”نہیں اسے بتا دوں گی۔۔۔مومن کو نئے کپڑے چاہیے۔۔۔ کھلونے چاہیے۔۔۔ اچھی تعلیم چاہیے۔۔۔ اچھا کھانا چاہیے۔۔۔میں گھر کی دیواروں پر پیار کی یادگاریں سجا کر نہیں بیٹھ سکتی۔۔۔ تم یہ سب بیچ دو۔۔۔ اتنے پیسے آجائے کہ میں کچھ سال مومن کی اچھی پرورش کرسکوں۔ پھر تب تک طہٰ کچھ نہ کچھ کرنے لگے گا۔” وہ اب آنسوؤں کو رگڑ رہی تھی اور کہتی جارہی تھی۔
”تم نے کہا تھا نا لوگ مجھے نہیں بھولے۔۔۔ وہ یہ خرید لیں گے نا؟” اس نے عجیب آس کے ساتھ سلطان سے پوچھا تھا۔
”منہ مانگے داموں پر خرید لیں گے وہ۔یہ شاہکار ہیں۔۔۔ شاہکارکو لینے سے کون انکار کرے گا؟”سلطان نے بے اختیار کہا تھا۔حسنِ جہاں کے چہرے پر مسکراہٹ آئی چہرہ چمکنے لگا ۔ سلطان کا دل جیسے خوشی سے اچھلنے لگا تھا۔ وہ اس کے آنسو روکنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
”بس تم جاؤ اب۔۔۔ طہٰ آتا ہوگا۔۔۔ میں نہیں چاہتی اس کو کچھ پتا چلے۔” اس نے یک دم دیوار پر لگی گھڑی دیکھ کر سلطان سے کہا تھا۔ سلطان بے اختیار کھڑاہوگیا تھا۔ وہ آج بھی اس کے ہاتھ میں چابی والے کھلونے کی طرح تھا۔تصویروں کو اس نے بیگ میں ڈال کر اٹھا لیا تھا جن سے اس نے نکالی تھیں۔
”سلطان۔” سلطان نے بے اختیار حسنِ جہاں کو دیکھا۔ وہ ہمیشہ ویسے ہی پکارتی تھی اُسے۔ کوئل کی طرح۔ اُس کے نام کو خوبصورت کردیتی تھی۔ وہ نام کا سلطان بن جاتا تھا۔
”اس بار جاکر ثریا سے شادی کرلینا… تم اُس کا نصیب ہو۔”وہ اُسے دیکھتا رہا۔ وہ بغیر پوچھے جانتی تھی وہ اتنے سال بعد بھی اکیلا تھا۔ اگلے کئی سال ابھی اکیلا رہنا چاہتا تھا۔ انتظار کرنا چاہتا تھا۔ وہ اُس کا انتظار ختم کررہی تھی۔
”میں پاکستان سے ترکی آگیا آپ کے لئے۔۔۔ آپ نے چائے کا ایک کپ تک نہیں پلایا۔” اُس نے جواب دینے کی بجائے ہنس کر بات بدلی تھی۔
”چائے کے لئے ایک کپ دودھ ہے اُس سے چائے بنے گی تو پھر مومن رات کو کیا پیئے گا۔۔۔ دودھ پیئے بغیر نیند نہیں آتی اُسے۔” سلطان اُسے دیکھتا رہ گیا تھا۔ وہ حسنِ جہاں نہیں تھی وہ بس ماں ہوکر رہ گئی تھی اور ”ماں” کو سلطان کہاں نظر آتا۔
”چلتا ہوں۔۔۔ آپ کو رقم ہنڈی کردوں گا جلدی۔” نظریں چرا کر اُس نے حسنِ جہاں سے کہا تھا۔ وہ اُسے جاتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ دیکھتا تو اس سے جایا نہ جاتا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”ان کا کیا کروں میں سلطان بھائی؟” اُس نے مشہور فلم پروڈیوسر سے حسنِ جہاں کی اُن تصویروں کو دیکھتے ہی جیسے کچھ حیرانی کے عالم میں سلطان سے کہا تھا۔ سلطان پاکستان واپس آتے ہی اُن تصویروں کو سب سے پہلے اُسی پروڈیوسر کے پاس لے کر آیا تھا جس نے حسنِ جہاں کو پہلی بریک دی تھی۔
”محمود بھائی۔۔۔ حسنِ جہاں کی تصویریں ہیں۔ ترکی کے سب سے بڑے Painterنے بنائی ہیں۔ شاہکار ہیں یہ۔ سٹوڈیو میں خرید کر لگوائیں۔ آپ کی کتنی ہٹ فلموں کی ہیروئن تھی وہ۔’ ‘ سلطان سے جو بن پڑ رہا تھا وہ کہہ رہا تھا۔
”سلطان بھائی اتنے سال پرانی بات ہے وہ ۔۔۔ میں نے تو بڑی مشکل سے پہچانا ہے حسنِ جہاں کو۔ یہاں سٹوڈیو میں ہیروئنوں کی گرما گرم تصویریں دیواروں پر لگیں تو لوگ رُکتے ہیں۔ یہ پورے کپڑوں میں مدھو بالا جتنے کپڑے پہن کر ڈانس کرنے والی تصویروں کو دیکھنے کے لئے کون رُکے گا۔ آئٹم نمبر والی عورتیں یاد رہتی ہیں اب لوگوں کو۔۔۔ آپ کس حسنِ جہاں کو لے آئے ہیں۔”
اُس پروڈیوسر کے لہجے میں تضحیک نہیں حقیقت تھی جو اُس نے کسی لگی لپٹی کے بغیر سلطان کو دکھا دی تھی اور سلطان گنگ کھڑا رہ گیا تھا۔ کوئی حسنِ جہاں کے بارے میں یہ سب کیسے کہہ سکتا تھا۔ اُسے جیسے یقین نہیں آیا تھا۔ غصے سے اُس کا خون کھولنے لگا تھا۔ ایک لفظ بھی کہے بغیر وہ محمود بھائی سے اُن تصویروں کو اُٹھا کر لے آیا تھا۔ وہ سیٹھ تھے۔۔۔ سیٹھ آرٹ کی قدر کیا جانتا۔ اُس نے دل ہی دل میں اُس پروڈیوسر کا مذاق اڑاتے ہوئے سوچا تھا۔
فلم انڈسٹری کا کوئی سٹوڈیو ، کوئی آرٹ گیلری ایسی نہیں تھی جس کی خاک اگلے چند ہفتوں میں سلطان نے چھان نہیں ماری تھی۔ اُن تصویروں کو بکوانے کے لئے وہ اُس ایک ایک پروڈیوسر کے پاس بھی گیا تھا جن کے ساتھ حسنِ جہاں نے کبھی کام کیا تھا۔
طہٰ عبدالعلی کے وہ شاہکار جو حسنِ جہاں کا دل لے گئے تھے وہ بازار میں کوئی کچھ داموں میں خریدنے پر بھی تیار نہ تھا۔ وہ انڈسٹری میں ہوتی تو ان ہی تصویروں کو خریدنے کے لئے کئی خریدار آتے جو صرف حسنِ جہاں کو خوش کرنے کے لئے انہیں منہ مانگے داموں خرید لیتے۔ مگر حسنِ جہاں اب کسی کی ضرورت تھی نہ خواہش، نہ وہ باکس آفس کی ملکہ تھی نہ لوگوں کے دلوں کی رانی۔۔۔ وہ گزرا ہوا ماضی تھی۔ گزرا ہوا ماضی خرید کر حال کون بناتا ہے۔ یہ سلطان کو کون سمجھاتا۔
وہ پروڈیوسر وں اور آرٹ گیلریز سے تھک کر شہر کی سب سے مشہور اینٹیک شاپ پر اُن تصویروں کو لے گیا تھا۔ جہاں سے سٹوڈیوزوالے اکثر فلموں کے سیٹس کے لئے سامان کرائے پر لیا کرتے تھے۔
”واہ واہ کیا کام ہے۔ کیا تصویریں ہیں۔ لازوال کردیا حسنِ جہاں کے حسن کو۔۔۔ ضرور خریدوں گا میں انہیں۔” اُس دکان کا مالک اُن تصویروں پر پہلی نظر ڈالتے ہی پھڑک اُٹھا تھا اور سلطان کا چہرہ بے اختیار چمکا تھا۔
”مجھے اگرپتہ ہوتا تو میں اتنی جگہوں پر دھکے نہ کھاتا انہیں دکھا دکھا کر۔۔۔ سیدھا آپ کے پاس آتا۔ دُنیا کو قدر ہی نہیں ہے آرٹ اور آرٹسٹ کی۔” سلطان نے چائے کے اُس کپ سے چسکی لیتے ہوئے کہا جو اُس دکاندار نے اُس کے لئے منگوائی تھی۔
”سولہ آنے سچ کہا سلطان بھائی۔۔۔ قدردانی اس قوم کے خمیر اور ضمیر دونوں میں نہیں ہے۔ سلطان نے اُس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔
”مجھ سے پوچھتے ہیں کون حسنِ جہاں۔۔۔؟ چھے سالوں میں بھلا دیا۔۔۔ کوئی چھے سو سال تو نہیں گزرے کہ یہ سوال کرتے۔” سلطان کو اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لئے کوئی سامع مل گیا تھا۔
”افسوس صد افسوس۔” دکاندار نے بھی چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔
”چیک دیں گے آپ۔۔۔” سلطان نے چائے کا آخری سپ لیتے ہوئے کپ رکھا اور پوچھا۔
”نہیں نہیں سلطان بھائی چیک کیوں کیش دوں گا میں آپ کو۔” دکاندار نے بھی اپنا کپ رکھ دیا تھا۔
”اتنی بڑی رقم کیش میں کیسے لے کر جاؤں گا لیکن چلیں لے جاتا ہوں میں کیش ہی۔” سلطان متامل ہوا لیکن پھر ساتھ ہی اُس نے آمادگی ظاہر کی۔
”زیادہ تو دینی ہی ہے۔ میری پسندیدہ ہیروئن اور ڈانسر کی تصویریں ہیں۔” دکاندار نے خوش دلی سے ہنستے ہوئے جیب سے بٹوہ نکال کر کچھ نوٹ نکالتے ہوئے سلطان کی طرف بڑھادیئے۔ سلطان کو جھٹکا لگا۔
”یہ کیا ہے؟” دکاندار سمجھ نہیں پایا اور ہنسا۔
”یہ نذرانہ عقیدت ہے۔”
”دوہزار روپے ان سب تصویروں کے لئے؟” سلطان نے اُن نوٹوں کو ہاتھ میں پکڑ کر گنتے ہوئے کہا تھا۔
”دوہزار بہت بڑی رقم ہے سلطان بھائی۔۔۔ گھر کی دیواروں پر کون لگاتا ہے اب یہ تصویریں حسنِ جہاں کی۔۔۔ یہ تو بس قدردانی ہے کہ میں خرید رہا ہوں یہ سب۔ ورنہ وہ دیکھیں میڈم نور جہاں کی پہلی فلم میں اُن کی تصویریں، وہ نرگس کی، وہ مدھوبالا کی۔۔۔دیمک لگ گئی ہے سب کو یہیں دیواروں پر ٹنگے۔۔۔کوئی نہیں خریدتا۔”
اُس دکاندار نے ہاتھ کے اشارے سے اپنی دکان کی دیواروں پر لٹکی ہوئی اُن تصویروں کی طرف جیسے اُس کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا تھا۔ سلطان کو جیسے اداکاروں کا ماضی ، حال، مستقبل ایک فریم میں دکھادیا تھا۔ سلطان بُت بنا اُسے دیکھتا رہا تھا۔ وہ حسنِ جہاں کی اُن تصویروں کو ان دیواروں پر لٹکے دیمک لگنے تو نہیں دے سکتا تھا۔ وہ نور جہاں، نرگس، مدھوبالا نہیں تھی۔ وہ حسنِ جہاں تھی۔
٭…٭…٭
وہ گھر سلطان کی زندگی کا حسنِ جہاں کے بعد واحد اثاثہ تھا جو اُس نے سترہزار روپیہ کا بیچ کر پیسہ حسنِ جہاں کو بھیج دیا تھا۔ اس کے علاوہ اُس کے پاس کوئی اور چیز نہیں تھی جسے وہ حسنِ جہاں کے لئے بیچ سکتا۔ اُس نے اُس سے خط میں جھوٹ بولا تھا کہ وہ رقم اُس کی تصویریں بیچ کر حاصل ہوئی تھی۔ وہ حسنِ جہاں کو احسان مند کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اُس کا احسان مند رہنا چاہتا تھا۔
اُس کی رقم حسنِ جہاں کو مل گئی تھی مگر اُس کے خط کا کوئی جواب نہیں آیا تھا۔
کئی سال اُن کا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ اُس نے ثریا سے شادی کرلی تھی۔ حسنِ جہاں کو اُس کی اطلاع بھی دی تھی۔ مومنہ کی پیدائش کی خبر بھی دی تھی اور فلم انڈسٹری میں اب کام نہ ملنے کی شکایت بھی اُسے لکھ بھیجی تھی۔ اُس کے کسی خط کا جواب نہیں آیا تھا۔ سلطان ہر سال چھے ماہ بعد کرائے کا گھر بدلنے پر اُسے نیا پتہ بڑی آس سے بھیجتا تھا۔ یوں جیسے اُس سے بچھڑ جانے سے ڈر ہو۔ وہ پاکستان نہیں ترکی تھا ایک بار دونوں ایک دوسرے سے بچھڑ جاتے تو پھر کیسے ڈھونڈتے۔ وہ پاکستان آ نہیں سکتی تھی۔ وہ اب ترکی جا نہیں سکتا تھا۔ خط واحد رابطہ تھا دونوں کے درمیان اور اُن خطوں کو لکھتے بھیجتے اور اُن کے جواب کا انتظار کرتے سلطان نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک دن وہ دوبارہ اُس کے سامنے آبیٹھے گی۔
اُسے اُس کے آنے کی خبر ملی تھی تو وہ دوڑا ہوا ممتاز بیگم کے گھر گیا تھا اور وہ حسنِ جہاں کو دیکھ کر دھک سے رہ گیا تھا۔ ہڈیوں کا وہ ڈھانچہ سیاہ حلقوں میں خالی آنکھیں لئے اُس کو دیکھتا رہا تھا۔ اُن خالی آنکھوں نے سلطان کی پہچان نہیں کھوئی تھی۔
”کس غم نے یہ حال کیا ہے آپ کا حسنِ جہاں۔۔۔ میں تو۔۔۔۔۔۔میں تو ۔۔۔ ایسے چھوڑ کے نہیں آیا تھا آپ کو۔” سلطان اُسے دیکھ کر بے اختیار رو پڑا تھا۔
”طہٰ کے غم نے اُس نے ایک غلطی معاف نہیں کی۔۔۔ میری پہلی اور آخری غلطی۔”
وہ اُس کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی یوں جیسے کوئی پرانی سکھی سہیلی کے گلے لگ کر روتا ہے۔
٭…٭…٭
”سلطان آیا تھا؟”
طہٰ سلطان کے گھر سے جانے کے کچھ ہی منٹوں بعد بے حد غضب ناک انداز میں گھر میں داخل ہوا تھا۔ اور حسنِ جہاں گنگ ہو گئی تھی ۔ وہ جو راز رکھنا چاہتی تھی وہ منٹوں بھی چھپا نہیں رہا تھا۔ وہ یقینا قلبِ مومن تھا جس نے باپ کو سلطان کے بارے میں بتایا تھا۔ حسنِ جہاں کو لمحہ بھی نہیں لگاتھا یہ بوجھ لینے میں۔
”میں نے بلایا تھا اُسے۔” حسنِ جہاں نے اُس سے نظریں چرائی تھیں۔
”صرف ملنے کے لئے اتنے سالوں سے ہم نہیں ملے تو وہ ترکی آیا تھا مجھ سے ملنے۔” طہٰ نے یک دم اُس کی بات کاٹی تھی۔
”تصویریں کہاں ہیں جو یہاں لگی ہوئی تھیں؟” حسنِ جہاں نے پھیکے پڑتے ہوئے چہرے کے ساتھ اُسے دیکھا۔
”میں نے اُتار کر رکھ دیں ۔ ساری دیواریں بھری ہوئی تھیں اور۔۔۔” طہٰ نے اُس کی بات کاٹی۔
”سلطان تصویریں لینے آیا تھا؟” اُس کا جھوٹ پکڑا گیا تھا۔ حسنِ جہاں بے بسی سے کھڑی رہی تھی۔ اُسے اب طہٰ سے کیا کہنا تھا وہ یہ سوچ رہی تھی لیکن کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی۔
”تم نے بیچنے کے لئے دی ہیں نا اُسے؟” حسنِ جہاں نے اُس کا چہرہ دیکھا۔ اُس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں ۔ وہ مٹھیاں بھینچ رہا تھا۔
”ہمیں قلبِ مومن کے لئے پیسہ چاہیے طہٰ۔” اُس نے بے حد نرم آواز میں اُس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے جیسے اُس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تھی۔ طہٰ نے اُس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے اُسے پرے دھکیلا۔
”وہ میرے پیار کی یادگار تھی۔۔۔ تم کو Paintکیا تھا اپنے لئے۔۔۔ اُن تصویروں کی وجہ سے بابا کو ناراض کیا ۔۔۔ اللہ کو ناراض کیا اور تم اُنہیں بازار میں بیچنے کے لئے لے گئی۔۔۔ بکنے کے لئے۔۔۔ وہ چہرہ۔۔۔ وہ جسم جو میں نے تمہارے عشق میں تمہارے لئے بنایا تھا۔۔۔ تم نے اُس کو بیچنے کے لئے دے دیا۔” وہ غضب ناک ہورہا تھا اور حسنِ جہاں حواس باختہ۔ اُس نے طہٰ کا ایسا غصہ تو کبھی نہیں دیکھا تھا۔
”قلبِ مومن کو ضرورت تھی۔” طہٰ چلایا تھا۔
”قلبِ مومن کا نام بھی مت لو۔ اُس کو ضرورت نہیں تھی۔ تم کو ضرورت تھی۔ تم نے قدر نہیں کی میری محبت کی حسنِ جہاں۔۔۔ اُس محبت کی جس نے مجھے برباد کردیا۔” وہ اب اپنے سینے پر گھونسے ماررہا تھا یوں جیسے خود کو مار دینا چاہتا ہو۔ حسنِ جہاں نے بے یقینی سے اُس کی بات سنی۔
”میری محبت نے تمہیں برباد کردیا۔۔۔؟ تمہیں کیا کہ مجھے برباد کیا؟ طہٰ عبدالعلی میں برباد ہوئی ہوں تمہاری محبت میں۔” وہ بھی غصے میں اُس پر چلائی تھی۔
”تم آج میری نظروں سے گر گئی۔۔۔ اُتار دیا تمہیں اُس مقام سے میں نے جہاں تم تھی۔ تم ایک عام سی عورت تھی۔۔۔حسنِ جہاں ۔۔۔ عام عورت۔” اُس نے انگلی اُٹھا کر حسنِ جہاں سے کہا تھا ۔ اُس کی آنکھوں میں اُس کے لئے کوئی پہچان ہی نہیں تھی اور حسنِ جہاں کے لئے جیسے یہ کافی تھا۔ وہ لاوا جو اُس کے اندر تھا۔ آج پھٹ پڑا تھا۔
”میں عام عورت ہوں تو تم بھی عام مرد ہو طہٰ۔۔۔ وہ روحانیت جس کے پیچھے میں آئی تھی وہ تم میں تھی ہی نہیں۔” اُس کے لفظوں نے طہٰ کو جیسے آگ بگولہ کردیا تھا۔
”تم کھا گئی وہ سب۔۔۔ تمہاری مادیت پرستی چاٹ گئی میری روحانیت۔۔۔ تمہارا جسم میری روح کو ہڑپ کرگیا۔۔۔ تمہارا حسن میری بینائی لے گیا۔۔۔ تمہارا ساتھ میرا ہنر لے گیا۔۔۔ خالی کردیا تم نے مجھے۔۔۔ کھوکھلا برتن۔۔۔ اور اب مجھے ایسا کرکے تم ایک بار پھر خود کو بیچنے نکلی ہو کیونکہ میں۔۔۔ میں یہ گھر نہیں چلا سکتا۔۔۔ اپنا بچہ نہیں پال سکتا۔ وہ تم پال سکتی ہو کیونکہ تمہارے پاس ابھی حسن اور جوانی ہے۔”
وہ کیا کیا کہتا جارہا تھا طہٰ کو خود بھی اندازہ نہیں تھا۔ اور وہ کھڑی سنتی جارہی تھی ۔۔۔بس سنتی جارہی تھی یوں جیسے وہ عدالت کا کوئی فیصلہ تھا جسے اُس نے صرف سننا تھا۔ آنسو اُمڈے تھے۔ چہرہ آگ کا شعلہ بنا تھا ۔۔۔ وجود کوئلہ۔۔۔
”تم نے آج مجھے بے مول کردیا۔۔۔ حسنِ جہاں جو تمہارے لئے دُنیا چھوڑ کر آئی تھی طہٰ۔۔۔ تم نے حسنِ جہاں کو کھوٹا سکہ بنادیا ۔۔۔ ہر الزام میرے سر پر۔۔۔ تمہاری ہر آزمائش میرا جرم۔۔۔ میں کھا گئی تمہاری روحانیت کو۔۔۔ میں؟ ” وہ روتے ہوئے اُس سے کہہ رہی تھی۔
”میرا حسن، میرا جسم تباہ کرگئے تمہیں۔۔۔ اُنہیں تو اُسی دن مار کردفن کر آئی تھی جس دن تم سے نکاح کیا تھا۔ تم نے کیا کہا تھا مجھے؟ تمہیں اللہ کے لئے چنتا ہوں۔۔۔ ساری عمر۔۔۔ مرنے تک۔۔۔ میں نے تو بے مول بے دام کرکے اپنے آپ کو تمہیں سونپا تھا۔۔۔ اور تم نے۔۔۔ تم چھوڑدو اب مجھے۔۔۔ اور وہ سب حاصل کرلو جو میرے ساتھ نے تم سے چھینا ہے۔۔۔ تم چلے جاؤ اب یہاں سے۔” وہ پاگلوں کی طرح روتی دروازہ کھول کر کھڑی ہوگئی تھی۔ طہٰ نے بے یقینی سے اُسے دیکھا۔
”تم۔۔۔ تم مجھے جانے کا کہہ رہی ہو؟”
”ہاں میں تمہیں جانے کا کہہ رہی ہوں۔۔۔ تم چلے جاؤ۔۔۔ اپنا ہنر۔۔۔ اپنا نام پالو۔۔۔ نہ گنواؤ میرے لئے کچھ بھی۔” اُس نے اُسی طرح روتے ہوئے اُس سے کہا۔
وہ اُسے دیکھتا رہا پھر اُس نے کہا۔
”غلطی کی تم سے پیار کیا۔”
”میں نے تو گناہ کیا۔” حسنِ جہاں نے اُس کی بات کاٹ دی تھی۔
”اللہ کی محبت تمہارے وسیلے سے پانا چاہی۔۔۔ شرک کیا ۔۔۔ تمہارے لئے مٹی ہوئی تو مٹی ہوگئی۔۔۔ اللہ کے لئے ہوتی وہ میرا ہوجاتا۔۔۔ گناہ کیا طہٰ عبدالعلی تمہارا بُت پوجا۔۔۔ آج توڑ رہی ہوں۔۔۔ تم جھوٹے۔۔۔ تمہارا پیار جھوٹا۔” وہ روتے چلاتے ہوئے اُس سے کہتی رہی۔ وہ چلتے ہوئے دروازے کی چوکھٹ میں آکر کھڑا ہوا۔
”تم نے سب لے کر دھتکارا ہے آج مجھے ۔۔۔ میری اوقات یاد دلا دی ۔۔۔ میں جھوٹا۔۔۔ میرا پیار جھوٹا۔۔۔ اور وہ جس سے میں نے پیار کیا وہ نہیں۔۔۔؟ تم حسنِ جہاں ہو۔۔۔ تم میری دُنیا اور آخرت کھاگئی۔”
اُس نے کہا تھا اور دروازے سے باہر نکل گیا تھا۔ وہ غم کے عالم میں بے حال وہاں کھڑی تھی۔ وہ وہ شخص تھا جس کے پیچھے وہ دُنیا چھوڑ کر آئی تھی اس فریب میں کہ وہ اللہ سے قریب تھااو ر وہ اُس سے کہہ رہا تھا وہ اُس کی دنیا اور آخرت دونوں کھا گئی۔
دروازے سے پشت لگائے وہ ہچکیوں سے روتی رہی تھی اور پھر اُسے یک دم خیال آیا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});