الف — قسط نمبر ۱۰

قلبِ مومن کا چہرہ سیاہ پڑا تھا۔ وہ سیدھا سیدھا اُسے یہ کہہ رہا تھا کہ اُسے اُس کی بات سننے میں دلچسپی نہیں تھی وہ مومنہ کو سننا چاہتا تھا۔
”Sure۔”
مزید ایک لفظ بھی کہے بغیر قلبِ مومن نے اپنے سامنے میز پر رکھا ہوا مائیک پیچھے کردیا تھا۔ اُس کی عزت نفس شاید اتنی مجروح نہ ہوتی اگر وہ اُس کے برابر نہ بیٹھی ہوتی۔ قلبِ مومن کو یقین تھا وہ اس ساری اہمیت اور اُس کی بے وقعتی سے محظوظ ہو رہی ہوگی۔ اُس سے بدگمان ہونے کے لئے اُسے کوئی کوشش کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
”آپ سے پہلے یہ رول شیلی کررہی تھیں ایک گھنٹہ پہلے اُن سے فون پر میری بات ہوئی ہے تو انہوں نے کہا ہے کہ جو رول مومنہ سلطان کررہی ہیں وہ انہوں نے ریجیکٹ کردیا تھا کیونکہ اُنہیں وہ اہم اور دلچسپ نہیں لگا تھا اور فلم کا موضوع بھی اُنہیں بے تُکا لگا۔ آپ کسی کا چھوڑا ہوا رول کیوں کررہی ہیں؟” اُس رپورٹر کا پہلا ہی سوال تپا دینے والا تھا۔ قلبِ مومن اپنی جگہ پر پہلو بدل کر رہ گیا تھا اور داؤد اور ٹینا کا رنگ اُڑ گیا تھا۔ انہوں نے دل میں شیلی کو بیک وقت گالیاں دیں تھیں۔ وہ اداکاراؤں والی typicalحرکتیں کررہی تھی۔ خود بھی نہیں کام کرنا اور دوسرے کا دل بھی اُٹھانا ہے۔
”میں ہر رول کو اُس کے میرٹ پر دیکھتی ہوں۔ جس رول پر مجھے آسکر ملا وہ ودیابالن کا چھوڑا ہوا تھا۔ ہر رول ہر ایک کا نصیب نہیں ہوتا ۔ جس کا ہوتا ہے اُسی کو کرنا ہوتا ہے۔” قلبِ مومن نے گردن موڑ کر شاید پہلی بار اُسے اتنے قریب سے بات کرتے دیکھا تھا اور وہ پہلا لمحہ تھا جب اُس کے دل میں مومنہ سلطان کے لئے عزت جاگی تھی۔
”اپنے رول کے بارے میں کچھ بتائیں۔” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اُسی رپورٹر نے کچھ کُریدنے والے انداز میں کہا۔
”میں کچھ نہیں بتا سکتی ڈائریکٹر کچھ بتانا چاہیں تو بتادیں۔” اُس نے کہتے ہوئے گردن موڑ کر قلبِ مومن کو دیکھا اور اُسے خود کو دیکھتے ہوئے پایا۔ وہ دونوں پہلی بار اتنے قریب بیٹھے تھے۔ پہلی بار ایک دوسرے کی آنکھوں کو بھی اتنے قریب سے دیکھا تھا انہوں نے۔ مومنہ سلطان نے ایک لمحہ میں اُس سے نظریں چرائی تھیں۔
”یہ سکرپٹ قلبِ مومن نے لکھا ہے اوروہ رائٹر نہیں ہیں۔ جو وہ بناتے تھے وہ کمرشل سینما تھا۔ کمرشل سینما میں اُن کی کامیابی کی وجہ عورت کے جسم کا exposureتھا۔ ایسی فلمیں بنانے والا ڈائریکٹر ایک دن روحانیت اور اللہ کے بارے میں فلم بنانے ہی نہیں لکھنے بھی بیٹھ جائے تو کیا یہ مذاق نہیں ہے اور پھر اُس فلم میں آپ جیسی اداکارہ بھی کام کرنے پر تیار ہوجائے۔” وہ اگلا سوال قلبِ مومن کو شرم سے پانی پانی کرنے کے لئے کافی تھا۔
زندگی واقعی مکافات عمل تھی۔ وہاں مومنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے یہ سوال سرجھکائے سنتے ہوئے قلبِ مومن نے سوچا تھا۔ وہ پچھلا سال ہوتا تو اُس کے سٹوڈیو میں بیٹھ کر اُس کا مذاق اڑانے والاوہ رپورٹر سٹوڈیو سے باہر پڑا ہوتا یا اُس کی ایسے سوال کرنے کی جرأت ہی نہ ہوتی۔ پر آج اُس سے وہ سوال کئے جارہے تھے اور وہ سننے پر مجبور تھا جن پر پہلے کبھی وہ آپے سے باہر ہوجاتا تھا۔ اُس سوال پر کچھ تالیاں بجی تھیں، کچھ قہقہے بھی لگے تھے۔ ہنسنے والوں میں مومنہ سلطان نہیں تھی۔ قلبِ مومن کو اچنبھا ہوا۔
”یہ سوال میرے لئے ہے یا ڈائریکٹر کے لئے ؟” مومنہ نے موضوع بدلنے کی کوشش کی تھی۔
”آپ کے لئے۔۔۔ڈائریکٹر کا جواب تو ہم لیتے رہیں گے۔” ایک دوسرے نیوز رپورٹر نے بڑی دلچسپی سے کہا تھا۔
”کمرشل سینما کرنے والے کا روحانیت پر فلم لکھنا اور بنانا آپ کو مذاق لگتا ہوگا مجھے نہیں۔ اسی لئے میں اس فلم کا حصہ ہوں۔ کیونکہ مجھے لگتا ہے ایسے موضوعات پر کام ہونے کا رواج پڑنا چاہیے تاکہ دوبارہ کسی کو ایسی فلم کے بنانے کا ارادہ مذاق نہ لگے۔” سٹوڈیو تالیوں سے گونجا تھا اور قلبِ مومن زمین میں گڑا تھا۔ وہ کیا عورت تھی جو اُس کے برابر بیٹھی ہوئی تھی۔ کیا ظرف رکھتی تھی اور کیا اعتماد۔
”ا س فلم کے لئے کیا معاوضہ لیا آپ نے؟” اگلے سوال پر پھر سٹوڈیو میں قہقہے گونجے تھے۔ وہ سب کا مشترکہ دلچسپی کا موضوع تھا۔ مومنہ سلطان بھی مسکرادی تھی۔
”بہت زیادہ۔”
”کروڑوں میں لیا ہوگا۔” رپورٹر نے کُریدا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”اُس سے بھی زیادہ ۔” مومنہ سے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔
”ہالی ووڈ میں آپ کا اگلا پروجیکٹ۔۔۔؟” مومنہ نے بات کاٹ کر کہا۔
”فی الحال صرف الف۔۔۔ آج صرف اسی کی بات ہوگی۔”
مومنہ نے اُس رپورٹر کو نرمی سے ٹوک دیا تھا۔ اُس کے بعد ہونے والے سوال جواب رسمی تھے۔ وہاں انٹر نیشنل نیوز ہاؤسز کے لئے کوریج کرنے والے مقامی صحافی بھی تھے۔ جو وہاں سے سوشل میڈیا کے لئے بھی لائیو کوریج کررہے تھے۔
الف مومنہ سلطان کی وجہ سے اگلے کچھ گھنٹوں میں ملکی اور بین الاقوامی طور پر خبروں کا مرکز بننے والی تھی۔ قلبِ مومن یک دم ہی جیسے پس منظر میں چلا گیا تھا۔ الف صرف مومنہ سلطان کی وجہ سے جانی اور پہچانی جارہی تھی اور قلبِ مومن کو بُرا نہیں لگ رہا تھا۔ عجیب بات شاید یہ تھی۔
”آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ۔” وہ اُسے ایک گھنٹہ کے بعد رُخصت کرنے کے لئے گاڑی تک گیا تھا اور اُس نے مومنہ سلطان سے کہا۔
”کس چیز کے لئے؟” وہ گاڑی میں بیٹھتے بیٹھتے رُکی۔
”بہت ساری چیزیں ہیں۔ مگر یہ شکریہ آج کی پریس کانفرنس میں مجھے defendکرنے کے لئے ہے۔”
”میں نے آپ کو defendنہیں کیا الف کو کیا ہے اس لئے آپ کو شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خدا حافظ۔” وہ کہہ کر رُکے بغیر گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔
قلبِ مومن اُسے جاتا دیکھتا رہا تھا۔ اُسے آج اُس کا یہ جملہ بھی بُرا نہیں لگا تھا کیونکہ اُس کے دل میں مومنہ سلطان کے لئے کوئی بدگمانی نہیں آئی تھی۔
٭…٭…٭
دیوار کے ساتھ ٹکی اُن پینٹنگز کو سلطان نے باری باری کرکے دیکھا تھا اور اس خطاطی پر نظر پڑتے ہی اُسے عبدالعلی یا د آیا تھا اور طہٰ ۔ اُس نے خطاطی پر خطاط کا نام ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ عبدالعلی کے نام نے اُسے ساکت کردیا تھا۔
قدموں کی چاپ پر اُس نے پلٹ کر دیکھا تھا۔ وہ مومنہ تھی جو لاؤنج کا دروازہ کھول کر اندر آئی تھی۔ سلطان اور وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر سلطان نے شکست خوردہ انداز میں کہا۔
”عبدالعلی کی پینٹنگز ہیں؟”
”اور آپ جانتے ہیں عبدالعلی کون ہیں۔” مومنہ نے سرہلاتے ہوئے اُس سے کہا تھا۔
”قلبِ مومن سے لی ہیں تم نے؟” اُس نے مومنہ کی بات کے جواب میں جیسے بڑبڑاتے ہوئے کہا تھا۔
”ہاں۔۔۔ ابا فلم سائن کرلی ہے میں نے۔ اُس کی سکرپٹ بھی مل گیا ہے پورا لیکن پڑھنے کی ہمت نہیں ہورہی۔ آج میں مومن سے نظریں نہیں ملا پارہی تھی۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا میں نے کہ کبھی میں بھی مومن کی مجرم ہوسکتی ہوں۔” مومنہ کی آواز میں بے چارگی تھی اور سلطان نے اُسے پلٹ کر دیکھا تھا یوں جیسے اُسے مومنہ کے لفظوں نے ہلادیا ہو۔
”ابا میں میں آپ کو سب کچھ معاف کرتی ہوں جو بھی آپ نے کیا۔ لیکن میرا اتنا حق ہے کہ آپ مجھے حقیقت بتائیں۔ آپ کااور حسنِ جہاں کا کیاتعلق تھا۔ کیا آپ کی وجہ سے گھر ٹوٹا تھا اُس کا؟” مومنہ کی آواز بھرا گئی تھی۔
”حسنِ جہاں اور میری بدقسمتی ایک ہی تھی۔ اُسے مومن نے غلط سمجھا۔ مجھے تم غلط سمجھ رہی ہو۔” سلطان نے رنجیدگی سے کہا۔ مومنہ نے آگے بڑھتے ہوئے لاؤنج کی میز پر پڑا سکرپٹ کا لفافہ اُٹھا کر سلطان کو دکھاتے ہوئے کہا۔
”میں نہیں سمجھ رہی ابا۔۔۔ یہ کاغذ سمجھ رہے ہیں۔ اس پر لکھی ہوئی قلبِ مومن کی تحریر judgeکررہی ہے آپ کو۔” سلطان اس کی بات پر ہنس پڑ اتھا۔
”مومن کے ہاتھ کی تحریر ہے یہ۔۔۔ قلبِ مومن کی۔۔۔ وہ بیٹا ہے اُس کا۔۔۔ وہ ہی تو judgeکرسکتا ہے حسنِ جہاں کو۔” وہ کہہ رہا تھا۔
”صرف قلبِ مومن ہی لکھ سکتا ہے یہ سب۔۔۔ اس کے اور اللہ کے سوا کوئی اور نہیں تھا یہ جاننے والا کہ میں حسنِ جہاں کے بلانے پر ترکی گیا تھا۔” وہ بڑبڑایا تھا یوں جیسے ماضی میں کچھ دیکھ رہا ہو۔
ایک راز وہ تھا جو قلبِ مومن نے سنبھال رکھا تھا ۔ ایک راز وہ تھا جو سلطان کے پاس تھا اور ایک چیز سچ تھا جو کس کے پاس تھا یہ مومنہ جاننا چاہتی تھی۔ انٹرول کے بعد والے حصے کو پڑھنے سے پہلے۔ اپنے باپ کو مجرم مان لینے سے پہلے۔
سلطان اب صوفہ پر بیٹھا جیسے خاموشی کا کوئی چلہ کاٹنے لگا تھا۔ ایک بار پھر اُسے اپنے ناخنوں سے دل کے سارے زخموں کے کھرنڈکھرچنا تھے۔ خو دکو لہولہان کرنا تھا۔۔۔ اس بار حسنِ جہاں کی طرح مومنہ سلطان کے سامنے ۔
٭…٭…٭
کتنے سال بعد وہ حسنِ جہاں کو دیکھ رہا تھا کوئی اُس سے کہتا تو وہ دن تک گن کر بتا دیتا۔
اُس کے سامنے وہ یوں آکر کھڑا ہوا تھا جیسے کوئی ملکہ کے دربار میں آکھڑا ہوا ہو۔
”تم کیوں کھڑے ہو ابھی تک بیٹھ جاؤ۔” حسنِ جہاں لپک کر اُس کی طرف آئی تھی۔ بے اختیار اُس کے گلے لگی تھی اور لگی ہی رہی تھی۔ اتنے سالوں بعد ”دیس” سے کوئی ”اپنا” آیا تھا اور جو آیا تھا وہ مرہم کی طرح آیا تھا۔ سلطان تو اُس کے اپنے ساتھ لپٹنے پر اُس کو ٹھیک سے گلے بھی نہیں لگا سکا۔ اُس نے کہاں سوچا تھاحسنِ جہاں کو زندگی میں دوبارہ کبھی دیکھ پانے کا معجزہ ہوجائے گا اور اب وہ اُسے بیٹھنے کا کہہ رہی تھی اور سلطان جیسے اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا۔
”یہ قلبِ مومن ہے میرا بیٹا۔” اُس نے ایک خوبصورت بچے کو اُس کی طرف بڑھایا تھا۔ نہ وہ بچہ آگے آیا تھا نہ سلطان آگے بڑھا تھا۔
”تم باہر جاکر کھیلو۔” حسنِ جہاں نے اُس بچے کو بیرونی دروازے سے باہر نکال دیا تھا۔
”مجھے بہت تکلیف ہورہی ہے۔” سلطان نے بالاآخر اُس سے کہا تھا۔
”کیوں؟”وہ حیرت زدہ ہوئی۔
”وہ گھر جو آپ چھوڑ کر آئی تھیں اور یہ۔۔۔” سلطان سے خود اپنی بات پوری نہیں ہوسکی تھی۔
”سلطان اب بس۔۔۔ ماضی میں کیا تھا اور میں کہاں سے آئی ہوں۔ میں سوچنا چھوڑ چکی ہوں۔” اُس نے سلطان کو آگے کچھ کہنے کا موقع بھی نہیں دیا تھا۔
”بیٹھ جاؤ۔۔۔ کھڑے رہوگے تو تھک جاؤگے۔” اُس نے ایک کرسی کھینچ کر اُس کے سامنے رکھی تھی۔ دوسری پر خود بیٹھ گئی تھی۔ وہ بھی بیٹھ گیا تھا۔سالوں بعد سامنا ہوا تھا اور سامنا ہوا تھا تو وہ غمزہ ہورہا تھا۔ اُس کا چہرہ میک اپ سے عاری تھا۔ لباس معمولی اور ہاتھ۔۔۔
سلطان رہ نہیں سکا اُس نے بیٹھے بیٹھے آگے بڑھ کر اُس کا ہاتھ پکڑ لیاتھا۔
”کیا ہوا؟” وہ چونکی تھی۔
”ہاتھ دیکھے ہیں آپ نے اپنے؟اتنی خراشیں، اتنے زخم۔” سلطان کی آواز بھرآئی تھی۔ وہ ان ہاتھوں پر پتہ نہیں کون کون سی کریمیں بناکر مساج کیا کرتا تھا۔ نیل پالش سے ناخن رنگتا تھا۔ اُس کی انگلیوں میں انگوٹھیاں سجاتا تھا۔ انہیں شوکیس میں رکھ دینے والی چیز بنادیتاتھا۔
”برتن دھوتے دھوتے ایسے ہوگئے۔ سردیوں میں کبھی پانی نہ ہو تو ۔۔۔ اور گھر کا کام تو کرنا ہوتا ہے یہاں کوئی ملازم نہیں ہے۔” وہ ہنستے ہوئے یوں کہہ رہی تھی جیسے یہ کوئی بات ہی نہیں تھی۔ اُس نے ہاتھ چھڑالیا تھا۔
”اپنا خیال نہیں رکھا آپ نے جیسے میں رکھتاتھا۔ ” سلطان نے گلہ کیا۔
”تم حسنِ جہاں کا خیال رکھتے تھے میں تو ایک بیوی ہوں۔ ایک ماں ہوں۔ صرف دوسروں کے لئے جیتی ہوں۔ اب حسنِ جہاں تھوڑی ہوں۔” اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے اُس نے عجیب انداز میں مسکرا کر کہا تھا۔
”گھاٹے کا سودا کیا تھا آپ نے۔” اُس نے بے اختیار کہا تھا۔
”باقی ہر خیال آتا ہے۔ بس یہ خیال نہیں آتا کہ یہ گھاٹا ہے۔۔۔قلبِ مومن ہے میری زندگی میں۔” سلطان کو عجیب حسد ہوا تھا اُس لمحے قلبِ مومن آخر کیوں آگیا تھا حسنِ جہاں کی زندگی میں۔
”سب کیسے ہیں؟” وہ پوچھ رہی تھی۔
”سب ٹھیک ہیں۔” سلطان نے کہا۔
”مجھے یاد کرتا ہے کوئی؟” اُس کے انداز میں عجیب حسرت تھی۔
”ہر ایک۔۔۔ سینما جانے والے تماشائی فلموں پر تبصرے کرنیو الے، فلم پروڈیوسرز، ایکٹرز سب۔۔۔” سلطان نے بے ساختہ کہا یوں جیسے اُسے بہلانا چاہتا تھا۔
”میں اپنے گھر والوں کی بات کررہی ہوں۔”حسنِ جہاں نے ایک لمحہ کی خاموشی کے بعد کہا۔
”شاید نہیں۔۔۔ میں اب نہیں ملتا اُن سے۔۔۔ مجھے کیوں بلوایا آپ نے؟”سلطان کو کہتے کہتے خیال آیا۔
”بس تم ہی ہو زندگی میں جس کا خیال مشکل وقت میں آتا ہے۔ باقی سب اچھے وقتوں میں یاد آتے ہیں۔ اور یہ بھی یقین ہے کہ مشکل وقت میں آواز دوں گی تو تم آجاؤگے۔” اُس کی آنکھوں میں جو چراغوں جیسی روشنی تھی اُس نے سلطان کے وجود کو لو بنادیا تھا۔
”میں آگیا ہوں۔۔۔ آپ واپس چلنا چاہتی ہیں؟” ایک عجیب سی آس کے ساتھ اُس نے حسنِ جہاں سے پوچھا ۔ وہ مسکرائی۔
”نہیں۔۔۔ طہٰ کو نہیں چھوڑ سکتی میں۔۔۔ یہ مشکل وقت ہے گزر جائے گا۔ میں اُسے مشکل وقت میں چھوڑوں گی تو وہ مرجائے گا۔” وہ سرجھکائے کہہ رہی تھی اور اتنے سالوں بعد بھی سلطان کو طہٰ پر عجیب غصہ آیا۔
”اور سلطان۔۔۔ آپ نے سلطان کا کبھی سوچا ہی نہیں۔۔۔ وہ زندہ رہے چاہے مرجائے۔” اُس نے شکوہ کیاتھا۔
”نہیں سلطان۔۔۔ تم دوست ہو میرے یہ رشتہ انمول ہے۔ اس سے آگے کچھ اور نہیں۔”
سلطان اُسے دیکھتا رہا۔ اُس نے ”اظہار” بھی نہیں سنا تھا کوئی اتنا بے رحم کیسے ہوسکتا تھا۔
”ثریا کیسی ہے؟” بات بجلی کی رفتار سے بدلی تھی اُس نے۔

”آپ کے علاوہ کسی اور کے حال کی خبر نہیں رکھتا میں۔” سلطان نے بے نیازی سے کہا۔
”وہ پیار کرتی ہے تم سے۔۔۔ تم قدر نہیں کرتے۔” حسنِ جہاں نے جیسے اُسے ٹوکا تھا جھڑکا تھا۔
”میں آپ سے پیار کرتا تھا۔۔۔آپ نے بھی تو نہیں کی ۔ ”
کمرے میں خاموشی چھا گئی تھی۔ وہ سٹیج پر بیٹھے دو ایکٹرز کی طرح دم سادھے ایک دوسرے کے سامنے کرسیوں پر بیٹھے ایک دوسرے کودیکھ رہے تھے۔
”دل اور نصیب اپنی مرضی کرتے ہیں ۔ عقل کی چابی سے دونوں نہیں کھلتے۔”
مدھم آواز میں سرجھکائے نظریں چراتے وہ کہہ رہی تھی۔
”میرا دل طہٰ کے پاس ہے، ہنس بن گیا ہے جھیل کا۔۔۔پانی سوکھے کا تو اس کے ساتھ مرجائے گا۔ جگہ نہیں بدلے گا۔”خاموش پھر چھائی تھی اور اس بار سلطان نے توڑی تھی۔
”موسمی پرندہ تو سلطان بھی نہیں ہے۔” حسنِ جہاں کی آنکھوں کی بدلیوں میں پانی اُمڈا تھا۔
”اسی لئے تو بلایا ہے ۔۔۔ یہ ساری تصویریں لے جاؤ اور بیچ دو۔۔۔ میں یہاں نہیں بیچ سکتی کیونکہ یہاں کوئی مجھے جانتا ہی نہیں ہے۔ ”
اس نے پہلا جملہ کہا تھا اور اپنے ہاتھ کی پشت سے آنکھیں رگڑتے ہوئے اس کے سامنے میز پر سے رول کی ہوئی کچھ تصویریں اٹھا کراس کی گود میں رکھ دی۔
سلطان نے حیرانی کے عالم میں ایک تصویر کو کھول کر دیکھا تھا اور فریز ہوگیا تھا۔ وہ وہی تصویر تھی جو طہٰ نے ایک رات میں بناکر حسنِ جہاں کو مجھ سے چھین لیا تھا۔
”یہ تو طہٰ کی بنائی ہوئی تصویریں ہیں۔۔۔ ایک رات میں بنائے ہوئے شاہکار۔۔۔ حسنِ جہاں یہی سب تو دیکھ کر دل ہارا تھا آپ نے طہٰ پر ۔”سلطان نے بے یقینی کے عالم میں اس سے کہا تھا۔ وہ بے اختیار ہنسی اور ہنستی ہی چلی گئی۔ بدلیاں اب پانی برسانے لگی تھیں۔
”دل تو کسی اور رستے کے پیچھے گیا تھا۔۔۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ ”اس نے کہا تھا۔
”طہٰ سے پوچھ لیا آپ نے؟” سلطان نے کہا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۹

Read Next

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۸ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!