الف — قسط نمبر ۱۰

مومنہ دیوار پر لگی تصویروں کو دیکھتے ہوئے چل رہی تھی یوں جیسے وہ کسی آرٹ گیلری کی دیوار تھی۔ پھر اُس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”لندن فیشن شو، میلان فیشن ویک، پیرس فیشن ویک۔۔۔ آپ نے بھی سارا ہی عروج دیکھ لیا۔”
”عروج کہاں زوال تھا وہ عروج تو اب آیا ہے۔”
مومنہ نے اُن کی بات پر اُنہیں پلٹ کر دیکھا تھا۔ وہ مسکرا رہے تھے اُسی میٹھے ٹھنڈے شفقت والے انداز میں۔ مومنہ جانتی تھی وہ بیرون ملک کسی جوتوں کی کمپنی کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ مگر اُسے کبھی اندازہ نہیں ہوا تھا وہ ”موچی” کس معیار اور حیثیت کا ”موچی” تھا۔
”آپ کی بیوی کی کوئی تصویر نہیں ہے؟” مومنہ کو یک دم خیال آیا۔
”اُس کو پسند ہی نہیں تھا۔۔۔ میں اپنی بھی دیواروں سے اُتار دینا چاہتا تھا مگر اُس نے اُتارنے ہی نہیں دیا۔ اُس نے سجائی ہوئی تھیں میری زندگی کی یہ ساری یادیں ان دیواروں پر۔” ماسٹر ابراہیم کے ہونٹوں پر اب بھی مسکراہٹ تھی مگر آواز میں ایک کسک تھی۔
”تم بتاؤ آج تمہیں دوبارہ میری یاد کیسے آگئی؟” انہوں نے موضوع بدلتے ہوئے اُس سے پوچھا تھا۔
”یاد تو ہمیشہ آتی ہے آپ کی لیکن آج آپ سے ایک کام پڑ گیا ہے۔” مومنہ نے دوبارہ اُن کے بستر کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”عبدالعلی صاحب کا کوئی رشتہ دا ر ہے پاکستان میں؟” اُس کے سوال نے ماسٹر ابراہیم کو ساکت کیا تھا۔
”تم کیوں پوچھ رہی ہو؟” مومنہ اُن کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اُس نے مدھم آواز میں کہا۔
”مجھے لگتا ہے میں اُن کے پوتے سے مل کر آئی ہوں۔”
”قلبِ مومن سے” اُن کا جواب اتنا بے اختیار تھا کہ مومنہ کو اُس کی توقع نہیں تھی۔
”جی ۔۔۔ آپ جانتے ہیں اُسے؟” مومنہ نے اُن سے پوچھا تھا۔
”عبدالعلی صاحب ذکر کرتے تھے اُس کا۔” ماسٹر ابراہیم نے مدھم آواز میں کہا۔
”حسنِ جہاں عبدالعلی صاحب کی بہو تھی۔ قلبِ مومن حسن جہاں ہی کا بیٹا تھا۔۔۔ مجھے یقین نہیں آرہا۔۔۔ مجھے یقین نہیں آرہا۔۔۔ آپ نے مجھے کبھی بتایا کیوں نہیں۔ عبدالعلی صاحب کے پاکستان سے اس تعلق کے بارے میں؟اُن کے پوتے کے بارے میں؟ ”
اُس نے ماسٹر ابراہیم سے کہا تھا۔ وہ اُسے چپ چاپ دیکھتے رہے ۔ ایک لمبی خاموشی کے بعد انہوں نے کہا۔
”ہر راز امانت ہوتا ہے۔۔۔ ہر بھید اپنے وقت پر کھلتا ہے۔” مومنہ اُن کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔ وہ ایسی کئی باتیں کرتے تھے جو اُسے سمجھ نہیں آتی تھیں مگر وہ پھر بھی اُنہیں سنتی تھی۔ یاد رکھتی تھی۔
”کل دوبارہ آؤں گی آپ کے پاس ۔۔۔ اور اس بارآپ کے لئے کچھ لاؤں گی۔” مومنہ نے یک دم اُٹھتے ہوئے کہا۔
”کیا؟”
”عبدالعلی صاحب کے شاہکار۔” اُس نے ماسٹر ابراہیم سے کہا اور اُنہیں خدا حافظ کہہ کر کمرے سے نکل گئی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
مومنہ سلطان بُری طرح اُلجھی ہوئی ماسٹر ابراہیم کے گھر سے نکلی تھی۔ ماسٹر ابراہیم جانتے تھے کہ حسنِ جہاں عبدالعلی کی بہو تھی اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ مومنہ سلطان کا باپ حسنِ جہاں کا میک اپ آرٹسٹ رہ چکا تھا اس کے باوجود انہوں نے کبھی مومنہ کو یہ جتایا تک نہیں تھا کہ وہ ان دونوں کڑیوں سے واقف تھے یا پھر وہ ان دونوں کڑیوں کے درمیان کی کڑی تھے۔۔۔؟ کوئی چیز تھی جو مومنہ کو بُری طرح کھٹک رہی تھی مگر وہ چیز کیا تھی وہ ڈھونڈھ نہیں پارہی تھی۔
اپنی گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھے اُس نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ اُس نے پہلی بار ماسٹر ابراہیم سے حسنِ جہاں کے بارے میں کب بات کی تھی۔ کب اُن سے اپنے باپ کا تعارف حسنِ جہاں کے میک اپ آرٹسٹ کے طور پر کروایا تھا۔ اُسے پلک جھپکتے میں یاد آگیا تھا۔ تب جب وہ ماسٹر ابراہیم کے پاس حسنِ جہاں کی تصویریں بیچنے کے لئے لے کر گئی تھی۔۔۔ جہانگیر کے علاج کے لئے۔
٭…٭…٭
وہ فجر کا وقت تھا جب مومن کی آنکھ میکانیکی انداز میں کھلی تھی۔ یہ اب کئی مہینوں سے ہونے لگا تھا ۔ کسی رحمت کی طرح ۔ رات کا پچھلا پہر اب اُسے کہیں اور لے جانے لگا تھا۔۔۔ اُس راستے پر جہاں رات دُنیا کے لئے نہیں ہوتی تھی آخرت کے لئے ہوتی تھی اور آخرت لفظ سے تو قلبِ مومن واقف ہی نہیں تھا۔ الف کا پورا سکرپٹ اُس نے رات کے اسی پہر لکھا تھا اور وہ اکثر لکھتے لکھتے سوجاتا پھر اُس کی آنکھ کھلتی تو فجر کے وقت اور وہ کسی سحر ذدہ معمول کی طرح مصلّے پر جا بیٹھتا۔
دادا اُس سے رات کے پچھلے پہر کے سکون کی بات کرتے تھے ہمیشہ جب وہ اُن سے پوچھتا تھا کہ وہ رات کو خطاطی کیوں کرتے تھے۔
”اللہ کے دربار میں بیٹھ کر خطاطی کرتا ہوں اُس وقت۔” وہ ہنس کر کہہ دیتے تھے۔ مومن ہنس کر ٹال دیتا تھا۔
قلبِ مومن نے بھی زندگی کے کئی سال رات کے اس پہر اپنی فلموں کی Preproductionپر لگائے تھے۔۔۔ فلموں کی ایڈیٹنگ بھی رات کے اسی پہر بیٹھ کر کرتاتھا۔ میوزک بھی اسی پہر بیٹھ کر بنواتا تھا۔ وہ رات کے اس پہر کھوٹ بناتا رہا تھا ۔۔۔ عبدالعلی سونا۔
وہ پچھلی رات بھی ٹھیک سے سو نہیں سکا تھا۔ کچھ ہوگیاتھا اُس کی نیند کو اُس کی راتوں کو اُس کی زندگی کو۔
خالق علی کے جملے اُسے بار بار Hauntکرتے رہے تھے۔ وہ پینٹنگز جنہیں وہ اپنی اولاد کے مستقبل کے لئے خرید کر لے جانا چاہتا تھا وہ اُس کے سٹور روم میں گرد اور مٹی میں اٹی پڑی ہوئی تھیں۔ اُس نے اُن کے اندر وہ کیوں نہیں کھوجا تھا ۔ جودنیا کھوج رہی تھی۔ سوال بہت تھے اور ہر سوال پریشان کردینے والا تھا۔
فجر کی نماز پڑھ کر وہ دوبارہ سونے کے لئے نہیں لیٹا تھا۔ وہ لاؤنج میں نکل آیا تھا جہاں وہ پینٹنگز پڑی ہوئی تھیں۔ یوں جیسے وہ اُنہیں دوبارہ دیکھنا چاہتا تھا۔ دوبارہ پڑھنا چاہتا تھا۔
لاؤنج خاموش تھا۔ کچھ لائٹس آن تھیں اور گلاس والز سے آنے والی ہلکی روشنی سورج کی آمد کا پیغام دینے کے باوجود رات کو ابھی اُجالا نہیں بنا پائی تھیں۔
قلبِ مومن نے وہ پہلی پینٹنگ اُٹھائی تھی جس کا اخبار شکور نے خالق علی کو دکھانے کے لئے اُتارا تھا۔ اُس نے اُس پر لکھی آیت پڑھنے کی کوشش کی۔
ان الانسن لربہ لکنود
(سورة العدیت: آیت 6 )
کسی جھماکے کی طرح اُسے اپنی اور دادا کی گفتگو یاد آئی جو اس پینٹنگ کو لیتے ہوئے ہوئی تھی۔
”یہ میری برتھ ڈے کا گفٹ ہے؟”
اُس نے دادا سے پوچھا تھا وہ اُس وقت ترکی میں رہنے گھر پر ایک رات یہ پینٹنگ بنارہے تھے اور مومن رات کے پچھلے پہر اُن کے کمرے میں اُنہیں اپنی روانگی کے بارے میں انفارم کرنے آیا تھا اور اس پینٹنگ پر پہلی نظر پڑتے ہی اُسے بے اختیار ایسا لگا تھا جیسے وہ اُس کی سالگرہ کے لئے بنائی جارہی تھی۔
”تم نے کیوں دیکھ لی۔۔۔؟ میں تو تمہاری سالگرہ پر ہی دکھانا چاہتا تھا اسے تمہیں۔” عبدالعلی کسی چھوٹے بچے کی طرح خفا ہوئے تھے۔
”مطلب کیا ہے اس آیت کا دادا؟” اس نے جیسے عبدالعلی کو بہلایا تھا۔
”حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے پروردگار کا احسان ناشناس ہے۔” انہوں نے بے ساختہ کہا تھا۔
”میں احسان ناشناس نہیں ہوں دادا۔” مومن نے ”احسان ناشناس” کے لفظ کا مفہوم جیسے خود ہی پوچھ لیا تھا۔
”ہم سب ہیں مومن۔۔۔ اللہ کی سب نعمتوں کا کہاں شکرا دا کرتے ہیں ہم۔” دادا کی آواز اُس کے کانوں میں لہرائی تھی اور اُس آیت کے الفاظ کسی خزانے کی اشرفیوں کی طرح اُس کی آنکھوں کے سامنے چمک رہے تھے۔
عبدالعلی کی نظروں میں وہ اپنے رب کے احسانوں کو نہ جاننے اور ماننے والا تھاوہ۔
دوسری اُس کی شوبز میں آنے کے بعد دوسری سالگرہ پر دی جانے والی پینٹنگ تھی۔ وہ احسان فراموش ہورہا تھا اور عبدالعلی دیکھ پارہے تھے۔ وہ بے خبر تھا۔ شوبز کے ایک سال نے اُسے اللہ کی بجائے لوگوں کے احسانوں کو یاد رکھنا سکھانا شروع کردیا تھا۔
بوجھل دل کے ساتھ قلبِ مومن نے دوسری پینٹنگ پر چڑھا ہوا گرد و مٹی سے اٹا ہوا اخبار اُتارا تھا۔
وما توفیقی الابااللہ
(سورة ہود:آیت 88)
کوئی آواز اُس کے کانوں میں لہرائی تھی۔ ”تم نے کھول لیا اپنا تحفہ؟” عبدالعلی نے اُس سے پوچھا تھا۔
”ہاں کھول لیا۔۔۔ مگر اب مطلب کیسے سمجھوں؟” مومن کو اپنا سوال یاد آیا تھا۔
”میری کامیابی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔” عبدالعلی نے کہا تھا۔
”اور ناکامی؟” مومن نے پتہ نہیں کس رو میں پوچھا تھا۔
”وہ بھی۔” عبدالعلی نے کہا تھا۔
وہ شوبز میں اُس کی پہلی فلم کے سپر ہٹ ہونے کے بعد آنے والی سالگرہ کا تحفہ تھا۔ وہ اُس وقت کامیابی کے خماد اور غرور کے پہلے زینے پر بیٹھا تھا۔
تیسری پینٹنگ کی آیت کا مفہوم اُسے اُس آیت پر نظر ڈالتے ہی یاد آگیا تھا۔
”ان الحسنت یذھبن السیٔات”
(سورة ہود: آیت 114)
”بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔”
وہ پہلا موقع تھا جب مومن نے سالگرہ پر کسی آیت کی خطاطی لینے میں تامل کا اظہار کیا تھا۔
”آپ ہر بار ترکی سے اتنا بوجھ اُٹھا کر کیوں لے آتے ہیں میرے لئے؟” اُس نے عبدالعلی سے اس پینٹنگ کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”اس کا کیا بوجھ ہے مومن۔۔۔ بوجھ تو اعمال کا ہوتا ہے۔”اُ ن کے جواب نے اُسے بے چین کیا تھا۔
”پھر تو آپ پرندے کے پر کی طرح ہلکے ہوں گے اور میں ۔۔۔ مجھے تو یہ یاد بھی نہیں آرہا کہ اپنے اعمال کے بوجھ کو کس چیز سے equateکروں میں۔”
”اچھے اعمال بروں کو مٹادیتے ہیں۔” عبدالعلی نے جیسے اُس کے احساس جرم کو محسوس کرلیا تھا۔
”اچھے اعمال کیا ہوتے ہیں دادا؟” اُس کا خیال تھا وہ اُسے نماز روزے کا کہیں گے۔
”جن کے بارے میں دل خود کہے کہ وہ اچھے ہیں۔۔۔ کسی سے پوچھنا نہ پڑے۔” انہوں نے جواب دیا تھا۔
وہ پہلا سال تھا جب اُس نے ڈپریشن کے لئے سائیکاٹرسٹ سے سیشنز شروع کئے تھے۔ کامیابیاں مقناطیس کی طرح اُس کے وجود سے چپکی ہوئی تھیں۔ پیسہ بارش کی طرح ہر طرف سے برس رہا تھا۔ ناموری قلبِ مومن کے نام کا حصہ بن گئی تھی اور اس کے باوجود کچھ ہونا شروع ہوگیا تھا اُسے اس سال اور تب ہی وہ سالگرہ اور اُس پر وہ پینٹنگ آئی تھی تو اُس کے اعمال خراب تھے اور اُسے توبہ کی ضرورت تھی۔ اچھے اعمال کی ضرورت تھی اور وہ بہترین سائیکاٹرسٹ اور بہترین میڈیسنز ڈھونڈ رہا تھا۔
وہ ہر پینٹنگ اُسے اُس کی زندگی کے گزرتے ہوئے ماہ وسال کی داستان ایک آیت میں سنارہی تھی۔ اُس کی پچھلی زندگی کے سات سالوں کے ون لائنر۔
وکان ربک بصیرا
(سورة الفرقان:آیت 20)
”اور تمہارا رب سب کچھ دیکھتا ہے۔”
”دادا میں ہر روز اس آیت کو دیکھوں گا تو شرم سے مرجاؤں گا۔ زندہ رہنے دیں مجھے جینے دیں۔ ابھی مومن نہیں بننا میں نے۔” اگلی پینٹنگ کی آیت نے اُسے کچھ اور یاد دلایا تھا۔
”کوئی اپنے گھر کی دیوار پر یہ کیوں لگائے گا کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ ” قلبِ مومن کو اُس آیت کے ترجمے نے ہلایا تھا اور اُس کا دادا سے احتجاج جیسے فرار کی کوشش تھی۔
وہ سب کچھ دنیا کو دکھانے کے لئے کررہا تھا اور جو کچھ بڑے فخریہ انداز میں کررہا تھا اُسے اللہ سے چھپانا چاہتا تھا اور عبدالعلی جیسے اُسے یاد دہانی کے لئے وہ پینٹنگ لے آئے تھے۔ یوں جیسے اُسے خبردار کرنا چاہتے ہوں۔ اور قلبِ مومن اُن سب Paintings کو سٹور میں نہ چھپاتا تو اور کیا کرتا ۔ وہ اُن آیات کا سامنا نہیں کرسکتا تھا اور نہ ہی کرنا چاہتا تھا۔
اور وہ آخری پینٹنگ۔۔۔ اُن کی زندگی کی وہ آخری پینٹنگ جو انہوں نے اسے پچھلی سالگرہ پر دی تھی۔
وان اللہ مع المومنین
(سورة ال انفال: آیت 19 )
”اللہ مومنین کے ساتھ ہے۔”
کیا اُمید تھی جو وہ اُسے اُس کی ساری زندگی کو خبر رکھنے کے بعد بھی تھما گئے تھے۔ اُس نے عبدالعلی سے کہا تھا وہ مومن نہیں ہے اور انہوں نے کہا تھا۔ تم قلبِ مومن ہو کبھی مومن بھی ہو ہی جاؤگے۔”
قلبِ مومن کی آنکھوں میں پانی اُمڈا تھا۔ گلاس والز سے باہر اب سورج کی روشنی سارے اندھیروں کو ختم کرنے کی جنگ جیتنے لگی تھی۔
وہ لاؤنج میں چلتے ہوئے اھدنا الصراط المستقیم کی اُس خطاطی کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا جو اُس کے لاؤنج کی دیوار پر آویزاں تھی۔
اس سب کا آغاز اس سے ہوا تھا ۔ وہ وہ پہلی خطاطی تھی جو عبدالعلی نے اُسے سالگرہ کے تحفے کے طور پر دی تھی۔ اُس پہلے سال جب وہ فلم انڈسٹری جوائن کررہا تھا۔
”یہ پہلی برتھ ڈے ہے جس پر آپ نے مجھے خطاطی Paintکرکے دی ہے۔ ورنہ ہمیشہ کچھ اور ہی گفٹ کیا کرتے تھے۔” قلبِ مومن کو وہ خطاطی تحفے میں دیکھ کر بے حد حیرانی ہوئی تھی۔ دادانے پہلے کبھی اُسے کوئی خطاطی تحفے میں نہیں دی تھی۔
”پہلی بار فلم انڈسٹر ی میں جارہے ہو تم۔۔۔ تمہارا بھی تو پہلا سال ہے وہاں۔” انہوں نے اُسے کہا تھا۔
”آپ کو لگتا ہے مجھے سیدھا راستہ دیکھنے کے لئے رہنمائی کی ضرورت پڑے گی؟” مومن نے بڑے لاپرواہانہ اندا ز میں اُن پوچھا تھا۔
”ہمیشہ۔” ان کا جواب بے حد مختصر تھا ۔ مومن کو وہ مختصر جواب چبھا تھا۔ اتنا بھٹکا ہوا تو نہیں ہوں میں۔” اُس نے دادا سے کہا تھا یوں جیسے اعتراض کیا تھا۔
”مومن ہو۔۔۔ بھٹکتا مومن ہی ہے جس کے پاس ایمان ہے ہی نہیں اُسے کوئی کیا بھٹکائے گا۔ ”
اُس نرم آواز کی باز گشت نے اُسے تب خاموش کروایا تھا۔ آج رُلادیا تھا۔
اللہ رب ہے دلوں کے حال جانتا ہے پر عبدالعلی کیسے سب کچھ جان لیتے تھے اُس کے بارے میں۔۔۔ اُس کے دل تک کیسے پہنچ جاتے تھے اُس کے ماضی اور حال کو کیسے بھانپ لیتے تھے۔۔۔ اُس پینٹنگ پر دونوں ہاتھ رکھے وہ بچوں کی طرح ہچکیوں اور سسکیوں کے ساتھ رونے لگا تھا۔
وہ عبدالعلی کے اس اثاثے کو کیسے بے مول کئے ہوئے تھا وہ اُسے کیسے بیچ سکتا تھا۔۔۔ وہ تو اُس کی میراث تھی اُس کا ترکہ تھا۔ وہ خالق علی کو بیچ نہیں سکتا تھا۔ وہ مومنہ سلطان کو بھی نہیں دے سکتا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۹

Read Next

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۸ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!