”میں نہیں کھول سکتی مومن۔” حسنِ جہاں کے جواب نے اسے حیران کیا تھا۔
”کس نے باندھے ہیں ان کے ہاتھ؟” قلبِ مومن نے پوچھا تھا۔
”اللہ نے۔”
”کیوں؟” وہ حسنِ جہاں کے جواب پر حیران ہوا۔
”اللہ کی مرضی۔” قلبِ مومن نے حسنِ جہاں کی آنکھوں میں نمی دیکھی تھی۔
”آپ کیوں رو رہی ہیں؟” وہ اور بے قرار ہوا۔
”جب تم بڑے ہو جاؤ گے نا تو تمہیں پتا چل جائے گا کہ ہم کیوں روتے ہیں۔” اس نے قلبِ مومن کو بستر پر لٹاتے ہوئے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا تھا۔ اُسے لٹا کر وہ باہر گئی تھی۔ قلبِ مومن باہر سے آنے والی آوازیں بھی سن پا رہا تھا۔
”کیوں کرتے ہوئے اس طرح طہٰ؟مومن پریشان ہوتا ہے۔” اس کی ماں اس کے باپ سے کہہ رہی تھی۔
”یہ سب میرے بس میں نہیں ہے۔ تم یہ سب نہیں سمجھ سکتیں۔ تم میری جگہ پر نہیں ہو۔” اس کے باپ نے کہا تھا۔
”میں سمجھ سکتی ہوں۔ میں بھی تو سب کچھ چھوڑ کر آئی ہوں۔” حسنِ جہاں نے کہا تھا۔
”جو تم چھوڑ کر آئی ہو۔ وہ دنیا ہے۔ جو میں چھوڑ بیٹھا ہوں۔ وہ اللہ ہے۔ غلطی کر بیٹھا۔” قلبِ مومن نے اپنے باپ کو کہتے سنا پھر باہر اپنی ماں کی خاموشی سنی۔ بہت لمبے وقفے کے بعد اس نے حسنِ جہاں کو کہتے سنا۔
”کس چیز کو غلطی کہہ رہے ہو طہٰ۔ میرے انتخاب کو؟”
”میں تم سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ تم جاؤ۔”
٭…٭…٭
نیند میں جاتے ہوئے وہ آخری دو جملے تھے جو قلب مومن نے سُنے تھے اور وہ کسی بات کو بھی سمجھ نہیں پاتا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اس رات کے بعد اگلے بہت سارے دن قلبِ مومن اسکول سے گھر آنے کے بعد جیسے اپنے باپ سے چپکا رہتا تھا۔ یوں جیسے وہ اس کی حفاظت کر رہا تھا یا جیسے اسے یہ یقین لا رہا تھا کہ وہ اس سے ہمدردی رکھتا تھا اور یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ دوبارہ اسی طرح رو پڑتا۔
طہٰ گھر کے باہر برآمدے میں کھڑا ہو کر روز ڈاکیے کے آنے کا انتظار کیا کرتا تھا اور قلبِ مومن طہٰ کے پاس کھڑا اپنے باپ کے اس انتظار کو جیسے ایک عینی شاہد کی طرح دیکھتا تھا۔
”میرا کوئی خط آیا؟” طہٰ تقریباً ہر روز ڈاکیے سے پوچھتا تھا اور وہ انکار کر کے آگے بڑھ جاتا تھا۔
قلبِ مومن کو حیرانی ہوتی تھی۔ ڈاکیہ اس کی ماں کے نام کوئی خط نہیں لاتا تھا پھر بھی وہ حسنِ جہاں کے پاس اکثر پاکستان سے آنے والے خط دیکھتا تھا جو وہ اس وقت کھولتی اور پڑھتی تھی جب طہٰ گھر پر نہیں ہوتا تھا اور خط پڑھتے ہوئے اس کی ماں کا چہرہ اور آنکھیں چمکتی تھیں۔ پھر وہ ہمیشہ خط کا جواب لکھنے بیٹھتی اور قلب مومن کے ساتھ ڈاک خانے جا کر وہاں پاکستان خط بھیجتی۔
اُس دن بھی طہٰ کے ساتھ برآمدے میں ڈاکیے کا انتظار کرتے ہوئے اور پھر اس کا انکار میں جواب سنتے ہوئے قلب مومن کو وہ سارے خط یاد آئے جو اس کی ممی کے پاس تھے۔
”بابا! ممی کے پاس بہت سارے لیٹرز ہیں۔ آپ وہ لے لیں۔” طہٰ اُس کے اس جملے پر چونکا تھا۔
”ممی کے پاس لیٹرز کہاں سے آئے ہیں؟” اس نے قلبِ مومن سے پوچھا تھا۔
”پاکستان سے۔” اس نے بے حد سادگی سے باپ کو بتایا۔ اس کے باپ نے اس کا پکڑا ہوا ہاتھ چھوڑ دیا تھا اور وہ بہت تیزی سے اندر کمرے میں چلا گیا تھا۔ قلب مومن حیرانی کے عالم میں اس کے پیچھے گیا تھا۔
”وہ تمہیں خط کیوں لکھتا ہے؟” اس نے اندر جاتے ہوئے اپنے باپ کو دھاڑتے سنا تھا۔
”تم سے کس نے کہا وہ لکھتا ہے؟” اس نے حسنِ جہاں کو کہتے سنا۔ قلب مومن الجھ کر دروازے میں رکا تھا۔
”تم مجھ سے چیزیں چھپاتی ہو۔” طہٰ حسن جہاں کے بالمقابل کھڑا اس سے کہہ رہا تھا۔
”طہٰ تمہیں غلط فہمی۔” حسن جہاں نے کچھ کہنے کی کوشش کی اور طہٰ دھاڑا۔
”میں نے تم سے کہا تھا، اس سے رابطہ ختم کرنے کو اور تم۔” قلبِ مومن سہم گیا اور اندر نہیں گیا۔
”تم مجھ پر شک کر رہے ہو۔” حسنِ جہاں نے اس سے کہا۔
”شک۔” طہٰ عجیب غصب ناک انداز میں کمرے کی الماری کھول کر اس میں سے سامان نکال نکال کر پھینکنے لگا۔ حسنِ جہاں چند لمحوں کے لیے ساکت ہوئی پھر وہ اس کے پیچھے لپکی۔
”طہٰ۔ طہٰ! مت کرو یہ سب۔ کچھ نہیں ہے اس میں۔” اس نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی مگر تب تک طہٰ الماری سے خطوں کا ایک ڈھیر نکال چکا تھا۔ اس نے پلٹ کر حسنِ جہاں کی طرف وہ پلندہ بڑھایا۔ حسنِ جہاں شکست خوردہ انداز میں کھڑی ہو گئی۔
”تم۔ تم مجھے چھوڑنا چاہتی ہو؟” دھاڑتے ہوئے طہٰ نے حسن جہاں سے کہا۔
”میں۔ میں کیسے تمہیں چھوڑ سکتی ہوں طہٰ؟ پیار کرتی ہوں میں تم سے۔” حسنِ جہاں خط اس سے چھینتے ہوئے رونے لگی تھی۔
”پیار کرتی ہو اور دھوکا دے رہی ہو مجھے۔” طہٰ اس پر چلایا۔
”میں نے اپنا آپ تباہ کر ڈالا تمہارے لیے حسن جہاں۔ طہٰ عبدالعلی بن تراب سے گلی کا کتا بن گیا اور تم۔ تم مجھے دھوکا دے رہی ہو۔ کس کی جان لوں۔ اپنی یا اس کی؟” وہ چلاتے ہوئے حسنِ جہاں کے سامنے آکر کھڑا ہو اتھا۔ حسنِ جہاں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر کہا۔
”میری۔ مجھے مار دو۔ یہ سب میں نے شروع کیا تھا نا۔ مجھ پر ہی ختم ہونا چاہیے۔”
”تم سے پہلے اپنے آپ کو ماروں گا میں۔ یہ ہاتھ اللہ کا نام لکھنے کے قابل نہیں رہے، تمہاری جان لینے کے قابل بھی نہیں ہیں۔”
طہٰ نے ایک لمحہ خاموش رہنے کے بعد اس سے کہا تھا اور کمرے میں پڑا اپنا کینوس گراتا ہوا باہر نکل گیا۔ دروازے میں کھڑے قلبِ مومن نے باہر جاتے ہوئے باپ کو دیکھا۔ پھر کمرے کے اندر روتی ہوئی ماں کو۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہ کمرے میں بکھرے خطوں کے درمیان کھڑی حسن جہاں کے پاس آگیا۔
”ممی۔ ممی!” اس نے حسنِ جہاں کو پکارا تھا۔ اس نے بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ سر جھکا کر اسے دیکھا۔
”بابا کو ان خطوں کا تم نے بتایا تھا قلبِ مومن؟”
اس سوال پر قلبِ مومن ساکت ہو گیا تھا۔ کچھ کہے بغیر مجرمانہ انداز میں اس نے سرہلاتے ہوئے جھکا دیا۔ اسے پتا ہوتا ان خطوں کے بارے میں بتانا اس گھر میں اتنا بڑا جھگڑا کروا دے گا تو وہ بابا کو کبھی ان کے بارے میں نہ بتاتا۔
حسنِ جہاں اس کے جھکے ہوئے ندامت بھرے چہرے کو دیکھتی رہی پھر اس نے کچھ کہے بغیر آگے بڑھ کر نیچے فرش پر بیٹھتے ہوئے اسے خود سے لپٹا لیا تھا۔ قلبِ مومن کو عجیب سی تسلی ہوئی۔ اس کے گلے سے لگے لگے اس نے حسن جہاں کے بالوں کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔
”ممی! آپ بالوں میں پھول کیوں نہیں لگاتیں۔ جیسے پہلے لگاتی تھیں؟” قلبِ مومن کو اپنی ماں کے بالوں میں لگائے جانے والے سفید پھول یاد آئے تھے۔ اس کی ماں اسے گلے لگائے خاموش رہی تھی۔ قلبِ مومن اس خاموشی کو کھوج نہیں پایا تھا۔
٭…٭…٭
وہ سفید پھولوں کی تلاش میں پہلی بار اپنے گھر کی پچھلی سائیڈ پر موجود اس جنگل میں جا گھسا تھا جہاں بہار کے موسم میں جگہ جگہ جنگلی بوٹیوں کے پھول ہر طرف کھلے ہوئے تھے مگر اسے بڑے پھولوں کی تلاش تھی۔ سفید گلابوں کی جو اس کا باپ ہمیشہ لاکر اس کی ماں کے بالوں میں لگایا کرتا تھا اور اب قلبِ مومن جیسے اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کے لیے ان پھولوں کو ڈھونڈنے نکلا تھا جب اس نے اچانک حسنِ جہاں کو اپنے آپ کو پکارتے سنا۔ وہ تب سفید گلاب ڈھونڈنے میں ناکام ہو جانے کے بعد وہ چھوٹے چھوٹے سفید پھول چُن رہا تھا جو جگہ جگہ اُگے ہوئے تھے۔
اس کی ماں عجیب بے قراری کے عالم میں اسے آوازیں لگا رہی تھی۔
”مومن۔ مومن!” جنگل کا سناٹا اُن آوازوں سے گونج رہا تھا۔ وہ اکثر طہٰ اور حسنِ جہاں کے ساتھ اس جنگل میں آتا تھا۔
”ممی! میں یہاں ہوں۔” قلبِ مومن جواباً بلند آواز میں پکارا تھا۔
”تم نے میری جان نکال دی۔ کیوں نکلے ہوگھر سے؟ کیوں آئے ہو یہاں؟ کب سے ڈھونڈ رہی ہوں میں۔” وہ قلبِ مومن کی آواز پر لپکتی ہوئی اس کے پاس پہنچی تھی۔ قلبِ مومن نے اپنی جیبوں سے پھول نکال کر اسے دکھاتے ہوئے کہا۔
”میں یہ لینے آیا تھا۔”
”کیوں؟” حسنِ جہاں نے خفگی سے کہا۔
”آپ کے بالوں میں لگانے کے لیے۔” قلبِ مومن نے پاس آتے ہوئے کہا۔ وہ اس کے جملے پر جیسے ساکت ہو گئی تھی۔ نرم پڑتے ہوئے اس نے قلب مومن کا بازو پکڑا اور کہا۔
”تم آئندہ کبھی اس طرح اکیلے کہیں نہیں جاؤ گے اور ایسی جگہ پر تو بالکل بھی نہیں جہاں کوئی نہ ہو۔” وہ کہہ رہی تھی۔
”یہاں پر کوئی نہیں ہے؟” قلبِ مومن نے ماں کے ساتھ چلتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”نہیں دیکھو۔ نظر آرہا ہے کوئی؟” حسنِ جہاں نے کہا۔
”اللہ بھی نہیں۔” مومن نے پوچھا۔ وہ لاجواب ہوئی۔
”اللہ تو ہے۔” پھر بے اختیار ہنسی۔
”کہاں سے لاتے ہو تم ایسے سوال قلبِ مومن؟ باپ خطاط۔ ماں اداکارہ۔ اور تم۔” قلبِ مومن نے جھٹ سے کہا۔
”اور میں قلبِ مومن۔”
”نہیں، میری جان۔” حسنِ جہاں نے اسے پیار سے گود میں اٹھاتے ہوئے کہا تھا۔ ساتھ چلتے ہوئے قلبِ مومن وہ سفید پھول ماں کے بالوں میں لگاتا اور اٹکاتا گیا۔ ماں خوش تھی اور قلبِ مومن بھی۔
٭…٭…٭
وہ اپنے باپ اور ماں کے تعلق کو سمجھ نہیں پاتا تھا۔ وہ خفا ہوتے تھے، خفا رہتے نہیں تھے۔ لڑتے تھے مگر بغیر منائے مان جاتے تھے۔ طہٰ گھر آکر سب سے پہلے حسنِ جہاں کو ڈھونڈتا تھا۔ ناراض ہوتے ہوئے بھی۔ وہ گھر آتا حسنِ جہاں کو دیکھتا پھر قلبِ مومن کو اٹھا لیتا اور جب تک وہ حسنِ جہاں کو گھر میں نہ دیکھ لیتا جیسے وہ قلبِ مومن کی بات بھی سن نہیں پاتا تھا اور حسنِ جہاں اس کے انتظار میں روز دروازے پر کھڑی ہوئی تب بھی جب وہ اس سے ناراض ہوئی اور جب وہ اسے دور سے سڑک پر آتا دیکھ لیتی تو مومن کو وہیں چھوڑے دروازہ کھلا چھوڑ کر خود اندر چلی جاتی۔ اس کے ماں باپ کے درمیان ناراضی ہے یا نہیں۔ قلبِ مومن کو ماں کے دروازے پر اس کے ساتھ کھڑے ہوئے یا اسے اکیلا چھوڑ کر اندر چلے جانے سے پتا چلتا تھا۔
وہ اس جھگڑے کے بعد بھی تین دن بعد پھر ایک دوسرے سے بات کر رہے تھے۔ طہٰ بہت مایوس اپنا بیگ لیے واپس آیا تھا اور حسنِ جہاں کے پاس باورچی خانے میں جا کر اس نے کہا تھا۔
”انہوں نے نہیں خریدا۔” چاول کھاتے ہوئے قلب مومن نے ماں باپ کے چہرے دیکھے جہاں مایوسی تھی۔
”انہوں نے کہا میرا کام ”عام” ہے۔ یہ پہلے جیسا نہیں ہے۔ تم دیکھ کر بتاؤ کیا یہ ”عام” ہے کیا یہ پہلے جیسا نہیں ہے۔” وہ اسی میز پر اپنی رول کی ہوئی خطاطی کھول کھول کر دکھا رہا تھا جہاں قلبِ مومن بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔
”یہ بہت اچھی ہے۔ وہ لوگ غلط کہتے ہیں۔” حسنِ جہاں نے طہٰ سے کہا تھا جو کئی مہینوں بعد بنائے جانے والے ان چند خطاطی کے نمونوں پر نظریں جمائے بیٹھا تھا جنہیں وہ بازار میں بیچنے گیا تھا۔
”نہیں۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں، اس میں کمی ہے۔” اس نے حسنِ جہاں کا جملہ جیسے سنا ہی نہیں تھا۔ اپنی خطاطی دیکھتے ہوئے وہ جیسے خود ہی بڑبڑا رہا تھا۔
”کیا کمی ہے؟” حسن جہاں نے چیلنج کرنے والے انداز میں اس سے پوچھا۔
”یہ دل کو نہیں چھوتی پر اس ایک کمی کو میں دور نہیں کر سکتا۔” وہ عجیب بے چارگی سے بولا تھا۔ چاول کھاتے ہوئے قلبِ مومن کو باپ پر ترس آیا۔
”سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔” حسنِ جہاں نے طہٰ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جیسے اسے تسلی دی تھی۔
”کب ٹھیک ہو گا۔ تم روز یہی کہتی ہو۔” وہ اس پر برس پڑا تھا۔
”تو کیا تم سے یہ کہوں کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو گا؟” حسن جہاں نے جواباً اس سے کہا۔
”کسی اور گیلری لے کر جاؤں گا۔ سستا بیچ دوں گا۔ بس بک جائے۔” وہ بڑبڑاتے ہوئے ان ساری تصویروں کو یونہی میز پر چھوڑ کر باہر نکل گیا۔ حسنِ جہاں اور قلبِ مومن کی نظریں ملیں پھر حسنِ جہاں نے نظریں چُراتے ہوئے ان خطاطی کے نمونوں کو بڑی احتیاط سے لپیٹنا شروع کر دیا۔
چاولوں کی پلیٹ خالی کرتے ہوئے قلبِ مومن اٹھ کر دوسرے کمرے میں آگیا تھا جہاں ایک کرسی پر طہٰ چپ چاپ بیٹھا تھا۔
”بابا کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں؟” قلبِ مومن نے پاس آکر اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔”
”کیا آپ ممی سے ناراض ہیں؟” قلبِ مومن نے بے قراری سے کہا۔
”نہیں۔ تمہاری ممی بہت اچھی ہیں قلبِ مومن۔” طہٰ نے مدھم آواز میں اس سے کہا۔ یوں جیسے وہ چاہتا ہو، اس کی آواز حسنِ جہاں تک نہ جائے۔
”لیکن مجھے آپ زیادہ اچھے لگتے ہیں۔” قلبِ مومن نے اسی سرگوشی والے انداز میں باپ سے کہا یوں جیسے وہ بھی یہ نہ چاہتا ہو کہ اس کا جملہ حسنِ جہاں سنے۔ وہ مسکرایا اور قلبِ مومن کو گود میں اٹھاتے ہوئے باہر لے گیا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});