنے لیے خود غرض ہوسکتی ہوں بیٹے کے لیے نہیں ۔
یہ خط مومن کے خطوں کے ساتھ عبدالعلی صاحب کے پتے پر بھیج رہی ہوں۔ جانتی ہوں تم وہاں ہو تو تمہیں مل جائیں گے اور جب تمہیں مل جائیں اور تم اُنہیں پڑھو تو آجانا تمہارا بیٹا تم سے بہت پیار کرتا ہے۔ مجھ سے کہیں زیادہ۔۔۔ تمہارے لیے وہ اللہ کو خط لکھنے بیٹھ گیا۔ مجھے یقین ہے میرے لیے وہ کبھی اللہ کو خط نہیں لکھے گا۔ اُسے تمہاری ضرورت ہے۔۔۔ مجھے بھی اور کیا کہوں تم سے طہٰ۔۔۔
بس اس بار بھی آنا تو سفید گلاب لے کر آنا۔
تمہاری حسنِ جہاں
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
مومنہ سلطان سے اتنا قریبی رشتہ نکل آئے گا یہ کبھی قلبِ مومن نے سوچا بھی نہیں تھا مگر یہ اب وہ سوچنا چاہتا بھی نہیں تھا۔ صرف وہی نہیں تھا جس نے سلطان کو پہچان لیا تھا۔ سلطان بھی اُسے اُن ہی نظروں سے دیکھ رہا تھا جن میں شناخت تھی۔
”ارے مجھے تو تعارف ہی نہیں کروانا پڑا تم دونوں کا۔۔۔ تم دونوں نے پہلے ہی ایک دوسرے کو پہچان لیا ہے شاید۔” ثریا بالکل اُسی وقت ہیڈ فون لئے لاؤنج میں داخل ہوئی تھی اور قلبِ مومن اور سلطان کو کھڑے دیکھ کر اُس نے جیسے خود ہی سوچ لیا تھا کہ وہ متعارف ہوچکے تھے۔
”آپ کھڑے کیوں ہیں بیٹھ جائیں۔” سلطان لنگڑاتا ہوا آگے بڑھا تھا اور اُس نے بے حد نروس انداز میں قلب،مومن سے کہا تھا۔ قلبِ مومن نے گردن موڑ کر مومنہ کو دیکھا تھا۔ وہ خاموش کھڑی تھی۔ اُس کے چہرے پر کوئی ندامت ، کوئی شرمندگی نہیں تھی جو وہ دیکھنا چاہتا تھا۔ اُس کی غلطی بے شک نہیں تھی ۔ سلطان کا جرم تو تھا۔ قلبِ مومن کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے چیخے چلائے بھاگ جائے یا سلطان کا گریبان پکڑلے۔
”ثریا یہ حسنِ جہاں کے بیٹے ہیں ۔۔۔ قلبِ مومن۔” سلطان ثریا کو اُس سے متعارف کروا رہا تھا اور ثریا کے ہاتھ سے ہیڈ فون گر پڑا تھا۔
”ہماری حسنِ جہاں کے۔۔۔؟” اُس نے عجیب بے یقینی سے دونوں ہاتھ سینے پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔ پھر لپک کر مومن کے پاس آئی اور اُس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔
”وہ آنکھیں، وہی ناک ۔۔۔ وہی پیشانی ۔۔۔ میں کیوں نہیں پہچانی۔۔۔ رہ گئی ثریا۔۔۔بس رہ گئی ثریا۔”وہ قلبِ مومن کا چہرہ دیکھتے ہوئے بے اختیار ہوئی پھر اپنے آپ کو کوسنے لگی۔
مومن پلٹ کر کچھ بھی کہے بغیر صوفہ پر بیٹھ گیا تھا۔ یہ closureکا وقت تھا یا شاید show downکا۔
سلطان بھی آگے بڑھ کر ایک صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔ ثریا رُکے بغیر چائے لینے بھاگی تھی یوں جیسے پہلی بار اُسے احساس ہوا تھا اُس کے گھر پر کوئی بہت اہم مہمان آگیا تھا۔
”مومنہ نے بتایا تھا مجھے۔۔۔تمہاری کہانی میں میرے کردار کے بارے میں۔” سلطان نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بات کرنا شروع کی تھی۔
”میں تمہاری کہانی کا ولن نہیں ہوں مومن۔ حسنِ جہاں اور طہٰ میری وجہ سے علیحدہ نہیں ہوئے تھے۔” مومن نے بے حد خفگی سے اُس کی بات کاٹی تھی۔
”مجھے اُن چیزوں کے بارے میں جھوٹی وضاحتیں نہ دیں جو میں جانتا ہوں۔”
”کیا جانتے ہو تم؟” سلطان بھی برہم ہوا تھا۔
”میراباپ تم سے نفرت کرتا تھا۔” مومن نے آپ سے تم کا فاصلہ پل بھر میں طے کرلیا تھا۔ سلطان اُس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”میں بھی نفرت کرتا ہوں تمہارے باپ سے اور تم سے بھی۔۔۔ تو کیا ہوا۔۔۔؟ کیا یہ مجھے مجرم بناتاہے؟” سلطان نے جواباً اُتنے ہی کاٹ دار انداز میں کہا تھا۔
”میری بیٹی اُس فلم آڈیشن کے بعد تم سے نفرت کرتی تھی کیا یہ تمہیں مجرم اور گناہ گار بناتا ہے؟” مومن کو اُس کے جملے اب تپانے لگے تھے۔ وہ صرف حسنِ جہاں اور طہٰ کی بات کرتا وہ اُس کی اور مومنہ کی بات کیوں کرنے لگا تھا۔
”تمہیں اپنے گھر پر حسنِ جہاں کے ساتھ دیکھا تھا میں نے اور اُس کے بعد ہمارے گھر میں تباہی آئی تھی۔ تم پھر بھی چاہتے ہو میں تمہارا جھوٹ سن کر تمہیں ولن نہ سمجھوں۔” مومن نے بے حد تندوتیز لہجے میں اُس سے کہا تھا۔ وہ چند لمحوں کے لئے جیسے یہ بھول گیا تھا کہ وہ کہاں بیٹھا تھا اور کیا کرنے آیا تھا اور جو کچھ وہ کہہ رہاتھا اُس کا اُس کی فلم پر کیا اثر پڑسکتا تھا۔
”تم کیا جانتے ہو مومن۔۔۔ تم کچھ بھی نہیں جانتے۔۔۔ یہ میں نہیں تھا جس کی وجہ سے حسنِ جہاں اور طہٰ الگ ہوئے تھے۔۔۔ یہ تم تھے جو اُس گھر کی تباہی کی وجہ بنا۔”
سلطان نے دو بدو اُس سے کہا تھا اور مومنہ نے باپ کو روکنے کی کوشش کی تھی۔
”ابا۔” سلطان نے اُسے بولنے نہیں دیا تھا۔
”بتانے دو مجھے مومنہ۔۔۔ یہ اب بچہ نہیں ہے اور نہ ہی میں حسنِ جہاں کہ ہر چیز اس لئے اس سے چھپاتا رہوں کہ اس کا دل ٹوٹ جائے گا۔”
”میرے ماں باپ مجھ سے شدید محبت کرتے تھے۔ میرے لئے کیوں علیحدہ ہوتے وہ۔۔۔ یہ تم تھے سلطان۔۔۔ تمہارے خط اور تمہارا میری ماں کے ساتھ افیئر جو۔۔۔”
سلطان نے بے حد طیش کے عالم میں اُس سے کہا تھا۔
”ایک بھی لفظ اور مت کہنا میرے اور اپنی ماں کے بارے میں۔۔۔ میرا اور اُس کا رشتہ تم جیسوں کو سمجھ میں نہیں آسکتا۔ تمہارے باپ کو میرے اور اُس کے رشتے پر شک نہیں تھا۔ خطوں پر اعتراض تھا حسنِ جہاں کے کردار پر شک وہ نہیں کرتا تھا تم کررہے ہو۔
خوف تھا اُس کو تو یہ تھا کہ میں خط لکھتا رہوں گا تو وہ کبھی نہ کبھی سب کچھ چھوڑ کر واپس پاکستان چلی جائے گی دوبارہ شوبز کی دنیا میں۔ خوف اُسے یہ نہیں تھا کہ وہ میرے ساتھ بھاگ جائے گی۔” مومن یک دم بے حد غضب ناک اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اُنگلی اُٹھا کر اُس نے سلطان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”مجھے کہانیاں مت سناؤ اپنی اور حسنِ جہاں کی عظمت کی۔۔۔ کیوں آئے تھے تم ہمارے گھر۔۔۔ کیوں۔۔۔؟”
”تم اللہ کو خط لکھ لکھ کر چیزیں مانگا کرتے تھے نا۔۔۔ تمہاری ماں سے برداشت نہیں ہوا وہ۔ مجھے بلوایا تھا اُس نے کہ میں تمہارے باپ کی بنائی ہوئی اُس کی تصویریں یہاں پاکستان لاکر بیچ دوں اور پیسے اُسے بھیج دوں کیونکہ ترکی میں اُن تصویروں کو کوئی نہیں خریدتا اور طہٰ سے وہ سب کچھ چھپانا چاہتی تھی۔ وہ بے روزگار تھا اُن دنوں مگر اُسے کبھی وہ تصویریں بیچنے نہ دیتا۔۔۔ تمہارے لئے اُس نے طہٰ کی محبت کے شاہکار بیچے تھے ۔۔۔ کیونکہ ماں تھی وہ تمہاری۔۔۔بھول گئی تھی کہ محبوب اور شوہر کیا کرسکتا ہے اُس کے ساتھ۔”
سلطان بولتا چلا گیا تھا۔ قلبِ مومن ہونٹ بھینچے صرف سن رہا تھا۔ وہ اُ س میں سے کسی بھی بات کا یقین نہیں کرنا چاہتا تھا اور نہ ہی کررہا تھا۔ وہ آگے بڑھا تھا۔ اُس نے سلطان کا گریبان پکڑا تھا۔ مومنہ لپکتی ہوئی آئی تھی اور اُس نے سلطان کا گریبان اُ س کے ہاتھوں سے چھڑانے کی کوشش کی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});