الف — قسط نمبر ۰۷

”اس آسمان پر تمہیں سب سے خوب صورت اور روشن کیا چیز نظر آرہی ہے؟” اسے باہر عقبی باغیچے میں لے جاتے ہوئے اس نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا تھا جہاں چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔
”چاند۔” قلبِ مومن نے بے اختیا رکہا۔
”تمہاری ممی آسمان پر چمکنے والا چاند ہیں۔ یہ ساری روشنی جو تمہاری اور میری زندگی میں ہے۔ یہ ان کی وجہ سے ہے۔”
طہٰ مدھم آواز میں کہہ رہا تھا۔ قلبِ مومن نے اس اعتراف محبت پر غور نہیں کیا تھا۔
”اور آپ کون ہیں؟” اسے یہ جاننے کی بے قراری تھی۔
”میں؟ میں رات کا کالا آسمان۔” طہٰ نے عجیب مایوسی سے کہا تھا۔
”اور میں؟”قلبِ مومن نے پوچھا۔
”تم۔ تم۔ وہ والا ستارہ۔” اسے اٹھائے اٹھائے طہٰ نے اسے آسمان کے ایک کونے میں ایک چھوٹا ستارہ دکھاتے ہوئے کہا۔
”وہ تو بہت چھوٹا ہے۔” قلبِ مومن کو مایوسی ہوئی۔
”تم بھی تو بہت چھوٹے ہو۔” طہٰ نے اسے تسلی دی۔
”میں تو گم ہو جاؤں گا۔” قلبِ مومن کو تسلی نہیں ہوئی۔
”تم چاند کے سب سے پاس ہو۔ تمہاری ممی تمہیں گمنے نہیں دیں گی۔” طہٰ نے اسے تھپکتے ہوئے کہا۔
”اور آپ کو؟” قلبِ مومن کو پھر باپ کی فکر ہوئی۔
”میں گم ہو چکا۔” طہٰ نے اسے دیکھا پھر عجیب سے لہجے میں کہا۔
”میں آپ کو ڈھونڈ لوں گا۔” قلبِ مومن نے باپ کی گردن کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے اسے زور سے بھینچا۔
”اندر آجاؤ تم دونوں۔ یہاں آسمان میں کیا دیکھ رہے ہو؟” وہ دونوں حسنِ جہاں کی آواز پر چونکے تھے۔
”ممی! بابا آپ کو چاند کہہ رہے ہیں۔” قلبِ مومن نے وہیں کھڑے کھڑے بلند آواز میں اسے اطلاع دی۔ حسنِ جہاں اور طہٰ کی نظریں ملیں پھر ان دونوں نے نظریں چرائیں۔
”آپ کو سب سے پیارا کہہ رہے ہیں اور مجھے چھوٹا ستارہ۔”وہ بولتا جا رہا تھا۔ طہٰ نے اسے گود سے نیچے اتار دیا۔
”یہ بہت باتیں کرتا ہے۔” وہ جیسے نادم تھا۔
”اور اپنے آپ کو کیا کہہ رہے تھے تمہارے بابا؟” اس کے جانے کے بعد حسنِ جہاں نے بے حد تجسس سے قلبِ مومن سے پوچھا تھا۔
”رات کا کالا آسمان۔” حسنِ جہاں کا چہرہ سیاہ پڑا تھا۔ قلبِ مومن کی سمجھ میں ہی نہیں آیا ماں کو کیا ہوا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”ممی! کیا میں بہت غریب ہوں۔” حسنِ جہاں سویٹر بنتے ہوئے اس کے جملے پر جیسے کرنٹ کھا کر چونکی تھی۔ وہ اس کے پاس بیٹھا ہوم ورک کر رہا تھا۔
”نہیں تو۔ کس نے کہا تم سے؟” اس نے جیسے تڑپ کر پوچھا تھا۔
”سب بچے کہتے ہیں کہ میں غریب ہوں اور بابا بھی اور یہ بھی کہ بابا سب سے پیسے مانگتے ہیں۔” اس نے اداسی سے ماں کو بتایا تھا۔
”جھوٹ بولتے ہیں۔” حسنِ جہاں نے بے حد غصے سے کہا تھا۔
”وہ کہتے ہیں، میرے بابا کچھ بھی نہیں کرتے۔” مومن الجھا ہوا تھا۔
”مومن! تمہارے بابا سب سے امیر ہیں۔” حسنِ جہاں نے اس سے کہا۔ مومن نے عجیب سی خوشی سے ماں کو دیکھا۔
”ان کے پاس پیسے ہیں؟”
”پیسوں سے بھی زیادہ قیمتی چیز ہے۔ آؤ دکھاتی ہوں تمہیں۔” حسنِ جہاں اُس کا ہاتھ پکڑے اُسے دوسرے کمرے میں لے گئی تھی۔ ایک صندوق کھول کر اس نے اخبار نکالنا شروع کیے جن میں طہٰ عبدالعلی کے کام پر فیچر اور خطاطی کے نمونوں کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔
”یہ دیکھو۔ تمہارے بابا اللہ کا نام لکھتے ہیں، اس لیے سب سے امیر ہیں۔ دیکھو اخباروں میں تصویریں چھپی ہیں ان کی۔” وہ بڑے فخریہ انداز میں قلبِ مومن کو وہ اخبار دکھا رہی تھی۔
”جو اللہ کا نام لکھتا ہے۔ وہ سب سے امیر ہوتا ہے؟” قلبِ مومن نے بڑے تجسس سے سوال کیا تھا۔
”ہاں۔” حسنِ جہاں نے کہا۔
”کیوں؟” قلبِ مومن نے کُریدا۔
”کیوں کہ اللہ اس سے پیار کرتا ہے۔”
”اللہ بابا سے پیار کرتا ہے؟” مومن نے اور کُریدا۔
”ہاں۔” حسنِ جہاں نے کہا۔
”اور مجھ سے؟ اور آپ سے؟” مومن کو جیسے تسلی نہیں ہو رہی تھی۔
”تمہارے بابا سے سب سے زیادہ پھر اس کے بعد ہم سے۔” حسنِ جہاں نے کی۔
”پھر اللہ بابا کو پیسے کیوں نہیں دیتا؟ مجھے toys لینے ہیں بہت سارے اور سائیکل اور چاکلیٹس۔” قلبِ مومن یک دم اُن اخباروں کو پرے کرتے ہوئے بولا تھا۔ اس سے پہلے کہ حسنِ جہاں اور وہ کچھ اور بات کرتے ان کے عقب میں آہٹ ہوئی تھی۔ دونوں نے بیک وقت پیچھے دیکھا تھا۔ وہاں طہٰ کھڑا تھا جو اب جا رہا تھا۔ حسنِ جہاں نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مومن کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا یوں جیسے وہ نہیں چاہتی تھی وہ گفتگو اور سوالوں کا سلسلہ وہیں سے جوڑتا۔ وہ خود سب کچھ وہیں چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
”میں قلبِ مومن کو اس طرح چیزوں کے لیے ترستا نہیں دیکھ سکتا۔” قلبِ مومن اٹھ کر ماں کے پیچھے آیا تھا اور اس نے ماں اور باپ کو میز پر بیٹھے باتیں کرتے دیکھا تھا۔
”میں نے اپنے باپ کا دل دکھایا ہے۔ یہ ساری سزا اسی کی ہے۔ جب تک وہ ناراض ہیں میرے ہاتھوں کو اللہ معاف نہیں کرے گا۔” طہٰ عجیب بے قراری سے کہہ رہا تھا۔
”ہم چلے جاتے ہیں ان کے پاس مومن کو لے کر۔” حسنِ جہاں نے اس سے کہا تھا۔
”اتنے سالوں سے خط لکھ رہا ہوں۔ ان سے معافی مانگ رہا ہوں۔ ان کا دل پگھلنا ہوتا تو پگھل جاتا اب تک۔ بابا نے بھلا دیا ہے مجھے اور اللہ نے بھی۔ اتنے سالوں میں کبھی وہ حال ہوا ہی نہیں میرا جو پہلے ہوتا تھا۔ میں اللہ کا نام لکھنے بیٹھتا تھا تو یوں لگتا تھا وہ سامنے آ بیٹھا ہو، خود لکھوا رہا ہو اپنا نام میرے ہاتھوں سے۔ لیکن اب۔” طہٰ رو پڑا تھا۔
”میرے دل میں آج بھی وہ ہے، اس کے دل میں اب میں نہیں رہا۔ توبہ میں نے ناک رگڑ رگڑ کر کی۔ معافی میں نے ہاتھ جوڑ جوڑ کر مانگی۔ اللہ ایسے تو کبھی خفا نہیں ہوا مجھ سے کہ میرے ہاتھ سے ہُنر چھین لیتا۔ رزق چھین لیتا۔ دل کا سکون چھین لیتا۔”
وہ روتا چلا جا رہا تھا۔ قلبِ مومن کی آنکھوں میں بھی آنسو آنے لگے۔ وہ دوسرا موقع تھا کہ وہ اس طرح باپ کو روتا دیکھ رہا تھا۔
٭…٭…٭
”آپ کیا کر رہی ہیں؟” قلبِ مومن نے کچھ حیران ہو کر حسنِ جہاں کو دیکھا تھا۔ وہ اس دن بے حد خوش تھی اور اب یک دم دیواروں پر لگی اپنی تصویریں اتارنے لگی تھی۔
”میں یہ تصویریں اتار رہی ہوں۔” حسنِ جہاں نے اس سے کہا تھا۔
”میں بھی اتاروں؟” قلبِ مومن نے فوراً کہا۔
”نہیں۔ اچھا دیکھو مومن۔ آج پاکستان سے ایک انکل آرہے ہیں۔” وہ تصویریں اتارتے اتارتے یک دم اس سے کہنے لگی تھی۔
”تو تم نے بابا کو نہیں بتانا ان کے بارے میں۔” اس نے مومن کو ہدایت دی تھی۔
”وہی والے انکل جن کو آپ نے پی سی او سے فون کیا تھا۔”
قلبِ مومن کو یک دم وہ کال یاد آئی جو حسنِ جہاں نے اسے ساتھ لیے بازار جا کر کچھ ہفتے پہلے کی تھی اور فون پر کسی کو ترکی آنے کے لیے کہا تھا۔
حسنِ جہاں نے حیرانی سے اسے دیکھا پھر ہنسی۔
”تمہیں سب کچھ یاد کیوں رہتا ہے قلبِ مومن۔”
وہ فخریہ انداز میں مسکرایا۔ تب ہی بیرونی دروازے پر بیل ہوئی تھی۔ حسنِ جہاں تصویریں اتارتے ہوئے لپک کر دروازے تک گئی تھی۔ مومن بھی اس کے پیچھے گیا تھا۔ دروازے پر اس نے سلطان کو دیکھا تھا۔ وہ پہلی بار تھا کہ مومن نے سلطان کو دیکھا تھا اور دوسری بار تب جب وہ پاکستان واپس گئے تھے۔ اس نے حسن جہاں کو جیسے خوشی سے بے قرار ہو کر سلطان سے لپٹتے دیکھا۔ قلب مومن کو برا لگا۔
”تم بالکل نہیں بدلے سلطان۔” حسن جہاں نے سلطان سے کہا تھا۔
”آپ بدل گئی ہیں۔” اس نے جواباً کہا تھا۔
”زندگی بدل گئی ہے۔” اس نے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہوئے مومن سے کہا۔
”تم باہر جا کر کھیلو۔ میں تھوڑی دیر میں بلاتی ہوں۔”
اس نے یک دم قلبِ مومن سے کہتے ہوئے اسے گھر سے باہر نکال کر دروازہ بند کیا تھا اور قلبِ مومن نے بے یقینی سے اس بند دروازے کو دیکھا تھا۔ اسے اس ”انکل” سے شدید نفرت محسوس ہوئی تھی جن کی وجہ سے پہلی بار اس کی ماں نے اسے گھر سے نکالا تھا۔ بے حد خفگی اور ناراضی کے عالم میں وہ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا رہنے کے بجائے باہر سڑک پر نکل گیا تھا۔ اسے کچھ اندازہ نہیں تھا وہ کب تک چلتا رہا تھا اور کہاں تھا جب یک دم اسے طہٰ کی آواز سنائی دی تھی۔ وہ بہت سارے شاپرز پکڑے سڑک کے کنارے ایک بس سٹاپ پر بس سے اترا تھا اور قلبِ مومن کو گھروں کے سامنے سے واک وے پر چلتے ہوئے اس نے دیکھ لیا تھا۔
”تم کہاں پھر رہے ہو؟” مومن لپکتا ہوا باپ کی طرف گیا اور اس نے اسے اٹھا لیا۔ مومن کو محسوس ہوا باپ بے حد خوش تھا۔
”دیکھو، تمہارے لیے کیا کچھ لایا ہوں۔ مجھے کام مل گیا۔ ممی پریشان ہو رہی ہوں گی گھر پر تمہارے لیے۔” اسے اٹھا کر چلتے ہوئے طہٰ نے اس سے کہا تھا۔
”ممی پریشان نہیں ہیں۔ وہ انکل کے ساتھ ہیں۔” مومن نے جواباً کہا تھا۔
”کون سے انکل کے ساتھ؟”طہٰ حیران ہوا۔
”وہ پاکستان سے آئے ہیں۔”
اس نے ماں کی تمام ہدایات کو بھلاتے ہوئے باپ تک وہ اطلاع پہنچائی۔ باپ نے دوبارہ اس سے کوئی سوال کیا تھا نہ اس کی کسی بات کا جواب دیا تھا۔ وہ بس تیز قدموں سے اسے اٹھاتے ہوئے چلتا رہا تھا۔ جب وہ گھر کے سامنے پہنچ گئے تو اس نے سارے شاپرز برآمدے میں رکھتے ہوئے مومن کو وہاں بٹھا دیا۔
”تم یہیں بیٹھو۔” اس نے دروازے کی بیل بجاتے ہوئے مومن سے کہا تھا۔ دروازہ کھلنے پر اس کا باپ اندر چلا گیا تھا اور مومن اشتیاق کے عالم میں ان لفافوں کو کھول کھول کر ان کے اندر دیکھنے لگا تھا۔ ان لفافوں میں بہت ساری چیزیں تھیں۔ اس کے لیے ممی کے لیے۔ قلبِ مومن خوشی سے بے حال ہو رہا تھا۔ گھر کے اندر کیا ہو رہا تھا، اسے اس وقت اس کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ بس ایک لفافے میں بڑے چاکلیٹس میں سے چاکلیٹس نکال کر کھانے لگا تھا۔
بہت دیر بعد اس نے دروازہ کھلتے اور اپنے باپ کو اندر سے نکلتے دیکھا۔ وہ سیدھا سیڑھیاں اتر کر اس کے پاس رکے بغیر سڑک پر چلا گیا۔
”بابا… بابا!” مومن نے اسے آوازیں دیں۔ طہٰ نے ایک بار پلٹ کر دیکھا اور اپنے ہاتھ سے ہونٹوں کو چھوڑ کر اس کی طرف اشارہ کیا۔ وہ جیسے اس کی طرف ہوائی بوسہ اچھال رہا تھا اور اس کے بعد وہ پلٹ کر تیز قدموں سے چلنے لگا تھا۔ قلبِ مومن نے اس کے بعد طہٰ کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔
٭…٭…٭
سو وہ سلطان تھا۔ وہ شخص جس کی وجہ سے اس کے باپ نے اس کی ماں کو چھوڑا تھا۔ اس دن اس گھر میں اس کے باپ پر کیا گزری ہو گی۔ اس کی ماں کو ایک دوسرے مرد کے ساتھ دیکھ کر اور اس مرد کے ساتھ جس سے وہ نفرت کرتا تھا۔ یہ سب اس ننھے قلبِ مومن کو کبھی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ یہ سب اب اس کی سمجھ میں آسکتا تھا۔ مگر وہ کوشش کرتا رہا تھا کہ وہ حسن جہاں کو ویسی عورت نہ سمجھے جیسی اس کے باپ نے سمجھ کر چھوڑی تھی۔ وہ اس کی ماں تھی۔ وہ اسے معاف کر سکتا تھا، کرنا چاہتا تھا۔
اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھے اس نے جگسا پزل کا آخری ٹکڑا اس کی جگہ پر رکھنے سے بھی پہلے اس کا راز جان لیا تھا۔ جیسی محبت طہٰ عبدالعلی کو حسنِ جہاں سے تھی۔ ویسی محبت حسنِ جہاں کو شاید سلطان سے تھی۔ کیا یہ اس کی غلطی تھی یا گناہ؟ اس کمرے کے اندر کیا دیکھا تھا طہٰ نے جو وہ برداشت نہیں کر سکا تھا۔ یہ مومن سوچنا تک نہیں چاہتا تھا۔ وہ بس اس بند دروازے تک ہی سوچتا تھا اور سوچنا چاہتا تھا۔
”مومن۔ تم سو جاؤ۔” دادا کی آواز پر وہ اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھے بیٹھے پلٹا تھا۔ وہ بوڑھا داستان گو اس کی نیندیں اڑانے کے بعد بھی اسے ایک بار پھر سلانے آیا تھا۔
عبدالعلی اور وہ ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
”ممی کی شادی آپ نے کروائی تھی نا دوبارہ؟ کس سے کروائی تھی دادا؟”
قلبِ مومن کا سوال سوال نہیں تھا۔ قلبِ مومن کی طرف سے اعتراف تھا کہ وہ اس سے زیادہ جانتا تھا جتنا عبدالعلی کا اندازہ تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۶

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!