میرے پیارے اللہ
السلام و علیکم
آپ کیسے ہیں؟ میں بھی ٹھیک ہوں۔ آپ کو میں یاد ہوں نا؟ میں قلبِ مومن ہوں۔ آپ کو خط لکھتا تھا۔ پھر خط لکھنا بند کردیا۔ لیکن آپ کو بھولا نہیں ہوں میں۔ بس آپ سے ناراض تھا۔ اُس کے لئے سوری۔ مجھے ناراض نہیں ہونا چاہیے تھا پر میں آپ سے ناراض ہوجاتا ہوں کبھی کبھی۔ اب توبہ کررہا ہوں۔ مجھے پتہ ہے آپ میری توبہ فوراً قبول کرلیں گے۔ یہ مجھے دادا نے بتایا ہے۔ پہلے مجھے ساری باتیں ممی بتاتی تھیں۔ اب دادا بتاتے ہیں۔
میں واپس ترکی آگیا ہوں۔ آپ کا شکریہ آپ کو خط لکھا کرتا تھا میں کہ میں نے دادا کے پاس جانا ہے۔ آپ نے میری دُعا قبول کرلی۔ لیکن اب میں یہاں بہت اُداس ہوں۔ یہاں سب کچھ ٹھیک ہے۔ دادا پیار کرتے ہیں میں سکول جاتا ہوں۔ خطّاطی سیکھ رہا ہوں۔ میرا اچھا سا کمرہ ہے۔ نئے دوست ہیں ۔ بہت سارے کھلونے ہیں ۔لیکن اللہ میاں میں بہت اُداس ہوں کیونکہ یہاں ممی نہیں ہیں۔
وہ مجھے بہت یاد آتی ہیں۔ حالانکہ میں اُن سے جھگڑا کرکے آیا ہوں۔ خفا بھی ہوں۔ پھر بھی وہ مجھے بہت یاد آتی ہیں۔
میں جانتا ہوں وہ اب مجھ سے پیار نہیں کرتیں۔ اُن کی زندگی میں اب بس ڈانس ہے۔۔۔اور وہ آدمی سلطان بھی جس سے مجھے بہت نفرت ہے۔
میں آج بھی ممی سے پیار کرتا ہوں۔ اُن کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ لیکن پاکستان میں نہیں یہاں ترکی میں۔
یہاں بابا کی قبرہے۔ میں اور دادا ہر ہفتے قبر پر جاتے ہیں۔ دُعا مانگتے ہیں۔ میں وہاں بہت پیار ے پھول رکھ کر آتا ہوں۔ ممی کو سفید گلاب اچھے لگتے ہیں اور بابا کو Redگلاب میں بابا کی قبر پر سفید اور Redدونوں گلاب لے کر جاتا ہوں۔۔۔ ایک ایک۔۔۔
ممی یہاں آجائیں تو پھر میں دادا اور ممی تینوں بابا کی قبر پر جایا کریں گے۔
مجھے لگتا ہے بابا ممی کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ پتہ نہیں مجھے کیوں ایسا لگتا ہے۔
میرے پیارے اللہ کیا آپ ممی کو میرے پاس ہمیشہ کے لئے ترکی بھیج سکتے ہیں؟ میں اور دادا اُن کے ساتھ بہت خوشی سے رہیں گے۔آپ کو پتہ ہے میں ساری چیزیں آپ سے مانگتا ہوں کسی اور سے نہیں ۔ یہ مجھے ممی نے سکھایاتھا۔
آپ اگر میری ممی کو میرے پاس بھیج دیں تو میں آپ کو ایک بہت پیارا Birds flowersاور butterfliesوالاکارڈ بناکر بھیجوں گا اور اُس کے اوپر خطاطی میں آپ کا نام بھی لکھوں گا جو میں نے دادا سے سیکھا ہے۔۔۔ بہت پیارا سا نام لکھوں گا آپ کا۔۔۔ اچھے سے رنگوں میں۔
اور ہاں اب میں نے آپ کے نام کا الف بھی سیدھا لکھنا سیکھ لیا ہے۔
دادا کہتے ہیں میں ممی کو خط لکھ کر اپنے پا س بلاؤں لیکن مجھے پتہ ہے وہ میرے کہنے سے نہیں آئیں گی مگر آپ کے کہنے پر آجائیں گی۔ اس لئے میں آپ کو خط لکھ رہا ہوں۔
میں آپ سے ڈھیر سارا پیار کرتا ہوں۔ اور زیادہ کروں گا۔ بس آپ ممی کو یہاں بھیجدیں۔
اپنا خیال رکھیں۔
آپ کا قلبِ مومن
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
لاؤنج میں داخل ہوتے ہی جس پہلی چیز نے مومنہ کی نظروں کو اپنی طرف کھینچا تھا۔ وہ دیوار پر لگی اھدنا الصراط المستقیم والی پینٹنگ تھی۔ عبدالعلی کا نام دیکھے بغیر بھی وہ یہ اندازہ کرسکتی تھی کہ اُس کو بنانے والا عام آرٹسٹ نہیں تھا۔ وہ آنکھوں کو نہیں جیسے دل کو مٹھی میں لینے والا آرٹ تھا۔
”آپ بیٹھیں میں صاحب کو بلا کر لاتا ہوں۔”
شکور نے بے حد مودبانہ انداز میں اُس سے کہا۔ اُس کا چہرہ مومنہ سلطان کو اپنے گھر پر دیکھ کر خوشی سے چمکنے لگا تھا۔ اتنے مہینوں بعد اُس کے صاحب کے گھر پر کوئی ”بڑا سٹار” آیا تھا اور وہ بھی وہ جو اس وقت 24گھنٹے کسی نہ کسی حوالے سے TVکی خبروں کاحصہ بنی ہوئی تھی۔
مومنہ شکور کے جانے کے بعد اُس کیلی گرافی کی طرف جیسے کھینچی چلی گئی تھی۔ اُس پینٹنگ کے سامنے کھڑے اُس کے سحر میں گرفتار اُس نے آرٹسٹ کا نام ڈھونڈنا شروع کیا اور بالکل نیچے ایک کونے میں عبدالعلی کے مخصوص انداز میں کئے گئے دستخط دیکھ کر وہ ساکت ہوگئی تھی۔ وہ اُن کے نام اور کام سے واقف تھی۔ بے حد مخصوص انداز میں کئے جانے والے اُن کے دستخط سے بھی وہ انٹرنیٹ کی وجہ سے متعارف تھی اور وہ یہ یقین نہیں کرپارہی تھی کہ وہاں قلبِ مومن کے گھر پر عبدالعلی کی خطاطی دیکھنے والی تھی۔
”عبدالعلی صاحب کی خطاطی اور قلبِ مومن۔۔۔ کیا تعلق ہے ان دونوں کا۔۔۔ یا پھر وہ بھی صرف ایک مداح ہے اُن کے کام کا۔۔۔میری طرح۔”اُس نے پینٹنگ کے سامنے کھڑے کھڑے سوچا تھا۔
”السلام علیکم ۔” وہ یک دم اُس کی آواز پر پلٹی تھی۔
وہ کس وقت اندر آیا تھا،مومنہ کو اندازہ نہیں ہوا۔ کچھ دیر کے لئے مومنہ کو جیسے اُس کے سلام کا جواب دینا بھی یاد نہیں رہا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
”وعلیکم السلام۔” مومنہ کو بالا آخر خیال آیا۔
”میں شاید کچھ جلدی آگئی۔” اُس نے قلبِ مومن سے نظریں ہٹاتے ہوئے اپنی کلائی میں بند ھی گھڑی پر نظر ڈالی تھی۔
”صرف سات منٹ۔۔۔ پاکستان میں بہت جلدی ہے ۔ ۔۔پلیز بیٹھیں۔” مومن نے مسکراتے ہوئے اُس سے کہا تھا۔ گفتگو کسی موضوع کے بغیر شروع ہوگئی تھی۔ مومن کا خیال تھا اُنہیں موضوع ڈھونڈنے اور بات شروع کرنے میں دقت ہوگی۔ وہ نروس تھا اور زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی کے سامنے نروس ہورہا تھا۔ یہ مومنہ سلطان کا auraتھا ۔ اُس کی کامیابی کا اثر۔
”داؤد لیٹ تھا ورنہ اُسے ساتھ لے کر آتی تو پندرہ منٹ لیٹ ہوتی۔” مومنہ نے بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔ اُس نے اپنا ہینڈ بیگ صوفہ کے سامنے پڑی میز پر رکھ دیا تھا۔
”میں آدھ گھنٹہ سے آپ کے انتظار میں تھا اس لئے مجھے فرق نہیں پڑا۔۔۔ کافی۔۔۔؟ چائے؟” اُس نے کہتے ہوئے موضوع بدلا۔
”پانی۔”مومنہ نے جواباً کہا تھا اور تب ہی اُس نے شکور کو بھی دیکھ لیا تھا جسے وہ مومن کے ساتھ بات کرتے ہوئے دیکھ نہیں پائی تھی۔
”کافی اور پانی۔”
قلبِ مومن نے شکور سے کہا تھا اور وہ سرہلاتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا۔ مومن نے اُس کے جانے کے بعد میز پر پڑا ایک لائٹر اور سگریٹ جھک کر اُٹھایا تھا اور خود بھی صوفہ پر اُس کے بالمقابل بیٹھ گیا تھا۔
”مجھے تمباکو سے الرجی ہے۔” اس سے پہلے کہ وہ لائٹر کو آن کرتا مومنہ نے اُس سے کہا تھا۔
قلبِ مومن نے چونک کر اُسے دیکھا۔ اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لہرائی تھی۔
”یہ سگریٹ پینے کے لئے نہیں ہے۔ میں جب نروس ہوتا ہوں تو صرف لائٹر جلاتا رہتا ہوں۔” اُس نے کہتے ہوئے لائٹر رگڑا تھا۔ شعلہ سا نمودار ہوا اور لہراتا رہا۔ مومنہ کی نظر اُس کے انگوٹھے اور اُنگلیوں کے درمیان دبے ہوئے لائٹر اور اُس سے نکلتے ہوئے شعلہ پر لحظہ بھر کے لئے جمی رہی پھر اُس نے نظریں ہٹالیں۔
”آپ نے پوچھا نہیں میں کیوں نروس ہوں؟” مومن کو اُس کی خاموشی اور بے اعتنائی کھلی۔
”مجھے دلچسپی نہیں ہے یہ جاننے میں۔” جواب بے حد ٹھنڈا تھا اور لہجہ سرد مہری لئے۔
مومن جیسے اپنے سوال پر پچھتایا تھا۔ وہ دونوں دوست نہیں تھے اُن کے تعلق کی تاریخ قابل رشک نہیں تھی۔
کچھ دیر کے لئے لاؤنج میں خاموشی چھائی رہی تھی۔ قلبِ مومن اُس سے دوبارہ کچھ کہنے کے لئے جیسے الفاظ ڈھونڈنے لگا تھا۔
”میں آپ سے ایکسکیوز کرنا چاہتا ہوں۔” اُس نے یک دم کسی تمہید کے بغیر کہا۔
”ہم فلم کی بات کریں۔۔۔یہ کس کی کہانی ہے؟” مومنہ نے اُس کی بات کاٹ دی تھی یوں جیسے اُسے توقع تھی کہ وہ اُس سے معذرت کرنے کی کوشش کرے گا اور وہ جیسے اُس کی معذرت سننا ہی نہیں چاہتی تھی۔ قلبِ مومن کو جھٹکا لگا تھا۔ وہ اُس کے پروجیکٹ میں کام کرنے کے لئے تیار ہوگئی تھی لیکن اُس کی معذرت سننے پر تیار نہیں تھی۔
”کیا مطلب؟” وہ اُس سوال پر اُلجھا تھا جو مومنہ نے اُس سے کہا تھا۔
”یہ حسنِ جہاں کی کہانی ہے؟” اُس نے یک دم مومنہ کو کہتے سنا۔
قلبِ مومن کے پیروں کے نیچے سے زمین جیسے لحظہ بھر کے لئے کھسکی تھی۔ آخری جملہ جو وہ مومنہ سے توقع کرسکتا تھا۔ وہ یہی تھا۔ وہ اُس کہانی میں حسنِ جہاں کو کیسے پہچانی تھی اور وہ حسنِ جہاں کو جانتی کیسے تھی۔ وہ کہانی انٹرنیٹ پر پڑی حسنِ جہاں کی سوانح عمری سے میل نہیں کھاتی تھی پھر مومنہ سلطان نے آدھا سکرپٹ پڑھنے پر اُس کردار اور اُس کہانی کو کیسے پہچانا تھا۔ قلبِ مومن کا دماغ اس وقت جیسے بھنور بنا ہوا تھا۔
”وہ کون ہے؟” مومنہ سلطان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے قلبِ مومن نے دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا تھا اور ایک لمحہ کے لئے اُس کے سوال نے جیسے مومنہ کو حیران کیا تھا۔
”ماضی کی ایک مشہور فلم ایکٹریس اور ڈانسر۔” مومنہ نے بالا آخر کہا۔
”میں اُسے نہیں جانتا۔ اس کہانی کے تمام کردار اور واقعات فرضی ہیں۔” مومن نے دو ٹوک انداز میں اُس سے کہا۔
”مومن بھائی آپ کا پانی۔۔۔ مومنہ جی آپ کی کافی۔” شکور نے زندگی میں پہلی بار غلط وقت پر صحیح اینٹری کی تھی اور قلبِ مومن کو صحیح وقت پر صحیح چیز دی تھی یہ جاننے کے باوجود کہ کافی مومن نے اپنے لئے منگوائی تھی مگر وہ اُسے مومنہ سلطان کے سامنے رکھ کر پانی اُس کے پاس لے آیا تھا اور مومن نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر گلاس اُٹھا کر اُسے ایک ہی سانس میں خالی کیا تھا۔ وہ اگر مومنہ کو خود نہ بھی اپنے نروس ہونے کے بارے میں بتا چکا ہوتا تب بھی مومنہ کو اُسے دیکھتے ہوئے یہ بوجھ لینا مشکل نہ ہوتا۔
کافی کے کپ سے اُٹھتے بھاپ کو دیکھتے ہوئے اُس نے حیرانی سے سوچا تھا ۔ قلبِ مومن اُس سے کیا اور کیوں چھپانے کی کوشش کررہا تھا یا پھر وہ کہانی واقعی حسنِ جہاں کی نہیں تھی اور وہ صرف اتفاقی مماثلت تھی۔ خود کو دی جانے والی دوسری توجیہہ اُسے خود ہی بھودی لگی تھی۔ وہ سلطان سے بات نہ کرچکی ہوتی تو اُس مماثلت کو اتفاقی ہی سمجھ لیتی۔ پر اُس کے پاس ”گواہ” تھا۔ اُس آدھے سکرپٹ کے انٹرول کا۔
”مجھے لگا یہ کسی کی زندگی کی کہانی ہے۔” اُس نے مومن سے بحث کئے بغیر کہنا شروع کیا تھا۔ وہ اُس پر نظریں جمائے بیٹھا ہوا تھا۔
”بے حد خوبصورت کہانی ہے ۔ عالیہ اور عالیان کی۔۔۔ اور زین کی۔۔۔ اور پھر عبداللہ کا کریکٹر ۔۔۔ آدھا سکرپٹ تھا۔۔۔ باقی آدھا کب مل سکتا ہے؟”
”آپ حسنِ جہاں کو کیسے جانتی ہیں؟” قلبِ مومن نے یک دم اُسے ٹوکا تھا۔
وہ پلکیں جھپکائے بغیر اُسے دیکھتی رہی۔
”کون حسنِ جہاں؟” بے حد ہموار لہجے میں اُس نے قلبِ مومن سے پوچھا تھا۔
”جس کی بات کررہی تھیں آپ؟” قلبِ مومن کو اُس کی بے نیازی بُری لگی تھی۔
”میں اُنہیں نہیں جانتی۔” اُس کے جواب نے قلبِ مومن کو زچ کیا تھا۔
اُس نے جھوٹ بولا تھا اور وہ اُس کے جھوٹ کا جواب جھوٹ سے ہی دے رہی تھی اور قلبِ مومن کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ اُسے یہ کہہ پاتا کہ وہ جھوٹ بول رہی تھی۔
”مومن بھائی کوئی خالق علی صاحب آئے ہیں۔” شکور نے ایک بار پھر اینٹری دی تھی۔
”Gosh۔۔۔ میں نے تو اُنہیں بھی آج ہی کا ٹائم دیا ہوا تھا۔” مومن بڑبڑاتے ہوئے گڑبڑایا تھا۔ خالق علی کو اُس نے آج بلایا ہوا تھا ۔ یہ اُسے یاد ہی نہیں رہا تھا۔
”آپ کو بُرا نہ لگے تو میں اُن سے مل لوں۔ صرف چند منٹوں میں فارغ کردیتا ہوں میں اُنہیں۔” اُس نے بڑی شائستگی سے مومنہ سے پوچھا تھا۔ مومنہ نے سرہلادیا۔
”لے آؤ اُنہیں۔” وہ شکور سے کہتے ہوئے وہاں سے اُٹھ کر لاؤنج کے دوسرے حصے میں چلا گیا تھا۔ مومنہ نے اُسے اور شکور کو جاتے دیکھا اُس کی جگہ کوئی اور ایکٹریس ہوتی تو اس بے توجہی پر ہنگامہ کھڑا کردیتی کہ اُس کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے ساتھ میٹنگ شروع کردی گئی مگر قلبِ مومن کے لئے دل میں ہر طرح کے شک و شبہات رکھنے کے باوجود مومنہ کو یہ خیال نہیں آیا تھا کہ وہ اُسے کمتر اور کم حیثیت ثابت کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ مگر یہ خیال قلبِ مومن کو آیا تھا کہ وہ یقینا یہ سمجھے گی کہ وہ اُسے یہ احساس دلانے کی کوشش کررہا تھا۔ لاؤنج کے دوسرے حصے میں خالق علی کا انتظار کرتے ہوئے بھی قلبِ مومن کا ذہن مومنہ سلطان میں اُلجھا ہوا تھا۔
وہ اُدھیڑ عمر دراز قد بے حد متمول نظر آنے والا شخص تھا جسے لے کر شکور لاؤنج میں داخل ہوا تھا۔
”خالق علی۔” ایک بے حد گرم جوش مسکراہٹ کے ساتھ اُس نے قلبِ مومن کے سامنے آتے ہی جیسے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنا تعارف کروایا تھا۔ قلبِ مومن نے جواباً اپنا نام لیتے ہوئے اُس سے مصافحہ کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا ۔ جسے خالق علی نے بے حد گرم جوشی کے ساتھ تھاما تھا۔
”میں کچھ جلدی میں ہوں قلبِ مومن صاحب مجھے اپنی فلائٹ پکڑنی ہے۔ اس لئے آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔” خالق نے اُس سے ملنے کے بعد صوفہ پر بیٹھتے ہوئے قلبِ مومن سے خود ہی گفتگو کا آغاز کیا تھا۔
”میرے لئے آپ سے ملاقات اعزاز اور سعادت کی بات ہے۔ آپ کے دادا عبدالعلی صاحب ہمیشہ بڑی محبت سے آپ کا ذکرکرتے تھے اور میں ہر بار آپ سے ملنے کا سوچتے ہوئے بھی مل نہیں پایا اور اب دیکھیں کن حالات میں آپ سے ملاقات ہورہی ہے۔”
لاؤنج کے دوسرے حصے میں بیٹھی مومنہ سلطان دم سادھے خالق علی کی آواز سن رہی تھی جو لاؤنج کے اُس حصہ میں بھی آ رہی تھی جہاں وہ بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ جس عبدالعلی کا ذکر کررہا تھا وہ اُس خطاط عبدالعلی کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا۔
اُسے اھدنا الصراط المستقیم کی اُس Paintingکے سامنے بیٹھے اُسے دیکھتے ہوئے اب یہ شبہ تو نہیں رہاتھا ۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ سکرپٹ لکھنے والے کا حسنِ جہاں سے کیا تعلق تھا۔ مگر اس تعلق میں کہیں عبدالعلی بھی ایک زینہ تھے یہ اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ عبدالعلی اور اُن کے آبا و اجداد سے واقف تھی ۔ مگر وہ عبدالعلی کی اگلی نسل میں قلبِ مومن کو دیکھ کر شاک میں آگئی تھی۔
”عبدالعلی صاحب نے اپنی وفات سے چند ہفتے پہلے مجھ سے ذکر کیا تھا کہ آپ کے پاس خطاطی کے سات شاہکار ہیں جو آپ بیچنا چاہتے ہیں اور میں اُسی سلسلے میں حاضر ہوا ہوں۔ آپ کو یہ بات میں نے messageکے ذریعے بھی بتائی تھی۔ ” خالق علی کچھ ابتدائی تعزیتی کلمات کے بعد اب لمبی چوڑی تمہید کے بغیر اصل مدعا پر آگیا تھا۔
”ہاں دادا نے مجھے بھی آپ کا نمبر دیا تھا اُن ہی Paintingsکے لئے کہ میں جب اُنہیں بیچنا چاہوں تو آپ لینا چاہیں گے۔” قلبِ مومن نے جواباً کہا۔
”لینا چاہیں گے؟ میں سر کے بل اُنہیں لینے کے لئے آپ کے در پر موجود ہوں جناب۔۔۔ عبدالعلی کے ان شاہکاروں کے لئے جوتے گھساسکتا ہوں آپ کے گھر آ آ کے۔’ ‘ خالق علی نے اُس کا جملہ بیچ میں سے ہی اُچکا تھا۔
”شکور وہ سٹور والی پینٹنگز لاکر انہیں دکھا دو۔” قلبِ مومن نے خالق علی کی بات کے جواب میں کوئی بھی تبصرہ کئے بغیر اندر آتے ہوئے شکور سے کہا جو خالق علی کے لئے مشروبات لے کر آیا تھا۔ شکور نے عجیب سی نظروں سے قلبِ مومن کو دیکھا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});