”کیا ڈھونڈ رہی ہیں آپ؟” وہ دو دن تک غائب رہی تھی ہوٹل سے۔ تیسرے دن آئی تھی تو اپنے سوٹ کیس کھول کھول کر ان میں سے کپڑے باہر پھینکنا شروع کر دیے تھے وہ قیمتی جوڑے جو اس کے رقص کی پرفارمنس کے لیے خاص طور پر بنائے گئے تھے۔ وہ انہیں اس طرح پھینک رہی تھی جیسے وہ ردی اخبار ہوں۔
”کیا ڈھونڈ رہی ہیں آپ؟” وہ اس کے اس طرح غائب رہنے پر ناراض ہونے کے باوجود پوچھے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔
”چادر۔” اس نے جواباً کہا تھا۔ وہ حیران ہوا۔
”کون سی چادر؟”
”کوئی بھی چادر۔”
”چادر تو ہے ہی نہیں سامان میں۔ آپ نے کرنا کیا ہے چادر کو۔” وہ جھنجھلایا۔
”طہٰ نے اپنے بابا سے ملوانا ہے مجھے۔ چادر اوڑھ کر جاؤں گی سادہ۔ وہ بہت بڑے خطاط ہیں۔ طہٰ کہتا ہے وہ نیک اور مومن ہیں۔ مجھے ان رزق برق دوپٹوں میں ان کے سامنے جاتے شرم آئے گی۔ کوئی چادر دو۔ سفید چادر۔” وہ عجیب بے قراری کے عالم میں بولتی ڈھونڈتی جا رہی تھی۔
”آپ حسنِ جہاں ہیں۔ ہوش کریں۔ آدھی دُنیا جانتی ہے، مرتی ہے آپ پر اور آپ اس حسن پر چادر ڈالنا چاہتی ہیں جو اللہ نے آپ کو دیا ہے۔” سلطان غضب ناک ہوا تھا۔
”ہاں، اللہ نے دیا ہے مگر دنیا کے لیے نہیں دیا۔” اس نے جواباً کہا تھا۔ سلطان نے اس بار کچھ بھی کہنے کے بجائے کمرے کے فون کا ریسیور اٹھا لیا تھا۔
حسن جہاں بے اختیار اس کی طرف لپکی تھی۔ ”کس کو فون کر رہے ہو تم؟”
”آپ کی والدہ کو۔ میں یہ پاگل پن اور نہیں دیکھ سکتا۔” اس نے سلطان سے ریسیور چھین لیا۔
”میرا مرا ہوا منہ دیکھو گے تم اگر ان کو بتاؤ تو۔” اس نے سلطان سے کہا تھا۔
وہ حسنِ جہاں مرنے کی بات کر رہی تھی۔ سلطان کو یقین نہیں آیا۔ وہ واقعی پاگل ہو گئی تھی۔
”مجھے اب واپس نہیں جانا سلطان! وہ راستہ بہت پیچھے رہ گیا۔ کوئی روکے گا مجھے تو میں زہر کھا لوں گی۔ دیکھو یہ ہیرا ہے۔ میں نے اپنی کمائی سے خریدا تھا۔ یہی چاٹ کر مروں گی۔” وہ اب بستر سے چادر کھینچتے ہوئے اُوڑھ رہی تھی۔ بستر کی سفید چادر کون اوڑھتا ہے۔ وہ طہٰ عبدالعلی کے باپ سے ملنے کے لیے حد سے گزر رہی تھی۔
”میں پاکستان جاتا ہوں۔ تعویذ لاتا ہوں آپ کے لیے۔ نظر لگی ہے کسی کی آپ کو۔ میں کہتا تھا نا۔ اسٹیج پر چڑھنے سے پہلے نظر اتروائیں اپنی۔” سلطان جذباتی ہو گیا۔ وہ دروازے کی طرف جاتے جاتے اس چادر کو لپیٹتے ہوئے ہنسی۔
”اتروا دی سلطان۔ حسنِ جہاں نے اپنی ہر نظر اتار دی۔ اب صرف ایک ہی نظر رہے گی اس پر۔” وہ کمرے سے نکل گئی تھی۔ سلطان کمرے میں ہر طرف بکھری ان خوش نما چولیوں، گھاگھروں، غراروں، شراروں کے بیچوں بیچ کھڑا تھا یوں جیسے وہ دکاندار تھا۔ جس کے کپڑوں کے تھانوں سے بھری ہوئی دکان سے گاہک ہر مال نکلوا کر دیکھ کر بھی ایک روپیہ کی خریداری کیے بغیر اٹھ کر چلا گیا تھا۔
وہ پوری فلم انڈسٹری میں ”حسنِ جہاں کا سلطان۔” کہہ کر پکارا جاتا تھا اور وہ اپنے آپ کو اس لقب پر ہی سلطان سمجھتا تھا۔ آج پہلی بار حسنِ جہاں کا سلطان ”طہٰ کی حسنِ جہاں”دیکھ رہا تھا اور کیا آگ تھی جو وہ اس کے وجود کو لگا گئی تھی۔ وہ واقعی سلطان ہوتا تو جل کر مر جاتا مگر وہ تو غلام تھا جل کر بھی مرتا نہیں تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
وہ اس دن ہنستی ہوئی گئی تھی۔ روتی ہوئی واپس آئی تھی۔ زار زار روتے ہوئے چادر اتار کر پھینک دی تھی۔
”رو کیوں رہی ہیں؟ کیا ہوا ہے؟” سلطان گھبرایا تھا۔
”ایسا گمان۔ اتنا تکبر۔ میں حسنِ جہاں تھی۔ دنیا چھوڑ کر گئی تھی ان کے پاس صرف اس لیے۔ صرف اس لیے کہ وہ اللہ کی بڑائی بیان کرنے والے تھے۔” وہ روتے ہوئے کہتی جا رہی تھی۔
”کس کی بات کر رہی ہیں آپ؟ کس نے کیا کہا آپ سے۔ اگر طہٰ نے کچھ کہا ہے تو میں اُس کو جان سے مار دوں گا۔” سلطان برہم ہوا تھا۔ حسنِ جہاں کی آنکھ میں آنسو بھی کیوں آئے تھے کسی کی وجہ سے۔
”نہیں طہٰ نے کچھ نہیں کہا۔ اس کے باپ نے۔ اس کے باپ نے۔”وہ بات ادھوری چھوڑ کر پھر ہچکیوں سے رونے لگی تھی۔
”میں شیطان کا روپ لگتی ہوں انہیں جو طہٰ کو بہکانے آیا ہے۔ میں۔ میں تو اسی کے عشق میں پاگل ہو کر طہٰ کے پیچھے گئی تھی جس کے عشق میں ان کا خاندان خطاطی کرتا ہے۔ بس رب عبدالعلی کا ہے؟ حسنِ جہاں کا نہیں ہے؟ ہو ہی نہیں سکتا؟” وہ سلطان سے پوچھ رہی تھی، روئے چلی جا رہی تھی۔
”میں نے آپ کو روکا تھا۔ آپ نے بات نہیں مانی۔ چھوڑ دیں اسے۔ دفع کریں۔ واپس چلتے ہیں اپنی دُنیا میں۔” سلطان نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا۔ حسنِ جہاں نے ہاتھ چھڑایا۔
”واپس تو نہیں جانا اب۔ میں عبدالعلی کو طہٰ کی شکل دیکھنے کے لیے ترسا دوں گی سلطان۔ وہ چھوڑ آیا ہے انہیں میرے لیے اور میں جا رہی ہوں اس کے ساتھ شادی کرنے۔” اس نے سسکیوں کے بیچ میں سلطان پر قیامت توڑی تھی۔
”نہیں حسنِ جہاں جی۔ سلطان کیا کرے گا۔” وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔ اس کا محبوب اس کو نہیں چھوڑ رہا تھا پھر بھی کسی کا ہو رہا تھا۔
”سلطان تو سلطان ہے۔ سلطان کو کچھ نہیں ہو گا۔ پر حسنِ جہاں کو کچھ ہوا تو سلطان جان سے جائے گا۔ ہے نا سلطان۔”
وہ اب اسے بہلا رہی تھی۔ ہاں بہلا ہی رہی تھی۔
”تو بتا دے۔ حسنِ جہاں نہ جائے طہٰ کے ساتھ۔ ہو جائے برباد؟”
وہ سلطان سے سوال نہیں کر رہی تھی۔ اجازت مانگ رہی تھی۔ سلطان نے اس کا پکڑا ہوا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔
حسنِ جہاں کو کیسے برباد ہونے دیتا۔ ترکی میں اس رات ”سلطان” کی سلطنت لُٹ گئی تھی۔
٭…٭…٭
”تو زبان نہیں کھولے گا؟ گونگا ہو کے آیا ہے ترکی سے؟ بول۔ بتاتا کیوں نہیں۔ کہاں گئی ہے حسنِ جہاں؟ کمینے تجھے تو حفاظت کے لیے بھیجا تھا تو میرا خزانہ لٹوا آیا۔”
ممتاز بیگم اس کے چہرے پر تھپڑ مارتے ہوئے غضب ناک انداز میں کہہ رہی تھی اور سلطان پٹتا ہی چلا جا رہا تھا۔ اس نے بچنے کی کوشش کی تھی نہ ممتاز بیگم کو روکنے کی۔
پھٹے ہوئے گریبان کے ساتھ وہ ممتاز بیگم کے سامنے بے جان بُت کی طرح کھڑا تھا۔ جب وہ اسے مار مار کر تھک گئی تو سلطان نے کہا۔
”یہ کپڑوں کے سوٹ کیس ہیں ان کے یہ دینے آیا ہوں۔”
ممتاز بیگم نے سوٹ کیسوں کو ٹھوکر مارتے ہوئے کہا۔
”کیا کروں ان کو۔ آگ لگاؤں، بھاڑ میں جھونکوں؟ کیا کروں؟”
وہ پھر گونگا ہو گیا تھا۔
”تجھے حسنِ جہاں کی قسم سلطان! بول، بتا، کہاں چلی گئی وہ؟” ممتاز نے یک دم منت بھرے انداز میں اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔ سلطان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر کہا۔
”چلی گئیں۔ شادی کر لی۔” ممتاز نے سینے پر دو ہتڑ مارے۔
”شادی کر لی۔ کس بزنس مین سے کی؟” بوکھلائے انداز میں اس نے کہا تھا۔
”وہ خطاطی کرتا ہے اللہ کے ناموں کی۔” سر جھکائے سلطان نے کہا تھا۔
”ہائے کنگلے سے کر لی۔ کیا لے کر کی؟” ممتاز کا غم اور بڑھا۔
”رب لے کے۔” سلطان بڑبڑایا تھا۔
٭…٭…٭
”اتنی دیر سے کیا کھولے بیٹھے ہو سلطان؟” وہ ثریا تھی جس کے آنے کا اسے پتا ہی نہیں چلا تھا۔ سلطان نے سر اٹھا کر خالی آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔
”یادیں۔” وہ بڑبڑایا۔ ثریا ساکت ہوئی پھر ہنسی۔
”میں اور تو ایک ہی کام کرتے رہتے ہیں اب۔ بوڑھے ہو گئے ہیں۔”
وہ کہتے ہوئے چپل گھسیٹتی چلی گئی تھی۔ سلطان وہ سارے خط اسی طرح گود میں لیے بیٹھا رہا۔ اسے آج یاد آیا تھا وہ سب کسی کی امانت تھے اسے اس تک پہنچانا تھا۔ اس نے حسنِ جہاں کے بیٹے کا نام دہرایا۔
”قلبِ مومن۔”
٭…٭…٭
اپنے کمرے میں آکر بھی اس رات قلبِ مومن سو نہیں سکا تھا۔ اسٹڈی ٹیبل پر ان خطوں کو ڈھیر کیے وہ ایک ایک کو کھول کر اپنے باپ کا درد ”پڑھ” رہا تھا۔ وہ لفظوں میں نہیں آنسوؤں سے لکھا ہوا تھا۔ کاغذ پر نہیں تھا، اس لمس میں تھا جسے ان خطوں کو ہاتھ میں پکڑے وہ محسوس کر رہا تھا۔ طہٰ عبدالعلی کے ہاتھ کا لمس۔ اس کے ہاتھ کی وہ گرمی جو کبھی اس کے وجود کا حصہ رہی تھی اور جسے کھونے کے بعد قلب مومن نے کبھی باپ یا باپ جیسے کسی رشتہ کو دوبارہ کھوجنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ طہٰ عبدالعلی اپنا وجود جیسے اس کے ذہن پر نقش کر گیا تھا۔
اس کمرے کی خاموشی میں بیٹھے قلب مومن نے جیسے اس رات اس راز کو بالآخر کھوج لیا تھا جو سوالوں کی شکل میں اس کے ساتھ چلتا آیا تھا۔ اس کی ماں سے وہ کیا غلطی ہوئی تھی جسے طہٰ عبدالعلی معاف نہیں کر سکا تھا۔
”تم تو پاس تھے تب ان کے۔ تم نہیں جانتے، کیا غلطی ہوئی تھی۔” دادا نے اس سے پوچھا تھا یا شاید اسے یاد دلایا تھا۔ وہ اس شخص کے بارے میں بتا دیتا تو وہ بھی بتا دیتے۔
قلبِ مومن نے اس شخص کے بارے میں نہیں بتایا تو دادا بھی اس شخص کے بارے میں بات نہیں کر سکے تھے جو اس کی ماں اور باپ کے درمیان جدائی کا باعث بنا تھا۔
اس کے ذہن کے کینوس پر وہ سارے لوگ پھر لکیروں سے وجود میں آنے لگے تھے۔ وہ زندگی جو اس نے ترکی میں بھاگتے دوڑتے گزاری تھی۔ وہ گھر جہاں وہ طہٰ اور حسنِ جہاں کے ساتھ رہتا تھا ۔اس کے ماں باپ کا تعلق۔ اُن کا رشتہ اور پھر وہ دن جب سب کچھ ختم ہوا تھا۔ وہ جیسے ٹیلی پیتھی کرتے ہوئے اپنے بچپن کے ان دنوں میں پہنچا تھا۔
٭…٭…٭
اُس کینوس کے سامنے اس کا باپ روز بیٹھتا تھا اور پھر بیٹھا ہی رہتا تھا۔ کبھی کبھی ساری ساری رات اور قلب مومن اپنے بستر پر لیٹا تب تک اسے دیکھتا رہتا تھا جب تک اسے نیند نہیں آجاتی تھی۔ ایک ہاتھ میں برش، ایک ہاتھ میں کلر پلیٹ اور سامنے خالی کینوس اور اس کینوس کے بالکل اوپر لٹکا ہوا ایک لمبی تار والا ہیٹ نما شیڈ کے نیچے لگا ہوا ایک پیلا بلب قلب مومن کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اس کا باپ کینوس پر کچھ پینٹ کیوں نہیں کرتا۔ وہ ساری ساری رات صرف کینوس دیکھتے کیوں گزار دیتا تھا۔ اس کینوس پر وہ کیا دیکھتا رہتا تھا اور پھر وہ کینوس چھوڑ کر اپنے گھنٹے پر کاغذ رکھ کر اس پر کیا لکھنے بیٹھ جاتا تھا۔ وہ ایک خطاط اور مصور کی بے بسی تھی، اس کا Creative Block (تخلیقی جمود) تھا جو اس چھوٹے سے بچے کی سمجھ میں کیسے آسکتا تھا۔ جو جب کاغذ اور کینوس پکڑتا تھا اپنی مرضی کی لکیروں، شکلوں، رنگوں اور لفظوں سے بھر دیتا تھا۔
”بابا۔ آپ کیا پینٹ کر رہے ہیں؟” اس رات بھی قلب مومن نیند سے جاگا تھا اور اس نے باپ کو اسی حالت میں بیٹھے دیکھا تھا اور اس نے جیسے باپ کی مدد کرنا چاہی تھی۔
طہٰ اس کی آواز پر یک دم جیسے چونکا اور اس نے گردن موڑ کر قلبِ مومن کو دیکھا۔ وہ بستر میں سوئی ہوئی حسنِ جہاں کے برابر۔ بیٹھا ہوا تھا اور اسے دیکھ رہا تھا۔
”میں۔ میں اللہ کا نام۔” طہٰ نے اٹکتے ہوئے گردن موڑ کر واپس کینوس کو دیکھتے ہوئے کہا۔ قلب مومن نے کینوس دیکھا، اسے کچھ نظر نہیں آیا۔ عجیب سے تجسس میں وہ بستر سے نکل کر طہٰ کے پاس آکر کھڑا ہوا اور کینوس دیکھنے لگا۔
”یہ تو خالی ہے۔” اس نے الجھ کر جیسے باپ سے کہا۔
”ہاں، لکھا نہیں جا رہا۔” طہٰ نے بھرائی ہوئی آواز میں اس سے کہا۔ کچھ کہے بغیر قلبِ مومن نے اس سے برش پکڑا پلیٹ سے رنگ لگایا اور خالی کینوس پر اللہ کا نام لکھنے لگا۔
”یہ تو بہت آسان ہے۔” اس نے لکھتے ہوئے جیسے باپ سے کہا۔
”دیکھیں، میں نے الف لکھ لیا ہے۔” اس نے بڑے فخریہ انداز میں جیسے باپ سے کہا۔
”میں الف بھی نہیں لکھ پا رہا۔ تم لکھ سکتے ہو۔ میں نہیں لکھ سکتا۔” طہٰ نے عجیب رنجیدگی سے اس سے کہا تھا۔ قلبِ مومن نے برش باپ کے ہاتھ میں پکڑا کر کہا۔
”میں آپ کا ہاتھ پکڑ کر لکھتا ہوں۔ لکھا جائے گا۔” اس نے جیسے باپ کو تسلی دی تھی۔ بالکل اسی انداز میں جس طرح حسنِ جہاں اور طہٰ اُسے لکھنا سکھاتے ہوئے تسلی دیتے تھے۔
”میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں قلبِ مومن۔” طہٰ نے اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے بے بسی سے اس سے کہا تھا۔ قلبِ مومن نے پریشان ہو کر باپ کے ہاتھوں کو دیکھا تھا۔ پھر وہ اس کی کلائیوں کو ٹٹولتے ہوئے بولا۔
”میں کھول دوں؟”
”تم نہیں کھول سکتے۔” وہ یک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔ قلبِ مومن کے دل کو کچھ ہوا۔ وہ بھی بے اختیار رونے لگا۔ طہٰ یک دم روتے ہوئے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ کسی نے قلبِ مومن کو گود میں اٹھا کر سینے سے لگایا تھا۔ وہ حسنِ جہاں تھی۔ جو یقینا ان دونوں کے رونے کی آواز پر اٹھی تھی۔
”بابا۔ بابا۔ کیوں رو رہے ہیں۔” اس نے ماں کی گود میں ہچکیوں کے درمیان پوچھا تھا۔
”اُن کی طبیعت خراب ہے۔” اس کی ماں نے اُسے تھپکتے ہوئے کہا۔
”اُن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ آپ اُن کے ہاتھ کھول دیں۔ اُن کو درد ہو رہا ہے ممی۔” اس نے اسی طرح روتے ہوئے جیسے ماں کو باپ کا مسئلہ سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});